آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

’’میں توتمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ امامہ نے سالار کو دیکھے بغیر بے ساختہ کہا۔
’’پھر ہوسکتا ہے، میں مرجاؤں اور اس کے بعد تمہاری دوسری شادی ہو۔‘‘ سالار کو ایک دم اسے چڑانے کی سوجھی۔
امامہ نے اس بار اسے خفگی سے دیکھا۔
’’تم ے وقوفی کی بات مت کرو۔‘‘
’’ویسے تم کرلینا شادی، اگر میں مر گیا تو… اکیلی مت رہنا…‘‘ امامہ نے کچھ اور برا مانا۔
’’میں کچھ اور بات کررہی ہوں تم کچھ اور بات کرنا شروع ہوجاتے ہو… اور تمہیں اتنی ہمدردی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
سالار کے مشورے نے اسے ڈسٹرب کیا تھا اور یہ اس کے جملے کی بے ربطی میں جھلکا تھا۔ سالار خاموش ہوا۔ امامہ بھی خاموش تھی۔
’’تم اصل میں یہ چاہتے ہو کہ میں تم سے کہوں کہ اگر میں مرجاؤں تو تم دوسری شادی کرلینا۔‘‘ وہ کچھ لمحوں کے بعد یک دم بولی تھی۔وہ اس کی ذہانت پر اش اش کر اٹھا تھا۔
’’تو کیا میں نہ کروں؟‘‘ سالار نے جان بوجھ کر اسے بڑی سنجیدگی سے چھیڑا۔ اس نے جواب دینے کے بجائے اسے بڑے پریشان انداز میں دیکھا۔
’’مجھے پامسٹ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘ وہ پچھتائی تھی۔
’’تم مجھ سے سود کے بارے میں سوال کرتی ہو اور خود یہ یقین رکھتی ہو کہ اللہ کے علاوہ کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کی قسمت کا حال پتاہوسکتا ہے؟‘‘ وہ صاف گوتھا اور ہمیشہ سے تھا، مگر اس کی صاف گوئی نے امامہ کو کبھی اس طرح شرمندہ نہیں کیا تھا جس طرح اب کیا تھا۔ گھڑوں پانی پڑنے کا مطلب اسے اب سمجھ آیا تھا۔
’’انسان ہوں، فرشتہ تو نہیںہوں میں۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا تھا۔
’’جانتا ہوں اور تمہیں فرشتہ کبھی سمجھا بھی نہیں میں نے، مارجن آف error دیتا ہوں تمہیں، لیکن تم مجھے نہیں دیتیں۔‘‘
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اور وہ بہت کم کوئی غلط بات کرتا تھا۔ امامہ کو یہ اعتراف تھا۔
’’زندگی اور قسمت کا پتا اگر زائچوں، پانسوں، اعداد، لکیروں اور ستاروں سے لگنے لگتا تو پھر اللہ انسان کو عقل نہ دیتا، بس صرف یہی چیزیں دے کر دنیا میں اتار دیتا۔‘‘
وہ گاڑی چلاتے ہوئے کہہ رہا تھا اور وہ شرمندگی سے سن رہی تھی۔
’’جب مستقبل بدل نہیں سکتے تو اسے جان کر کیا کریں گے۔ بہتر ہے غیب، غیب ہی رہے… اللہ سے اس کی خبر کے بجائے اس کا رحم اور کرم مانگنا زیادہ بہتر ہے۔‘‘
وہ بول ہی نہیں سکی تھی۔ سالار بعض دفعہ اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑتا تھا، یہ یقین اور یہ اعتماد تو اس کا اثاثہ تھا۔ یہ اس کے پاس کیسے چلا گیا تھا۔
اس رات امامہ کو پہلی بار یہ بے چینی ہوئی تھی۔ وہ ساتھی تھے۔ رقیب نہیں تھے، پر اسے چند لمحوں کے لئے سالار سے رقابت ہوئی تھی۔ وہ ایمان کے درجوں میں اس سے بہت پیچھے تھا۔ وہ اسے پیچھے کیسے چھوڑنے لگا تھا۔
٭…٭…٭





وہ سالار کے ساتھ خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار اس کے دائیں جانب تھا، وہ وہاں ان کی آخری رات تھی۔ وہ پچھلے پندرہ دن سے وہاں تھے اور اپنی شادی کے سات ماہ بعد وہاں عمرہ کے لئے آئے تھے۔
احرام میں ملبوس سالار کے برہنہ کندھے کو دیکھتے ہوئے امامہ کو ایک لمبے عرصے کے بعد وہ خواب یاد آیا تھا۔ سالار کے دائیں کندھے پر کوئی زخم نہیں تھا، لیکن اس کے بائیں کندھے کی پشت پر اب اس ڈنر نائف کا نشان تھا جو ہاشم مبین نے اسے مارا تھا۔
’’تم نے پہلے کبھی مجھے اس خواب کے بارے میں نہیں بتایا۔‘‘ وہ امامہ کے منہ سے اس خواب کا سن کر شاکڈ رہ گیا تھا۔ ’’کب دیکھا تھا تم نے یہ خواب؟‘‘
امامہ کو تاریخ ، مہینہ، دن ، وقت سب یاد تھا… کیسے بھول سکتا تھا؟ وہ اس دن جلال سے ملی تھی… اتنے سالوں کے لاحاصل انتظار کے بعد۔
سالار گنگ تھا، وہ وہی رات تھی جب وہ یہاں امامہ کے لئے گڑگڑارہا تھا۔ اس آس میں کہ اس کی دعا قبول ہوجائے… یہ جانے بغیر کہ اس کی دعا قبول ہورہی تھی۔
’’اس دن میں یہاں تھا۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے امامہ کو بتایا تھا۔ اس بار وہ ساکت ہوئی۔
’’عمرہ کے لئے؟‘‘
سالار نے سرہلایا۔ وہ سرجھکائے اپنے ہونٹ کاٹتا رہا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی، صرف اسے دیکھتی رہی۔
’’اس دن تم یہاں نہ ہوتے تو شاید…‘‘
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کچھ کہنا چاہا تھا، مگر بات مکمل نہیں کرسکی تھی۔
’’شاید؟‘‘ سالار نے سراٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ یوں جیسے چاہتا تھا وہ بات مکمل کرتی… وہ کیسے کرتی… اس سے کہتی یہ کہہ دیتی کہ وہ اس دن یہاں نہ ہوتا تو شاید جلال اس سے ایسی سر د مہری، ایسی بے رخی نہ برتنا… وہ سب کچھ نہ کہتا جو اس نے کہا تھا۔ وہ اس کے اور جلال کے بیچ میں اللہ کو لے آیا تھا اور اس کے لئے سالار کو یقینا اللہ نے ہی چنا تھا۔
ایک گہرا سانس لے کر ا سنے سب کچھ جیسے سر سے جھٹکنے کی کوشش کی تھی، لیکن سالار کی باتیں اس کی سماعتوں سے چپک گئی تھیں۔
’’اتنے سالوں میں جب بھی یہاں آیا، تمہارے لئے بھی عمرہ کیا تھا میں نے۔‘‘
وہ بڑے سادہ لہجے میں امامہ کوبتارہا تھا۔ اسے رلا رہا تھا۔
’’تمہاری طرف سے ہر سال عید پر قربانی بھی کرتا رہا ہوں میں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ امامہ نے بھرائی ہوئی آواز میں اس سے پوچھا تھا۔
’’تم منکوحہ تھیں میری… دور تھیں، لیکن میری زندگی کا حصہ تھیں۔‘‘
وہ روتی گئی تھی۔ اس کے لئے سب کچھ اسی شخص نے کرنا تھا کیا؟
اسے سالار کے حافظ قرآن ہونے کا پتا بھی اسی وقت چلا تھا، وہ جلال کی نعت سن کر مسحور ہوجاتی تھی اور اب وہاں حرم میں سالار کی قرأت سن کر گنگ تھی۔
’’ایسی قرأت کہاں سے سیکھی تم نے؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
’’جب قرآن پاک حفظ کیا تب… اب تو پرانی بات ہوگئی ہے۔‘‘ اس نے بڑے سادہ لہجے میں کہا۔
امامہ کو چند لمحوں کے لئے جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
’’تم نے قرآن پاک حفظ کیا ہوا ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے کبھی نہیں بتایا۔‘‘ وہ شاکڈ تھی۔
’’تم نے کبھی نہیں بتایا اتنے مہینوں میں۔‘‘
’’پتا نہیں کبھی خیال نہیں آیا… ڈاکٹر صاحب کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ حفاظ ہی ہیں۔ میرا حافظ قرآن ہونا ان کے لئے کوئی انوکھی بات نہیں ہوگی۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
’’تم اتنا حیران کیوں ہورہی ہو؟‘‘
آنسوؤں کا ایک ریلا آیا تھا امامہ کی آنکھوں میں… جلال کو پیڈسٹل پر بٹھائے رکھنے کی ایک وجہ اس کا حافظ قرآن ہونا بھی تھا… اور آج وہ جس کی بیوی تھی، حافظ قرآن وہ بھی تھا۔ بہت سی نعمتیں پتا نہیں اللہ کس نیکی کے عوض عطا کرتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ وہ دلوں میں کیسے رہتا ہے۔ وہ سنتی آئی تھی، وہ دلوں کو کیسے بوجھ لیتا ہے، وہ دیکھ رہی تھی… بس سب کچھ ’’کن‘‘ تھا اللہ کے لئے… بس ایسے… اتنا ہی سہل… آسان… پلک جھپکنے سے پہلے… سانس آنے سے پہلے…
اللہ سامنے ہوتا تو وہ اس کے قدموں میں گر کر روتی… بہت کچھ’’مانگا‘‘ تھا پر یہ تو صرف ’’چاہا‘‘ تھا۔
وہ اتنا کچھ دے رہا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا، وہ ایک بار پھر بھاگ کر حرم میں چلی جائے جہاں سے کچھ دیر پہلے آئی تھی۔
’’رو کیوں رہی ہو؟‘‘
وہ اس کے آنسوؤں کی وجہ نہیں جان پایا۔ وہ روتے روتے ہنسی۔
’’بہت خوش ہوں اس لئے… تمہاری احسان مند ہوں اس لئے… نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر پارہی اس لئے۔‘‘ وہ روتی ہنستی اور کہتی جارہی تھی۔
’’بے وقوف ہو اس لئے۔‘‘ سالار نے جیسے خلاصہ کیا۔
’’ہاں وہ بھی ہوں۔‘‘ اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے شاید پہلی بار سالار کی زبان سے اپنے لئے بے وقوف کا لفظ سن کر خفگی کااظہار نہیں کیا تھا۔
ایک لمحہ کے لئے امامہ نے آنکھیں بند کیں پھر آنکھیں کھول کر حرم کے صحن میں خانہ کعبہ کے بالکل سامنے برابر میں بیٹھے سالار کو دیکھا جوبہت خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا۔
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ …
’’اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟‘‘
’’تم جو کچھ کررہی ہو امامہ… تم اس پر بہت پچھتاؤگی، تمہارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔‘‘
نول سال پہلے ہاشم مبین نے اس کے چہرے پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔
’’ساری دنیا کی ذلت، رسوائی، بدنامی اور بھوک تمہارا مقدر بن جائے گی۔‘‘ انہوں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا تھا۔
’’تمہاری جیسی لڑکیوں کو اللہ ذلیل و خوار کرتا ہے… کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑتا۔‘‘
امامہ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
’’ایک وقت آئے گا جب تم دوبارہ ہماری طرف لوٹوگی…منت سماجت کروگی… گڑگڑاؤگی… تب ہم تمہیں دھتکاردیں گے… تب تم چیخ چیخ کر اپنے منہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگوگی… کہوگی کہ میں غلط تھی۔‘‘
امامہ اشک بار آنکھوں سے مسکرائی۔
’’میری خواہش ہے بابا۔‘‘ اس نے زیر لب کہا۔ ’’کہ زندگی میں ایک بار میں آپ کے سامنے آؤں اور آپ کو بتادوں کہ دیکھ لیجئے۔ میرے چہرے پر کوئی ذلت، کوئی رسوائی نہیں ہے۔ میرے اللہ نے میری حفاظت کی۔ مجھے دنیا کے لئے تماشا نہیں بنایا۔ نہ دنیا میں بنایا ہے نہ ہی آخر میں کسی رسوائی کا سامنا کروں گی۔ اور میں آج اگر یہاں موجود ہوں تو صرف اس لئے کیوں کہ میں سیدھے راستے پر ہوں اور یہاں بیٹھ کر میں ایک بار پھر اقرار کرتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد کوئی پیغمبر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ وہی پیر کامل ہیں، میں اقرار کرتی ہوں کہ ان سے کامل ترین انسان کوئی دوسرا نہیں۔ ان کی نسل میں بھی کوئی ان کے برابر آیا ہے نہ ہی کبھی آئے گا اور میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے میری آنے والی زندگی میں بھی کبھی اپنے ساتھ شرک کروائے نہ ہی مجھے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کسی کو لاکھڑا کرنے کی جرأت ہو۔ میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ زندگی بھر مجھے سیدھے راستے پر رکھے۔ بے شک میں اس کی کسی نعمت کو نہیں جھٹلاسکتی۔‘‘




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!