آبِ حیات — قسط نمبر ۵ (بیت العنکبوت)

’’کیا لوگی تم؟‘‘ سالار نے مینیو کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’میں تو Shrimps کی ڈشز میں سے کوئی ٹرائی کروں گا۔ تم دیکھ لو… تم کوکیا چاہیے؟‘‘ وہ اسلام آباد میں دوسری بار باہر کھانا کھانے نکلے تھے اور احتیاطاً انہوں نے ایک نئے بنے ہوئے چائنیز ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی تمام احتیاط کم از کم آج ان کے کام نہیں آئے گی۔
پندرہ منٹ بعد کھانا سرو ہوگیا اور وہ کھانا کھانے لگے تھے۔ کھانا کھانے کے دوران ویٹر نے ایک چٹ لاکر سالار کو دی۔ ا س نے کچھ حیرانی سے اس چٹ پر نظر ڈلاتے ہوئے، اس پرلکھی تحریر پڑھی۔
’’آپ یہ جگہ فوراً چھوڑ دیں۔‘‘
سالار نے کچھ حیرانی سے سراٹھا کر ویٹر کو دیکھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
’’یہ کیاہے؟‘‘ اس نے ویٹر سے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتا، ایک کرنٹ جیسے اسے چھو گزرا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ کیا تھا۔
بے حد برق رفتار سے چند کرنسی نوٹ والٹ سے نکال کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے ویٹر کو بل کلیئر کرنے کا کہا۔ امامہ حیرانی سے اس کی شکل دیکھنے لگی۔
’’کھانا چھوڑ دو… ہمیں جانا ہے۔‘‘ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھی تھی کیوں کہ انہیں کھانا شروع کئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے تھے۔
’’امامہ! یہ تمہیں باہرجاکر بتاتا ہوں بیگ لے لو اپنا۔‘‘ وہ کرسی دھکیلتا ہوا پلٹا اور پھر ساکت ہوگیا۔ انہیں نکلنے میں دیر ہوگئی تھی۔ اس نے کچھ فاصلے پر ہاشم مبین کے ساتھ وسیم اور امامہ کے بڑے بھائی کو دیکھا اور وہ ان ہی کی طرف آرہے تھے۔
وہ برق رفتاری سے امامہ کی کرسی کی طرف آیا۔ امامہ ٹیبل کے نیچے اپنے قدموں کے قریب رکھا ہوا، اپنا بیگ اٹھا رہی تھی۔ اس نے ابھی انہیں آتے نہیں دیکھا تھا۔ سالار کے اپنے قریب آنے پر بیگ اٹھاتے ہوئے، وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور کھڑا ہونے پر اس نے بھی اپنی فیملی کے افراد کو اپنی طرف آتے دیکھ لیا۔ ایک لمحہ میں اس کا خون خشک ہوگیا۔ سالار نے کچھ کہنے کے بجائے اسے اپنی اوٹ میں کیا تھا۔ ان کی ٹیبل کھڑکی کے پاس تھی اور امامہ کے عقب میں اب کھڑکیاں تھیں۔
’’سامنے سے ہٹو!‘‘ ہاشم مبین نے پاس آتے ہی بلند آواز میں اس سے کہا تھا۔
آس پاس ٹیبلز پر بیٹھے لوگ، یک دم ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ نہ صرف کسٹمرز بلکہ دوسری ٹیبلز پر سرو کرنے والے ویٹرز بھی۔
آخری چیز جو سالار وہاں توقع کرسکتا تھا وہ ایک پبلک پلیس پر ایسا ہی سین تھا۔
’’آپ ہمارے ساتھ گھر چلیں، وہاں بیٹھ کربات کرلیتے ہیں۔‘‘
سالار نے بے حد تحمل کے ساتھ ہاشم سے کہا تھا۔
اس نے جواباً ایک گالی دیتے ہوئے، اسے گریبان سے پکڑ اور کھینچ کر ایک طرف ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے، وسیم اور عظیم سے امامہ کو وہاں سے لے جانے کے لئے کہا۔ ہاشم کے برعکس، وسیم اور عظیم دونوں کچھ متامل تھے۔ وہ جانتے تھے اس طرح زبردستی اس ریسٹورنٹ سے کسی کو ہال سے باہر نہیں لے جاسکتے، کیوں کہ سیکیورٹی کا سامنا کئے بغیر امامہ کو بحفاظت وہاں سے لے جانا مشکل تھا۔





وہ سالار کے عقب میں اس کی شرٹ پکڑے تھر تھر کانپتی ہوئی تقریباً اس سے چپکی ہوئی تھی، جب ہاشم نے سالار کا گریبان پکڑتے ہوئے اسے کھینچا۔ سالار نے اپنا دفاع کرتے، اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے ہاشم مبین کو ذرا سا پیچھے دھکیلا۔ ان کے لئے یہ دھکا کافی ثابت ہوا۔ وہ پیر پھسلنے پر بے اختیار نیچے گرے۔ ریسیپشن تب تک باہر موجود سیکیورٹی کو انفارم کرچکا تھا۔ ہال میں دوسری میزوں پر بیٹھے ہوئے لوگ کچھ متوحش انداز میں یہ سب دیکھ رہے تھے جبکہ میزوں پر سرو کرتے ہوئے ویٹر ز بے حد برق رفتاری سے ان کی طرف بڑھنے لگے۔ اس دھکے نے عظیم کو بھی یک دم مشتعل کردیا۔ وہ بھی بلند آواز میں اسے گالیاں دیتے ہوئے جوش میں آگے آیا اور بے حد غیرمتوقع انداز میں اس نے سالار کے جبڑے پر گھونسا دے مارا۔ چند لمحوں کے لئے سالار کی آنکھوں کے سامنے واقعی اندھیرا چھا گیا، وہ اس گھونسے کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ ذرا سا ایک طرف جھکا اور عظیم اس کے پیچھے کھڑی امامہ تک جاپہنچا۔ اس نے کانپتے ہوئے سالار کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی، لیکن عظیم نے اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے نہ صرف سالار سے الگ کرنے کی کوشش کی، بلکہ اس کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ بھی رسید کیا۔ سالار تب تک سنبھل کر سیدھا ہوتے ہوئے اسے چھڑانے کے لئے پلٹا تھا، جب اس کے بائیں کندھے کی پشت پر درد کی تیز لہر اٹھی، اس نے ہونٹ بھینچ کر اپنی چیخ روکی۔ وہ ہاشم مبین تھے جنہوں نے ٹیبل پر پڑا چاقو اس کی پشت میں مارنے کی کوشش کی، لیکن آخری لمحے میں ہلنے کی وجہ سے وہ اس کے بائیں کندھے میں جا لگا تھا۔
سیکیورٹی اور دوسرے ویٹرز تب تک قریب پہنچ چکے تھے۔ سالار نے اپنے کندھے کی پشت سے وہ چاقو نکال لیا۔ سیکیورٹی والے اب ان تینوں کو پکڑ چکے تھے۔ وہ چاقو نوک دار ہوتا تو زخم بے حد خطرناک ہوتا، لیکن اب بھی اس چاقو کا اگلا سرا اس کے کندھے کے گوشت میں دھنسا ہوا تھا۔ امامہ نے نہ تو ہاشم مبین کو سالار کو وہ چاقو مارتے دیکھا تھا، نہ ہی اس نے سالار کو وہ چاقو نکالتے دیکھا۔ سیکیورٹی والوں نے سالار کو عظیم سے چھڑاتے ہوئے، عظیم کو اپنی گرفت میں لے لیا، تب تک سالار اپنی جینز کی جیب سے سیل نکال کر سکندر کو فون پر وہاں آنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے، لیکن وہ اس کے باوجود اپنے لہجے کو حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے سکندر سے بات کررہا تھا۔ وہ دوسرے ہاتھ سے اپنی پشت کے اس زخم کو دبائے ہوئے تھا۔ اس کے دبانے اور محسوس کرنے کے باوجود اس کے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ اپنے کندھے سے کمر تک خون کی نمی محسوس کررہا تھا، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ خون کتنی مقدار میں نکل رہا تھا۔
سیکیورٹی والے اس گفتگو کے دوران ہاشم مبین، وسیم اور عظیم کوہاں سے لے جاچکے تھے۔ ریسٹورنٹ کے پورے ہال میں بے حد سراسیمگی کا عالم تھا۔ کچھ لوگ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے اور جو ابھی وہاں موجود تھے، وہ ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
’’آپ کو فرسٹ ایڈ کی ضرورت ہوگی، آپ جائیں۔‘‘ مینیجر نے اس کی پشت پر بہنے والے خون کو دیکھتے ہوئے کچھ تشویش کے عالم میں اس سے کہا۔ اس نے یقینا یہ سوچا ہوگا کہ ہال کا ماحول ان کی موجودگی میں نارمل نہیں ہوسکتا تھا۔
امامہ نے مینیجر کی اس بات پر کچھ حیران ہوکر سالار کودیکھا، وہ اب فون پر بات ختم کررہا تھا۔ امامہ نے اس کے اس ہاتھ کو پہلی بار نوٹس کیا جو وہ کندھے کے اوپر سے پیچھے کئے ہوئے تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘ امامہ نے قدرے سراسیمگی کے عالم میں کہا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ سالار نے اپنا بازو سیدھا کیا۔ امامہ نے اس کی خون آلود انگلیاں دیکھیں۔ اس نے سمجھا کہ شاید اس کا ہاتھ زخمی تھا۔
’’اسے کیا ہوا؟‘‘ اس نے کچھ حواس باختہ ہوکر پوچھا۔ اس نے جواب دینے کے بجائے ایک قریبی ٹیبل سے نیپکن اٹھا کر اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے امامہ کو چلنے کا اشارہ کیا۔ مینیجر اور سیکیورٹی کے چند لوگوں کے ساتھ چلتے ہوئے وہ مینیجر کے کمرے میں آگئے۔ وہ پولیس کو کال کرچکا تھا اور اب وہ پولیس کے آنے تک انہیں وہاں روکنا چاہتا تھا لیکن سالار زخمی تھا اور اسے فرسٹ ایڈ دینی ضروری تھی۔
مینیجر کے کمرے میں پہنچ کر ہی امامہ نے پہلی بار سالار کی خون آلود پشت دیکھی اور وہ دھک سے رہ گئی تھی۔ ایک قریبی کلینک سے پہنچنے والی ایمبولینس کے آنے تک انہوں نے اس کی شرٹ اتار کر اس کا خون روکنے کی کوشش کی، مگر زخم گہرا تھا اور ٹانکوں کے بغیر ٹھیک ہونا مشکل تھا۔
وہ اس قدر شاکڈ تھی کہ وہ ریسٹورنٹ کے عملے کے افراد کی فرسٹ ایڈ اور سالار کو گم صم دیکھتی رہی۔ وہ کیا کچھ کرسکتی تھی یا اسے کیا کرنا چاہیے تھا، اسے سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔
اگلے پانچ سات منٹ میں پولیس، ایمبولینس اور سکندر آگے پیچھے ہی پہنچے تھے۔
سکندر کے آتے ہی سالار نے امامہ کو گھر کے بجائے فوری طور پر کہیں اور بھیجنے کے لئے کہا۔ سکندر خود سالار کو ہاسپٹل لے کر جارہے تھے۔ چاہنے کے باوجود سالار سے یہ نہیں کہہ سکی کہ وہ اس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔
سکندر نے اسے فوری طور پر اپنے بڑے بھائی شاہنواز کے گھر ڈرائیور اور پولیس کی سیکیورٹی میں بھجوایا تھا۔ شاہنواز کی فیملی گھر پر نہیں تھی۔ عجلت میں انہوں نے نوکروں کو امامہ کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور سکندر کی طرف چلے گئے۔
وہ بت کی طرح آکر گیسٹ روم میں بیٹھ گئی۔ اسے سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح محسوس ہورہا تھا۔ سالار کو کسی نے چاقوکے ساتھ زخمی کیا تھا، یہ اس نے سن لیا تھا مگر یہ اس کے باپ نے کیا تھا یا بھائیوں میں سے کسی نے… یہ وہ نہیں جان سکی تھی۔ ریسٹورنٹ کی سیکیورٹی نے ہاشم، وسیم اور عظیم کو پولیس کے آنے تک ایک کمرے میں بند کردیا تھا اور اس کے بعد اب آگے کیا ہونے والا تھا، اسے سوچتے ہوئے، اپنا وجود مفلوج ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
اسے بھی آئے ہوئے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ سالار کی کال آئی۔
’’تم پہنچ گئی ہو؟‘‘ اس نے امامہ کی آواز سنتے ہی کہا۔
’’ہاں… تم کہاں ہو؟‘‘
’’ابھی کلینک پر ہوں۔‘‘ سالار نے اسے کہا۔
’’اور ابو…؟‘‘
’’پاپا ساتھ ہیں میرے۔‘‘ سالار نے اس کے لفظوں پر غور نہیں کیا تھا۔
’’میں اپنے ابو کا پوچھ رہی ہوں۔‘‘ امامہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ چند لمحے کچھ بول نہیں سکا۔
اسے ناچاہتے ہوئے بھی اس وقت امامہ کی ہاشم کے بارے میں تشویش بری لگی۔
’’ وہ تینوں پولیس کسٹڈی میں ہیں… یہاں سے فارغ ہوکر اب ہم وہیں جائیں گے۔‘‘ امامہ کا دل ڈوبا۔
باپ اور بھائیوں کے حوالات میں ہونے کے تصور نے چند لمحوں کے لئے سے سالار کے زخمی ہونے کے بار ے میں بالکل لاپروا کردیا۔
’’سالار! پلیز، انہیں معاف کردو اور ریلیز کروا دو۔‘‘
سکندر اس وقت اس کے پاس تھے۔ وہ امامہ سے کچھ کہہ نہیں سکا لیکن وہ خفا ہوا تھا۔ وہ اس سے زیادہ اپنی فیملی کے لئے پریشان تھی۔ وہ زخمی تھا، لیکن اس نے یہ تک پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ اب کیسا ہے اور اس کی بینڈیج ہوگئی یا زخم گہرا تو نہیں تھا؟
’’میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔‘‘ اس نے کچھ کہنے کے بجائے فون بند کردیا تھا۔
کلینک میں اسکے چیک اپ اور بینڈیج میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ خوش قسمتی سے اس کی… کسی رگ یا شریان کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔
کلینک میں ہی سکندر کی فیملی کے افراد نے پہنچنا شروع کردیا اور سالار کو سکندر کے اشتعال سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ نوعیت اختیار کرگیا تھا۔ وہ خود بے حد ناراض ہونے کے باوجود اس معاملے کو ختم کرنے کا خواہش مند تھا لیکن سکندر نہیں۔
شاہنواز کی بیوی اور دونوں بہوئیں آدھے گھنٹے کے بعد گھر آئی تھیں اور تب تک طیبہ بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔ سکندر نے فی الحال اپنے گھر میں نہ رہنا بہتر سمجھا تھا۔
شاہنواز کی بیوی اور بہوؤں نے اگرچہ امامہ سے اس ایشو پر زیادہ بات نہیں کی تھی، لیکن وہ لاؤنج میں طیبہ اور ان لوگوں کی بلند آواز میں ہونے والی باتیں سنتی رہی۔ طیبہ بری طرح برہم تھیں۔ وہ شاہنواز کے گھر آنے کے باوجود امماہ کے پاس نہیں آئیں۔ وہ خود بھی اتنی ہمت نہیں کرسکی کہ باہر نکل کر ان کا سامنا کرتی۔ وہ بے حد غصے میں ہاشم مبین اور اس کے بھائیوں کو برا بھلا کہتی رہیں اور وہ گیسٹ روم میں بیٹھی ہچکیوں سے روتے ہوئے یہ سب کچھ سنتی رہی۔ یہ طیبہ کے کڑوے کسیلے جملے یا خاندان کے سامنے ہونے والی سبکی نہیں تھی، یہ احساس تھا کہ ہاشم اور اس کے بھائی اس وقت حوالات میں بند تھے اور نجانے ان کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہورہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی فیملی بے حد بارسوخ تھی اور حوالات میں کوئی ان کے ساتھ عام مجرم کی طرح رویہ نہیں رکھ سکتا تھا، مگر وہ جانتی تھی اس کی فیملی کا حوالات میں رہنا ہی بے حد بے عزتی کا باعث ہے۔
اس نے دوبارہ سالار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے پہلی بار اس کی کال نہیں لی اور دوسری بار اس کا سیل بند تھا۔ وہ اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس نے اسی کی کال سے بچنے کے لئے فون بند کیا ہوگا۔ یہ دوسری بار ہوا تھا کہ اس نے اپنا سیل فون اس کی وجہ سے آف کیا ہوا تھا۔
’’کیوں persue نہ کروں اس کیس کو…؟ انہیں چھوڑ دوں تاکہ اگلی بار وہ تمہیں شوٹ کردیں۔‘‘
اس نے ہسپتال سے پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے گاڑی میں سکندر سے کہا تھا۔ ’’میں بات بڑھانا نہیں چاہتا۔‘‘
’’بات بڑھ چکی ہے اور اس سب کی ابتدا بھی انہوں نے کی ہے۔‘‘ سکندر بے حد مشتعل تھے۔
’’پاپا! وہ امامہ کی فیملی ہے۔‘‘ اس نے بالآخر کہا۔
’’نہیں، وہ امامہ کی فیملی تھی، انہیں اگر امامہ کی پروا ہوتی تو وہ اس کے شوہر پر کبھی ہاتھ نہ اٹھاتے اور اگر انہیں امامہ کی پروا نہیں ہے تو امامہ کو بھی ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
انہوں نے بین السطور کیا کہا تھا، سالار کو سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔
’’یہ ایک حد تھی جو میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ پار کریں، لیکن انہوں نے یہ حد پار کرلی ہے۔ میری فیملی میں سے کسی کو تکلیف پہنچے گی تو میں ہاشم فیملی کو کسی سیف ہیون میں نہیں رہنے دوں گا۔ I’ ll pay them in the same coin. … یہ بات تم اپنی بیوی کو بتا بھی دو اور سمجھا بھی دو۔‘‘
’’پاپا! پلیز، اس ایشو کو حل ہونا چاہیے۔‘‘ سالار نے باپ سے کہا۔
سکندر کا … مشتعل رویہ اسے خائف کرنے لگا تھا۔ وہ بے حد متحمل مزاج تھے لیکن اس وقت سالار ان کا ایک نیا روم دیکھ رہا تھا۔
’’یہ خواہش ان کو کرنی چاہیے… صرف تب یہ مسئلہ حل ہوگا۔ How dare he touch my son. … اس کا خیال ہے میں برداشت کروں گا یہ غنڈہ گردی…؟ اب وہ مجھے پولیس اسٹیشن سے نکل کر دکھائے۔‘‘
انہیں ٹھنڈا کرنے کی اس کی ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ معاملہ کس حد تک بڑھ جائے گا، اس کا اندازہ سالار کو نہیں تھا۔ اگلے دو گھنٹوں میں جہاں اس کی فیملی پولیس اسٹیشن میں آگئی تھی، وہاں ہاشم مبین کی بھی پوری فیملی وہاں موجود تھی۔




Loading

Read Previous

سرہانے کا سانپ — شاذیہ خان

Read Next

حاضری — کنیز نور علی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!