ممانی نے طیش میں آکر کہا: ‘‘تو پھر کر لو فیصلہ۔ اس گھر میں یا یہ رہے گا یا میں۔’’
نانی نے بے اعتنائی سے کہا: ‘‘تو پھر تم اپنا ٹھکانہ کر لو، حسن تو یہیں رہے گا۔’’
ممانی نے مدد طلب نظروں سے بنے بھائی کو دیکھا ۔
بنے بھائی گھبرا کر بولے: ‘‘یہ آپ لوگوں کا آپس کا معاملہ ہے، میں چلتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر تیر کی سی تیزی سے نکلے اور نودو گیارہ ہو گئے۔ ممانی کا طیش اور اشتعال سے یہ عالم تھا کہ کچھ کہنے کو منہ کھولتی اور بند کرتی تھی پر کوئی آواز نہ نکلتی تھی۔ منے نے ماں کی یہ حالت دیکھی تو ننھے بچے کی طرح ماں سے لپٹ گیا اور معصومیت سے کہا: ‘‘ماما مجھے چھوڑ کے نہ جانا۔ میں آپ کے بغیر کیا کروں گا۔’’
چشم زدن میں ممانی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ممتا سے مغلوب ہو کر اس نے منے کو چھاتی سے چمٹا لیا اور اس کے سر پر بوسے دینے لگی۔
ممانی اور منے کو لاڈ کرتا چھوڑ کر نانی اور حسن نے بے دم و بے حال ماموں کو پکڑا اور باہر لے چلے۔ کشاں کشاں چلاتے اور گھسیٹتے انہیں نانی کے کمرے تک لائے اور ان کی مسہری پر لٹا دیا۔ نانی ان کے سرہانے بیٹھ گئیں۔
حسن نے دیکھاکہ ماموں کے چہرے اور بازوؤں پر نیل پڑے تھے اور خراشیں ڈلی تھیں۔ اس نے ٹٹول کر دیکھا، سر پر دو گومڑے بھی تھے۔ ماموں کو یوں بے حال، نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑا دیکھ کر نانی اشکبار ہوئی، صیدِ تیر ادبار ہوئی۔
روتے ہوئے بولی: ‘‘ہائے میرا معصوم بچہ۔ کتنے دکھ اٹھاتا ہے اور منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتا۔’’
حسن نے خفگی سے کہا: ‘‘ماموں بھی عجیب نادان ہیں، مردانگی سے ناواقف اور انجان ہیں۔ انواع و اقسام کے صدمے اٹھاتے ہیں، ایک عورت کے ہاتھوں جانِ شیریں گنواتے ہیں۔’’
نانی نے برا مان کر کہا: ‘‘عورت نہیں چنڈال ہے، دیکھا نہیں کیسے ڈائنوں کی طرح جھپٹتی ہے؟ اور تو بھی تو مار کھاتا رہا، تو نے کون سی مردانگی دکھائی؟’’
حسن نے کہا: ‘‘میری بات اور ہے۔ وہ میری بڑی ہیں اور ماں کی جگہ ہیں۔ میں پاسِ ادب سے خاموش رہا اور کسی بات یا مارپیٹ کا جواب نہ دیا۔ لیکن ماموں کی تو وہ ماں نہیں بیوی ہیں اور بیوی کو قابو کرنا مردوں کے بائیں ہاتھ کا کرتب، ذرا سی بات ہے۔ کون ایسی بڑی کرامات ہے؟’’
نانی نے ٹھنڈی آہ بھری اور آنکھوں میں آنسو لاکر بولی: بس یہی قصور ہے اس کا۔ لیکن یہ بھی کیا کرے۔ اس نے کبھی اپنے باپ کی اونچی آواز بھی نہیں سنی۔ اللہ بخشے اس کے ابا بھی ایسے ہی تھے۔ مسکین، شریف، مجھے کبھی کسی کام سے منع نہیں کیا، کبھی کوئی بُرا لفظ تک نہیں کہا۔ بڑی محبت اور پیار سے زندگی گزاری ہم نے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘میرا باپ بھی ایسا ہی تھا مگر میری ماں بڑی خاندانی عورت تھی۔ عزت کرنا اور کروانا خوب جانتی تھی۔ یہ ممانی آپ کہاں سے لے آئیں کہ ہمہ وقت کسی نہ کسی خبط میں گرفتار ہے، جنون سر پر سوار ہے۔ میاں کو مفت میں زدوکوب کرتی ہے۔ یہ حرکتِ ناشائستہ شریف زادیوں کی عفت سے منزلوں سے دور ہے، شوہر کا قتل بہو بیٹیوں کو کب منظور ہے؟’
نانی نے آہ بھری اور اس کے بوڑھے گالوں پر آنسو بہنے لگے، بولی: ‘‘اس قصور کے لیے میں کبھی خود کو معاف نہ کر پائی۔ بہن کے ساتھ نیکی کرتے کرتے میں نے اپنے بیٹے کو برباد کر دیا۔ ہائے میرے بچے مجھے معاف کر دے، مجھے معاف کر دے۔’’
لیکن ماموں کہاں سنتے تھے۔وہ تو بے ہوش پڑے تھے، خود فراموش پڑے تھے۔
حسن نے کہا: ‘‘جو ہوا سو ہوا اب ماموں کو چاہیے کہ بے وقوفی کو چھوڑیں، مظلومیت سے رشتہ توڑیں۔ بھلا ایسا بھی کوئی مردِ تہی ازخرد، بے مغز اور ناتجربہ کار ہے کہ جورو اس قدر تابکار و ناہنجار ہے اور وہ ذرا رعب نہیں جماتا ہے، الٹا اس سے طمانچے کھاتا ہے۔’’
نانی نے روتے ہوئے کہا: ‘‘شریف آدمی کے ساتھ دنیا یہی سلوک کرتی ہے۔’’
حسن نے کہا: ‘‘شرافت اور بزدلی میں فرق ہوتا ہے۔ عورت ہو یا مرد، عزتِ نفس ہی انسانیت کا شعار ہے، ظالم پر لعنت اور پھٹکار ہے۔ ماموں کی عقل گدی میں معلوم ہوتی ہے کہ بیوی کے ہاتھوں جان گنوائے دیتے ہیں، ذرا ہمت ِ مردانہ سے کام نہ لیتے ہیں۔’’
نانی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ‘‘میں تو بس اللہ سے فریاد کرتی ہوں۔ اللہ ہی ایسی ظالم عورت کو پوچھے گا۔ یہاں نہیں تو آخرت میں ضرور اپنے کرتوتوں کی سزا پائے گی۔’’
حسن نے چڑ کر کہا: ‘‘آخرت میں اللہ تین لوگوں کی فریاد نہیں سنے گا۔ ایک وہ جس نے یتیم کا مال اس کے بالغ ہونے سے پہلے اس کے حوالے کر دیا، دوسرا وہ جس نے مال کا لین دین کرتے وقت گواہ مقرر نہ کیے اور تیسرا وہ مرد جو اپنی بیوی کی بدمزاجی کی شکایت کرے گا۔’’