ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

”بس یا کچھ اور بھی۔” وہ اب بھی اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔
”اور کیا ہو سکتا ہے؟” اس نے ایک بار پھر لاپروا نظر آنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کچھ دیر تک اسے دیکھتے رہے پھر اسٹڈی ٹیبل کی دراز سے ایک فائل نکال کر اس کے آگے پھینک دی۔
”اسے کھولو اور اس میں موجود کاغذات کو دیکھو۔” انہوں نے سرد آواز میں کہا تھا۔
وہ چند لمحوں تک سامنے پڑی فائل کو دیکھتا رہا پھر اس نے ہمت کر کے اسے کھول لیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے اسے یوں لگا تھا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ سنبل اور اس کا نکاح نامہ اس کے سامنے موجود تھا۔ فائل میں کچھ دوسرے کاغذات بھی موجود تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ لرزتے ہاتھوں سے انہیں دیکھنا شروع کیا۔ پچھلے سال میں مختلف مواقع پر لی جانے والی چھٹیوں کی درخواستیں اس کے سامنے موجود تھیں اور اس میں رابیل اور جویریہ کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی تھے۔ جس کلینک میں ان کی پیدائش ہوئی تھی وہاں کا ایک سرٹیفکیٹ بھی تھا جس پر اس نے باپ کو حیثیت سے سائن کیے ہوئے تھے۔ اس نے فائل بند کر کے میز پر رکھ دی۔ اتنی ہمت اس میں نہیں رہی تھی کہ وہ اب باپ کے سامنے سر اٹھا کر بات کر سکتا۔
”تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے بارے میں کچھ نہیں جانتا؟ تم کیا کرتے ہو’ مجھے کچھ خبر نہیں؟ تم نے سوچا’ باپ راولپنڈی میں ہے تم لاہور میں ہو’ جو چاہو کر لو گے۔ مجھے کانوں کا ن خبر نہیں ہو گی۔”
اس نے سر نہیں اٹھایا تھا۔
”میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ کس سے ملتے رہے ہو؟ کہاں جاتے ہو کیا کرتے ہو؟ یہ سب میرے علم میں تھا۔ لیکن صرف اس لڑکی کے بارے میں مجھے پتا نہیں چل سکا اور جب پتا چلا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو اس سارے معاملے کے بارے میں کوئی تازہ جھوٹ کوئی نیا بہانہ کوئی بے کار جواز؟ ”
ان کی آواز اب تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ اب بھی خاموش تھا۔
”میں نے تمہیں کبھی لڑکیوں سے دوستی سے نہیں روکا لیکن اس دوستی کو صرف دوستی تک ہی رہنا چاہیے تھا۔ تم نے کیا سوچ کر اس سے شادی کی تھی۔ ہمارے خاندان میں آج تک کبھی کسی نے ایسی حرکت نہیں کی اور تم کیا سمجھتے ہو اپنے آپ کو کیا چیز ہو تم؟ اس خاندان کا نام الگ کر دو تو اوقات کیا ہے تمہاری؟ چند ہزار تنخواہ پانے والا ایک معمولی کیپٹن؟”
اب بابر کریم کا پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ اس پر چلّا رہے تھے اور اس کی رگوں میں جیسے خون منجمد ہو رہا تھا۔ وہ بہت دیر تک اس پر تیز چلاتے رہے پھر خاموش ہو گئے تھے۔ گلاس میں جگ سے پانی ڈال کر انہوں نے پانی پیا پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئے۔ وہ اب بھی پہلے کی طرح فق چہرے کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے دراز سے کچھ اور کاغذات نکال کر اس کے سامنے پھینک دیے تھے۔ اس نے ایک نظر ان پر ڈالی وہ طلاق کے کاغذات تھے۔
”ان کاغذات پر سائن کر دو۔”
کمرے میں بابر کریم کی سرد آواز گونجی تھی۔ اس نے پہلی بار سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
”لیکن پاپا ! ان بچیوں کا کیا…؟” اس نے ہمت کر کے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ جنرل بابر کریم نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ اس لڑکی کا مسئلہ ہے’ تم ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھو گے۔ اس نے تمہیں ٹریپ کر کے اس خاندان میں آنے کی کوشش کی ہے۔ اسے کچھ تو سزا ملنی چاہیے” ان کا لہجہ قطعی تھا۔
”مگر پاپا! پھر بھی میں ان بچیوں۔”
”مجھے تمہاری اگر مگر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تم کیا چاہتے ہو؟ ان بچیوں کو اپنی تحویل میں لینا چاہتے ہو اور ایسا کرنے کے بعد تم سے شادی کون کرے گا۔ دو بچیوں کے باپ سے۔ کون سا اچھا خاندان تمہیں اپنی بیٹی دے گا۔ یہ سوچا ہے تم نے؟ مگر تم سوچنے کے قابل ہی کہاں ہو۔ تم پر تو عشق و عاشقی کا بھوت سوار ہے نا؟ اولاد پالنا چاہتے ہو تو یہ کر ہی نہیں سکتے ہو۔ اس لئے انہیں رہنے دو۔ ان کی ماں ان کا کچھ نہ کچھ کر لے گی۔ تم ان پیپرز پر سائن کرو یا پھر یہ گھر چھوڑ دو۔ تمہارے پاس اور کوئی چوائس نہیں ہے۔”
حسن نے ایک نظر ان کو دیکھا اور پھر رائٹنگ ٹیبل سے پین اٹھا کر خاموشی سے ان کاغذات پر دستخط کر دئیے۔
”اب تم دوبارہ کبھی اس عورت سے نہیں ملو گے۔ کیپ اٹ ان یورمائنڈ اینڈ گیٹ لوسٹ۔ ایڈیٹ۔”
اس نے اپنے باپ کو کہتے سنا تھا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر اسٹڈی روم کا دروازہ کھول کر باہر آ گیا۔
…***…





حسن کے راولپنڈی جانے کے دوسرے دن وہ معمول کے مطابق ہاسپٹل آئی تھی جب اچانک اسے آفس طلب کیا گیا تھا اور وہاں ایک explanation letter اس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ وہ explanation letterپا کر جتنی پریشان ہوئی تھی’ اسے پڑھ کر اس سے زیادہ پریشان ہوئی تھی۔ اس کے خلاف کچھ سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے تھے اور اسے ایک ہفتہ کے اندر اپنی صفائی دینے کے لئے کہا گیا تھا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت اسے لیٹر آف تھینکس دے دیا جاتا جس کا مطلب ملازمت سے مکمل طور پر علیحدگی ہوتا اور پینشن اور اپنے دوسرے واجبات کی اہل بھی نہ ٹھہرتی۔
وہ پریشانی کے عالم میں گھر آئی تھی۔ حسن کی چھٹی دو دن کی تھی اسے اگلے دن واپس آنا تھا۔ اس سے بات کئے بغیر وہ اگلا کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتی تھی۔ اگلے دن وہ جب ہاسپٹل سے واپس گھر پہنچی تو اسے پتا چلا کہ حسن گھر آیا تھا اور اپنی چیزیں پیک کر کے لے گیا تھا۔ وہ پریشان ہو گئی تھی۔ اس نے فون کیا تھا مگر اس کا نام پوچھنے کے بعد آپریٹر نے کہا کہ حسن دانیال وہاں نہیں ہیں۔ وہ کہیں گئے ہیں رات کو دیر سے واپس آئیں گے۔ اس نے آپریٹر سے کہا تھا کہ وہ حسن دانیال کو کہے کہ سنبل نے فون کیا تھا وہ ان سے ملنا چاہتی تھی۔
اگلا دن بھی اسی طرح گزر گیا تھا۔ حسن کی طرف سے کوئی پیغام نہیں آیا تھا۔ وہ جان گئی تھی’ وہ اس سے ملنا نہیں چاہتا مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ اس بار اس کی اس اچانک ناراضگی کا سبب کیا تھا۔ اگلے روز وہ صبح میس میں چلی گئی تھی۔ ریسیپشن پر اس نے اپنا تعارف کروا کر حسن سے ملنے کا مطالبہ کیا تھا۔
”آپ بیٹھیں، وہ کچھ دیر میں آتے ہیں۔”
آپریٹر نے اس سے فون پر بات کرنے کے بعد سنبل سے کہا تھا۔ وہ وزیٹر روم میں بیٹھ گئی۔
دس منٹ بعد وہ یونیفارم میں ملبوس اس کے سامنے تھا۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات نے سنبل کو ہولا دیا تھا۔ وہ حسن دانیال نہیں تھا کوئی اور تھا’ اس کے چہرے پر پہچان یا شناسائی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
”میں تم سے آج آخری بار مل رہا ہوں اور میں اس کے بعد دوبارہ کبھی تم سے ملنا نہیں چاہتا۔ میں تمہیں ڈائی وورس (طلاق ) دے چکا ہوں۔ چند دنوں تک پیپرز تمہارے پاس پہنچ جائیں گے۔ سنبل کو یوں لگا تھا جیسے کسی نے اسے کھائی میں دھکیل دیا ہو۔
”تم کیا کہہ رہے ہو حسن! تم یہ کیسے کر سکتے ہو؟” اس کی آواز حلق میں اٹک رہی تھی۔
”میں یہ کر چکا ہوں اور اب میں دوبارہ تم سے ملنا نہیں چاہتا۔” اس نے ایک بار پھر کہا تھا۔
”تم نے رابیل اور جویریہ کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ تم ان کے باپ ہو۔” کوئی چیز اس کی آنکھوں سے بہنے لگی تھی۔
”میں ان کا باپ ہوں نہ میں نے ان کے بارے میں سوچا ہے۔ میں نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا’ مجھے بچوں کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ تمہاری ضد تھی۔ تم انہیں رکھ سکتی ہو۔” وہ بے حد پرسکون تھا۔
”حسن! تم مجھے اور اپنی بیٹیوں کو اس طرح کیسے چھوڑ سکتے ہو؟”
”میں تم لوگوں کو چھوڑ چکا ہوں۔ تم سے شادی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔” وہ اس کے کانوں میں صور پھونک رہا تھا۔ مگر مرد ایسی غلطیاں کرتا ہی رہتا ہے۔ میں اب سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں مجھے ابھی زندگی میں بہت کچھ کرنا ہے۔ تم لوگوں کے ساتھ رہ کر میں معذور ہو جاؤں گا۔ آگے نہیں جا سکوں گا۔ اس لئے میں نے تم لوگوں کو چھوڑ دیا ہے۔ مجھے تم سے محبت نہیں تھی۔ وہ ایک وقتی جنون تھا۔ اینی وے۔ میں امید کرتا ہوں۔ تم دوبارہ مجھے تنگ نہیں کرو گی۔”
سنبل نے اس بار اسے روکنے یا کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ کچھ دیر اس کے جواب کا منتظر رہا پھر کیپ پہن کر وزیٹرز روم سے باہر نکل گیا۔ اس کے آنسو تھم چکے تھے۔ بہت دیر تک وہ بے حس و حرکت وزیٹر روم میں بیٹھی رہی۔ پھر باہر نکل آئی۔
صبح آٹھ بجے دنیا اتنی تاریک لگ رہی تھی کہ اس کیلئے راستہ ڈھونڈنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ تین دفعہ وہ غلط رستے پر مڑ گئی۔ پھر چلتے چلتے وہ سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی تھی۔
”وہ سب ایک غلطی تھا۔ مگر مرد ایسی غلطیاں کرتا ہی رہتا ہے۔ میں اب سب کچھ بھول جانا چاہتا ہوں۔”
اس کے کانوں میں بار بار ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔
”مجھ سے شادی ایک غلطی تھی۔ رابیل اور جویریہ ایک غلطی تھی اور کیا کچھ غلط تھا’ یہ تم نے مجھے نہیں بتایا حسن دانیال۔” وہ سڑک پر آتی جاتی اکا دکا ٹریفک کو دیکھ رہی تھی۔
”تم اس شخص کو نہیں جانتیں وہ تمہیں کبھی خوش نہیں رکھ سکتا۔ وہ آوارہ ہے’ اس کی کوئی ریپوٹیشن نہیں ہے۔” اس کے کانوں میں اپنے بھائی کی آواز گونج رہی تھی۔ آگے اسے کیا کرنا تھا۔ وہ سوچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
گھر آنے پر ایک اور خبر اس کی منتظر تھی۔ ”ایک آدمی آیا تھا۔ یہ چٹ دے گیا ہے’ کہہ رہا تھا۔ حسن صاحب کے والد آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ کل صبح دس بجے اس پتے پر آ جائیں۔”
بچیوں کو سنبھالنے والی عورت نے اس کے آتے ہی اسے ایک چٹ دی تھی اس نے غائب دماغی کے عالم میں اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ کینٹ کے ہی ایک بنگلے کا ایڈریس تھا۔
”اب اور کیا باقی رہ گیا ہے؟” اس نے سوچا تھا۔ آج اس نے روز کی طرح آ کر ان دونوں کو پیار نہیں کیا تھا۔ وہ بے بی کاٹ کے پاس آ کر خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ وہ دونوں سو رہی تھیں۔ وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میں ان کا باپ ہوں نہ میں نے ان کے بارے میں سوچا ہے۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ مجھے بچوں کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ تمہاری ضد تھی۔ تم انہیں رکھ سکتی ہو۔”
”باجی! آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” آیا نے اندر آ کر اس کی سوچوں کا تسلسل توڑ دیا تھا۔ وہ خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔
”پانی لاؤں آپ کے لئے؟” آیا تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔
”نہیں بس دروازہ بند کر دو۔ میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں۔ اگر ان دونوں میں سے کوئی اٹھے تو تم اسے آ کر لے جانا۔”
وہ تھکے تھکے انداز میں بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔
اگلے دن وہ دس بجے اس بنگلے پر پہنچ گئی۔ ملازم نے اسے برآمدے میں بٹھایا تھا اور پھر کچھ دیر بعد آ کر اندر لے گیا۔ وہ اندر ڈرائینگ روم میں گئی تھی۔
”میں جنرل بابر کریم ہوں حسن دانیال کا باپ’ بیٹھو۔” صوفے پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اس کے سلام کا جواب دئیے بغیر اپنا تعارف کروایا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
”سب سے پہلے تو تم ان کاغذات کو دیکھ لو۔ حسن نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔” انہوں نے اس کے سامنے پڑی ہوئی میز پر رکھے ہوئے کچھ کاغذات کی طرف اشارہ کیا۔ وہ انہیں ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کر سکی۔ ”تمہارا حق مہر ساٹھ ہزار روپے طے کیا گیا تھا۔ حسن ساٹھ ہزار دینے کے قابل نہیں ہے۔ میں دے سکتا ہوں لیکن دوں گا نہیں کیونکہ یہ شادی میری مرضی سے نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے یہ معاملہ تو کلیئر ہو گیا۔ تمہیں یہاں میں نے کچھ دوسرے معاملات طے کرنے کیلئے بھی بلایا ہے۔ پہلی بات یہ کہ تمہارے خلاف جو انکوائری ہو رہی ہے’ وہ میرے کہنے پر شروع کی گئی ہے۔”
وہ پلکیں جھپکے بغیر انہیں دیکھتی رہی۔
”اگر تم یہ چاہتی ہو کہ یہ انکوائری ختم ہو جائے تو اس کے بدلے میں تمہیں میری کچھ شرائط ماننی پڑیں گی۔ سب سے پہلی بات یہ کہ آج کے بعد تم کبھی کسی سے یہ نہیں کہو گی کہ حسن کے ساتھ تمہاری شادی ہوئی تھی یا تم اسے جانتی ہو۔ دوسری بات یہ کہ تم اپنی بچیوں کے ناموں کے ساتھ حسن کا نام کبھی استعمال نہیں کرو گی۔”
وہ اس کا ردعمل دیکھنے کیلئے رک گئے تھے۔
”میں ایسا ضرور کروں گی۔ مجھے انکوائری کی پروا نہیں ہے’ جاب سے نکال دیا جاتا ہے تو بھی کوئی بات نہیں’ لیکن میں اب یہ سب کو بتاؤں گی کہ آپ کے بیٹے نے اور آپ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ آپ حسن کو مکھن سے بال کی طرح نہیں نکال سکتے’ میں سب کو بتاؤں گی کہ وہ میری بیٹیوں کا باپ ہے۔ میں کورٹ میں جاؤں گی۔”
وہ بڑے پرسکون انداز میں اسے دیکھتے رہے تھے’ یوں جیسے اس کا یہ ردعمل ان کے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔
”That`s good میں نے بھی اسی خطرے کے پیش نظر تمہیں یہاں بلوایا تھا۔ تمہارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حسن سے تمہاری شادی ہوئی ہے۔” وہ ان کی بات پر کچھ مشتعل ہو گئی تھی۔
”میرے پاس نکاح نامے کی کاپی ہے۔” اس نے کہا تھا۔
”نہیں ہے’ حسن تمہارے گھر سے آتے ہوئے وہ کاپی’ شادی کی تصاویر اور ایسے کاغذات لے آیا تھا جس سے تم دونوں کی شادی کا پتا چل سکتا ہے۔”
وہ سن ہو گئی تھی۔
”جس آدمی نے تمہارا نکاح پڑھایا تھا۔ اس کے پاس بھی تمہاری شادی کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ ویسے بھی تم اسے ڈھونڈ بھی نہیں سکتیں۔ جس کلینک میں تمہاری بیٹیوں کی پیدائش ہوئی تھی’ وہاں سے بھی ریکارڈ غائب ہو چکا ہے اور ان کے برتھ سرٹیفکیٹ بھی میں منگوا چکا ہوں۔ تمہیں وہاں بھی ان کی پیدائش کو دوبارہ رجسٹر کروانا پڑے گا۔ ان سب چیزوں کے بغیر تم کیسے ثابت کرو گی کہ حسن سے تمہاری شادی ہوئی تھی اور وہ تمہاری بیٹیوں کا باپ ہے۔ کوئی تمہاری بات پر یقین نہیں کرے گا۔ بہرحال تم ایسا کرنا چاہتی ہو تو ضرور کرو۔ تمہارے خلاف تو انکوائری ہو ہی رہی ہے۔ اس کے نتیجے کا تمہیں بہت جلد پتا چل جائے گا۔ ہاں’ تمہارا ایک بھائی بھی تو ہے۔ عمر جعفر نام ہے نا اس کا؟ لیفٹیننٹ عمر جعفر’ بہاولپور میں ہوتا ہے’ بلوچ رجمنٹ یونٹ نمبر۔”
وہ روانی سے اس کے بھائی کے تمام کوائف بتاتے گئے تھے۔
”تم کیا چاہتی ہو’ اس کے خلاف بھی کوئی انکوائری شروع ہو جائے؟”
وہ پہلی بار صحیح معنوں میں خوفزدہ ہوئی تھی۔ اسے اپنا وجود کسی آکٹوپس کے شکنجے میں لگ رہا تھا۔
”تم طے کرو’ کیا چاہتی ہو۔ اپنی بچیوں کیلئے حسن دانیال کا نام جو تمہیں مل نہیں سکتا یا پھر اپنے اور اپنے بھائی کے کیریئر کا تحفظ جو تمہیں مل سکتا ہے۔ بولو کیا چاہتی ہو؟”
”مجھے سوچنے کیلئے وقت چاہیے۔” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی لگی تھی۔
”دس منٹ دیتا ہوں۔ سوچ لو۔” سامنے بیٹھا ہوا شخص رحم نام کے ہر جذبے سے عاری تھا۔




Loading

Read Previous

اب میرا انتظار کر — عمیرہ احمد

Read Next

کنکر — عمیرہ احمد

One Comment

  • I love to read umera Ahmed novels

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!