سالار نے سورۃ رحمن کی تلاوت ختم کرلی تھی۔ چند لمحوں کے لئے وہ رکا، پھر سجدے میں چلا گیا۔ سجدے سے اٹھنے کے بعد وہ کھڑا ہوتے ہوتے رک گیا۔ امامہ آنکھیں بند کئے دونوں ہاتھ پھیلائے دعا کررہی تھی۔ وہ اس کی دعا ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ امامہ نے دعا ختم کی۔ سالار نے ایک بار پھر اٹھنا چاہا اور اٹھ نہیں پایا۔ امامہ نے بہت نرمی سے اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ وہ حیر ت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’یہ جولوگ کہتے ہیں نا کہ جس سے محبت ہوئی، وہ نہیں ملا۔ ایسا پتا ہے کیوں ہوتا ہیـ؟‘‘ رات کے پچھلے پہرنرمی سے اس کا ہاتھ تھامے وہ بھیگی آنکھوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
’’محبت میں صدق نہ ہو تو محبت نہیں ملتی۔ نو سال پہلے جب میں نے جلال سے محبت کی تو پورے صدق کے ساتھ کی۔ دعائیں، وظیفے، منتیں۔ کیا تھا جو میں نے نہیں کیا مگر وہ مجھے نہیں ملا۔‘‘
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔ سالار کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی نرم گرفت میں تھا، اس کے گھٹنے پر دھرا تھا۔
’’پتا ہے کیوں؟ کیوں کہ اس وقت تم بھی مجھ سے محبت کرنے لگے تھے اور تمہاری محبت میں میری محبت سے زیادہ صدق تھا۔‘‘
سالار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔ اس کی تھوڑی سے ٹپکنے والے آنسو اس کے ہاتھ پر گر رہے تھے، سالار نے دوبارہ امامہ کے چہرے کو دیکھا۔
’’مجھے اب لگتا ہے کہ مجھے اللہ نے بڑے پیار سے بنایا ہے۔ وہ مجھے ایسے کسی شخص کو سونپنے پر تیار نہیں تھا جومیری قدر نہ کرتا، نا قدری کرتا مجھے ضائع کرتا اور جلال وہ میرے ساتھ یہی سب کرتا۔ وہ میری قدر کبھی نہ کرتا۔نو سال میں اللہ نے مجھے ہر حقیقت بتادی۔ ہر شخص کا اندر اور باہر دکھادیا اور پھر اس نے مجھے سالار سکندر کوسونپا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ تم وہ شخص ہو جس کی محبت میں صدق ہے۔ تمہارے علاوہ اور کون تھا جو مجھے یہاں لے آتا۔ تم نے ٹھیک کہا تھا۔ تم نے مجھ سے پاک محبت کی تھی۔‘‘
وہ بے حس و حرکت سا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس اعتراف اس اظہار کے لئے کون سی جگہ چنی تھی۔ وہ اب اس کے ہاتھ کو نرمی اور احترام سے چومتے ہوئے باری باری اپنی آنکھوں سے لگارہی تھی۔
’’مجھے تم سے کتنی محبت ہوگی۔ میں یہ نہیں جانتی۔ دل پر میرا اختیار نہیں ہے، مگر میں جتنی زندگی بھی تمہارے ساتھ گزاروں گی۔ تمہاری وفادار اور فرماں بردار ہوں گی۔ یہ میرے اختیار میں ہے میں زندگی کے ہر مشکل مرحلے ، ہر آزمائش میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ میں اچھے دنوں میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں۔ میں برے دنوں میں بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
اس نے جتنی نرمی سے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اسی نرمی سے چھوڑ دیا۔ وہ اب سرجھکائے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کررہی تھی۔
سالار کچھ کہے بغیر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے زمین پر اتاری، جانے والی صالح اوور بہترین عورتوں میں سے ایک دی گئی تھی۔ وہ عورت جس کے لئے سالار نے ہر وقت اور ہر جگہ دعا کی تھی۔
کیا سالار سکندر کے لئے نعمتوں کی کوئی حد رہ گئی تھی؟ اور اب جب وہ عورت اس کے ساتھ تھی۔ تو اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کیسی بھاری ذمہ داری اپنے لئے لے بیٹھا تھا، اسے اس عورت کا کفیل بنادیا گیا تھا جو نیکی اور پارسائی میں اس سے کہیں آگے تھی۔
امامہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سالار نے کچھ کہے بغیر اس کا ہاتھ تھام کر وہاں سے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔ اسے اس عورت کی حفاظت سونپ دی گئی تھی جس نے اپنے اختیار کی زندگی کو اس کی طرح کسی آلائش اور غلاظت میں نہیں ڈبویا، جس نے اپنی تمام جسمانی اور جذباتی کمزوریوں کے باوجود اپنی روح اور جسم کو اس کی طرح نفس کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔
اس کا ہاتھ تھامے قدم بڑھاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار پارسائی اور تقویٰ کا مطلب سمجھ میں آرہا تھا۔
وہ اپنی پوری زندگی کو جیسے فلم کی کسی اسکرین پر چلتا دیکھ رہ اتھا اور اسے بے تحاشا خوف محسوس ہورہا تھا۔
’’سالار! تم سے ایک چیز مانگوں؟‘‘
امامہ نے جیسے اس کی سوچ کے تسلسل کو روکا تھا۔ وہ اس وقت حرم کے صحن سے باہر نکلنے ہی والے تھے۔ سالار نے رک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ جانتا تھا وہ اس سے کیا مانگنے والی تھی۔
’’تم ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ پڑھو۔‘‘ سالار کو اندازہ نہیں تھا، وہ اس سے یہ مطالبہ کرنے والی تھی۔ وہ حیران ہوا تھا۔
’’آخری خطبہ؟‘‘ وہ بڑبڑایا۔
’’ہاں وہی خطبہ جو انہوں نے جبل رحمت کے دامن میں دیا تھا، اس پہاڑ پر، جس پر چالیس سال بعد حضرت آدم علیہ السلام اور حوا بچھڑ کر ملے تھے اور بخشے گئے تھے۔‘‘
امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ ایک جھماکے کے ساتھ سالار کو پتا چل گیا تھا، وہ اسے آخری خطبہ کیوں پڑھوانا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭
اس نے سالار سے آخری خطبہ کے بارے میں ایک دن پہلے بھی پوچھا تھا۔ تب وہ جبل رحمت پر کھڑے تھے۔
’’تمہیں آخری خطبہ کیوں یاد آگیا؟‘‘ سالار نے کچھ حیران ہوکر اسے دیکھا۔ وہ دونوں بھی کچھ دیر پہلے جب رحمت پر نوافل اداکرکے فارغ ہوئے تھے۔
’’یہیں پر آخری حج کے اجتماع سے خطاب کیا تھا نا انہوں نے؟‘‘ وہ جبل رحمت کی چوٹی کے دامن کو دیکھ رہی تھی۔
’’ہاں…‘‘ سالار نے اس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے نیچے جھانکا۔ ان دونوں کے کپڑے اب ہوا سے پھڑپھڑا رہے تھے۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ تیز دھوپ اور لو جیسی ہوا کے تھپڑوں میں وہ اس سے خون جمادینے والے سوال کرنے والی تھی۔
’’تمہیں ان کا خطبہ یاد ہے؟‘‘ امامہ نے اس سے پوچھا۔
’’سارا تو نہیں۔‘‘ سالار یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اٹکا۔ بس چند احکامات یاد ہوں گے۔‘‘ اس نے بات مکمل کی تھی۔
’’جیسے؟‘‘ امامہ نے مدھم آواز میں دل گردہ نکال دینے والی بے رحمی کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا تھا۔ سالار اس کی نظروں سے نظریں ہٹا نہیں سکا۔ وہ بڑی نازک جگہ پر کھڑا کرکے اس سے اس کی زندگی کا مشکل ترین سوال پوچھ رہی تھی اور سوال کا جواب… ان کے درمیان آنے والی خاموشی کے وقفے میں بھی تھا۔
’’مجھے پورا یاد ہے اور آج یہاں کھڑی ہوں تو اور بھی یاد آرہا ہے۔ میں سوچ رہی ہوں، آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خطبہ یہیں کیوں دیا تھا۔ اس پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوکر جس پر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ تعالیٰ عنہ چالیس سال کے بعد آپس میں ملائے اور بخشے گئے۔‘‘ وہ اب کچھ سوچنے والے انداز میں بول رہی تھی۔
’’شاید اس لئے کیوں کہ دنیا کا آغاز انہیں دو انسانوں سے ہوا اور دین مکمل ہونے کا اعلان بھی اسی میدان میں ہوا، اور اسی میدان میں ایک دن دنیا کا خاتمہ ہوگا۔‘‘ سالار لقمہ دیئے بغیر نہیں رہ سکا۔
امامہ ہنس پڑی تھی۔
’’تم ہنسیں کیوں؟‘‘ سالار الجھا۔
’’تم تو کہہ رہے تھے تم کو وہ چند احکامات بھی یاد نہیں…اب یہ کیسے یاد آگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میدان میں دین مکمل ہونے کا اعلان کیا تھا۔‘‘
سالار لاجواب ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ امامہ کو کوئی توجیہہ ڈھونڈ کر پیش کرتا، اس نے اسی پرسوچ انداز میں اس سے کہا۔
’’مجھے لگتا ہے، وہ آخری خطبہ دنیا کے ہر انسان کے لئے تھا۔ ہم سب کے لئے… آج کے آدم اور حوا کے لئے… اگر وہ سارے احکامات جو اس آخری خطبہ کا حصہ تھے، ہم سب نے اپنائے ہوتے یا اپنالیں تو دنیا اس بے سکونی اور بگاڑ کا شکار نہ ہوتی… جہاں ہم آج کھڑے ہیں… اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے آخری وصیت تھی تو ہم بہت بدقسمت ہیں کہ ان کی سنت تو ایک طرف ان کی وصیت تک ہمیں یاد نہیں… عمل کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔‘‘
وہ کچھ جذباتی انداز میںبولتی گئی تھی اور سالار کو پتا تھا یہ گفتگو کہاں جارہی تھی۔ وہ عورت ساڑھے نو سال پہلے بھی اس کے پیروں کے نیچے سے زمین نکال سکتی تھی اور تب بھی نکال رہی تھی۔
’’تم کو سود کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پتا ہیں نا اس آخری خطبے کے؟‘‘ وہ تلوار اس کی گردن پر آگری تھی، جس سے وہ اب تک بچنے کی کوشش کرتا آیا تھا۔ وہ کس جگہ پر کھڑی اس سے کیا پوچھ رہی تھی۔ ایسی ندامت تو کبھی خانہ کعبہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوکر اسے نہیں ہوئی تھی، جتنی اس وقت جبل رحمت پر اس جگہ کھڑے ہوکر اسے ہوئی تھی، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے بارے میں احکامات دیئے تھے۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے لگا جیسے جبل رحمت پر پڑے ہر پتھر نے اس پر لعنت بھیجی تھی۔ پسینہ ماتھے پر نہیں… پیروں کے تلوؤں تک آیا تھا۔ اسے لگا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا تھا اور بس وہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی نظروں میں اس کے لئے ملامت نہیں افسوس تھا… پھر وہ وہاں ٹھہر نہیں سکا، سرجھکائے تیز قدموں سے امامہ کا انتظار کئے بغیر جبل رحمت سے اترتا چلاگیا۔ وہ رحمت کا حق دار نہیں تھا تو جبل رحمت پر کیسے کھڑا ہوپاتا۔ اسے نیچے اتر کر محسوس ہوا تھا۔
اور آج امامہ نے وہ سوال حرم میں کردیا تھا۔ سالار نے اس سے اس بار یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ اس سے کیا مانگے گی۔ اس نے اس کے بالمقابل کھڑے ہوکر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حرم کے صحن سے نکلنے سے پہلے امامہ سے کہا تھا۔
’’میں سود جب بھی چھوڑوں گا ، تمہارے لئے نہیں چھوڑوں گا… نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑوں گا۔‘‘ امامہ نے اس کے اعلان کو سنا اور پھر بڑی ٹھنڈی آواز میں کہا۔
’’تو پھر ان صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑ دو۔‘‘
سالار ہل نہیں سکا۔ یہ عورت اس کی زندگی میں پتا نہیں کس لئے آئی یا لائی گئی تھی۔ اس کو اکنامکس اور حساب کے ہر سوال کا جواب آتا تھا۔ سوائے اس ایک جواب کے۔
’’تم تو حافظ قرآن ہو سالار… پھر بھی اتنی بڑی Violation کررہے ہو، قرآن پاک اور اللہ کے احکامات کی۔‘‘ امامہ نے اس کے ساتھ حرم سے باہر جاتے ہوئے کہا۔
’’تم جانتی ہو میں انویسٹمنٹ بینکنگ کروا رہا ہوں لوگوں کو اور …‘‘
امامہ نے سالار کی بات کاٹ دی۔’’تم کو یقین ہے کہ تم انویسٹمنٹ بینکنگ میں جو بھی کررہے ہو، اس میں سود کا ذرّہ تک شامل نہیں ہے؟‘‘
سالار کچھ دیر بول نہیں سکا، پھر اس نے کہا۔
’’تم بینکنگ کے بارے میں میراstanceجانتی ہو… چلو میں چھوڑ بھی دیتا ہوں یہ… بالکل، ہر مسلم چھوڑ دے بینکوں کو… اس کے بعد کیا ہوگا… حرام حلال میں تبدیل ہوجائے گا؟‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا تھا۔
’’ابھی تو ہم حرام کا م ہی سہی، مگر اس سسٹم کے اندر رہ کر اس سسٹم کو سمجھ رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب ہم ایک متوازی اسلامک اکنامک سسٹم لے آئیں گے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے نہیں آئے گا۔‘‘
’’اور ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا۔‘‘ امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’کم سے کم میری اور تمہاری زندگی میں تو نہیں۔‘‘
’’تم ایسے کیوں کہہ رہی ہو؟‘‘
’’سود جن لوگوں کے خون میں رزق بن کر دوڑنے لگ جائے، وہ سود کو مٹانے کا کبھی نہیں سوچیں گے۔‘‘
سالار کو ایک لمحہ کے لئے لگا، امامہ نے اس کے چہرے پر طمانچہ دے مار اتھا۔ با ت کڑوی تھی… پر بات سچی تھی۔ تھوک سکتا تھا… پر کڑواہٹ زائل نہیں کرسکتا تھا۔
’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم اگر چیزوں کو بدل نہیں سکتے تو اپنی قابلیت ایک غلط کام کو عروج پر پہنچانے کے لئے مت استعمال کرو۔‘‘
وہ اسی امامہ کی محبت میں گرفتار ہوا تھا، اورآج وہ بیوی بن کر ویسی ہی باتیں دہرا رہی تھی تو سالارکو خفگی ہورہی تھی یا شاید وہ شرمندگی تھی، جو اسے امامہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہنے دے رہی تھی۔ اس نے کیا، کیا نہیں کیا تھا۔ اس عورت کو مطیع اور فرماں بردار کرنے کے لئے… اور ابھی کچھ دیر پہلے حرم میں وہ اس سے اپنی محبت اور اطاعت کا اعلان بھی کررہی تھی۔ اپنی غیر مشروط اور دائمی محبت اور وابستگی کا… اور اس اعلان کے بعد بھی وہ صحیح اور غلط کی واضح تمیز لئے بیٹھی تھی، جو صحیح تھا وہ محبت اور اطاعت بھی غلط نہیں کہلواسکتی تھی… امامہ ہاشم کی زبان سے۔
سالار سکندر کو اس سے ایک بارپھر حسد ہوا تھا۔ کیا اس کی زندگی میں ایسا کوئی وقت آناتھا جب وہ امامہ ہاشم کے سامنے دیو بنتا اور بناہی رہتا، بونا نہ بنتا… فرشتہ دکھتا اور دکھتا ہی رہتا، شیطان نہ دکھتا؟
’’میں آخری خطبہ پڑھوں گا۔‘‘ کہنا وہ کچھ اور چاہتا تھا اور کہہ کچھ اور دیا تھا۔
’مجھ سے سنو گے؟‘‘ امامہ نے اس کا ہاتھ تھامتے حرم سے باہر نکلتے ہوئے بڑے اشتیاق سے کہا۔
’’تمہیں زبانی یاد ہے؟‘‘ سالار نے بغیر حیران ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
’’اتنی بار پڑھا ہے کہ لگتا ہے زبانی دہراسکتی ہوں۔‘‘ وہ اب جیسے کچھ یاد کررہی تھی۔
’’سناؤ…‘‘ سالار نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
’’آدم…‘‘ مکہ کی زمین پر کئی سو سال بعد اس خطبہ کو’’حوا‘‘ کی زبان سے سننے کی تیاری کررہا تھا، جو کئی سو سال پہلے آخری نبی الزماںصلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر کے انسانوں کے لئے دیا تھا… صرف مسلمانوں کے لئے نہیں۔
٭…٭…٭
’’سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، ہم اسی کی حمد و ثناء کرتے ہیں اور اسی سے مدد و مغفرت چاہتے ہیں اور اسی کے سامنے توبہ کرتے ہیں اور اسی کے دامن میں اپنے نفس کی خرابیوں اور بے اعمال سے پناہ چاہتے ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جس کو وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبوعد نہیں ہے اور وہ اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کا بندہ اور رسول ہے۔
اے لوگو!میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور تمہیں اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں اور اپنے خطبے کا آغاز نیک بات سے کرتا ہوں۔ لوگو! سنو میں تمہیں وضاحت سے بتاتا ہوں، کیوں کہ شاید اس کے بعد کبھی تم سے اس جگہ مل نہ سکوں۔
اچھی طرح سن لو، تم میں سے جو حاضر نہیں، وہ یہ باتیں غیر حاضر لوگوں تک پہنچادے، ممکن ہے اگلے لوگ یہاں موجود لوگوں کی نسبت ان باتوں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھیں اور ان کی حفاظت فرمائیں۔
اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور میں آج سے تمام سود کالعدم قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے وہ سود معاف کرتا ہوں جو لوگوں نے میرے چچا عباس بن عبدالمطلب کو ادا کرنا ہے۔
البتہ تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے، جس میں نہ اوروں کا نقصان ہے نہ تمہارا…
اے لوگو! میں نے تمہارے پاس ایسی چیز چھوڑی ہے کہ تم اسے مضبوطی سے تھامے رہوگے تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہیں ہوگے۔ یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تم لوگ غلو سے بچو کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اسی کے باعث ہلاک ہوئے۔
دیکھو میں نے حق پہنچادیا ہے۔ بس اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی گئی ہے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچادے اور بے شک تم سب کو اللہ کی طرف لوٹنا اور حساب دینا ہے۔
اے لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے اللہ کو گواہ بناکر ان کو حلال کیا اور انہیں اپنی امان میں لیا ہے۔ تمہیں اپنی عورتوں پر حقوق حاصل ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے تمہاری عورتوں کو تم پر حقوق حاصل ہیں۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے ساتھ دوستی نہ کریں جسے تم پسند نہیں کرتے اور تمہاری حرمت کی نگہبانی کریں اور اگر وہ تمہاری فرماں بردار رہتی ہیں تو پھر یہ ان کا حق ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور ان کے نان و نفقے کی ذمہ داری اٹھاؤ۔
اے لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال ایک دوسرے کے لئے اسی طرح محترم ہیں جیسے آج کا یہ دن (عرفۂ کادن ) یہ مہینہ (ذی الحجہ) اور یہ شہر (مکہ)۔
خبردار! زمانہ جاہلیت کی ہر رسم اور طریقہ آج میرے قدموں کے نیچے ہے اور جاہلیت کے خون معاف کردیئے گئے ہیں اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ حارث کا خون ہے۔ دیکھو، میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ پھر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔
اے لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نیا پیغمبر یا نبی آئے گا نہ تمہارے بعد کوئی نئی امت، میں تمہارے پاس اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اگر تم ان پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
اور شیطان سے خبردار رہو۔ وہ اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ اس زمین پر اس کی پرستش کی جائے گی لیکن وہ اس بات پر راضی ہے کہ تمہارے درمیان فتنہ و فساد پیدا کرتا رہے، اس لئے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرو۔
جان جاؤ کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان ایک امت ہیں۔ کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے، سوائے اس کے جسے اس کا بھائی اپنی رضا مندی اور خوشی سے دے اور اپنے نفس پر اور دوسرے پر زیاتی نہ کرو۔
تم سب آدم اور حوا کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ کسی عرب کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔ برتری اگر ہے تو صرف تقویٰ کو۔
اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو اور جو تم کھاؤ، اس میں سے ان کو کھلاؤ اور جو تم پہنو، اسی میں سے ان کو پہناؤ اور اگر وہ ایسی خطا کریں جو تم معاف نہ کرنا چاہو تو انہیں فروخت کردو لیکن کوئی سزا نہ دو۔
خوب سن لو، اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نماز قائم کرو۔ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی سے ادا کرو۔ اپنے حاکم کی اطاعت کرو۔ چاہے وہ ایک ناک کٹا حبشی ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔‘‘
٭…٭…٭