آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

اس واقعے کے بعد اگلے چند ہفتے وہ لاہور میں بھی کچھ محتاط رہے، لیکن پھر آہستہ آہستہ جیسے ہر ڈر خوف ختم ہونے لگا۔ امامہ کی فیملی کی طرف سے اس بار اس طرح کی دھمکیاں بھی نہیں ملی تھیں، جیسی امامہ کے گھر سے چلے جانے پر سکندر کی فیملی کو ملتی رہی تھیں۔ فوری اشتعال میں آکر ہاشم اور ان کے بیٹے ان پر حملہ کرنے کی غلطی تو کر بیٹھے تھے لیکن بہت جلد ہی انہیں یہ احساس ہوگیا تھا کہ امامہ کو زبردستی واپس لے جانا، اب ان کے مسائل کو بڑھاسکتا تھا، کم نہیں کرسکتا تھا۔ وہ جھوٹ جو امامہ کے حوالے سے انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں بول رکھے تھے، ان کے کھل جانے کا مطلب رسوائی اور جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا۔ ایک پردہ پڑا ہوا تھا، اسے پڑا رہنے دینا زیادہ سمجھداری تھی۔ ان کا واسطہ سکندر جیسی فیملی سے نہ پڑتا تو وہ اس معاملے پر اپنی اَنا کو اتنا نیچے نہ لاتے لیکن یہاں اب مجبوری تھی۔
پولیس اسٹیشن میں تصفیہ کے دوران سکندر نے ہاشم مبین کو صاف صاف بتادیتا تھا کہ سالار اور امامہ کو کسی بھی طرح پہنچنے والے نقصان کی ذمہ داری وہ ہاشم کے خاندان کے علاوہ کسی دوسرے پر نہیں ڈالیں گے۔ عام حالات میں ہاشم اس بات پر مشتعل ہوتے لیکن ایک رات حوالات سے نکلنے کے لئے ہر طرح کے اثر و رسوخ استعمال کرکے ناکام ہونے کے بعد ان کا جوش ، ہوش میں تبدیل ہونے لگا تھا۔
جہاں تک سالار اور امامہ کا تعلق تھا، ان کے لئے یہ سب کچھ blessing in disguise تھا۔ وہ خدشات جن کا شکار وہ اسلام آباد میں قیام کے دوران ہوتے تھے، وہ آہستہ آہستہ غائب ہونے لگے تھے اور یہ خاص طور پر امامہ کے لئے معجزے سے کم نہیں تھا۔ ا س نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ کبھی اتنی آزادی کے ساتھ رہ سکے گی۔
سالار نے ٹھیک کہا تھا۔ چند ہفتوں میں اس کی فیملی کا رویہ پھر پہلے جیسا ہی ہوگیا تھا۔ حتیٰ کہ طیبہ کی تلخی بھی ختم ہوگئی تھی اور اس میں زیادہ ہاتھ امامہ کا ہی تھا۔ وہ فطرتاً صلح جو اور فرماں بردار تھی، رہی سہی کسر اس کے حالات نے پوری کردی تھی۔ پیچھے میکہ ہوتا تو شاید کوئی بات بری لگنے پر وہ بھی اس طرح موڈ آف کرتی جس طرح سکندر کی دوسری بہوئیں کبھی کبھار کرتی تھیں، مگر پیچھے بیگیج کے سوا کچھ نہیں تھا اور احسان مند ہونے کے لئے اتنا بھی بہت تھا کہ وہ اس شخص کی فیملی تھی جو اسے سرپر اٹھائے پھرتا تھا۔
٭…٭…٭





’’کوئی وسیم ہاشم صاحب ملنا چاہ رہے ہیں آپ سے۔‘‘ اپنے آفس کی کرسی میں جھولتا سالار کچھ دیر کے لئے ساکت ہوگیا تھا۔
’’کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ اس نے ایک لمحے کے لئے اپنے کانٹیکٹس کی لسٹ کھنگالی تھی اور وہاں صرف ایک وسیم ہاشم تھا۔
’’اسلام آباد سے… کہہ رہے ہیں کہ آپ کے دوست ہیں۔‘‘ ریسیپشنسٹ نے مزید بتایا۔
’’بھیج دو۔‘‘ اس نے انٹر کام رکھ دیا اور خود سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ آج کے دن وہ ایسے کسی وزٹ کے لئے تیار نہیں تھا… وسیم کے وہاں آنے کا مقصد کیا تھا، دونوں خاندانوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے کو چند ہفتے گزر چکے تھے۔
وہ چند لمحوں تک کچھ سوچتا رہا پھر اپنی کرسی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا، تب ہی وسیم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لئے دونوں ساکت ہوئے تھے، پھر سالار نے ہاتھ بڑھایا۔ وسیم نے بھی ہاتھ بڑھادیا تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد ان دونوں کے درمیان ہونے والی وہ پہلی ملاقات تھی۔
’’کیا لوگے؟ چائے کافی؟‘‘ سالار نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں… میں صرف چند منٹ کے لئے آیا ہوں۔‘‘ وسیم نے جواباً کہا۔ وہ دونوں کسی زمانے میں بہت گہرے دوست تھے، لیکن اس وقت ان کو اپنے درمیان موجود تکلف کی دیوار کو ختم کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ سالار نے دوبارہ کچھ پوچھنے کے بجائے انٹر کام اٹھا کر چائے کا آرڈر دے دیا۔
’’امامہ کیسی ہے؟‘‘ اس کے ریسیور رکھتے ہی وسیم نے پوچھا۔
’’She is fine.‘‘ سالار نے نارمل انداز میں جواب دیا۔
’’میں اس سے ملنا چاہتا تھا، ایڈریس تھا میرے پاس تمہارے گھر کا لیکن میں نے سوچا، پہلے تم سے پوچھ لوں۔‘‘ وسیم نے بے حد جتانے والے انداز میں اسے کہا۔
’’ظاہر ہے تمہیں یہ پتا چل سکتا ہے کہ میں کہاں کام کررہا ہوں تو ہوم ایڈریس جاننا زیادہ مشکل تو نہیں ہے۔‘‘ سالار نے بے حد معمول کے لہجہ میں اس سے کہا۔
’’میں ملنا چاہتا ہوں اس سے۔‘‘ وسیم نے کہا۔
’’مناسب تو شاید نہ لگے لیکن پھر بھی پوچھوں گا تم سے… کس لئے؟‘‘ سالار نے جواباً بڑے فرینک انداز میں کہا۔
’’کوئی وجہ نہیں ہے میرے پاس۔‘‘ وسیم نے جواباً کہا۔ ’’اس دن ریسٹورنٹ میں جو چٹ…‘‘
’’وہ تم نے بھیجی تھی۔ میں جانتا ہوں۔‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹی تھی۔ وسیم ایک لمحہ کے لئے بول نہیں سکا پھر اس نے کہا۔
’’تم نے اور امامہ نے جو کچھ کیا، وہ بہت غلط کیا۔‘‘ وسیم چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولنے لگا تھا۔ سالار نے اس کی گفتگو میں مداخلت نہیں کی تھی۔
’’لیکن اب جو بھی ہوا، وہ ہوچکا ۔ میں امامہ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’تمہاری فیملی کو پتا ہے؟‘‘ سالار نے پوچھا۔
’’نہیں… انہیں پتا چلے گا تو وہ مجھے بھی گھر سے نکال دیں گے۔‘‘ سالار اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ اس کا سچ اور جھوٹ نہیں جانچ سکتا تھا۔ اس کی نیت کیا تھی، وہ یہ اندازہ نہیں کرسکتا تھا لیکن وہ اور امامہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے، وہ یہ ضرور جانتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس رات وسیم نے اسے امامہ کے ساتھ دیکھ کر اسے باپ بھائی کے دیکھے جانے سے پہلے متنبہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن سالار کے لئے پھر بھی یہ مشکل تھا کہ وہ اسے امامہ سے ملنے کی اجازت دے دیتا۔ اس میل جول کا پتا چلنے پر امامہ کی فیملی کے لئے اسے نقصان پہنچانا بہت آسان ہوجاتا۔ وہ اگر اس کے اپارٹمنٹ تک پہنچ سکتے تھے تو وہاں سے امامہ کو کہیں اور لے جانا بھی مشکل نہیں تھا۔ وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ وسیم کسی غلط ارادے سے اس کے پاس نہیں آیا لیکن پھر بھی وہ رسک نہیں لے سکتا تھا۔
’’وسیم! میں نہیں سمجھتا کہ اب اس کا کوئی فائدہ ہے۔‘‘ اس نے بالآخر صاف الفاظ میں اس سے کہا۔
’’امامہ میرے ساتھ خوش ہے، اپنی زندگی میں سیٹلڈ ہے… میں نہیں چاہتا، وہ اپ سیٹ ہو یا اسے کوئی نقصان پہنچے۔‘‘
’’میں نہ تو اس کو اپ سیٹ کرنا چاہتا ہوں نہ ہی نقصان پہنچانا چاہتا ہوں۔ میں بس کبھی کبھار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کچھ بے تابی سے کہا۔
’’میں اس پر سوچوں گا وسیم لیکن یہ بڑا مشکل ہے… میں نہیں چاہتا کہ تمہیں استعمال کرکے کوئی…‘‘ وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’میں بھی نہیں چاہتا کہ اس کو کوئی نقصان پہنچے۔ ایسی کوئی خواہش ہوتی تو اتنے سالوں میں تم سے پہلے رابطہ کرتا۔ میں جانتا تھا، وہ تم سے شادی کرکے گھر سے گئی ہے۔ تم انوالوڈ تھے پورے معاملے میں، لیکن میں نے اپنی فیملی کو کبھی یہ نہیں بتایا۔‘‘
سالار ایک لمحہ کے لئے ٹھٹکا پھر اس نے کہا۔ ’’وہ اتنے عرصے سے میرے ساتھ نہیں تھی۔‘‘
’’نہیں ہوگی… لیکن وہ تم سے شادی کرکے گئی تھی، یہ میں جانتا تھا۔‘‘ اس کا لہجہ حتمی تھا۔
سالار اسے دیکھ کر رہ گیا۔ اس کے دوستوں کا سرکل تقریباً ایک ہی تھا اور اس میں اگر کسی نے امامہ اور اس کی شادی کے حوالے سے کچھ حقیقی اطلاعات وسیم کو دے دی تھیں تو یہ کوئی اتنی حیرت انگیز بات نہیں تھی۔
’’میں سوچوں گاوسیم!‘‘ سالار نے بحث کے بجائے پھر وہی جملہ دہرایا، وسیم مایوس ہوا تھا۔
’’میں دو دن کے لئے ہوں لاہور میں…! اور یہ میرا کارڈ ہے۔ میں اس سے واقعی ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ وسیم نے مزید کچھ کہے بغیر جیب سے ایک کارڈ نکال کر ٹیبل پر اس کے سامنے رکھ دیا۔
اس رات وہ خلاف معمول کچھ زیادہ خاموش تھا۔ یہ امامہ نے نوٹس کیا تھا، لیکن اسے وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح آفس میں کام کے پریشر کو ذمہ دار گردانا تھا۔
وہ کھانے کے بعد کام کرنے کے لئے ہمیشہ کی طرح اسٹڈی روم میں جانے کے بجائے اس کے پاس لاؤنج میں صوفہ پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا پھر وہ بھی ٹی وی دیکھنے لگا۔ پانچ دس منٹ کی خاموشی کے بعد امامہ نے بالآخر ایک گہرا سانس لے کر اسے کہتے سنا۔
’’امامہ! اگر تم وعدہ کرو کہ تم خاموشی سے، تحمل سے میری بات سنوگی… آنسو بہائے بغیر… تو مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔
وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
’’کیا کہنا ہے؟‘‘ وہ کچھ حیران تھی۔
’’وسیم تم سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ اس نے بلاتمہید کہا۔ وہ ہل نہیں سکی۔
’’وسیم… میرا بھائی؟‘‘ امامہ نے بالآخر کہا۔ اس کے لہجے میں بے یقینی تھی۔ سالار نے سرہلایا پھر وہ اسے اپنی اور اس کی آج کی ملاقات کی تفصیلات بتانے لگا تھا اور ان تفصیلات کے دوران ’’برسات‘‘ شروع ہوچکی تھی۔ سالار نے بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا۔ تحمل کے علاوہ وہ اور کس چیز کا مظاہرہ کرسکتا تھا۔
’’تم نے کیوں اسے یہاں آنے نہیں دیا؟ تم اسے ساتھ لے کر آتے۔‘‘ اس نے ہچکیوں اور سسکیوں کے ساتھ روتے ہوئے گفتگو کے درمیان میں ہی اس کی با ت کاٹی۔
’’مجھے پتا تھا، وسیم مجھے معا ف کردے گا۔ وہ بھی مجھے اتنا ہی مس کرتا ہوگا جتنا میں اسے کرتی ہوں۔ میں تم سے کہتی تھی نا کہ وہ …‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
’’جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے امامہ! میں نہیں جانتا وہ کیوں ملنا چاہتا ہے تم سے… لیکن اس کے تمہارے ساتھ ملنے کے بڑے نقصان دہ نتائج ہوسکتے ہیں۔‘‘ سالار اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا تھا۔ وہ وسیم کے حوالے سے واقعی کچھ خدشات کا شکار تھا۔
’’کچھ نہیں ہوگا… مجھے پتا ہے، کچھ نہیں ہوگا۔ وہ بہت اچھا ہے، تم اسے فون کرکے ابھی بلالو۔‘‘
’’میں کل اسے بلواؤں گا، لیکن وہ اگر کبھی اکیلے یہاں آنا چاہے یا تمہیں کہیں بلائے تو تم نہیں جاؤگی۔‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اور میں ایک بار پھر دہرارہاہوں… نہ وہ یہاں اکیلا آئے گا نہ تم اس کے فون کرنے پر کہیں جاؤگی۔‘‘ سالار نے بڑی سختی سے اسے تاکید کی تھی۔
’’میں اس کے بلانے پر کہیں نہیں جاؤں گی لیکن اس کے یہاں آنے پر کیوں اعتراض ہے تمہیں؟‘‘ اس نے احتجاج کیا۔
’’وہ میرے گھر پر ہوتے ہوئے آئے، مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ اکیلا یہاں نہ آئے۔ وہ تو خیر میں نیچے سیکیورٹی والوں کو بھی بتادوں گا۔‘‘
’’وہ میرا بھائی ہے سالار!‘‘ امامہ کو بے عزتی محسوس ہوئی۔
’’جانتا ہوں، اسی لئے تم سے یہ سب کچھ کہہ رہاہوں۔ میں تمہارے حوالے سے اس پر یا کسی پر بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’تم مجھے بس یہ بتاؤ تمہیں اس سے ملنا ہے یا نہیں… اگر تمہیں بحث کرنی ہے اس ایشو پر… تو بہتر ہے وسیم آئے ہی نہیں۔‘‘ سالار نے اسے جملہ مکمل نہیں کرنے دیا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں اسے اکیلے نہیں بلاؤں گی یہاں۔‘‘ اس نے آنکھیں رگڑتے ہوئے فوراً اسے پیشتر گھٹنے ٹیکے تھے۔
’’مجھے اس سے فون پر بات کرنی ہے۔‘‘ سالار نے کچھ کہنے کے بجائے وسیم کا وزیٹنگ کارڈ لاکر اسے دے دیا۔ وہ خود اسٹڈی روم میں چلا گیا تھا۔
چند بار بیل ہونے پر وسیم نے فون اٹھایا تھا اور اس کی آواز سننے پر امامہ کے حلق میں آنسوؤں کا پھندہ لگا تھا۔
’’ہیلو… میں امامہ ہوں۔‘‘
وسیم دوسری طرف کچھ دیر بول نہیں سکا تھا اور پھر جب بولنے کے قابل ہوا، تب تک اس کی آواز بھی بھرانے لگی تھی۔ وہ دو گھنٹے تک ایک دوسرے کے ساتھ بات کرتے رہے تھے۔ بے ہنگم، بے ربط… بے مقصد… خاموشی کے لمبے وقفوں والی گفتگو… لیکن اس گفتگو میں کوئی گلے شکوے نہیں ہوئے تھے۔ کوئی ملامت، مذمت نہیں ہوئی تھی۔ وقت اب اتنا آگے گزر چکا تھا کہ یہ سب کہنا بے کار تھا… وسیم شادی کرچکا تھا اور اس کے تین بچے تھے… فیملی میں اور بھی بہت سے افراد کا اضافہ ہوچکا تھا۔ وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اضافے کی تفصیلات سنتی رہی۔
سالار دو گھنٹے کے بعد اسٹڈی سے نکلا تھا اور اس وقت بھی لاؤنج میں فون کان سے لگائے سرخ آنکھوں اور ناک کے ساتھ فون پر وسیم سے گفتگو میں مصروف تھی۔ وہ اس کے پاس سے گزر کر بیڈ روم میں گیا تھا اور اسے یقین تھا، امامہ نے اسے ایکبار بھی سراٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔
وہ سونے کے لئے بیڈ پر لیٹنے کے بعد بھی بہت دیر تک اس نئیdevelopment کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ پتا نہیں یہ ٹھیک ہورہا تھا یا غلط۔ وہ امامہ کا کوئی دوسرا بھائی ہوتا تو وہ کبھی امامہ سے اس کا رابطہ نہ کرواتا، لیکن وسیم کے حوالے سے وہ تحفظات رکھنے کے باوجود کسی حد تک کچھ نرم گوشہ رکھنے پر مجبور تھا۔ اگر اس کی فیملی کا ایک فرد بھی اس کے ساتھ کچھ رابطہ رکھتا تو وہ جانتا تھا کہ امامہ ذہنی طور پر بہت بہتر محسوس کرے گی۔ اپنے پیچھے اپنی فیملی کی عدم موجودگی کا جو احساس کمتری وہ لئے ہوئی تھی، وہ اتنے مہینوں کے بعد کم از کم سالار سے ڈھکا چھپا نہیں تھا۔
٭…٭…٭
وسیم اگلے دن دو بجے آیا تھا اور دو بجے تک امامہ کو گھر میں کسی ’’مرد‘‘ کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔ وہ ملازمہ کے ساتھ کھانا تیار کرتے ہوئے اس سے اپنی فیملی کی باتوں میں مصروف تھی، اس تازہ ترین اپ ڈیٹ کے ساتھ جو اسے رات کو وسیم سے ملی تھی۔ اس نے پہلی بار اسے ملازمہ کے ساتھ اتنے جوش و جذبہ سے بات کرتے ہوئے سنا تھا اور وہ حیران تھا۔ حیرانگی اس کیفیت کو اتنے موثر طریقے سے بیان نہیں کر پائی۔
وسیم کا استقبال اس نے سالار سے بھی پہلے دروازے پر کیا تھا۔ بہن اور بھائی کے درمیان ایک جذباتی سین ہوا تھا جس میں سالار نے دونوں سے تسلی کے چند الفاظ کہہ کر کچھ کردار ادا کیا تھا۔
اس کے بعد ساڑھے چھ بجے وسیم کی موجودگی تک وہ ایک خاموش تماشائی کا رول ادا کرتا رہا تھا۔ وہ کھانے کی ٹیبل پر موجود ضرور تھا مگر اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کا وہاں ہونا یا نہ ہونا برابر تھا۔ امامہ کو بھائی کے علاوہ کوئی اور نظر آرہا تھا نہ کسی اور کا ہوش تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ٹیبل پر موجود ہر ڈش اپنے ہاتھوں سے وسیم کو کھلائے۔ اتنے مہینوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ امامہ نے کھانے کی ٹیبل پر اسے کچھ سرو نہیں کیا تھا۔ وہ اس کا بچپن کا دوست تھا، لیکن یہ بھی پہلا موقع تھا کہ وہاں اس کے ہوتے ہوئے بھی وسیم اور اس کے درمیان صرف چند رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، پھر وہ اور امامہ آپس میں گفتگو کرتے رہے تھے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!