’’باجی! آپ کہاں تھیں؟‘‘
اگلی صبح وہ ملازمہ کے بیل دینے پر جاگی تھی۔ دروازہ کھولنے پر اسے دیکھتے ہی ملازمہ نے پوچھا۔
’’میں چند دن اپنے گھر رہنے کے لئے گئی ہوئی تھی۔‘‘ اس نے ٹالنے والے انداز میں کہا۔
’’طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟‘‘ ملازمہ نے اس کا چہرہ غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں! نہیں ، بس تھوڑا سا بخار ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
’’کوئی خوش خبری تو نہیں ہے باجی؟‘‘
وہ بیڈ روم کی طرف جاتے جاتے ملازمہ کے جوش پر ٹھٹکی اور پھر بری طرح شرمندہ ہوئی۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم صفائی کرو۔‘‘
فون کی بیل ہونے پر، وہ کچن میں اپنے لئے ناشتا بناتے ہوئے باہر نکل آئی۔ وہ سالار تھا جو عام طور پر اسی وقت اسے کال کیا کرتا تھا۔ اتنے دنوں کے وقفے کے بعد فون پر اس کی آواز اسے بے حد عجیب لگی تھی۔
’’کیسی طبیعت ہے تمہاری؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’ناشتا کرکے گئے تھے آفس؟‘‘ اسے کچن میں کوئی استعمال شدہ برتن نظر نہیں آیا تھا۔
’’نہیں، لیٹ ہوگیا تھا۔ ناشتے کے لئے ٹائم نہیں تھا۔‘‘
’’مجھے جگادیا ہوتا، میں بنادیتی۔‘‘ اس نے کہا۔
’’نہیں، مجھے بھوک بھی نہیں تھی۔‘‘ رسمی جملوں کے بعد اب وہ خندق آگئی تھی جس سے دونوں بچنا چاہ رہے تھے اور بچ نہیں پارہے تھے۔ ایک دوسرے سے کچھ کہنے کے لئے ان کے پاس یک دم الفاظ نہیں رہے تھے۔
’’اور؟‘‘ وہ خود کوئی بات ڈھونڈنے میں ناکام رہنے کے بعد اس سے پوچھنے لگا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ وہ بھی اتنی ہی خالی تھی۔
’’رات کو کہیں باہر کھانا کھانے چلیں گے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’اچھا۔‘‘ گفتگو پھرsquare one پر آگئی۔ سالار نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کردیا۔
وہ بہت دیر ریسیو پکڑے بیٹھی رہی۔ بہت فرق تھا اس گفتگو میں جو وہ ایک ہفتہ پہلے فون پر کرتے تھے اور اس گفتگو میں جو وہ اب کررہے تھے۔ دراڑیں بھرنا زیادہ مشکل تھا کیوں کہ نشان کبھی نہیں جاتے، وہ بھی یہی دقت محسوس کررہے تھے۔
اس نے زندگی میں اس ایک ہفتے میں جو کچھ سیکھا تھا، وہ شادی کے اتنے مہینوں میں نہیں سیکھا تھا۔ کسی انسان کی محبت کبھی ’’غیر مشروط‘‘ نہیں ہوسکتی۔ خاص طور پر تب، جب کوئی محبت، شادی نام کے رشتے میں بھی بندھی ہو۔ سالار کی محبت بھی نہیں تھی۔ ایک ناخوشگوار واقعہ اسے آسمان سے زمین پر لے آیا تھا۔ وہ زمینی حقائق اسے پہلی بار نظر آئے تھے، جو پہلے اس کی نظروں سے اوجھل تھے۔ وہ صرف محبوبہ نہیں تھی، بیوی بن چکی تھی۔ ایک مرد کے لئے اسے اب زندگی ، دل اور ذہن سے نکالنا زیادہ آسان تھا۔ سالار نے دوسروں کی نظروں میں اس کی عزت ضرور رکھ لی تھی، لیکن اس کی اپنی نظروں میں اسے بہت بے وقعت کردیا تھا۔ خوش فہمیوں اور توقعات کا پہاڑ آہستہ آہستہ ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔
وہ شام کو جلدی گھر آگیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ یہ ارادی طور پر تھا۔ ا س کے لئے بیرونی دروازہ کھولنے پر اس نے ہمیشہ کی طرح گرم جوش سے اسے اپنے ساتھ نہیں لگایا تھا۔ اس سے نظر ملانا، مسکرانا اور اس کے قریب آنا شاید اس کے لئے بھی بہت مشکل ہوگیا تھا۔ پہلے سب کچھ بے اختیار ہوتا تھا، اب کوشش کے باوجود بھی نہیں ہو پارہا تھا۔
کھانے کے لئے باہر جاتے ہوئے بھی گاڑی میں ویسی ہی خاموشی تھی۔ دونوں وقفے وقفے سے کچھ پوچھتے پھر یک حرفی جواب کے بعد خاموشی ہوجاتے۔
وہ پہلا ڈنر تھا جو انہوں نے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے اپنی ڈنر پلیٹ کو دیکھتے ہوئے کیا تھا اور دونوں نے کھانا کسی دلچسپی کے بغیر کھایا تھا۔
واپسی بھی اسی خاموشی کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ ایک بار پھر سونے کے لئے بیڈروم میں اور وہ اسٹڈی روم میں چلا گیا۔
٭…٭…٭
اگلے دن وہ تقریباً ایک ہفتے کے بعد ناشتے کی ٹیبل پر تھے۔ بات کرنا، نظر ملانے سے زیادہ آسان تھا اور وہ بات کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ شرمندگی اور ان تکلیف دہ احساسات کو ختم کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھے جو اس ٹیبل پر بن بلائے مہمان کی طرح موجود تھے لیکن وہ مہمان ٹیبل چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔
ایک ہفتہ کے بعد ہی وہ گھر کا بنا ہوا لنچ آفس لے کر جارہا تھا۔ وہ امامہ سے کہہ نہیں سکا کہ اس نے پورا ہفتہ ناشتے سمیت کھانا کھانا ہی چھوڑ دیا تھا۔ وہ گھر اتنے دن اس کے لئے بھوت بنگلہ بنارہا۔ گھر سے نکلتے ہوئے اس نے امامہ سے کہا۔
’’میرے دراز میں تمہاری رنگ ہے، وہ لے لینا۔‘‘ امامہ نے جیسے کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ دیکھا۔
’’میری رنگ…؟‘‘ وہ رنگ اسے پہلی بار یاد آئی تھی۔
’’وہ میں نے کہاں رکھ دی؟‘‘
’’میرے آفس کے واش روم میں۔‘‘ اس نے باہر نکلتے ہوئے بے تاثر لہجے میں کہا، وہ کھڑی رہ گئی۔
٭…٭…٭
کئی دنوں کے بعد اس رات سالار نے رغبت سے کھانا کھایا تھا۔ وہ عام طور پر ایک چپاتی سے زیادہ نہیں کھاتا تھا، لیکن آج اس نے دو چپاتیاں کھائی تھیں۔
’’اور بنادوں؟‘‘ امامہ نے اسے دوسری چپاتی لیتے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ وہ خود چاول کھا رہی تھی۔
’’نہیں، میں پہلے ہی اوور ایٹنگ کررہا ہوں۔‘‘ اس نے منع کردیا۔
امامہ نے اس کی پلیٹ میں کچھ سبزی ڈالنے کی کوشش کی، اس نے روک دیا۔
’’نہیں، میں ویسے ہی کھانا چاہ رہا ہوں۔‘‘ امامہ نے کچھ حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ بے حد گہری سوچ میں ڈوبا اس چپاتی کے لقمے لے رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اسے اس کے ہاتھ کی چپاتی پسند ہے، لیکن اس نے اسے صرف چپاتی کھاتے پہلی بار دیکھا تھا۔ اس دن پہلی بار اس نے آخری لقمہ اسے نہیں دیا۔ وہ کھانا کھانے کے بعد اٹھ گیا۔ وہ برتن اکٹھے کررہی تھی، جب وہ کچھ پیپرز لئے آیا تھا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ امامہ نے کچھ حیرانی سے ان پیپرز کو دیکھا جو وہ اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔
’’بیٹھ کر دیکھ لو۔‘‘ وہ خود بھی کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ الجھے انداز میں پیپرز لے کر بیٹھ گئی۔
پیپرز پر ایک نظر ڈالتے ہی اس کا رنگ فق ہوگیا تھا۔
’’طلاق کے پیپرز ہیں یہ؟‘‘ وہ بمشکل بول سکی۔
’’نہیں، میں نے اپنے وکیل سے ایک divorce deed تیار کروایا ہے۔ اگر کبھی خدانخواستہ ایسی صورت حال ہوگئی کہ ہمیں الگ ہونا پڑا تو یہ تمام معاملات کو پہلے سے کچھ خوش اسلوبی سے طے کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی۔‘‘ وہ اب بھی حواس باختہ تھی۔
’’ڈرو مت… یہ کوئی دھمکی نہیں ہے۔ میں نے یہ پیپرز تمہارے تحفظ کے لئے تیار کروائے ہیں۔‘‘
سالار نے اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ کو پانے ہاتھ میں لیا۔
’’کیسا تحفظ ؟‘‘ اسے اب بھی ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔
’’میں نے علیحدگی کی صورت میں فنانشل سیکیورٹی اور بچوں کی کسٹڈی تمہیں دی ہے۔‘‘
’’لیکن میں تو طلاق نہیں مانگ رہی۔‘‘ اس کی ساری گفتگو اس کے سر کے اوپر سے گزر رہی تھی۔
’’میں بھی تمہیں طلاق نہیں دے رہا، صرف قانونی طور پر خود کو پابند کررہا ہوں کہ میں علیحدگی کے کیس کو کورٹ میں نہیں لے جاؤں گا۔ فیملی کے ذریعے معاملات کو طے کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر نہ ہوئے تو میں تمہیں علیحدگی کا حق دے دوں گا اور اسی صورت میں اگر ہمارے بچے ہوئے تو ان کی کسٹڈی تمہیں دے دوں گا۔ ایک گھر اور کچھ رقم بھی تمہیں دوں گا۔ جو بھی چیزیں اس سارے عرصے میں حق مہر، تحائف، جیولری یا روپے اور پراپرٹی کی صورت میں تمہیں دوں گا، وہ سب خلع یا طلاق، دونوں صورتوں میں تمہاری ملکیت ہوں گی، میں ان کا دعویٰ نہیں کروں گا۔‘‘
’’یہ سب کیوں کررہے ہو تم؟‘‘ اس نے بے حد خائف انداز میں اس کی بات کاٹی۔
’’میں اپنے آپ سے ڈر گیا ہوں امامہ۔‘‘ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
’’میں کبھی سوچ نہیں سکتا تھا کہ مجھے تم پر اتنا غصہ آسکتا ہے۔ میں نے تمہیں گھر سے نہیں نکالا، لیکن میں نے اس رات یہ پروا نہیں کی کہ تم گھر سے جارہی ہو تو کیوں جارہی ہو اور کہاں جارہی ہو۔ میں اتنا مشتعل تھا کہ مجھے کوئی پروا نہیں تھی کہ تم بحفاظت کہیں پہنچی بھی ہو یا نہیں۔‘‘ وہ بے حد صاف گوئی سے کہہ رہا تھا۔
’’اور پھر اتنے دن میں نے ڈاکٹر صاحب کی بھی بات نہیں سنی۔ I just wanted to punish you.۔ ‘‘وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔
’’اور اس سب نے مجھے خوف زدہ کردیا۔ میرا غصہ ختم ہوا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اتنا گر سکتا ہوں، میں تمہارے ساتھ اس طرح بی ہیو کرسکتا ہوں، لیکن میں نے کیا۔ بہر حال میں انسان ہی ہوں، تم کو ساتھی کے بجائے حریف سمجھوں گا تو شاید آئندہ بھی کبھی ایسا کروں۔ ابھی شادی کو تھوڑا وقت ہوا ہے، مجھے بہت محبت ہے تم سے، میں بہت خوشی خوشی یہ سارے وعدے کرسکتا ہوں تم سے، سب کچھ دے سکتا ہوں تمہیں، لیکن کچھ عرصے بعد کوئی ایسی سچویشن آگئی تو پتا نہیں ہمارے درمیان کتنی تلخی ہوجائے۔ تب شاید میں اتنی سخاوت نہ دکھا سکوں اور ایک عام مرد کی طرح خودغرض بن کر تمہیں تنگ کروں۔ اس لئے ابھی ان دنوں، جب میرا دل بہت بڑا ہے تمہارے لئے، تو میں نے کوشش کی ہے کہ یہ معاملات طے ہوجائیں صرف زبانی وعدے نہ کروں تمہارے ساتھ۔ میری طرف سے میرے والد کےsignatures ہیں اس پر، تم ڈاکٹر صاحب سے بھی اس پر سائن کروالو۔ ڈاکٹر صاحب چاہیں تو یہ پیپرز وہ اپنے پاس رکھ لیں یا تم اپنے لاکر میں رکھوادو۔‘‘ وہ آنکھوں میں آنسو لئے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
’’میں نے تو تم سے کوئی سیکیورٹی نہیں مانگی۔‘‘ اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
’’لیکن مجھے تو دینی چاہیے نا… میں یہ پیپرز جذبات میں آکر نہیں دے رہا ہوں تمہیں، یہ سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر کررہا ہوں۔ تمہارے بارے میں بہت پوزیسو، بہت ان سیکیور ہوں امامہ…‘‘
وہ ایک لمحہ کے لئے ہونٹ کاٹتے ہوئے رکا۔
’’اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ تم مجھے چھوڑنا چاہوتو میں تمہیں کتنا تنگ کرسکتا ہوں، تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے، لیکن مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔‘‘ وہ پھر رک کر ہونٹ کاٹنے لگا تھا۔
’’تم میرا ایسا واحد اثاثہ ہو، جسے میں پاس رکھنے کے لئے فیئر اور فاؤل کی تمیز کے بغیر کچھ بھی کرسکتا ہوں اور یہ احساس بہت خوفناک ہے میرے لئے۔ میں تمہیں تکلیف پہنچانا چاہتا ہوں، نہ تمہاری حق تلفی چاہتا ہوں۔ ہم جب تک ساتھ رہیں گے، بہت اچھے طریقے سے رہیں گے اور اگر کبھی الگ ہوجائیں تو میں چاہتا ہوں ایک دوسرے کو تکلیف دیئے بغیرالگ ہوں ۔‘‘
وہ اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ وہ پیپرز ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔
٭…٭…٭
’’پودوں کو پانی کب سے نہیں دیا؟‘‘ اگلی صبح اس نے ناشتے کی ٹیبل پر سالار سے پوچھا۔
’’پودوں کو ؟‘‘ وہ چونکا۔
’’پتا نہیں… شاید کافی دن ہوگئے۔‘‘ وہ بڑبڑایا تھا۔
’’سارے پودے سوکھ رہے تھے۔‘‘ وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے حیران ہوئی تھی۔ وہ جم سے آنے کے بعد روز صبح پودوں کو پانی دیا کرتا تھا۔ اس سے پہلے کبھی امامہ نے اسے اپنی روٹین بھولتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ سلائس کھاتے کھتے یک دم اٹھ کر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ چند منٹوں کے بعد وہ کچھ پریشان سا واپس آیا تھا۔
’’ہاں، مجھے خیال ہی نہیں رہا۔‘‘ اس صبح وہ پودوں کو پانی دے کر آئی تھی۔
’’تمہاری گاڑی فی الحال میں استعمال کررہا ہوں۔ دو چار دن میں میری گاڑی آجائے گی تو تمہاری چھوڑدوں گا۔‘‘ اس نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے امامہ سے کہا۔
’’تمہاری گاڑی کہاں ہے؟‘‘
’’ورکشاپ میں ہے لگ گئی تھی۔‘‘ اس نے عام سے لہجے میں اسے کہا، وہ چونک گئی۔
’’کیسے لگ گئی؟‘‘
’’پتا نہیں کیسے لگ گئی، میں نے کسی گاڑی کے پیچھے مار دی تھی۔‘‘ وہ کچھ معذرت خواہانہ انداز میں اسے بتارہا تھا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، وہ سلائس پر مکھن لگا رہا تھا۔ وہ ایکسپرٹ ڈرائیور تھا اور یہ ناممکن تھا کہ وہ کسی گاڑی کو پیچھے سے ٹکر مار دے۔
گھر میں آنے والی دراڑیں مرد اور عورت پر مختلف طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ عورت کی پریشانی آنسو بہانے، کھانا چھوڑ دینے اور بیمار ہوجانے تک ہوتی ہے۔ مرد ان میں سے کچھ بھی نہیں کرتا اس کا ہر ردعمل اس کے آس پاس کی دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے، مگر وہ ایک رشتہ دونوں کے وجود پر اپنا عکس چھوڑتا ہے۔ مضبوط ہو تب بھی، کمزور ہو تب بھی، ٹوٹ رہا ہو تب بھی دونوں اپنی مرضی سے اس رشتے سے نکلنا چاہ رہے ہو ں ، تب بھی۔
امامہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔
٭…٭…٭