آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

اس نے سرجھکائے کہا۔ وہ اسے یہ نہیں بتاسکتی تھی کہ طیبہ کے مطالبے نے چند لمحوں کے لئے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی تھی۔ آخری چیز جو وہ تصور کرسکتی تھی، وہ وہی تھی کہ کوئی سالار سے اسے چھوڑنے کے لئے کہہ سکتا تھا اور وہ بھی اتنے صاف الفاظ میں، اتنے ہتک آمیز انداز میں۔
’’تم جب یہاں آتے ہو وہ یہ سب کچھ کہتی ہیں تم سے؟‘‘
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے سالار سے پوچھا جو اسے تسلی دینے کے لئے کچھ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔
’’نہیں، ہر بار نہیں کہتیں، کبھی کبھی وہ اوورری ایکٹ کرجاتی ہیں۔‘‘ اس نے ہموار لہجے میں کہا۔ ’’میں اب اسلام آباد کبھی نہیں آؤں گی۔‘‘ اس نے یک دم کہا۔
’’لیکن میں تو آؤں گا… اور میرے ساتھ تمہیں بھی آنا پڑے گا۔‘‘ الفاظ سیدھے تھے مگر لہجہ نہیں۔ اس نے سالار کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی تھی۔
’’تم اپنی ممی کی سائیڈ لے رہے ہو؟‘‘
’’ہاں، جیسے میں نے ان کے سامنے تمہاری سائیڈ لی۔‘‘
وہ اس کے جواب پر چند لمحوں کے لئے بول نہیں سکی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔
خاموشی کا ایک اور لمبا وقفہ آیا تھا پھر سالار نے کہا۔
’’زندگی میں اگر کبھی میرے اور تمہارے درمیان علیحدگی جیسی کوئی چیز ہوئی تو اس کی وجہ میرے پیرنٹس یا میری فیملی نہیں بنے گی، کم از کم یہ ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔‘‘
وہ پھر بھی خاموش رہی تھی۔
’’کچھ بولو۔‘‘
’’کیا بولوں؟‘‘
’’جب تم خاموش ہوتی ہو تو بہت ڈر لگتا ہے مجھے۔‘‘
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
’’مجھے لگتا ہے، تم پتا نہیں اس بات کو کیسے استعمال کروگی میرے خلاف…‘‘





’’کبھی۔‘‘ اس نے جملہ مکمل کرنے کے بعد کچھ توقف سے ایک آخری لفظ کا اضافہ کیا۔ وہ اسے دیکھتی رہی، لیکن خاموش رہی۔ سالار نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔
’’تم میری بیوی ہو امامہ… وہ میری ماں ہیں۔ میں تمہیں شٹ اپ کہہ سکتا ہوں، انہیں نہیں کہہ سکتا۔ وہ ایک ماں کی طرح سوچ رہی ہیں اور ماں کی طرح ری ایکٹ کررہی ہیں، جب تم ماں بنوگی تو تم بھی اسی طرح ری ایکٹ کرنے لگوگی۔ انہوں نے تم سے کچھ نہیں کہا، مجھ سے کہا۔ میں نے اگنور کردیا۔ جس چیز کو میں نے اگنور کردیا، اسے تم سیریسلی لوگی تو یہ حماقت ہوگی۔‘‘
وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ وہ سن رہی تھی، جب وہ خاموش ہوا تو ا س مدھم آواز میں کہا۔
’’میرے لئے سب کچھ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا، جب سے شادی ہوئی ہے، یہی کچھ ہورہا ہے۔ تمہارے لئے ایک کے بعد ایک مسئلہ آجاتا ہے۔ مجھ سے شادی اچھی ثابت نہیں ہوئی تمہارے لئے۔ ابھی سے اتنے مسئلے ہورہے ہیں تو پھر بعد میں پتا نہیں…‘‘
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’شادی ایک دوسرے کی قسمت سے نہیں کی جاتی، ایک دوسرے کے وجود سے کی جاتی ہے۔ اچھے دنوں کے ساتھ کے لئے لوگ فرینڈشپ کرتے ہیں، شادی نہیں۔ ہم دونوں کا Present, Past, Future جو بھی ہے، جیسا بھی ہے، ایک ساتھ ہی ہے اب… اگر تم کولگتا ہے کہ میں یہ expect کررہا تھا کہ تم سے شادی کے بعد پہلے میرا پرائز بانڈ نکلے گا، پھر مجھے کوئی بونس ملے گا، پھر میری پروموشن ہوگی اور پھر میں لوگوں کے درمیان بیٹھ کر بڑی خوشی سے یہ بتاؤں گا کہ میرڈ لائف میرے لئے بڑی لکی ہے… تو سوری مجھے ایسی کوئی expectatio نہیں تھیں۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ میرے لئے ہوسکتا ہےuntimely، غیر متوقع نہیں ہوسکتا میرے لئے۔ میں تمہارے لئے کس حد تک جاسکتا ہوں، کتنا مخلص ہوں وہ وقت بتاسکتا ہے، اس لئے تم خاموشی سے وقت کو گزرنے دو۔ یہ چائے تو ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ جاؤ! دوبارہ چائے بنالاؤ۔‘‘
وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ کوئی چیز اس کی آنکھوں میں امڈنے لگی تھی۔ اللہ تعالیٰ انسان کو زندگی میں کہاں کہاں سے تحفظ دیتا ہے۔ کہاں کہاں سے دیواریں لاکر کھڑا کردیتا ہے انسان کے گرد… وہ ڈاکٹر سبط علی کے سائے میں رہی تھی تو اسے یقین تھا کہ اس سے زیادہ عزت، زیادہ تحفظ کوئی اسے دے ہی نہیں سکتا۔ کم از کم شادی جیسے رشتے سے وہ ذمہ داری کے علاوہ کسی چیز کی توقع نہیں رکھے ہوئے تھی اور اب اگر وہ اس شخص کے ساتھ وابستہ ہوئی تھی تو وہ تحفظ کے نئے مفہوم سے آگاہ ہورہی تھی۔ ’’اس کی ضرورت نہیں ہے امامہ!‘‘ سالار نے اس کے چہرے پر پھیلتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے اسے نرمی سے کہا۔ وہ سرہلاتے اور اپنی ناک رگڑتے ہوئے اٹھ گئی۔ اس کی واقعی ضرورت نہیں تھی۔
٭…٭…٭
سالار نے اس مسئلے کو کیسے حل کیا تھا، یہ امامہ نہیں جانتی تھی۔ اسکول کی تعمیر دوبارہ کیسے شروع ہوئی تھی، اسے یہ بھی نہیں پتا تھا، لیکن اسکول دوبارہ بن رہا تھا۔ سالار پہلے سے زیادہ مصروف تھا اور اس کی زندگی میں آنے والا ایک اور طوفان کسی تباہی کے بغیر گزر گیا تھا۔
٭…٭…٭
’’مجھے ہاتھ دکھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘‘ سالار نے دوٹوک انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن مجھے ہے۔‘‘ وہ اصرار کررہی تھی۔
’’یہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔‘‘ اس نے بچوں کی طرح اسے بہلایا۔
’’کوئی بات نہیں، دکھانے میں کیا حرج ہے۔‘‘ اس کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔
’’تم کیا جاننا چاہتی ہو اپنے مستقبل کے بارے میں… مجھ سے پوچھ لو۔‘‘
سالار اسے اس پامسٹ کے پاس لے جانے کے موڈ میں نہیں تھا جو اس فائیو اسٹار ہوٹل کی لابی میں تھا، جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھانا کھانے کے لئے آئے تھے اور کھانے کے بعد اس کی بیوی کو پتا نہیں وہ پامسٹ کہاں سے یاد آگیا تھا۔
’’ویری فنی!‘‘ اس نے مذاق اڑایا تھا۔ ’’اپنے مستقبل کا تو تمہیں پتا نہیں،میرے کا کیسے ہوگا؟‘‘
’’کیوں تمہارا اور میرا مستقبل ساتھ ساتھ نہیں ہے کیا؟‘‘ اس نے مسکرا کر اسے جتایا تھا۔
’’اسی لئے تو کہہ رہی ہوں، پامسٹ کے پاس چلتے ہیں، اس سے پوچھتے ہیں۔‘‘ اس کا اصرار بڑھا تھا۔
’’دیکھو! ہمارا ’’آج‘‘ٹھیک ہے، بس کافی ہے۔ تمہیں ’’کل‘‘ کا مسئلہ کیوں ہورہا ہے؟‘‘ وہ اب بھی رضا مند نہیں ہورہا تھا۔
’’مجھے ہے کل کا مسئلہ…‘‘ وہ کچھ جھلا کر بولی تھی، اسے شاید یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس کی فرمائش پر اس طرح کے ردعمل کا اظہار کرے گا۔
’’کتنے لوگ ہاتھ دکھا کر جاتے ہیں اس پامسٹ کو… تمہیں پتا ہے میری کولیگز کو اس نے ان کے فیوچر کے بارے میں کتنا کچھ ٹھیک بتایا تھا۔ بھابھی کی بھی کتنی کزنز آئی تھیں، اس کے بارے میں…‘‘
وہ اب اسے قائل کرنے کے لئے مثالیں دے رہی تھی۔
’’بھابھی آئی تھیں اس کے پاس؟‘‘ اس نے چونک کر پوچھا تھا۔
’’نہیں۔‘‘ وہ اٹکی۔
’’تو؟‘‘
’’تو یہ کہ ان کو انٹرسٹ نہیں ہوگا… مجھے تو ہے… اور تم نہیں لے کر جاؤگے تو میں خود چلی جاؤں گی۔‘‘ وہ یک دم سنجیدہ ہوگئی تھی۔
’’کب؟‘‘
’’ابھی۔‘‘
وہ بے اختیار ہنسا اور اس نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پامسٹ کو ہاتھ دکھانا دنیا کی سب سے بڑی حماقت ہے اور میں تم سے ایسی کسی حماقت کی توقع نہیں کرتا تھا، لیکن اب تم ضد کررہی ہو تو ٹھیک ہے… تم دکھا لو ہاتھ۔‘‘
’’تم نہیں دکھاؤگے؟‘‘ اس کے ساتھ لابی کی طرف جاتے ہوئے اس نے کہا۔
’’نہیں۔‘‘ سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
’’چلو کوئی بات نہیں۔ خود ہی تو کہہ رہے ہو کہ میرا اور تمہارا مستقبل ایک ہے تو جو کچھ میرے بارے میں بتائے گا وہ پامسٹ ، وہ تمہارے بارے میں بھی تو ہوگا۔‘‘ امامہ اب اسے چھیڑ رہی تھی۔
’’مثلاً؟‘‘ سالار نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’مثلاً… اچھی خوشگوار ازدواجی زندگی اگر میری ہوگی تو تمہاری بھی تو ہوگی۔‘‘
’’ضروری نہیں ہے۔‘‘ وہ اسے تنگ کررہا تھا۔
’’ہوسکتا ہے شوہر کے طور پر میری زندگی بری گزرے تمہارے ساتھ۔‘‘
’’تو مجھے کیا؟ میری تو اچھی گزر رہی ہوگی۔‘‘ امامہ نے کندھے اچکا کر اپنی بے نیازی دکھائی۔
’’تم عورتیں بڑی selfish ہوتی ہو۔‘‘ اس نے ساتھ چلتے ہوئے جیسے اس کے رویے کی مذمت کی۔
’’تو نہ کیا کرو، پھر ہم سے شادی… نہ کیا کرو ہم سے محبت… ہم کون سا مری جارہی ہوتی ہیں تم مردوں کے لئے؟ اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تھا۔ وہ ہنس پڑا، چند لمحوں کے لئے وہ واقعی لاجواب ہوگیا تھا۔
’’ہاں، ہم ہی مرے جارہے ہوتے ہیں تم لوگوں پر… عزت کی زندگی راس نہیں آتی، شاید اس لئے۔‘‘ وہ چند لمحوں بعد بڑبڑایا۔
’’تمہارا مطلب ہے، تم شادی سے پہلے عزت کی زندگی گزار رہے تھے؟‘‘ وہ یک دم برامان گئی تھی۔
’’ہم شاید generaliseکررہے تھے۔‘‘ وہ اس کا بدلتا موڈ دیکھ کر گڑبڑایا۔
’’نہیں، تم صرف اپنی بات کرو۔‘‘
’’تم اگر ناراض ہورہی ہو تو چلو پھر پامسٹ کے پاس نہیںجاتے۔‘‘ سالار نے بے حد سہولت سے اسے موضوع سے ہٹایا تھا۔
’’نہیں، میں کب ناراض ہوں، ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔‘‘ اس کا موڈ ایک لمحہ میں بدلا تھا۔
’’ویسے تم پوچھو گی کیا پامسٹ سے؟‘‘ اس نے بات کو مزید گھمایا۔
’’بڑی چیز ہیں۔‘‘ اس نے بے حد سنجیدگی سے جواب دیا۔وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر تب تک وہ پامسٹ کے پاس پہنچ چکے تھے۔
ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھا وہ غیر دلچسپی سے اپنی بیوی اور پامسٹ کی ابتدائی گفتگو سنتا رہا، لیکن اسے اپنی بیوی کی دلچسپی اور سنجیدگی دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔
پامسٹ اب اس کا ہاتھ پکڑے عد سے کی مدد سے اس کی لکیروں کا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر اس نے بے حد سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔
’’لکیروں کا علم نہ تو حتمی ہوتا ہے، نہ ہی الہامی… ہم صرف وہی بتاتے ہیں جو لکیریں بتارہی ہوتی ہیں۔ بہر حال مقدر بناتا، سنوارتا اور بگاڑتا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔‘‘
وہ بات کرتے کرتے چند لمحوں کے لئے رکا، پھر اس نے جیسے حیرانی سے کچھ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کا چہرہ دیکھا اور پھر برابر کی کرسی پر بیٹھے اس کے شوہر کو جو اس وقت اپنے بلیک بیری پر کچھ میسجز دیکھنے میں مصروف تھا۔
’’بڑی حیرانی کی بات ہے۔‘‘ پامسٹ نے دوبارہ ہاتھ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس نے کچھ بے تاب ہوکر پامسٹ سے پوچھا۔
’’آپ کی یہ پہلی شادی ہے؟‘‘
بلیک بیری پر اپنے میسج چیک کرتے کرتے اس نے چونک کر پامسٹ کو دیکھا۔ اس کا خیال تھا یہ سوال اس کے لئے تھا لیکن پامسٹ کی مخاطب اس کی بیوی تھی۔
’’ہاں…‘‘ امامہ نے کچھ حیران ہوکر پہلے پامسٹ اور پھر اسے دیکھ کر کہا۔
’’اوہ ! اچھا…‘‘ پامسٹ پھر کسی غور و خوض میں مشغول ہوگیا تھا۔
’’آپ کے ہاتھ پر دوسری شادی کی لکیر ہے… ایک مضبوط لکیر… ایک خوشگوار، کامیاب… دوسری شادی۔‘‘
پامسٹ نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے جیسے حتمی انداز میں کہا۔ امامہ کا رنگ اڑگیا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے شوہر کو دیکھا۔ وہ اپنی جگہ پر بالکل ساکت تھا۔
’’آپ کو یقین ہے؟‘‘ امامہ کو لگا جیسے پامسٹ نے کچھ غلط پڑھا تھا اس کے ہاتھ پر۔
’’جہاں تک میرا علم ہے اس کے مطابق تو آپ کے ہاتھ پر شادی کی دو لکیریں ہیں اور دوسری لکیر پہلی لکیر کی نسبت زیادہ واضح ہے۔‘‘
پامسٹ اب بھی اس کے ہاتھ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ سالار نے امامہ کے کسی اگلے سوال سے پہلے جیب سے والٹ اور والٹ سے ایک کرنسی نوٹ نکال کر پامسٹ کے سامنے میز پر رکھا پھر بڑی شائستگی سے کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’تھینک یو… بس اتنی انفارمیشن کافی ہے… ہم لیٹ ہورہے ہیں، ہمیں جانا ہے۔‘‘
اسے اٹھ کر وہاں سے چلتے دیکھ کر امامہ نہ چاہنے کے باوجود اٹھ کر ا س کے پیچھے آئی تھی۔
’’مجھے ابھی اور بہت کچھ پوچھنا تھا اس سے۔‘‘ اس نے خفگی سے سالار کے برابر میں آتے ہوئے کہا۔
’’مثلاً؟‘‘ سالار نے کچھ تیکھے انداز میں کہا۔ وہ فوری طور پر اس کے سوال کا جواب نہیں دے سکی۔
’’اس نے مجھے اور پریشان کردیا ہے۔‘‘ امامہ نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا، لیکن جب وہ پارکنگ میں آگئے تو اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔
“It was your choice.” سالار نے کچھ بے رخی سے کہا تھا۔ ’’اس نے تمہیں نہیں بلایا تھا، تم خود گئی تھیں اس کے پاس اپنا مستقبل دیکھنے…‘‘
’’سالار! تم مجھے چھوڑ دوگے کیا؟‘‘ امامہ نے اس کی بات کے جواب میں یک دم کہا۔
’’یہ نتیجہ اگر تم نے پامسٹ کی پیش گوئی کے بعد نکالا ہے تو مجھے تم پر افسوس ہے۔‘‘ سالار کو غصہ آیا تھا اس پر، امامہ کچھ خفیف سی ہوگئی۔
’’ایسے ہی پوچھا ہے میں نے۔‘‘
’’تمہیں پہلے کم وہم تھے میرے بارے میں کہ کسی پامسٹ کی مدد کی ضرورت پڑتی۔‘‘ سالار کی خفگی کم نہیں ہوئی تھی۔
’’دوسری شادی تو وہ تمہاری Predict کررہا ہے۔ ایک کامیا ب خوش گوار ازدواجی زندگی، اور تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا میں تمہیں چھوڑ دوں گا؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے، تم مجھے چھوڑ دو۔‘‘
سالار نے اس بار چبھتے ہوئے انداز میں کہا تھا۔ ان کی گاڑی اب مین روڈ پر آچکی تھی۔




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!