اس رات وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اس واقعے کے بعد پہلی بار ان کے لیکچر کے لئے گیا تھا۔ امامہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے ساتھ تھی۔ وہ عام طور پر لیکچر والے دن وہاں آتے ہوئے امامہ کو ساتھ لے آیا کرتا تھا یا سعیدہ اماں کی طرف چھوڑ دیتاتھا جن کا گھر وہاں سے دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ جتنی دیر وہ لیکچر سنتا ، امامہ ، سعیدہ اماں یا آنٹی کے پاس بیٹھی رہتی پھر وہ وہاں سے کھانا کھا کر آجاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے آج بھی سالار کا استقبال کسی گرم جوشی کے بغیر صرف ہاتھ ملا کر کیا تھا۔ لیکچر کے بعد ڈنر پر بھی انہوں نے سالار کے لئے وہ پرانی توجہ نہیں دکھائی۔ ڈنر پر فرقان بھی تھا اور ڈاکٹر صاحب فرقان سے گفتگو میں مصروف رہے۔ سالار سے ہونے والی تھوڑی سی بات چیت آنٹی نے کی تھی۔ سالار سے زیادہ اس رات اس رویے کو امامہ نے محسوس کیا تھا۔ اس نے ڈاکٹر سبط علی کی کسی کے لئے ایسی خفگی پہلی بار دیکھی تھی۔ وہ خفگی اس کی وجہ سے اور اس کے لئے تھی، اس کے باوجود امامہ کو ان کا رویہ یا سالار کو نظر انداز کرنا بری طرح چبھا تھا۔ واپس آتے ہوئے وہ پریشان تھی۔
٭…٭…٭
’’ابو! آپ سالار سے اچھی طرح بات کیوں نہیں کرتے؟‘‘
امامہ اگلے دن سہ پہر کو ڈاکٹر سبط علی کے آفس سے آنے کے بعد ان کے گھر آئی تھی۔
’’کیسے بات کرنی چاہیے؟‘‘ وہ بے حد سنجیدہ تھے۔
’’جیسے آپ پہلے بات کرتے تھے۔‘‘
’’پہلے سالار نے یہ سب کچھ نہیں کیا تھا۔ اس کے بارے میں مجھے بڑی خوش گمانیاں تھیں۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولے۔
’’ابو! وہ برا نہیں ہے، وہ بہت اچھا ہے۔ میری غلطی تھی ورنہ شاید بات اتنی نہ بڑھتی۔ وہ بہت عزت کرتا ہے میری، بہت خیال رکھتا ہے لیکن اب یہ سب ہونے کے بعد وہ بہت پریشان ہے۔‘‘ وہ سرجھکائے وضاحتیں دے رہی تھی۔
’’آپ جب اسے اس طرح اِگنور کرتے ہیں تو مجھے بہت ہتک محسوس ہوتی ہے، وہ یہ سلوک تو ڈیزرو نہیں کرتا۔ فرقان بھائی کے سامنے کتنی بے عزتی محسوس ہوتی ہوگی اسے۔‘‘ وہ بے حد رنجیدہ تھی۔
ڈاکٹر سبط علی بے ساختہ ہنس پڑے۔ امامہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔
’’میں جانتا ہوں سالار بُرا آدمی نہیں ہے، وہ پریشان اور نادم ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قصور اس کا زیادہ نہیں ہے اور میرا اس کے ساتھ رویہ آپ کو برا لگتا ہوگا۔‘‘ وہ حیرانی سے ڈاکٹر سبط علی کا چہرہ دیکھنے لگی۔
’’بیٹا! میں آپ کو اسی بات کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ مرد جب غصے میں گھر چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ جیسے جاتا ہے، ویسے ہی آجاتا ہے۔ اس کے گھر سے جانے پر، اس کی اپنی عزت پر حرف آتا ہے نہ اس کی بیوی کی عزت پر حرف آتا ہے، لیکن عورت جب غصے میں گھر سے نکلتی ہے تو اپنی اور مرد ، دونوں کی عزت لے کر باہر آجاتی ہے۔ وہ واپس آجائے، تب بھی مرد کی اور عورت، دونوں کی عزت کم ہوجاتی ہے۔ جھگڑا ہوا تھا کوئی بات نہیں، اس نے غصے میں برا بھلا کہا، جانے کا کہہ دیا۔ آپ گھر کے کسی دوسرے کمرے میں چلی جاتیں، وہ ہاتھ پکڑ کر تو نہیں نکال رہا تھا۔ صبح ہوتی اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا۔ ایک آدھ دن میںبات ختم ہوجاتی ، اتنا بڑا مسئلہ نہ بنتا۔‘‘ وہ رسانیت سے اسے سمجھا رہے تھے۔
’’مرد کے دل میں اس عورت کی عزت کبھی نہیں ہوتی، جسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر کی دہلیز پار کرنے کی عادت ہو اور یہ دوسری بار ہوا ہے۔‘‘ اس نے چونک کر ڈاکٹر صاحب کو دیکھا وہ مسکرا رہے تھے۔
’’یاد ہے شادی کے دوسرے دن بھی آپ ناراض ہوکر سعیدہ اماں کے پاس رہ گئی تھی۔‘‘
امامہ نے نادم ہوکر سرجھکالیا۔ اسے یہ واقعہ یاد نہیں رہا تھا۔
’’مر دکے ساتھ انا کا مقابلہ کرنے والی عورت بے وقوف ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنا دشمن بنالیتی ہے۔ اکھڑپن اور ضد کرکے مرد سے بات منوائی جاسکتی ہے، اس کے دل میں اپنی محبت اور عزت نہیں بڑھائی جاسکتی۔اللہ نے آپ کو بہت محبت کرنے والا اور بہت سی خوبیوں والا شو ہر دیا ہے۔ اس نے آپ کی عیب جوئی نہیں کی، بلکہ معذرت کرکے آپ کو ساتھ لے گیا۔ بہت کم مردوں میں یہ صفت ہوتی ہے ، تو اگر کبھی کوئی کوتاہی ہوجائے اس سے یا کوئی گلہ ہو تو اس کی مہربانیاں یاد کرلیا کریں۔‘‘ وہ سرجھکائے خاموشی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔
’’اگر میں یہ سب باتیں اس وقت آپ کو سمجھاتا جب آپ یہاں آئی تھیں تو آپ میری بات کبھی نہ سمجھتیں۔ آپ کو لگتا آپ کے اپنے والدین ہوتے تو وہ اس سچویشن میں آپ کو سمجھاتے نہیں، صرف سپورٹ کرتے… اس لئے یہ باتیں تب نہیں سمجھائیں میں نے۔‘‘
وہ ٹھیک کہہ رہے تھے ۔ وہ اسے اس وقت یہ سب کچھ کہتے تو وہ بری طرح دلبرداشتہ ہوتی۔ اس نے کچھ کہے بغیر وہ پیپرز نکال کر انہیں دیئے جو سالار نے اسے دیئے تھے۔
’’یہ سالار نے دیئے ہیں مجھے، لیکن مجھے ضرورت نہیں ہے ان کی، آپ اسے بتادیں۔‘‘
ڈاکٹر سبط علی بے حد گہری مسکراہٹ کے ساتھ وہ پیپرز پڑھتے رہے، پھر ہنس پڑے۔
’’اس نے یہ بہت مناسب اور حکمت والا کام کیا ہے۔ اپنے پاس آنے والے اکثر مردوں کو، میں ان معاملات کے حوالے سے، اسی طرح کے تصفیے کا کہتا ہوں اور کئی مردوں نے کیا بھی ہے۔ سالار کے ذہن میں بھی وہی چیز ہے، لیکن اس نے آپ کے لئے کچھ زیادہ کردیا ہے۔‘‘
وہ پیپرز پر نظر ڈالتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
’’لیکن میں…‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’آپ بھی ا س کا کچھ زیادہ خیال رکھا کریں۔‘‘
وہ اسے پیپرز لوٹا رہے تھے، یہ جیسے گفتگو ختم کرنے کا اشارہ تھا۔
٭…٭…٭
اس دن وہ پورا راستہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ انہوں نے اسے کبھی نصیحتیں نہیں کی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس طرح کی باتیں کی تھیں۔ کوئی نہ کوئی غلطی انہوں نے اس کی بھی محسوس کی تھی کہ اس طرح اسے سمجھانے لگے تھے۔ وہ کھانا پکاتے ہوئے بھی ان کی باتوں کے بارے میں سوچتی رہی۔
’’تم ڈاکٹر صاحب کے پاس گئی تھیں؟‘‘ سالار نے شام کو گھر آتے ہی اس سے سوال کیا۔
’’ہاں… تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘ وہ کھانے کے برتن ٹیبل پر لگا رہی تھی۔
’’انہوں نے مجھے فون کیا تھا۔‘‘ وہ گردن سے ٹائی نکالتے ہوئے بولا۔
’’اوہ… کچھ کہا انہوں نے تم سے؟‘‘ اس نے سالار کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں… بس ویسے ہی کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔‘‘
امامہ کو محسوس ہوا وہ اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح کپڑ ے تبدیل کرنے کے لئے بیڈروم میں جانے کے بجائے، ٹائی نکال کر بے مقصد کچن کاؤنٹر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا، ڈش میں پڑا سلاد کھانے میں مصروف تھا۔
’’آج کیا ہے کھانے میں؟‘‘ شادی کے اتنے مہینوں میں، آج پہلی دفعہ اس نے یہ سوال کیا تھا۔
امامہ نے اسے بتایا لیکن وہ حیران ہوئی تھی۔
’’اور سویٹ ڈش؟‘‘ یہ سوال پہلے سے بھی زیادہ اچنبھالے کر آیا تھا۔ وہ میٹھے کا شوقین نہیں تھا۔
’’کل چائینز بنانا۔‘‘ وہ ایک بار پھر اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ کھانے کے معاملے میں فرمائشیں کرنے کا کہاں عادی تھا۔
’’کل بھی چائینز تھا۔‘‘ فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے، اس نے سادہ لہجے میں سالار کو یاد دلایا۔ وہ گڑبڑا گیا۔
’’ہاں، کل بھی چائینز تھا کوئی بات نہیں، کل پھر چائینز سہی۔‘‘
’’آئی مین… اس میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘ امامہ نے صرف سرہلادیا۔
وہ ا ب فریج سے چپاتیاں بنانے کے لئے آٹا نکال رہی تھی۔
’’Aqua Blueکلر تم پر اچھا لگتا ہے۔‘‘ وہ فریج کا دروازہ کھولے جیسے کرنٹ کھا کر پلٹی تھی۔
اس نے بے حد حیرت سے سالار کو دیکھا۔
’’آ…آ…ایکوابلیو نہیں ہے یہ؟‘‘ اس کی آنکھوں کے تاثر نے اسے گڑبڑادیا تھا۔
’’سالار! تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟‘‘ امامہ نے کہا۔
’’کیوں کیا ہوا؟ مجھے لگا یہ Aqua Blue ہے۔‘‘
’’یہ ایکوابلیو ہی ہے، اسی لئے تو پوچھ رہی ہوں کہ مسئلہ کیا ہے؟‘‘
وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنس پڑا۔ پھر کچھ کہے بغیر وہ آگے بڑھا اور اسے ساتھ لگا لیا۔
“Just wanted to thank you.” امامہ نے اسے کہتے سنا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس چیز کے لئے شکریہ ادا کررہا تھا۔
“And I am ready, real sorry….. I mean it.” وہ اب دوبارہ معذرت کررہا تھا۔
’’I know.‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا۔
“I love you.” امامہ کا دل بھر آیا۔
ان کی شادی شدہ زندگی میں صرف پچھلے دس دن ایسے تھے جس میں اس نے ایک بار بھی سالار سے یہ جملہ نہیں سنا تھا۔ پہلے ڈاکٹر سبط علی کے گھر پر ہونے کی وجہ سے دونوں کے درمیان رابطہ نہیں تھا اور بعد میں شاید سالار اس سے یہ کہنے کی ہمت نہیں کر پارہا تھا۔ وہ اگر اس سے فون پر یہ نہیں کرپارہا تھا۔ وہ اگر اس سے فون پر یہ نہیں کہہ پاتا تھا تو پھر ایس ایم ایس پر کچھ نہ کچھ لکھ کر بھیجتا رہتا تھا۔
’’Dear‘‘، ’’Honey‘‘، ’’Darling‘‘ ، ’’Sweet heart‘‘ ، ’’Woman‘‘ ، ’’Wife‘‘ ، ’’Betterhalf‘‘ ، ’’Missing‘‘ ، ’’Waiting‘‘ ، ’’Best‘‘ ، ’’You‘‘ ، ’’Yours‘‘ ، ’’Mine‘‘ ، ’’Beauty‘‘ ، ’’Friend‘‘ ، ’’Partner‘‘ ، ’’Mrs‘‘ ، ’’Thinking‘‘ ، ’’Hoping‘‘ ۔
وہ ایک لفظی ایس ایم ایس شروع میں اسے بری طرح جھنجھلا دیتے تھے۔
’’مجھے کیا پتا تم کیا کہنا چاہتے ہو…؟ پورا جملہ کیوں نہیں لکھ سکتے تم؟ یقینا کوئی کلائنٹ ہوتا ہوگا تمہارے پاس اور تم وقت بچانے کے لئے ایسے میسجز بھیجتے ہو۔‘‘
’’اگر کلائنٹ کے سامنے بیٹھ کر مسنگ لکھ سکتا ہوں تو مسنگ یو بھی لکھ سکتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’تو پھر کیوں نہیں لکھتے؟‘‘
’’اس طرح تم میرے ایس ایم ایس کو کچھ زیادہ دھیان سے پڑھتی ہوگی۔‘‘ اس نے لوجک دی۔
اس نے دل میں اعتراف کیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر اس ایک لفظ کے بارے میں ضرور سوچتی تھی۔ صرف ایک جملہ تھا جو وہ ہمیشہ پورا لکھتا تھا۔
’’آئی لو یو۔‘‘
’’خالی لو کیوں نہیں لکھ دیتے تم؟ یہ کیوں پورا لکھتے ہو؟‘‘ امامہ نے نوٹس کیا تھا۔
’’بتاؤں گا تمہیں کبھی۔‘‘ سالار نے اسے ٹالا تھا وہ اسے بتا نہیں سکا کہ وہ لو کے لفظ پر خائف تھا۔ اس کے ذہن میں اگر امامہ ابھرتی تھی تو امامہ کے ذہن میں ’’کون‘‘ ابھرتا ہوگا۔
اور اب وہ One-word riddles غائب ہوگئی تھیں تو اے ان کی قدر و قیمت کا احساس ہوا تھا۔ لاشعوری طور پر وہ اس سے اس ستائش اور اظہار محبت کی توقع رکھنے لگی تھی اور جب وہ سب کچھ غائب ہوا تو وہ فنی اور سلّی باتیں اس کے لئے بہت سنجیدہ ایشو ہوگئی تھیں۔
وہ اس سے الگ ہوگیا تھا۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ Aqua Blue ہے؟‘‘
اپنی پوروں سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے امامہ نے بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
’’تم ہمیشہ عجیب نام لیتی ہو کلرز کے ۔ Aqua Blue واحد عجیب نام تھا جو مجھے Blue کلر کے لئے اس وقت یاد آیا۔‘‘ اس نے سادہ لہجے میں کہا۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی، وہ کلر بلائنڈ تھا اسے اب اندازہ ہوچکا تھا۔
“Very Smart!” اس نے جیسے اسے داد دی۔
“You think so?” وہ ہنسا۔
“Yes, I do.”
“Thank you, then.” وہ کہتا ہوا کچن سے نکل گیا تھا۔
کچن کے وسط میں کھڑی وہ اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ وہ دنیا کا سب سے عجیب رشتہ تھا۔ دور ہوں تو دیواروں کا جنگل اُگ آئے، پاس ہوں تو کاغذ جیسی دیوار بھی نہ رہ پائے۔ ناراض ہوں تو گلوں کے لئے سمندر بھی کم پڑ جائے اور محبت ہو تو گلہ نام کی چیز صحرا میں پانی بن جائے۔ غصہ ہو تو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ ہو اور غصہ ختم ہو تو ایک دوسرے کے بغیر قرار مشکل ہوجائے۔ وہ بھی شوہر اور بیوی کے رشتے میں منسلک ہوجانے کے بعد اس تعلق کے سارے نشیب و فراز سے گزر رہے تھے اور پچھلے دس دن اس کی زندگی کا پہلا نشیب تھا۔
٭…٭…٭