رابیل نے چلتے چلتے اچانک عثمان کو بڑ بڑاتے سنا۔ اس نے کچھ حیرانی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے ہوئے زیر لب کچھ کہہ رہا تھا۔ اس کے ماتھے پر پڑی ہوئی شکنوں نے اسے کچھ اور حیران کیا۔
”کیا بات ہے؟ کیا ہو گیا ہے؟” اس نے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا۔
”جن مردوں کو اپنی نظروں پر قابو نہیں ہوتا انہیں اندھا کر دینا چاہیے۔” وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے غرایا تھا۔
رابیل نے کندھے اچکاتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا۔ عثمان کے ایسے ریماکس اس کے لیے نئے نہیں تھے۔ اس کی شادی کو آٹھ سال ہونے والے تھے اور ان آٹھ سالوں میں عثمان کئی دفعہ اسی طرح بھڑکتا رہا تھا۔
ایک ہلکی سی مسکراہٹ رابیل کے چہرے پر نمودار ہوئی۔
”بھئی ، یہاں ایسا کون ہے جسے تم اندھا کر دینا چاہتے ہو؟” اس نے ایک نظر سامنے دوڑاتے ہوئے پوچھا۔
”یار ! یہ کارڈیا لوجی ڈیپارٹمنٹ کے داخلی دروازے پر جو آدمی کھڑا ہے یہ تب سے تمہیں گھور رہا ہے، جب ہم وہاں کھڑے میجر شفقت سے باتیں کر رہے تھے۔ مجال ہے ایک لمحہ کے لیے بھی اس نے نظر ہٹائی ہو۔ اسے پتا بھی چل گیا ہے کہ میں اس کی اس سرگرمی سے واقف ہو چکا ہوں مگر تم اس کی ڈھٹائی دیکھو کہ یہ پھر بھی کوئی پروا کئے بغیر اسی طرح تم پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اپنی عمر دیکھنی چاہیے اس کمینے کو۔ تم اس کی بیٹی کے برابر ہوگی اور یہ پھر بھی۔”
وہ کسی پر نظریں جمائے بولتے ہوئے چلتا جا رہا تھا۔ رابیل نے متلاشی نظروں سے کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طرف دیکھا تھا۔ وہ دونوں اب اس شخص کے کافی قریب آ گئے تھے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ جیسے منجمد ہو گئی تھی۔ اس شخص نے رابیل کو اپنی طرف دیکھتے پا کر فوراً ہی نظریں ہٹا لی تھیں۔ رابیل کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ غائب ہو گئی تھی۔ اس آدمی کے چہرے سے نظریں ہٹا کر وہ تیز قدموں کے ساتھ عثمان کے ساتھ چلتے ہوئے سی ایم ایچ کے گیٹ سے باہر آ گئی تھی۔ وہ جانتی تھی، وہ شخص اب بھی اسے گھور رہا ہو گا۔ اب بھی اس کی نظریں اس کے وجود پر مرکوز ہوں گی اور شاید تب تک رہیں گی جب تک کہ وہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتی۔
بعض چہروں کو پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی چاہے ان سے ہمارا کوئی رشتہ ہو یا نہ ہو۔ چاہے انہیں ہم آٹھ منٹ بعد دیکھیں یا آٹھ سال بعد۔ چاہے انہیں ہم نے محبت سے دیکھا ہو یا نفرت سے مگر ایک بار دیکھنے کے بعد وہ چہرے دماغ میں فیڈ ہو جاتے ہیں۔ پھر دوبارہ کبھی ذہن سے اوجھل نہیں ہوتے۔ آٹھ سال پہلے اس نے بھی اس شخص کو تین بار دیکھا تھا۔ صرف تین بار اور آج پہلی ہی نظر میں تین سیکنڈ سے بھی کم وقت میں وہ اسے پہچان گئی تھی اور پھر آٹھ سال پہلے اسے وہ چھ ماہ یاد آنے لگے تھے جو اسے آسمان سے زمین پر لے آئے تھے۔ جب اس نے اپنی ہستی کو برزخ میں محسوس کیا تھا جب اپنے وجود کو پاتال میں دیکھا تھا اور پھر اس برزخ کی آگ کو بجھانے اور اس پاتال سے نکلنے میں اسے بہت وقت لگا تھا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟” اس کے چہرے پر کوئی ایسی کیفیت ضرور ابھری تھی۔ جس نے عثمان کو چونکا دیا تھا جو گیٹ سے باہر نکلتے ہی نارمل ہو گیا تھا شاید یہ سوچ کر کہ وہ اب اس آدمی کی نظروں سے اوجھل ہو چکی ہے۔
”کچھ نہیں۔ مجھے کیا ہونا ہے۔ بس اس بچے کے کیس کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔”
اس نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا۔ عثمان خاموش رہا۔ وہ دونوں جیپ کے پاس پہنچ گئے تھے۔ ڈرائیور نے اس کے لیے جیپ کا دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر بیٹھ گئی۔ عثمان فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ اسامہ لپکتا ہوا اس کے پاس آیا تھا۔
”ما ما ! اب پہلے آئش کریم کھانے جائیں گے۔”
اس نے اس کی گود میں آتے ہی فرمائش کی تھی۔ ”ہاں آئس کریم کھانے چلیں گے، مگر پہلے آئزہ کو سکول سے لے لیں پھر۔ ٹھیک ہے نا؟” اس نے اسامہ کا گال چومتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے مگر پھر میں دو کون کھاؤں گا۔” اس نے اپنی ایک اور شرط پیش کر دی تھی۔
”بس دو؟” رابیل دماغ سے اس چہرے کو جھٹکنے میں مصروف تھی۔
”ہاں بس دو مگر اگر آئزہ دو کھائے گی تو پھر میں تھری کھاؤںگا۔” ایک اور دو کے بعد اس کی اردو کی گنتی ختم ہو جاتی تھی۔ اب وہ رابیل کو انگلیاں دکھا کر تھری کہہ رہا تھا۔
”اور اگر میں آئزہ کوایک فیملی پیک لے دوں تو؟” عثمان اپنے چار سالہ بیٹے کو چھیڑ رہا تھا۔
”اور اگر میں۔” عثمان اور اسامہ کے درمیان اب باقاعدہ بحث شروع ہو گئی تھی۔ اس نے خاموشی سے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لیں۔ ایک بار پھر وہی چہرہ اس کے سامنے آ گیا تھا۔
…***…
”میں سیریس ہوں؟ کم آن یا ر! میں تو سیریس نہیں ہوں۔ یہ بیماری اسی طرف سے ہے۔ اوئے تو سمجھتا کیوں نہیں ہے۔ میرے جیسے بندے کے پاس اتنی ہمت کہاں۔” وہ یونیفارم تبدیل کئے بغیر اوندھے منہ بیڈ پر لیٹے تکیے پر بازو ٹکائے فون پر گفتگو میں مصروف تھا۔
”اچھا اچھا۔ تجھے بھی جانتا ہوں میں بڑا سورما ہے ناتو۔ تیس مار خاں سامنے آنا پھر ایسی باتیں کرنا، تیرا منہ نہ توڑ دیا تو پھر کہنا۔” وہ اب کچھ جھنجھلا رہا تھا۔ دروازے پر ہونے والی دستک نے اس کے انہماک کو توڑا تھا۔
”جسٹ اے منٹ خبیث۔” اس نے فون پر اظفر سے کہا تھا اور پھر ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”یس کم ان۔” اس نے بلند آواز سے کہا تھا۔
”سر ! آپ کے کپڑے پریس کر لایا ہوں اور چائے یہیں پئیں گے یا باہر لان میں؟” روم سروس والا دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔ ہینگر میں لٹکے ہوئے کپڑوں کو کرسی کی پشت پر لٹکاتے ہوئے اس نے پوچھا تھا۔ حسن نے ایک نظر رسٹ واچ پر ڈالی اورپھر اسی طرح ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا۔
”نہیں اسے اب رہنے ہی دو۔ مجھے باہر جانا ہے۔”
”میجر یاور علی آپ کا پوچھ رہے تھے۔” وہ ماؤتھ پیس سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے چونکا تھا۔
”وہ کب آئے تھے؟”
”دوپہر کو آئے تھے ، یہیں میس میں ہی ٹھہرے ہیں۔”
”اس وقت کمرے میں ہی ہیں؟”
”نہیں ، وہ تو اسی وقت باہر چلے گئے تھے لیکن کہہ رہے تھے کہ آپ آئیں تو آپ کو بتا دوں۔”
”اچھا وہ آئیں تو ان سے کہہ دینا کہ مجھے کسی ضروری کام سے جانا تھا۔ میں رات کو ان سے ملوں گا۔ اب تم جاؤ۔” اس نے اسے ہدایات دیں اور پھر ماؤتھ پیس سے ہاتھ اٹھا کر باتوں میں مصروف ہو گیا۔
”اچھا میں تو بس تھوڑی دیر میں نکلنے والا ہوں، بس چھ بجنے ہی والے ہیں۔ مجھے زرقا کو بھی پک کرنا ہے۔ تم کب کلب پہنچو گے؟” وہ ا ظفر سے اس کا شیڈول پوچھ رہا تھا۔
”نہیں کلب سے ہوتے ہوئے گیریژن سینما چلے جائیں گے۔”
”نہیں یار ! وہاں تو ضرور جانا ہے۔”
”بس سمجھا کرو یار۔”
”زیادہ دیر نہیں رکیں گے۔”
”ہاں ، زرقا بھی فلم دیکھنے چلے گی۔ یار! اس سے پہلے ہی پروگرام طے کیا ہوا تھا۔ تمہارا مسئلہ بھی حل کر دوں گا۔ تم کلب تو چلو۔ ایک کے بجائے دس لڑکیاں ساتھ چلیں گی۔ تم بات کر کے تو دیکھنا۔ اچھا تم نہ کرنا۔ میں کروں گا۔ تم بس یہ مسئلہ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں آٹھ بجے تک کلب انتظار کروں گا تمہارا۔ وہاں نہ آئے تو دوبارہ شکل مت دکھانا مجھے۔” اس نے اظفر کو دھمکاتے ہوئے فون بند کر دیا تھا۔
سیٹی پر ایک انگلش نمبر کی دھن بجاتے ہوئے وہ کپڑے اٹھا کر باتھ روم میں گھس گیا۔
لاہور میں پوسٹڈ ہوئے اسے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا اور یہاں آتے ہی اس کی سرگرمیاں پھر سے شروع ہو گئی تھیں۔ وہ جنرل بابر کریم کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ اس سے بڑے ایک بھائی اور ایک بہن تھے دونوں شادی شدہ تھے۔ اس کا بڑا بھائی اور بہنوئی دونوں فوج میں تھے اور یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے چچا اور تایا کے علاوہ ان کی اولادیں بھی کسی نہ کسی حوالے سے آرمی سے وابستہ تھیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا آ رہا تھا۔
حسن دانیال کا خاندان ان خاندانوں میں سے نہیں تھا جو آرمی کا کھاتے ہیں۔ وہ ان خاندانوں میں سے تھے جو آرمی کو کھاتے ہیں۔ اس کے خاندان کے لوگ فوج اور بیوروکریسی میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور پھرباہمی گٹھ جوڑ سے وہ اپنے عہدوں سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے۔ حسن کا دادا انگریزوں کی فوج میں کرنل کے عہدے تک پہنچا تھا تو اس کی بنیادی وجہ کوئی پروفیشنل مہارت نہیں تھی۔ بلکہ اس کے دادا کی انگریز بیوی تھی جو لیسٹر کے کسی ارسٹو کریٹ کی بگڑی ہوئی بیٹی تھی۔ اسے حسن کے دادا سے طوفانی قسم کا عشق ہوا تھا اور اس عشق کا نتیجہ شادی کی صورت میں نکلا تھا۔ اس شادی نے حسن کے دادا کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ از ابیلا اس قدر خوبصورت تھی کہ اس پر پہلی نظر ہمیشہ دیکھنے والے کے لیے کافی سنگین ہوتی تھی اور ازابیلا نے اپنے شوہر کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی خوبصورتی کا بڑے اچھے طریقے سے استعمال کیا تھا اور اس استعمال پر حسن کے دادا کو کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ ان کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ان کی آئندہ آنے والی نسلیں ایک کرنل کی نسل کہلائیں گی۔ انگریزوں نے انہیں صرف عہدہ ہی نہیں دیا تھا بلکہ جاگیر سے بھی نوازا تھا اور اس جاگیر نے ان پر دو آتشہ کا کام کیا تھا۔ ان کے یہی تعلقات بعد میں ان کے بیٹوں کے کام آئے تھے۔ ان کے دو بیٹوں نے آرمی جوائن کی تھی اور دونوں جنرل کے عہدے پر پہنچے تھے۔ باقی دونوں بیٹوں میں سے ایک میڈیکل کور میں گیا تھا اور پھر وہاں سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر لندن چلا گیا اور سب سے چھوٹا والا بیٹا بھی لاء کرنے کے بعد باہر ہی سیٹل ہو گیا تھا۔ بابر کریم تیسرے نمبر پر تھے اور انہوں نے ماں باپ سے تمام گر سیکھے تھے جو ان کے خاندان کے شجرہ نسب کو اور مضبوط کرتے۔ ان کے باپ نے ان کی شادی بھی ایک جنرل کی بیٹی سے کی تھی اور اس رشتے نے ان کے سوشل اسٹیٹس کو اور بڑھا دیا تھا اور یہ سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا تھا بابر کریم نے اپنے بڑے بیٹے کی شادی بھی ایک ایسے ہی خاندان میں کی تھی جو ان ہی کی طرح کئی نسلوں سے آرمی سے وابستہ تھا اور اپنی بیٹی کی شادی بھی انہوں نے اپنے سب سے بڑے بھائی کے بیٹے سے کی تھی۔
حسن دانیال ان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور سب سے لاڈلی اولاد بھی اور اس بات کا اس نے بچپن سے ہی فائدہ اٹھایا تھا۔ اس میں بھی اپنے خاندان کی تمام خوبیوں اور خامیوں کا عکس نظر آتا تھا۔ باپ اور بڑے بھائی کی طرح وہ شوقیہ ڈرنک بھی کرتا تھا اور ان باقی تمام مشاغل سے بھی لطف اندوز ہوتا تھا۔ جن سے اس کے خاندان کے تمام لوگ لطف اندوز ہوے تھے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے مردوں کی طرح رنگین مزاج تھا۔ جانتا تھا کہ اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون حلال کی کمائی کے اجزاء نہیں رکھتا کیونکہ وہ رزق حلال کی پیداوار نہیں تھا۔
بابر کریم جس جس عہدے اور پوسٹنگ پر بھی رہے تھے۔ انہوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ فوج کے زیر استعمال پیٹرول پمپوں میں پیٹرول کی سپلائی میں ہیرا پھیری سے لے کر کینٹ کے علاقے میں زمینوں اور پلاٹوں کی خاص لوگوں کو الاٹمنٹ کرنے تک وہ ہر قسم کے اسکینڈل میں ملوث رہے تھے۔ مگر ان کے خلاف ہونے والی ہر انکوائری کے بعد نہ صرف انہیں ایک عدد اچھی پوسٹنگ سے نوازا جاتا رہا تھا۔ بلکہ انہیں پروموشن بھی دی جاتی رہی تھی۔ ان تمام حربوں سے حسن دانیال بھی واقف تھا اور جانتا تھا کہ آگے بڑھنے کے لیے اور اپنے باپ دادا کی طرح ساکھ بنانے کے لیے یہ سب بے حد ضروری ہوتا ہے۔
ساڑھے چھ بجے زرقا کو اس کے گھر سے پک کرنے کے بعد وہ سروسز کلب پہنچ گیا تھا۔ زرقا سے اس کی پرانی واقفیت تھی۔ اس کے والد فارن آفس میں ہوتے تھے اور حسن کے والد سے ان کی اچھی خاصی سلام دعا تھی۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ کئی بار راولپنڈی اس کے گھر بھی آچکی تھی۔ لاہور میں پوسٹنگ ہوتے ہی اسی نے سب سے پہلے اس سے رابطہ قائم کیا تھا۔ خوبصورت لڑکیاں اس کی کمزوری تھیں۔ خوبصورت ، تعلیم یافتہ، بہت ماڈ۔ حسن کی طرح وہ بھی بہت سوشل تھی۔ اس کی طرح سموکنگ اور ڈرنک بھی کرتی تھی اور حسن کی طرح وہ بھی اپنے بوائے فرینڈز بدلتی رہتی تھی۔
”تو بہر حال تم آ ہی گئے ہو۔” وہ اور زرقا ڈرنکس لے کر اپنی ٹیبل پر واپس آئے ہی تھے جب اظفر بھی کرسی کھینچ کر آن موجود ہوا تھا۔
”تم جس طرح دھمکاتے ہو، کیا اس کے بعد یہ ممکن ہے کہ بندہ گھر بیٹھا رہے۔ ہیلو مائے نیم از اظفر۔ کیا میں آپ کا نام معلوم کر سکتا ہوں؟”
حسن نے کچھ تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا اور پھر دونوں کا تعارف کروایا۔
”آپ سے مل کرخوشی ہوئی۔” زرقا نے بڑے سٹائلش انداز میں اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔same here(مجھے بھی) حسن سے اکثر آپ کا ذکر سنا ہے۔ دیکھ کر زیادہ خوشی ہوئی۔” اظفر نے شوخ انداز میں کہا۔
زرقا کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ واضح طور پر اس نے اظفر کے جملے کو انجوائے کیا تھا۔
” Should I take it as a compliment?” (میں اسے اپنی تعریف سمجھوں) اس نے جواباً اظفر سے کہا تھا ”آف کورس” ایک ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اظفر نے کہا تھا۔
”تم کیا لو گے؟” حسن نے فوراً مداخلت کی تھی۔
”وہی جو تم لے رہے ہو شیمپئن۔” اس نے ایک ہلکی سی سیٹی بجا کر کہا تھا۔
”تم جم خانہ میں نہیں بیٹھے ہو۔ جانتے ہو، یہاں کیا مل سکتا ہے۔ بیئر، برانڈی یا وہسکی مگر تم برانڈی مت لینا۔تم سوڈا استعمال کرو گے نہیں اور ہمیں ابھی سینما بھی جانا ہے۔ میں نہیں چاہتا مجھے تمہیں اٹھا کر گھر لے جانا پڑے۔” زرقا نے حسن کی بات پرایک ہلکا سا قہقہہ لگایا تھا۔
”ایسا بھی ہوتا ہے؟” اس نے اظفر کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”اس کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔” اظفر نے حسن کی بات پر اس کے بازو پر ایک ہلکا سا گھونسہ مارا تھا اور پھر بار کی طرف چلا گیا تھا۔ حسن زرقا سے باتوں میں مصروف ہو گیا۔ اظفر چند منٹوں بعد گلاس ہاتھ میں تھامے واپس لوٹ آیا تھا۔
”حسن ! باہر کیوں نہ چلیں۔ یہاں بیٹھنے سے بوریت ہو رہی ہے۔” اس نے آتے ہی اظفر سے کہا تھا۔
”کیا خیال ہے ، باہر چلا جائے؟” حسن نے زرقا سے پوچھا۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
“As you wish.”
”ٹھیک ہے چلو لان میں بیٹھتے ہیں۔”
حسن نے اپنا گلاس خالی کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”تم دونوں چلو میں ایک پیگ اور لے کر آتا ہوں۔”
One Comment
I love to read umera Ahmed novels