آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

یہ صرف دو بار سوخ فیملیز کا مسئلہ نہیں رہا تھا، یہ کمیونٹیز کا مسئلہ بن گیا تھا۔ اسلام آباد پولیس کے تمام اعلیٰ افسران اس معاملے کو حل کرانے کے لئے وہاں موجود تھے۔ ہاشم مبین کو سب سے بڑی مشکل اس ریسٹورنٹ کی انتظامیہ کی وجہ سے ہورہی تھی جہاں یہ سب کچھ ہوا تھا۔ یہ سب کہیں اور ہوتا تو وہ بھی جواباً سالار اور اس کی فیملی کے خلاف دس بارہ ایف آئی آر رجسٹر کرواچکے ہوتے، لیکن ہال میں لگے سیکیورٹی کیمروں کی ریکارڈنگ ہاشم مبین کو ایک لمبے عرصے کے لئے جیل میں رکھنے کے لئے کافی تھی۔
ابتدائی غصے اور اشتعال کے دورے کے بعد بالآخر ہاشم فیملی نے واقعے کی سنگینی کو محسوس کرنا شروع کردیا، مگر مسئلہ یہ ہورہا تھا کہ سکندر فیملی کسی قسم کی لچک دکھانے پر تیار نہیں تھی۔
فجر تک وہاں بیٹھے رہنے کے بعد بھی مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا اور وہ بالآخر گھر واپس آگئے۔
وہ واپسی پر سارے راستے سکندر کو کیس واپس لینے پر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اور اس میں ناکام رہا تھا۔ سکندر اب اس معاملے میں اپنے بھائیوں کوشامل کرنے کے بعد سب کچھ اتنے آرام سے ختم کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔
وہ شاہنواز کے گھر آنے سے پہلے اپنے گھر سے، اپنے اور امامہ کے کچھ کپڑے لے آیا تھا۔ شاہنواز کے گھر گیسٹ روم میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے پوچھا تھا۔
’’ابو اور بھائی ریلیز ہوگئے؟‘‘ اس کا دماغ گھوم گیا تھا، تو واحد چیز جس کی اسے پروا تھی وہ صرف اتنی تھی کہ اس کے باپ اور بھائی رہا ہوجائیں۔ اس کا زخم کیسا تھا؟ اس کی طبیعت ٹھیک تھی؟ اسے ان میں سے جیسے کسی چیز میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔
’’نہیں… اور ہوں گے بھی نہیں۔‘‘ وہ بے حد خفگی سے کہتے ہوئے کپڑے تبدیل کرنے کے لئے واش روم میں گیا تھا۔ پین کلرز لینے کے باوجود ، اس وقت تک جاگتے رہنے کی وجہ سے اس کی حالت واقعی خراب تھی اور رہی سہی کسر امامہ کی عدم توجہی نے پوری کردی تھی۔
’’وہ پولیس اسٹیشن میں ہیں؟‘‘ اس کے واش روم سے نکلتے ہی اس نے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس سے پوچھا تھا۔ وہ جواب دیئے بغیر بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں۔
وہ اٹھ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
’’کیس واپس لے لو سالار… انہیں معاف کردو۔‘‘ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے ملتجیانہ انداز میں اس سے کہا۔ سالار نے آنکھیں کھول دیں۔
’’امامہ! میں اس وقت سونا چاہتا ہوں، تم سے بات نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
’’میرے ابو کی کتنی عزت ہے شہر میں، وہ وہاں کیسے ہوں گے اور کیسے برداشت کررہے ہو گے یہ سب کچھ…‘‘ وہ رونے لگی تھی۔
’’عزت صرف تمہارے ابو کی ہے؟ میری ، میرے باپ ، میری فیملی کی کوئی عزت نہیں ہے؟‘‘
وہ بے ساختہ کہہ گیا تھا۔ وہ سرجھکائے ہونٹ کاٹتے ہوئے روتی رہی۔
’’یہ سب میرا قصور ہے، میری وجہ سے ہوا ہے یہ سب کچھ، مجھے تم سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘
’’تمہارے پاس ہر چیز کی وجہ صرف شادی ہے۔ تم مجھ سے شادی کرکے جہنم میں آگئی ہو، شادی نہ ہوئی ہوتی تو جنت میں ہوتیں تم؟ ہے نا۔‘‘ وہ بری طرح برہم ہوا تھا۔
’’میں تمہیں تو الزام نہیں دے رہی، میں تو…‘‘ اس نے خائف ہوتے ہوئے کچھ کہنا چاہا تھا۔
’’Show me some loyalty Imama ویسی وفاداری جیسی تم اپنے باپ اور بھائیوں کے لئے دکھا رہی ہو۔‘‘ وہ بول نہیں سکی تھی۔ اس نے جیسے اسے جوتا کھینچ مارا تھا، اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا وہ اسے کبھی اتنی ہرٹ کرنے والی بات کہہ سکتا تھا لیکن وہ اسے کہہ رہا تھا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر اس کے بستر سے اٹھ گئی۔ سالار نے اس کو روکنے کے بجائے آنکھیں بند کرلی تھیں۔





دوبارہ اس کی آنکھ دوپہر ساڑھے بارہ بجے کندھے میں ہونے والی تکلیف کی وجہ سے کھلی تھی۔ اسے ٹمپریچر بھی ہورہا تھا۔ کندھے کو حرکت دینا مشکل ہورہا تھا اور بستر سے اٹھتے ہی اس کی نظر امامہ پڑ پڑی تھی۔ وہ صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ رکے بغیر اٹھ کر واش روم میں چلا گیا۔
نہا کر تیار ہونے کے بعد وہ باہر نکلا اور امامہ سے کوئی بات کئے بغیر وہ بیڈ روم سے چلا گیا۔ اسے اپنا آپ وہاں اجنبی لگنے لگا تھا۔ وہ واحد شخص تھا جو اس کی سپورٹ تھا اور وہ بھی اس سے برگشتہ ہورہا تھا۔
’’میں کیس واپس لے رہا ہوں۔‘‘ لنچ ٹیبل پر بیٹھے اس نے اعلان کرنے والے انداز میں کہا۔ پورے ٹیبل پر ایک لمحے کے لئے خاموشی چھا گئی۔ وہاں سکندر کے ساتھ ساتھ شاہنواز اور ان کی فیملی بھی تھی۔
’’میں نے اس پورے معاملے کے بارے میں سوچا ہے اور…‘‘
طیبہ نے بے حد تلخی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
’’تم سوچنا کب کا چھوڑ چکے ہو، یہ تمہاری بیوی کی پڑھائی ہوئی پٹی ہوگی۔‘‘
’’ممی، امامہ کو اس پوری equation میں سے نکال دیں۔‘‘
’’اچھا… تو پھر تم اسے طلاق دے دو، یہ سارا معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔‘‘
وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا رکھ دیا۔
’’یہ میں نہیں کرسکتا اور یہ میں کبھی نہیں کروں گا۔‘‘
’’تو پھر ہم بھی وہ نہیں کریں گے جو تم چاہتے ہو۔ امامہ کا باپ اور بھائی جیل میں ہی رہیں گے۔‘
طیبہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔
’’تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ یہ سارا معاملہ کتنا بڑھ چکا ہے۔ کیس واپس لینے کا مطلب ان کو شہ دینا ہے۔ تم پوری فیملی کو خطرے میں ڈال رہے ہو۔‘‘ شاہنواز نے مداخلت کی۔
’’رسک تو کیس چلنے کی صورت میں بھی ہوگا، بلکہ زیادہ ہوگا۔ یہ کیس تو مسئلہ حل نہیں کرے گا۔‘‘
وہ جانتا تھا جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، اس سے پوری فیملی کی کتنی لعنت ملامت اسے ملنے والی تھی۔ وہ سب کچھ اس کے لئے غیر متوقع نہیں تھا۔ وہ امامہ کو خوش کرسکتا تھا یا اپنی فیملی کو اور اپنی فیملی کو ناخوش کرنا اس کے لئے بہتر تھا۔
وہ اندر کمرے میں بیٹھی باہر سے آنے والی آوازیں سن رہی تھی لیکن اب وہ لوگ کیا کہہ رہے تھے، وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ ملازم بالآخر اسے کھانے کے لئے پوچھنے آیا اور وہ شدید بھوک کے باوجود نہیں گئی۔ وہ لنچ ٹیبل پر بیٹھنے کی اس وقت ہمت ہی نہیں رکھتی تھی، اس سے بھوکا مرنا زیادہ بہتر تھا۔
وہ رات کے نو بجے تک اسی طرح کمرے میں بیٹھی رہی۔ سالار کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ کوئی کال، کوئی میسج نہیں۔ وہ صوفے پر بیٹھی تھکن کے عالم میں کب سوگئی، اسے اندازہ نہیں ہوا۔
رات گئے اس کی آنکھ سالار کے کندھا ہلانے پر کھلی تھی۔ وہ ہڑبڑا گئی تھی۔
’’اٹھ جاؤ، ہمیں جانا ہے۔‘‘ وہ کمرے سے اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
وہ کچھ دیر بیٹھی اپنی آنکھیں رگڑتی رہی۔
’’کیس واپس لے لیا ہے میں نے، تمہاری فیملی ریلیز ہوگئی ہے۔‘‘ وہ ٹھٹکی تھی۔
وہ بیگ کی زپ بند کررہا تھا۔ کسی نے جیسے امامہ کے کندھوں سے منوں بوجھ ہٹایا تھا۔ اس کے چہرے پر آنے والا اطمینان وہ بھی نوٹس کئے بغیر نہیں رہ سکا۔
اس کے پیچھے باہر لاؤنج میں آتے ہوئے اس نے ماحول میں موجود تناؤ اور کشیدگی محسوس کی تھی۔ شاہنواز اور سکندر دونوں بے حد سنجیدہ تھے اور طیبہ کے ماتھے پر شکنیں تھیں۔ وہ نروس ہوئی تھی۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے اس نے صرف اپنے لئے نہیں، شاہنواز کے رویے میں سالار کے لئے بھی سرد مہری محسوس کی تھی۔
وہ سالار کے ساتھ جس گاڑی میں تھی اسے ڈرائیور چلا رہا تھا۔ سکندر اور طیبہ دوسری گاڑی میں تھے۔ سالار پورا راستہ کھڑکی سے باہر دیکھتا کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہا۔ وہ وقفے وقفے سے اسے دیکھنے کے باوجود اسے مخاطب کرنے کی ہمت نہیں کرسکی تھی۔
گھر پہنچنے کے بعد بھی سب کی خاموشی اور سرد مہری ویسی ہی تھی۔ سالار ، سکندر اور طیبہ کے ساتھ لاؤنج میں بیٹھ گیا اور وہ کمرے میں چلی آئی تھی۔
آدھے گھنٹے کے بعد ملازم اسے کھانے پر بلانے آیا تھا۔
’’تم مجھے یہیں پر کھانا دے دو۔‘‘ بھوک اس قدر شدید تھی کہ اس بار وہ کھانے سے انکار نہیں کرسکی۔ ملازم کی واپسی دو منٹ بعد ہی ہوگئی تھی۔
’’سالار صاحب کہہ رہے ہیں، آپ باہر سب کے ساتھ آکر کھانا کھائیں۔‘‘
وہ کچھ دیر بیٹھی رہی، یہ بلاوا کچھ غیر متوقع تھا۔ ٹیبل پر سکندر، طیبہ اور گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا اس وقت بہت مشکل تھا۔ وہ کھانا اندر لانے کے لئے نہ کہہ چکی ہوتی تو اس وقت بھوک نہ ہونے کا بہانہ کردیتی لیکن اب یہ مشکل تھا۔
ہمت کرتے ہوئے جب وہ بالآخر ڈائننگ روم میں آئی تو سب ٹیبل پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ کامران کی بیوی زویا، طیبہ سے کچھ بات کررہی تھی، اس کی آمد پر کوئی خاص ردعمل نہیں ہوا۔ صرف سالار اپنی پلیٹ میں کچھ ڈالے بغیر اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس کے بیٹھنے پر اسی نے اس سے پوچھتے ہوئے چاول کی ڈش اس کی طرف بڑھائی تھی اور پھر کھانے کے دوران وہ بغیر پوچھے کچھ نہ کچھ اس کی طرف بڑھاتا گیا۔ وہ ٹیبل پر ہونے والی بات چیت خاموشی سے سنتی رہی اور شکر ادا کرتی رہی کہ وہ اس سے متعلقہ نہیں تھی۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایشو اب اس لئے زیر بحث نہیں تھا کیوں کہ وہ پہلے ہی اس حوالے سے ان سب کی لعنت و ملامت سمیٹ چکا تھا۔
ماحول آہستہ آہستہ نارمل ہورہا تھا۔ طوفان گزرنے کے بعد اب اس کے اثرات بھی معدوم ہونے لگے تھے۔
وہ کھانے کے بعد بیڈروم میں سالار کے ساتھ ہی آئی۔ وہ ایک بار پھر بات چیت کئے بغیر بیڈ پر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ وہ اندھیرے میں کچھ دیر بستر پر بیٹھی رہی، پھر اس نے جیسے مصالحت کی پہلی کوشش کی۔
’’سالار!‘‘ آنکھیں بند کئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس کا جواب دے یا نہ دے۔
’’سالار!‘‘
’’بولو۔‘‘ اس نے بالآخر کہا۔
’’زخم گہرا تو نہیں تھا؟‘‘ نرم آواز سے اس نے پوچھا۔
’’کون سا والا؟‘‘ ٹھنڈے لہجے میں کیا ہوا سوال اسے لاجواب کر گیا تھا۔
’’تمہیں درد تو نہیں ہورہا؟‘‘ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے سوال بدلا تھا۔
’’اگر ہو بھی تو کیا فرق پڑتا ہے… میرا زخم ہے… میرا درد ہے۔‘‘
اب جواب نے اسے لاجواب کیا تھا۔
’’بخار ہورہا ہے تمہیں کیا؟‘‘ اس کا ہاتھ کندھے سے ہٹ کر پیشانی پر گیا تھا۔ بات بدلنے کے لئے وہ اور کیا کرتی۔ اس کا ہاتھ پیشانی سے ہٹاتے ہوئے سالار نے اسی ہاتھ سے سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا۔
’’امامہ! تم وہ کیوں نہیں پوچھتی جو پوچھنا چاہتی ہو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس نے کہا تھا۔ وہ چند لمحے اسے کچھ بے بسی سے دیکھتی رہی، پھر اس نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ابو سے کیا بات ہوئی تمہاری؟‘‘
’’وہ بتاؤں جو میں نے ان سے کہا یا وہ جو انہوں نے مجھ سے ؟‘‘ انداز اب بھی تیکھا تھا۔
’’انہوں نے کیا کہا تم سے؟‘‘ اس نے جواب میں ہاشم مبین کی گالیوں کو بے حد بلنٹ انداز میں انگلش میں ٹرانسلیٹ کیا تھا۔ امامہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے۔
’’میں گالیوں کا نہیں پوچھ رہی، انہوں نے ویسے کیا کہا تم سے؟‘‘
اس نے کچھ خفگی اور سرخ چہرے کے ساتھ اس کی بات کاٹ دی تھی۔
’’اوہ! سوری، ان کی گفتگو میں ستر فیصد گالیاں تھیں، اگر میں بہت مختصر بھی کروں تو بھی کتنا ایڈٹ کرسکتا ہوں۔ بہر حال باقی باتوں میں انہوں نے مجھے کہا کہ میں سور ہوں لیکن کتے جیسی موت مروں گا اور جو کچھ میں نے ان کی بیٹی کے ساتھ کیا ہے، وہ میری بیٹی اور بہن کے ساتھ ہو۔ اس کے لئے وہ خصوصی طور پر دعا یا بددعا فرمائیں گے۔ تمہارے لئے بھی ان کے کچھ پیغام ہیں لیکن وہ اس قابل نہیں ہیں کہ میں تمہیں دوں۔ یہ تھی ان کی گفتگو۔‘‘ وہ نم آنکھوں کے ساتھ گنگ بیٹھی اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
وہ اپ سیٹ تھا اس کا اندازہ لگانا آسان تھا لیکن وہ کتنا ہرٹ ہوا تھا، یہ بتانا مشکل تھا۔
’’انہوں نے تم سے ایکسکیوز نہیں کی؟‘‘ بھرائی ہوئی آواز میں اس نے پوچھا تھا۔
’’کی تھی انہوں نے، انہیں بڑا افسوس تھا کہ ان کے پاس اس وقت کوئی پسٹل کیوں نہیں تھا یا کوئی اچھا والا چاقو، کیوں کہ وہ مجھے صحیح سلامت دیکھ کر بے حد ناخوش تھے۔‘‘ اس کا لہجہ طنزیہ تھا۔
’’پھر تم نے کیس کیوں ختم کیا؟‘‘
’’تمہارے لئے کیا۔‘‘ اس نے دوٹوک اندا زمیں کہا۔ وہ سرجھکا کر رونے لگی تھی۔
’’میں تم سے اور تمہاری فیملی سے کتنی شرمندہ ہوں، میں نہیں بتاسکتی تمہیں… اس سے تو اچھا تھا کہ وہ مجھے مار دیتے۔‘‘
’’میں نے تم سے کوئی شکایت کی ہے؟‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’نہیں، لیکن تم مجھ سے ٹھیک سے بات نہیں کررہے، کوئی بھی نہیں کررہا۔‘‘
’’میں کل رات سے خوار ہورہا ہوں، پریشان تھا۔ مجھے تو تم رہنے دو، مجھے تم سے اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن جہاں تک میری فیملی کا تعلق ہے تو تھوڑا بہت توری ایکٹ کریں گے وہ۔ That’s but natural…دو چار ہفتے گزریں گے، سب ٹھیک ہوجائیں گے۔‘‘ اس نے رسانیت سے کہا تھا۔
امامہ نے بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا، وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’میری کوئی عزت نہیں کرتا…‘‘
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو؟ کسی نے تم سے کچھ کہا؟ پاپا نے؟ ممی نے یا کسی اور نے؟‘‘
’’کسی نے کچھ نہیں کہا لیکن…‘‘
سالار نے پھر اس کی بات کاٹ دی۔ ’’اور کوئی کچھ کہے گا بھی نہیں تم سے، جس دن کوئی تم سے کچھ کہے، تم تب کہنا کہ تمہاری کوئی عزت نہیں کرتا۔‘‘ وہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔
’’میں تمہیں کبھی اپنے باپ کے گھر میں بھی لے کر نہ آتا اگر مجھے یہ خدشہ ہوتا کہ یہاں تمہیں عزت نہیں ملے گی۔ تم سے شادی جیسے بھی ہوئی ہے، تم میری بیوی ہو اور ہمارے سرکل میں کوئی ایسا نہیں ہے جسے یہ پتا نہیں ہے۔ اب یہ رونا دھونا بند کرو۔‘‘
اس ے قدرے جھڑکنے والے انداز میں اس سے کہا۔
’’ساڑے چھ بجے کی فلائٹ ہے… سوجاؤ اب۔‘‘ اس نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ وہ اسے بتا نہیں سکتی تھی کہ اس نے ڈیڑھ دن میں جان لیا تھا کہ وہ دنیا میں کتنی محفوظ اور غیر محفوظ تھی۔ اس کے پاؤں کے نیچے زمین اس کے وجودکی وجہ سے تھی۔ اس کے سر پر سایہ دینے والا آسمان بھی اسی کی وجہ سے تھا۔ اس کا نام اس کے نام سے ہٹ جاتا تو دنیا میں کوئی اور اس کے لئے کھڑا ہونے والا نہیں تھا۔
زندگی میں اس سے کوئی رشتہ نہ ہونے کے باوجود،وہ ہمیشہ اس کی مدد اور سہارے کے لئے محتاج رہی تھی اور اس تعلق کے بعد یہ محتاجی بہت بڑھ گئی تھی۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی تھی یہ پروا کئے بغیر کہ اس کے سر رکھنے سے اس کے کندھے میں تکلیف ہوسکتی ہے۔ وہ جانتی تھی، وہ اسے کبھی نہیں ہٹا ئے گا اور سالار نے اسے نہیں ہٹا یا تھا۔ بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اس نے دوسرے ہاتھ سے لائٹ آف کردی۔
’’ممی ٹھیک کہتی ہیں۔‘‘ اس کے سینے پر سررکھے اس نے سالار کو بڑبڑاتے سنا۔
’’کیا؟‘‘ وہ چونکی تھی۔
’’تم نے مجھ پر جادو کیا ہوا ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!