آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

’’امامہ! یہ وسیم نامہ بند ہوسکتا ہے اب۔‘‘ وہ تیسرا دن تھا جب ڈنر پر بالآخر سالار کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی۔ وہ تین دنوں سے مسلسل ناشتے، ڈنر اور رات سونے سے پہلے صرف وسیم کی باتیں ، بار بار سن رہا تھا۔ امامہ بری طرح وسیم پر فدا تھی۔ یہ سالار کو اندازہ تھا کہ وہ وسیم سے ملنے کے بعد خوش ہوگی، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کی خوشی اس انتہا کو پہنچے گی کہ خود اسے مسئلہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ وہ حیران ہوئی تھی۔
’’مطلب یہ کہ دنیا میں وسیم کے علاوہ بھی بہت سے لوگ ہیں جن کی تمہیں پروا کرنی چاہیے۔‘‘ سالار نے اسے ان ڈائریکٹر انداز میں کہا۔
’’تمہیں میرا وسیم کے بارے میں باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا؟‘‘ اس نے یک دم جیسے کوئی اندازہ لگایا اور اس کے لہجے میں ایسی بے یقینی تھی کہ وہ ’’ہاں‘‘ نہیں کہہ سکا۔
’’میں نے کب کہا کہ مجھے برا لگتا ہے۔ ویسے ہی کہہ رہا ہوں تمہیں۔‘‘ وہ بے ساختہ بات بدل گیا۔
’’ہاں، میں بھی سوچ رہی تھی، تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، وہ تمہارا بیسٹ فرینڈ ہے۔‘‘ وہ یک دم مطمئن ہوئی۔ سالار اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ اس کا بیسٹ فرینڈ ہے نہیں، کبھی تھا۔
’’تمہارے بارے میں بہت کچھ بتاتا تھا وہ۔‘‘
سالار کھانا کھاتے کھاتے رکا۔ ’’میرے بارے میں کیا…ـ؟‘‘
’’سب کچھ۔‘‘ وہ اسی روانی سے بولی۔
سالار کے پیٹ میں گرہیں پڑیں۔ ’’سب کچھ کیا؟‘‘
’’مطلب جو کچھ بھی تم کرتے تھے۔‘‘
سالار کی بھوک اڑی تھی۔
’’مثلاً…؟‘‘ وہ پتا نہیں اپنے کن خدشات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ سوچ میں پڑی۔
’’جیسے تم جس سے ڈرگزلیتے تھے، ان کے بارے میں… اور جب تم لاہور میں اپنے کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ ریڈ لائٹ ایریا گئے تھے تو تب بھی۔‘‘
وہ بات مکمل نہیں کرسکی۔ پانی پیتے ہوئے سالار کو اچھالگا تھا۔
’’تمہیں اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ میں…‘‘ سالار خود بھی اپنا سوال پورا نہیں دہراسکا۔
’’جب بھی جاتے تھے تو بتاتا تھا۔‘‘
سالار کے منہ سے بے اختیار وسیم کے لئے زیر لب گالی نکلی تھی اور امامہ نے اس کے ہونٹوں کی حرکت کو پڑھا تھا۔وہ بری طرح اپ سیٹ ہوئی۔
’’تم نے اسے گالی دی ہے؟‘‘ اس نے جیسے شاکڈ ہوکر سالار سے کہا۔
’’ہاں، وہ سامنے ہوتا تو میں اس کی دو چار ہڈیاں بھی توڑ دیتا۔ وہ اپنی بہن سے یہ باتیں جاکر کرتا تھا… اور میری باتیں… I can’t imagine ۔‘‘ وہ بری طرح خفا ہوا تھا۔ ’’سب کچھ‘‘ کی دو جھلکیوں نے اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑادیئے تھے۔





’’تم میرے بھائی کو دوبارہ گالی مت دینا۔‘‘
امامہ کا موڈ بھی آف ہوگیا تھا۔ وہ کھانے کے برتن سمیٹنے لگی تھی۔ سالار جواباً کچھ کہنے کے بجائے بے حد خفگی سے کھانے کی میز سے اٹھ گیا تھا۔
وہ تقریباً دو گھنٹے کے بعد بیڈ روم میں سونے کے لئے آئی تھی۔ وہ اس وقت معمول کے مطابق اپنی ای میلز چیک کرنے میں مصروف تھا۔ وہ خاموشی سے اپنے بیڈ پر آکر کمبل خود پر کھینچتے ہوئے لیٹ گئی تھی۔
سالار نے ای میل چیک کرتے گردن موڑ کر اسے دیکھا، اسے اسی ردمل عمل کی توقع تھی۔ وہ روز سونے سے پہلے کوئی کتاب یا ناول پڑھتی تھی اور کتاب پڑھنے کے دوران اس سے باتیں بھی کرتی تھی۔ یہ خاموشی اس دن ہوتی تھی جس دن وہ اس سے خفا ہوتی تھی۔ اس نے اپنا بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ بھی آف کرلیا تھا۔
’’میں نے وسیم کو ایسا کچھ نہیں کہا جس پر تم اس طرح ناراض ہوکر بیٹھو۔‘‘
سالار نے مفاہمت کی کوششوں کا آغاز کیا۔ وہ اسی طرح کروٹ دوسری طرف لئے بے حد و حرکت لیٹی رہی۔
’’امامہ! تم سے بات کررہاہوں میں۔‘‘ سالار نے کمبیل کھینچا تھا۔
’’تم اپنے چھوٹے بھائی عمار کو وہی گالی دے کر دکھاؤ۔‘‘ اُس کے تیسری بار کمبل کھینچنے پر وہ بے حد خفگی سے اس کی طرف کروٹ لیتے ہوئے بولی۔
سالار نے بلاتوقف وہی گالی عمار کو دی۔ چند لمحوں کے لئے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا کہے۔ اگر دنیا میں ڈھٹائی کی کوئی معراج تھی تو وہ، وہ تھا۔
’’میں پاپا کو بتاؤں گی۔‘‘امامہ نے بالآخر سرخ چہرے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’تم نے کہا تھا عمار کو گالی دینے کو۔‘‘ وہ ویسے ہی اطمینان سے بولا تھا۔ ’’ویسے تمہارے بھائی کو اس سے زیادہ خراب گالیاں میں اس کے منہ پر دے چکا ہوں اور اس نے کبھی مائنڈ نہیں کیا اور اگر تم چاہوتو اگلی بار جب وہ یہاں آئے گا تو میں تمہیں دکھادوں گا۔‘‘
وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھ کر بیٹھی تھی۔
’’تم وسیم کو یہاں میرے سامنے گالیاں دوگے؟‘‘ اسے بے حد رنج ہوا تھا۔
’’جو کچھ اس نے کیا ہے، میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو اسے گالیاں ہی دیتا اور اس سے زیادہ بری۔‘‘ سالار نے لگی لپٹی کے بغیر کہا۔
’’لیکن چلو، آئی ایم سوری۔‘‘ وہ اس بار پھر اس کی شکل دیکھ کر رہ گئی تھی۔
سکندر عثمان ٹھیک کہتے تھے۔ ان کی وہ اولاد سمجھ میں نہ آنے والی چیز تھی۔
’’لیکن پاپا وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے… وہ میری ہر خواہش پوری کرتا ہے… میری تو کوئی بات نہیں ٹالتا…‘‘ اس نے ایک بار سکندر کے پوچھنے پر کہ وہ اس کا خیال رکھتا تھا، کے جواب میں سالار کی تعریف کی تھی۔
’’امامہ! یہ جو تمہارا شوہر ہے، یہ دنیا میں اللہ نے صرف ایک پیس پیدا کیا تھا۔ تیس سال میں نے باپ کے طور پر جس طرح اس کے ساتھ گزارے ہیں، وہ میں ہی جانتا ہوں۔ اب باقی کی زندگی تمہیں گزارنی ہے اس کے ساتھ… یہ تمہارے سامنے بیٹھ کر تمہاری آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے، اور تمہیں کبھی پتا نہیں چل سکتا۔ اس نے جو کرنا ہوتا ہے، وہ کرنا ہوتا ہے۔ چاہے ساری دنیا ختم ہوجائے اسے سمجھا سمجھاکر، اور کبھی اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ یہ تمہاری بات مان کر اپنی مرضی نہیں کرے گا۔‘‘
سالار نے سرجھکائے مسکرا ہوا باپ کی باتیں سنتا رہا تھا اور وہ کچھ الجھی نظروں سے باری باری اسے اور سکندر کو دیکھتی رہی تھی۔
’’آہستہ آہستہ پتا چل جائے گا تمہیں کہ سالار چیز کیا ہے۔ یہ پانی میں آگ لگانے والی گفتگو کا ماہر ہے۔‘‘
سالار نے کسی ایک بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا تھا۔ سکندر کے پاس سے واپسی کے بعد امامہ نے سالار سے کہا۔
’’تمہارا امپریشن بہت خراب ہے پاپا پر…تمہیں کوئی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔‘‘
’’کیسی وضاحت؟ وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔ تمہیں ان کی باتیں غور سے سننی چاہیے تھیں۔‘‘
وہ تب بھی اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔
اور وہ اب بھی اس کا منہ دیکھ رہی تھی۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ وہ پھر کہہ رہا تھا۔
’’تم شرمندہ تو نہیں ہو؟‘‘ اس نے اسے شرمندہ کرنے کی ایک آخری کوشش کی۔
’’ہاں، وہ تو میں نہیں ہوں، لیکن چونکہ تمہیں میرا سوری کہنا اچھا لگتا ہے، اس لئے آئی ایم سوری۔‘‘
اس نے تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ امامہ نے جواب دینے کے بجائے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا پورا گلاس پیا اور دوبارہ کمبل کھینچ کر لیٹ گئی۔
’’پانی اور لادوں؟‘‘ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔ امامہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
٭…٭…٭
وہ نیند میں سیل فون کی آواز پر ہڑبڑائی تھی۔ وہ سالار کا سیل فون تھا۔
’’ہیلو!‘‘ سالار نے نیند میں کروٹ لیتے ہوئے سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر کال ریسیو کی۔ امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔
’’ہاں، بات کررہا ہوں۔‘‘ اس نے سالار کو کہتے سنا۔ پھر اسے محسوس ہوا جیسے وہ یک دم بستر سے نکل گیا تھا۔ امامہ نے آنکھیں کھولتے ہوئے نیم تاریکی میں اسے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ لائٹ آن کئے بغیر اندھیرے میں ہی کمرے سے نکل کر لاؤنج میں چلا گیا تھا۔
وہ کچھ حیران ہوئی تھی وہ کس کا فون ہوسکتا تھا، جس کے لئے وہ رات کے اس پہر یوں اٹھ کر کمرے سے گیا تھا۔ آنکھیں بند کئے وہ کچھ دیر اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی، لیکن جب وہ کافی دیر تک نہیں آیا تو وہ کچھ بے چین اٹھ کر کمرے سے لاؤنج میں آئی تھی۔ وہ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھا فون پر بات کررہا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے وہ فون پر بات کرتے کرتے رُکا۔
’’ایک جینز اور شرٹ پیک کر دو میری… مجھے ابھی اسلام آباد کے لئے نکلنا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ خیر یت تو ہے؟‘‘ وہ پریشان ہوئی تھی۔
’’اسکول میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘
اس کی نیند پلک جھپکتے میں غائب ہوئی تھی۔
سالار اب دوبارہ فون پر بات کررہا تھا۔ بے حد تشویش کے عالم میں کمرے میں واپس آکر اس نے اس کا بیگ تیار کیا، وہ تب تک کمرے میں واپس آچکا تھا۔
’’آگ کیسے لگی؟‘‘
’’یہ تو وہاں جاکر پتا چلے گا۔‘‘ وہ بے حد عجلت میں اپنے لئے نکالے ہوئے کپڑے لیتا واش روم میں چلا گیا۔ وہ بیٹھی رہی۔ وہ اس کی پریشانی کا اندازہ کرسکتی تھی۔
شادی کے شروع کے چند مہینے چھوڑ کر اب اوپر نیچے کچھ نہ کچھ ایسا ہورہا تھا جو انہیں بری طرح تکلیف پہنچا رہا تھا۔
دس منٹ میں وہ تیار ہوکر نکل گیا، لیکن وہ دوبارہ بستر میں نہیں جاسکی تھی۔ اس نے باقی کی ساری رات اسی پریشانی میں دعائیں کرتے ہوئے کاٹی تھی۔
سالار سے اس کی ایک دوبارہ چند منٹ کے لئے بات ہوئی، لیکن وہ فون پر مسلسل مصروف تھا۔ امامہ نے اسے ڈسٹرب کرنے سے گریز کیا۔
اس کے گاؤں پہنچنے کے بعد بھی آگ پر قابو نہیں پایا جاسکا تھا۔ وجہ فائربریگیڈ کا بروقت دستیاب نہ ہونا تھا اور آگ کا اتنے گھنٹوں کے بعد بھی نہ بجھ پانے کا مطلب کیا تھا، وہ امامہ اچھی طرح سے سمجھ سکتی تھی۔
وہ پورا دن جلے پاؤں بلی کی طرح گھر میں پھرتی رہی تھی۔ سالار نے بالآخر اسے آگ پر قابو پانے کی اطلاع دے دی تھی، مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ اسے رات کو کال کرے گا اور وہ اس رات اسلام آباد ہی رہنے والا تھا۔
اس دن وہ سارا دن کچھ کھا نہیں سکی تھی۔ عمارت کو کتنا نقصان پہنچا تھا، یہ اسے نہیں پتا تھا لیکن کئی گھنٹے لگی رہنے والی آگ کیا کچھ کرسکتی تھی، اس کا احساس اسے تھا۔
سالار سے بالآخر آدھی رات کے قریب اس کی بات ہوئی تھی۔ وہ آواز سے اسے اتنا تھکا ہوا لگ رہا تھا کہ امامہ نے اس سے زیادہ دیر بات کرنے کے بجائے سونے کا کہہ کر فون بند کردیا، لیکن وہ خود ساری رات سو نہیں سکی تھی۔ آگ عمارت میں لگائی گئی تھی۔ وہاں پولیس کو ابتدائی طور پر ایسے شواہد ملے تھے اور یہ معمولی سی بات امامہ کی نیند اور حواس کو بوطل کرنے کے لئے کافی تھی۔
وہ صرف سالار کا اسکول نہیں تھا۔ وہ پورا پروجیکٹ اب ایک ٹرسٹ کے تحت چل رہا تھا جس کی مین ٹرسٹیز سالار کی فیملی تھی۔
اور اس پروجیکٹ کو یک دم اس طرح کا نقصان کون پہنچا سکتاتھا؟
یہی وہ سوال تھا جو اسے ہولا رہا تھا…
سب کچھ جیسے پھر چند ہفتے پہلے والی اسٹیج پر آگیا تھا۔
وہ اگلے دن ، رات کو گھر پہنچا تھا اور اس کے چہرے پر تھکن کے علاوہ دوسرا کوئی تاثر نہیں تھا۔ وہ اگر کچھ اور دیکھنا چاہتی تھی تو مایوس ہوئی تھی۔ وہ نارمل تھا، اسے جیسے حوصلہ ہوا تھا۔
’’بلڈنگ کے اسٹرکچر کو نقصان پہنچا ہے، جس کمپنی نے بلڈنگ بنائی ہے، وہ کچھ ایگزامن کررہے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ شاید بلڈنگ گرا کر دوبارہ بنانی پڑے۔‘‘
کھانے کی ٹیبل پر اس کے پوچھنے پر اس نے امامہ کو بتایا تھا۔
’’بہت نقصان ہوا ہوگا؟‘‘ یہ احمقانہ سوال تھا، لیکن امامہ حواس باختہ تھی۔
’’ہاں۔‘‘ جواب مختصر تھا۔
’’اسکول بند ہوگیا؟‘‘ یہ ایک اور احمقانہ سوال۔
’’نہیں، گاؤں کے چند گھر فوری طور پر خالی کروائے ہیں اور کرائے پر لے کر اسکول کے مختلف بلاکس کو شفٹ کیا ہے وہاں پر… Luckily بھی کچھ دنوں میں سمربریک آجائے گی تو بچوں کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔‘‘ وہ کھانا کھاتے ہوئے بتا رہا تھا۔
’’اور پولیس نے کیا کہا؟‘‘ اِدھر اُدھر کے سوال کے بعد امامہ نے بالآخر وہ سوال کیا جو اسے پریشان کئے ہوئے تھا۔
’’ابھی تو انوسٹی گیشن اسٹارٹ ہوئی ہے… دیکھو، کیا ہوتا ہے۔‘‘
سالار نے گول مول بات کی تھی۔ اس نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ دو دن اسلام آباد میں وہ اپنی فیملی کے ہر فرد سے اس کیس کے suspectsمیں امامہ کی فیملی کو شامل کرنے کے لئے دباؤ کا سامنا کرتا رہا تھا۔ وہ بہت مشکل صورت حال تھی۔ اس پروجیکٹ کو چلانے میں بہت سے لوگوں کے عطیات استعمال ہورہے تھے اور اس نقصان کے متاثرین بہت سے تھے۔
کئی سال سے آرام سے چلنے والے اس اسکول کا کوئی دشمن پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا تھا اور اب… امامہ سے زیادہ وہ خود ہ دعا کررہا تھا کہ یہ آگ اتفاقی حادثہ ہو… مگر چند گھنٹوں میں ہی آگ کے اسکیل اور صورت حال سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ پلان شدہ آتش زدگی تھی اور اگلے چند گھنٹوں میں کچھ اور شواہد بھی مل گئے تھے۔ امامہ سے یہ سب شیئر کرنا حماقت تھی۔ وہ پچھلے تجربے کے بعد اس طرح کی کسی دوسری پریشانی میں کم از کم اسے ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ تیسرا احمقانہ سوال۔
’’سب کچھ دوبارہ بنانا پڑے گا اور بس…‘‘ جواب اتنا ہی سادہ تھا۔
’’اور فنڈز… وہ کہاں سے آئیں گے؟‘‘ یہ پہلا سمجھدارانہ سوال تھا۔
’endowment fund اسکول کا ہے… اس کو استعمال کریں گے۔ کچھ انویسٹمنٹ میں نے کی ہے، وہاں سے رقم نکلواؤں گا۔ وہ اسلام آباد کا پلاٹ بیچ دوں گا۔ فوری طور پر تو تھوڑا بہت کر ہی لوں گا اتنا کہ اسکول کی بلڈنگ دوبارہ کھڑی ہوجائے۔‘‘
’’پلاٹس کیوں؟‘‘ وہ بری طرح بدکی تھی۔ امامہ نے نوٹس نہیں کیا تھا کہ وہ پلاٹس نہیں، پلاٹ کہہ رہا تھا۔
’’اس سے فوری طور پر رقم مل جائے گی مجھے… بعد میں لے لوں گا۔ ابھی تو فوری طور پر اس میس سے نکلنا ہے مجھے۔‘‘
’’تم وہ حق مہر کی رقم لے لو، آٹھ دس لاکھ کے قریب ویڈنگ پر ملنے والی گفٹ کی رقم بھی ہوگی اور اتنے ہی میرے اکاؤنٹ میں پہلے سے بھی ہوں گے… پچاس ساٹھ لاکھ تو یہ ہوجائے گا اور…‘‘ سالار نے اس کی باٹ کاٹی۔
’’میں یہ کبھی نہیں کروں گا۔‘‘
’’قرض لے لو مجھ سے… بعد میں دے دینا۔‘‘
’’No!‘‘ اس کا انداز حتمی تھا۔
’’میرے پاس بے کار پڑے ہیں، سالار! تمہارے کام آئیں گے تو…‘‘ اس نے پھر امامہ کی بات کاٹ دی۔
’’I said, No. ‘‘اس نے اس بار کچھ ترشی سے کہا تھا۔
’’میرے پیسے اور تمہارے پیسے میں کوئی فرق ہے؟‘‘
’’ہاں، ہے…‘‘ اس نے اسی انداز میں کہا تھا۔
’’وہ حق مہر اور شادی پر گفٹ میں ملنے والی رقم ہے، میں کیسے لے لوں تم سے…؟ میں بے شرم ہوسکتا ہوں، بے غیرت نہیں ہوسکتا۔‘‘
’’اب تم خوامخواہ جذباتی ہورہے ہو اور…‘‘
سالار نے اس کی با ت کاٹی۔ ’’کون جذبات ہورہا ہے…؟ کم از کم میں تو نہیں ہورہا۔‘‘
وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔ ’’میں تمہیں قرض دے رہی ہوں سالار!‘‘
…Thank you very much but I don’t need.” مجھے قرض لینا ہوگا تو بڑے دوست ہیں میرے پاس۔‘‘
’’دوستوں سے قرض لوگے بیوی سے نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’میں تمہاری مدد کرنا چاہتی ہوں سالار!‘‘
’’Emotionally کرو financially نہیں۔‘‘
وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کس طرح قائل کرے۔
’’اور اگر میں یہ رقم ڈونیٹ کرنا چاہوں تو…‘‘ اسے بالآخر ایک خیال آیا۔
’’ضرور کرو اس ملک میں بہت سی Charities ہیں، تمہارا پیسہ ہے، چاہے آگ لگا دو، لیکن میں یا میرا ادارہ نہیں لے گا۔‘‘ اس نے صاف لفظوں اور حتمی انداز میں کہا۔
’’تم مجھے کبھی کچھ ڈونیٹ کرنے نہیں دوگے؟‘‘
’’ضرور کرنا… لیکن فی الحال مجھے ضرورت نہیں ہے۔‘‘
وہ ٹیبل سے اٹھ گیا تھا۔
وہ بے حد اپ سیٹ اسے جاتا دیکھتی رہی تھی۔ اس کے لئے وہ دو پلاٹ اس کے گھر کی پہلی دو اینٹیں تھیں اور وہ پہلی دو اینٹیں اس طرح جانے والی تھیں… یہ چیز اس کے لئے تکلیف دہ تھی۔ تکلیف کا باعث وہ کہیں نہ کہیں اس رقم سے جیسے اس نقصان کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہتی تھی جو اس کی فیملی نے کیا تھا۔ اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ سالار نے اس کی اس سوچ کو اس سے پہلے پڑھ لیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ کیا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
آنے والے دنوں میں بھی وہ سالار کو وہ رقم لینے پرمجبور کرتی رہی، لیکن وہ ایک بار بھی یہ جرأت نہیں کرسکی تھی کہ پولیس کی انوسٹی گیشن کے حوالے سے سالار سے کچھ پوچھتی۔ وہ دونوں جانتے بوجھتے اس حساس ایشو پر گفتگو سے اجتناب کررہے تھے اور یہ امامہ کے لئے ایک نعمت متربقہ سے کم نہیں تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!