آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

’’جو کچھ ہوا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں، نہ ہی کوئی انوالومنٹ ہے؟‘‘
اس کے سامنے بیٹھا وسیم بڑی سنجیدگی سے اسے یقین دلانے کی کوشش کررہا تھا۔ ’’اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب ابو کرسکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے بھی ایسا کچھ نہ کیا ہوا، میں نے گھر میں ایسا کچھ نہیں سنا۔‘‘
وسیم نے ہاشم مبین کا بھی دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ امامہ قائل نہیں ہوئی۔ وہ سالار کے سامنے اپنی فیملی کا دفاع کرنے کی کوشش کرسکتی تھی، وسیم کے سامنے نہیں۔ اسے یقین تھا، یہ جو بھی کچھ ہوا تھا، اس میں اس کیا پنے باپ کا ہی ہاتھ تھا۔
’’ابو سے کہنا، یہ سب کرنے سے کچھ نہیں ملے گا۔ سالار کو کیا نقصان ہوگا یا مجھے کیا نقصان ہوگا… ایک اسکول ہی جلاہے پھر بن جائے گا… ان سے کہنا، وہ کچھ بھی کرلیں ہمیں فرق نہیں پڑتا۔‘‘
وسیم ا س کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی باتیں سنتا رہا، پھر اس نے امامہ سے مدھم آواز میں کہا۔
’’میں ابو سے یہ بات نہیں کہہ سکتا… میں بہت بزدل ہوں، تمہاری طرح بہادر نہیں ہوں۔‘‘
چند لمحوں کے لئے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے، جب سے وہ دوبارہ ملنا شروع ہوئے تھے، آج پہلی بار وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں اسے سراہ رہا تھا یا اعتراف کررہا تھا۔
’’تمہارے جانے کے بعد اتنے سالوں میں بہت دفعہ کمزور پڑا۔ میں بہت دفعہ شش و پنچ کا بھی شکار ہوا اور شک و شبہ کا بھی… بہت دفعہ دل چاہتا تھا، زندگی کے اس غبار کو میں بھی ختم کرنے کی کوشش کروں، جس نے میری بینائی دھندلائی ہوئی ہے لیکن میں بہت بزدل ہوں۔ تمہاری طرح سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔‘‘
’’اب آجاؤ۔‘‘ امامہ کو خود احساس نہیں ہوا، اس نے یہ بات اس سے کیوں کہہ دی اور کہنی چاہیے تھی کہ نہیں۔
وسیم نے اس سے نظریں ملائیں، پھر سرہلاتے ہوئے کہا۔
’’اب اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ جب اکیلا تھا تو اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرسکا تھا، اب تو بیوی اور بچے ہیں۔‘‘
’’ہم تمہاری مدد کرسکتے ہیں… میں اور سالار۔ کچھ بھی نہیں ہوگا تمہیں… تمہاری فیملی کو ، تم ایک بار کوشش تو کرو۔‘‘
امامہ بھول گئی تھی اس نے وسیم کو کیا ڈسکس کرنے کے لئے بلایا تھا اور وہ کیا ڈسکس کرنے بیٹھ گئی تھی۔
’’انسان بہت خودغرض اور بے شرم ہوتا ہے امامہ…! یہ جو ضرورت ہوتی ہے یہ صحیح اور غلط کی سب تمیز ختم کردیتی ہے۔ کاش میں زندگی میں مذہب کو پہلی priority بناسکتا… مگر مذہب پہلی Priority نہیں ہے میری۔‘‘ وسیم نے گہرا سانس لیتا تھا جیسے کوئی رنج تھا جس نے بگولہ بن کر اسے اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔
’’میں تمہاری طرح فیملی نہیں چھوڑ سکتا مذہب کے لئے… تمہاری قربانی بہت بڑی ہے۔‘‘





’’تم جانتے بوجھتے جہنم کا انتخاب کررہے ہو صرف دنیاکے لئے؟ اپنے بیوی بچوں کو بھی اسی راستے پر لے جاؤگے، کیوں کہ تم میں صرف جرأت نہیں ہے۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ دینے کی۔‘‘
وہ اب بھائی کو چیلنج کررہی تھی۔ وہ یک دم اٹھ کر کھڑا ہوگیا یوں جیسے بے قرار تھا…
’’تم مجھے بہت بڑی آزمائش میں ڈالنا چاہتی ہو؟‘‘
’’آزمائش سے بچانا چاہتی ہوں… آزمائش تو وہ ہے جس میں تم نے خود کو ڈال رکھا ہے۔‘‘
اس نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھالی۔ ’’میں صرف اسی لئے تم سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔‘‘
٭…٭…٭
’’وسیم میرا فون نہیں اٹھا رہا۔‘‘ امامہ نے اس رات کھانے پر سالار سے کہا تھا۔ سالار کو وہ بہت پریشان لگی تھی۔
’’ہوسکتا ہے، مصروف ہو۔‘‘ سالار نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’نہیں وہ ناراض ہے۔‘‘
اس بار سالار چونکا تھا۔ ’’ناراض کیوں ہوگا؟‘‘
امامہ نے اسے اپنی اور وسیم کی گفتگو سنا دی۔ سالار گہرا سانس لے کر رہ گیا تھا۔
’’تمہیں ضرورت کیا تھی اس سے اس طرح کی گفتگو کرنے کی… بالغ آدمی ہے وہ… بزنس کررہا ہے… بیوی بچوں والا ہے… اسے اچھی طرح پتا ہے، اس نے زندگی میں کیا کرنا ہے اور اس کے لئے کیا صحیح ہے۔ تم لوگ آپس میں ملتے رہنا چاہتے ہو تو مذہب کو ڈسکس کئے بغیر ملو۔‘‘ سالار نے اسے بڑی سنجیدگی کے ساتھ سمجھایا۔
’’بات اس نے شروع کی تھی، وہ نہ کرتا تو میں بھی نہ کرتی۔‘‘ امامہ نے جیسے اپنا دفاع کیا۔
’’اور خود بات شروع کرنے کے بعد اب وہ تمہاری فون کال نہیں لے رہا تو بہتر ہے، اب تم انتظار کرو سکون سے، جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو کرلے گا وہ تمہیں کال۔‘‘
سالار کہہ کر دوبارہ کھانا کھانے لگا۔ امامہ اسی طرح بیٹھی رہی۔
’’اب کیا ہوا؟‘‘ سالار نے سلاد کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے اس کی خاموشی نوٹس کی۔
’’میری خواہش ہے وہ بھی مسلمان ہوجائے ، اس گمراہی کی دلدل سے نکل آئے۔‘‘
سالار نے ایک لمحہ رک کر اسے دیکھا، پھر بڑی سنجیدگی سے اسے کہا۔
’’تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ اس کی زندگی ہے، اس کا فیصلہ ہے۔ تم اپنی خواہش اس پر impose نہیں کرسکتیں۔‘‘
’’impose تو کر بھی نہیں رہی میں۔‘‘ وہ پلیٹ میں چمچ بے مقصد ہلاتے ہوئے دل گرفتہ ہوئی تھی۔
’’کبھی کبھی دل چاہتا ہے انسان کا، وہ چیزوں کو جادو کی طرح ٹھیک کرنے کی کوشش کرے۔‘‘ سالار نے اس کی دل گرفتی محسوس کی، پھر جیسے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی۔ ’’زندگی میں جادو نہیں چلتا… عقل چلتی ہے یا قسمت، اس کی عقل کام کرے گی اور قسمت میں لکھا ہوگا تو وہ اپنے لئے کوئی اسٹینڈلے گا، ورنہ میں یا تم کوئی اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘ وہ اسے نرمی سے سمجھاتا رہا تھا۔
’’اور تم دوبارہ کبھی اس سے اس مسئلے پر خود بات نہیں کروگی، نہ ہی اسکول کے حوالے سے کسی گلے شکوے کے لئے اسے بلاؤگی۔ میں اپنے مسئلوں کو ہینڈل کرسکتا ہوں اور وسیم کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘
اور کہہ کر کھانے کی ٹیبل سے اٹھ گیا۔ امامہ اسی طرح خالی پلیٹ لئے بیٹھی رہی تھی۔ پتا نہیں زندگی میں اچانک اتنی بے سکونی کہاں سے آگئی تھی۔ وہ fairy tale جو چند ماہ پہلے سالار کے ساتھ شروع ہوئی تھی اور جو اس کے پیروں کو زمین پر ٹکنے نہیں دیتی تھی۔ اب وہ پریوں کی کہانی کیوں نہیں رہی تھی۔ اس میں پریشانیوں کا جنگل کیسے اُگ آیا تھا یا شاید یہ اس کے ستارے تھے جو ایک بار پھر گردش میں آئے ہوئے تھے۔
٭…٭…٭
اسکول کی بلڈنگ کے اسٹرکچر کو واقعی بہت نقصان پہنچا تھا۔ سب کچھ جیسےsquare one پر آگیا تھا۔ یہ سالار کے لئے حالیہ زندگی کا پہلا بڑا ذاتی مالیاتی نقصان تھا۔چند گھنٹوں میں سب کچھ راکھ ہوجانے کا مطلب اسے زندگی میں پہلی بار سمجھ میں آیا تھا اور اس پر سب سے بدترین چیز یہ تھی کہ اس سارے ایشو میں اس کے سسرال کے ملوث ہونے پر کم از کم اس کی فیملی میں سے کسی کو شبہ نہیں تھا، لیکن اسے ثابت کرنا مشکل نہیں تقریباً ناممکن تھا۔ گاؤں کا کوئی فرد ملوث ہوتا تو پولیس ابتدائی تفتیش کے بعد کسی نہ کسی کو ضرور پکڑ لیتی مگر اس آتش زدگی میں وہاں کے کسی شخص کی انوالومنٹ ظاہر نہیں ہوئی تھی اور جتنے پروفیشنل طریقے سے ایک ہی وقت میں مختلف کیمیکلز کے استعمال اسے عمارت کے مختلف حصوں میں وہ آگ لگائی تھی تھی، وہ کسی عام چور اُچکے کا کام نہیں تھا۔ اگر مقصد اسے نقصان پہنچانا تھا تو اسے بے حد نقصان ہوا تھا، اگر مقصد اسے چوٹ پہنچانا تھا تو یہ پیٹ پر ضرب لگانے جیسا تھا۔ وہ دہرا ہوا تھا مگر منہ کے بل نہیں گرا تھا۔
’’اسے چھوڑ دو سالار!‘‘ وہ دوسرے ویک اینڈ پر پھر اسلام آباد میں تھا اور طیبہ اس بار جیسے گڑگڑا رہی تھیں۔ وہ اس سب سے اس بار مزید خائف ہوگئی تھیں۔
’’تمہیں شادی کا شوق تھا، وہ پورا ہوگیا ہے۔ اب چھوڑ دو اسے۔‘‘
’’آپ کو اندازہ ہے کہ آپ مجھے کتنی تکلیف پہنچاتی ہیں، جب آپ مجھ سے اس طرح کی بات کرتی ہیں۔‘‘ سالار نے ان کو بات مکمل نہیں کرنے دی تھی۔
’’تم نے دیکھا نہیں، انہوں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’ابھی کچھ ثابت نہیں ہوا ہے۔‘‘ اس نے پھر ماں کی باٹ کاٹی تھی۔
’’تم عقل کے اندھے ہوسکتے ہو، ہم نہیں… اور کون ہے دشمن تمہارا، امامہ کی فیملی کے سوا؟‘‘ طیبہ برہم ہوگئی تھیں۔
’’اس سب میں امامہ کا کیا قصور ہے؟‘‘
’’یہ سب اس کی وجہ سے ہورہا ہے، تمہیں سمجھ میں کیوں نہیں آتی یہ بات؟‘‘
’’نہیں آتی… اور نہ ہی آئے گی۔ میں نے کل بھی آپ سے کہا تھا، آج بھی کہہ رہا ہوں اور آئندہ بھی یہی کہوں گا۔ میں امامہ کوڈائیوورس نہیں کروں گا۔ کم از کم اس وجہ سے تو نہیں کہ اس کی فیملی مجھے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ آپ کو کوئی اور بات کرنی ہے تو میں بیٹھتا ہوں۔ اس ایشو پر مجھے نہ آج، نہ ہی دوبارہ بات کرنی ہے۔‘‘
طیبہ کچھ بول نہیں سکی تھی۔ وہ وہی کچھ کہہ رہا تھا جو سکندر کی زبانی وہ پہلے سے سن چکی تھیں، لیکن انہیں خوش فہمی تھی کہ وہ اس بار کسی نہ کسی طرح اس کو اس بات پر تیار کرسکیں، جس کے بارے میں سکندر کو کوئی امید نہیں تھی۔ سکندر اس وقت وہاں نہیں تھے۔ وہ آدھ گھنٹہ وہاں بیٹھنے کے بعد واپس بیڈ روم میں آیا تو امامہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے گاؤں لے کر نہیں گیا تھا لیکن اسلام آباد میں ویک اینڈ کے بعد اگلے دو دن میں ہونے والی کانفرنس کی وجہ سے ساتھ ہی لے آیا تھا۔
وہ اپنا لیپ ٹاپ نکال کر کچھ کام کرنے لگا تھا جب اسے عجیب سا احساس ہوا تھا۔ وہ جس چینل پر تھی وہاں مسلسل اشتہار رہے تھے اور وہ صوفہ پر بیٹھی انہیں بے حد یکسوئی سے دیکھ رہی تھی۔ وہ عام طور پر مسلسل چینل سرفنگ میں مصروف رہتی تھی۔ اشتہارات کو دیکھنا بے حد حیران کن تھا۔ سالار نے وقتاً فوقتاً تین بار اسے اور ٹی وی کو دیکھا تھا۔ اس نے دس منٹ کے دوران اسے ایک بار بھی چائے کا مگ اٹھاتے نہیں دیکھا تھا جو اس کے سامنے ٹیبل پر پڑا تھا، جس میں سے اب بھاپ اٹھنا بند ہوگئی تھی۔
اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور بیڈ سے اٹھ کر اس کے پاس صوفہ پر آکر بیٹھ گیا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ سالار نے اس کے ہاتھ سے ریموٹ کنٹرول پکڑ کر ٹی وی آف کردیا۔
’’تم نے میری اور ممی کی باتیں سنی ہیں کیا؟‘‘ وہ چند لمحوں کے لئے ساکت ہوگئی تھی۔ وہ جن یا جادو گر نہیں تھا، شیطان تھا اور اگر شیطان نہیں تھا تو شیطان کا سینئر منسٹر ضرور تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے دیکھتے ہوئے جھوٹ بولنا بے کار تھا۔ اس نے گردن سیدھی کرلی۔
’’ہاں! کچن میں چائے بنانے گئی تھی میں، تم اور ممی لاؤنج میں باتیں کررہے تھے۔ میں نے کچن میں سنا سب کچھ۔‘‘




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!