الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

زلیخا نے پاس آکر نرمی سے پوچھا: ‘‘اب کیسی طبیعت ہے، حسن؟’’
حسن نے نگاہیں اٹھا کر زلیخا کو دیکھا۔ دل چاہا اس رفیقِ مہربان کے آگے دل کھول کر رکھ دے۔ روئے چلائے، کپڑے چاک کرے، نالہ ہائے درد ناک کرے۔ اٹھے اور ہر چیز کو تہس نہس کردے۔ غم و غصے کی جو آگ اس کے اندر بھڑکی تھی، اسے اپنے آنسوؤں سے بجھا ڈالے۔ لیکن یہ سب وہ کرنہ سکا، کچھ کہہ نہ سکا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ یہ باتیں زلیخا سے کہتے اسے جھجک آگئی۔
کہا تو صرف اتنا : ‘‘ٹھیک ہوں۔’’
زلیخا نے شفقت سے اس کا کندھا تھپکا اور کہا: ‘ُمیں کالج جارہی ہوں۔ شام کو آؤں تو بیٹھوں گی تمہارے پاس۔’’
حسن نے سرجھکا لیا۔ زلیخا اس کا کندھا تھپک کر چلی گئی۔ زلیخا کو گئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی اور حسن ابھی سرجھکائے ہی بیٹھا تھا کہ پھاٹک پر کھٹکا ہوا۔ حسن نے سراٹھاکر دیکھا تو بندو کوکھڑاپایا۔
بندو آہستہ آہستہ چلتا ہوا حسن کے قریب آیا اور آہستہ سے پوچھا۔ ‘‘کیا حال ہے، حسن؟’’
حسن نے ایک آ ہِ سرد ، بہ دل پردردبھری اور دھیمی آواز میں کہا:‘‘کیا پوچھتے ہوکہ کیا حال ہے؟زندگی مجھے جنجال ہے۔ قضاکا مہمان ہوں ۔گوبظاہرزندہ ہوں مگر نیم جان ہوں۔’’
بندو نے گھبرا کر کہا۔‘‘او یار! ایک تو توُ بڑا senti ہے۔ منٹ میں دیوداس بن جاتاہے۔ چل چھوڑ،تو ُیہ چاکلیٹ کھا۔ ٹوٹے دل کا بہترین علاج ہے۔’’
یہ کہہ کر چمکیلی پنی میں لپٹی ایک مٹھائی نکال کر حسن کو پیش کی۔ حسن نے ٹھنڈی آہ بھر کر انکار میں سرہلایا۔
بندو نے زبردستی وہ مٹھائی حسن کے ہاتھ میں تھمائی اور کہا۔ ‘‘ابے کھا لے، یار۔ ضرور ت پڑنے والی ہے تجھے اس کی۔’’
حسن نے پوچھا۔ ‘‘کیوں؟’’
بندو نے ہچکچا کر کہا۔ ‘‘وہ …… وہ یار…… عاصم تجھ سے ملنا چاہتا ہے۔’’
عاصم کا نام سننا تھا کہ مارے غصے کے حسن کی آنکھوں تلے اندھیرا چھایا ، بڑا پیچ و تاب کھایا۔
بددماغ ہوکر کہا: ‘‘عاصم کی یہ جرأت !ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری؟ میری محبوبہ کو ورغلالیا، اس سے نکاح کرلیا۔ اب کس منہ سے میرے سامنے آئے گا۔ اپنی حرکت قبیح کی کیا توجیہہ لائے گا؟’’
بندو نے اطمینان سے مٹھائی کی پنی اتاری۔ اس کا ایک بڑا سا ٹکڑا توڑ کر حسن کے منہ میں ٹھونسا اور بولا: ‘‘دیکھا ،میں کہتا تھا نا کہ تجھے اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ تو ُیہ چاکلیٹ کھا اور یہ جو تیرے من کی جوالا بھڑک جاتی ہے نامنٹ منٹ بعد، اسے ذرا ٹھنڈاکر۔ میں عاصم کو بھیجتا ہوں، باہر ہی کھڑ اہے۔ بے چارہ ۔ اس غریب کی بات سن لے ورنہ مرجائے گا مسکین۔’’
یہ کہہ کر اٹھا اور باہر چلا گیا۔ حسن منہ میں چاکلیٹ ٹھنسا ہونے کے باعث اسے روک نہ پایا۔ کچھ ٹوک نہ پایا۔
چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ جھجکتے ہوئے عاصم نے پھاٹک سے قدم اندر رکھا۔
عاصم پر نظر پڑنا تھی کہ حسن کے سینے میں دبا ہوا تمام غم و غصہ مانند ِ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ جھپٹ کر اٹھا اور عاصم کا گریبان پکڑ کر اس زور کا گھونسہ اس کی ٹھوڑی پر رسید کیا کہ وہ الٹ کر پیچھے گرپڑا۔ حسن نے جھک کر اس کے گریبان سے پکڑ کر اسے اٹھایا او قریب تھا کہ دوسرا گھونسہ رسید کرتا کہ عاصم نے کہا:
‘‘میری بات سن لو، حسن۔ تمہیں تمہارے ماں باپ کی قسم!’’
حسن کا اٹھا ہوا ہاتھ اٹھے کا اٹھا رہ گیا۔
عاصم نے بصد منت وسماجت کہا۔ ‘‘میری صرف ایک بات سن لو۔ ا س کے بعد بے شک جان سے مار ڈالنا۔’’
حسن نے بہ خشونت ِتمام طیش سے کہا: ‘‘جو حرکت تو نے کی ہے اس کی پاداش سزائے موت ہے، اور اس سے سخت سزا بھی اگر میرے بس میں ہوتی تو میں ہرگز دریغ نہ کرتا۔’’
عاصم بے حد رنج سے مسکرایا اور ملال سے کہا: ‘‘تم مجھے کیا سزا دوگے حسن ، میں نے خود اپنے لئے زندگی بھر کی سزا چن لی ہے۔’’
حسن نے غصے سے کہا: ‘‘واہ! خدا نے بھی اس دنیا میں کیسے کیسے کمینے اور پاجی لوگ خلق کئے ہیں۔ اور رذیلوں کو کیسے کیسے اعلیٰ رتبے دیئے ہیں ،مگر ان کے قول و فعل سے صاف ظاہر ہوجاتاہے، کھوٹے اور کھرے کا فرق چھپا نہیں رہتاہے۔ اگر تو ُشریف آدمی ہوتا تو کبھی دوست کی محبوبہ کا خیال بھی دل میں نہ لاتا، اس ارادہ ء فاسد سے باز آتا۔ تجھے شرم نہ آئی کرن کو شادی کی پیشکش کرتے؟’’
عاصم نے گہرا سانس لیا اور تھک ہار کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ چند لمحے حسن کو دیکھتا رہا، پھر بے بسی سے بولا:‘‘شادی کی پیشکش میں نے کرن کو نہیں، کرن نے مجھے کی تھی۔’’
حسن نے بددماغ ہوکر کہا:‘‘یہ سب تمہارا جھوٹ اور افتراپردازی ہے، مکاری وحیلہ سازی ہے۔ کرن مجھ سے محبت کرتی تھی۔ تم نے اسے بھڑکایا ، دولت سے رِجھایا……’’
عاصم نے بات کاٹ کرکہا: ‘‘میں اسے کیوں بھڑکاؤں گا حسن؟ دولت دِکھا کے کیوں رِجھاؤں گا؟ مجھے اس میں یا for that matter کسی بھی لڑکی میں کیا دلچسپی؟’’
حسن لاجواب ہوکر ٹکر ٹکر اس کی صورت دیکھنے لگا۔ کوئی جواب نہ بن پایا، کوئی نکتہ ذہن میں نہ آیا۔
عاصم نے رنج سے مسکرا کر کہا: ‘‘وہ تم سے محبت نہیں کرتی تھی ،حسن۔ اسے شوہر نہیں ایک ٹرافی چاہیے تھی۔ گڈلنگ، خوبصورت، مشہور، امیر……اور تم وہ ٹرافی تھے جو سامنے پڑے تھے۔ تم سے بہتر ٹرافی نظر آئی، اس نے تمہیں چھوڑ کر اس ٹرافی کو اٹھالیا۔’’
حسن نے تیوری چڑھا کر کہا: ‘‘ اس ساری بکواس کا مقصد میں نہیں سمجھا۔ جب تم کسی عورت کا شوہر بننے کے قابل نہیں ہو تو اس کی زندگی کیوں خراب کرتے ہو؟’’
عاصم کچھ دیر خاموش رہا پھر گہری سانس لے کر بولا:
‘‘ Its very complicated.۔۔۔ میری زندگی تو آل ریڈی خراب ہے۔ کرن کو اس خراب زندگی سے فرق نہیں پڑتا۔ میں نے سوچا اس خرابے کو پورا کرکے اگر میں تمہاری زندگی خراب ہونے سے بچالوں تو سودا برا نہیں۔ آفٹر آل…… محبت کی ہے تم سے۔ اتنا تو فرض بنتا ہے میرا۔’’
اس اظہار ِ آئیلویویو سے حسن بہت جھلایا، سخت جھنجھلایا، بڑا غصہ آیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ کچھ بولتا، عاصم نے جیب سے سگریٹ نکال کر اسے پیش کیا۔ اس کے انکار پر سگریٹ ہونٹوں میں دبائی، ماچس سے اسے آگ سلگائی اور گہرا کش لے کرکہا: ‘‘تم تو جانتے ہو، میں ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے ہوں۔ سومربع تو صرف میری ماں ہی جہیز میں لائی تھی۔ وہ بھی اس لئے کہ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ابو ان کے چچاکے بیٹے تھے۔ سو زمین گھر ہی میں رہی۔ ورنہ زمینداروں میں بیٹیوں کو زمینیں دینے کا رواج نہیں۔ چھ بہنوں کا اکلو تا بھائی ہوں۔ یعنی سینکڑوں مربعے ، حویلیاں، زمین جائیداد کا اکلوتا وارث۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں اپنی ماں بہنوں کو اپنے سہرے گاتے دیکھ رہا ہوں۔ میٹرک پاس کرتے ہی وہ مجھ سے شادی کا تقاضاکرنے لگی تھیں۔ اور میرے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ I am gay۔ اماں بہنوں کے تقاضوں سے تنگ آکر میں لاہور آگیا۔ یہاں رہنے لگا، پڑھنے لگا۔ لیکن انہوں نے میری جان نہ چھوڑی۔ اتنی ہمت نہیں کہ ان سے کہہ سکوں کہ میں بیوی کے قابل نہیں، مجھے تو شوہر چاہیے۔ یہ بات اگر میں نے منہ سے نکالی تومیرا باپ خودکشی کرلے گا اور ماں ویسے ہی مرجائے گی۔ اس سٹریس نے میرا وہ حال کردیا کہ اینٹی ڈپریسینٹ لینے لگا، چرس پینے لگا۔ کبھی کبھی میں خدا سے سوال کرتا ہوں ، اس نے میرے ساتھ یہ کیوں کیا؟ مجھے ایسا کیوں پیدا کیا؟مجھے ہی کیوں یہ بنایا؟ میں ہی کیوں؟ میں نے اپنے علاج کرائے۔ ڈاکٹر حکیم ، سائیکولوجسٹ ، پیر، فقیر۔ ہر جگہ گیا لیکن حسن میرا علاج کسی کے پاس نہیں۔ This is who I am۔ میں دوہری زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ میری زندگی میں خوشی ، محبت، اولاد ، کچھ نہیں لکھا۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!