وہ تقریباً چار بجے گھر آیا تھا اور وہ اس وقت تک یہ طے کر چکی تھی کہ اسے اس سے کس طرح بات کرنی ہے۔ سالار اوپر نہیں آیا تھا۔ اس نے فون پر اسے نیچے آنے کے لیے کہا۔ وہ جب گاڑی کے کھلے دروازے سے اندر بیٹھی تو اس نے مسکرا کر سر کے اشارے سے اس کا استقبال کیا۔ وہ فون پر اپنے آفس کے کسی آدمی سے بات کر رہا تھا۔
ہینڈز فری کان سے لگائے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرف ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ مسلسل اسی کال میں مصروف رہا۔ امامہ کی جیسے جان پر بن آئی تھی۔ اگر وہ سارے راستے بات کرتا رہا تو… ایک سگنل پر رکنے پر اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا اور بے حد خفگی کے عالم میں اسے کال ختم کرنے کا اشارہ کیا۔ نتیجہ فوری طور پر آیا۔ چند منٹ مزید بات کرنے کے بعد سالار نے کال ختم کر دی۔
’’سوری… ایک کلائنٹ کو کوئی پرابلم ہو رہا تھا۔‘‘ اس نے کال ختم کرنے کے بعد کہا۔
’’اسلام آباد چلو گی؟‘‘ اس کے اگلے جملے نے امامہ کے ہوش اُڑا دیے۔
وہ سب کچھ جو وہ سوچ کر آئی تھی، اس کے ذہن سے غائب ہو گیا۔
’’اسلام آباد؟‘‘ اس نے بے حد بے یقینی سے سالار کو دیکھا۔
’’ہاں میں اس ویک اینڈ پر جا رہا ہوں۔‘‘ سالار نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
’’لیکن میں… میں کیسے جا سکتی ہوں؟‘‘ وہ بے اختیار اٹکی۔ ’’تمہارے پاپا تو تمہیں منع کر کے گئے ہیں کہ مجھے اپنے ساتھ اسلام آباد نہ لے کر آنا۔ پھر؟‘‘ سالار نے اس کی بات کاٹی۔
’’ہاں… اور اب وہی کہہ رہے ہیں کہ اگر میں تمہیں ساتھ لانا چاہوں تو لے آؤں۔‘‘ اس بڑی روانی سے کہا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
’’میری فیملی کو پتا لگ سکتا ہے۔‘‘ اس نے لمبی خاموشی کے بعد بالآخر کہا۔
’’تمہاری فیملی نے تمہارے بارے میں لوگوں سے کہا ہے کہ تم شادی کے بعد بیرون ملک سیٹل ہو گئی ہو۔ اب اتنے سالوں کے بعد تمہارے حوالے سے کچھ کریں گے تو خود انہیں بھیembarrassment ہو گی۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ وہ کچھ کریں گے۔‘‘ وہ مطمئن تھا۔
’’تم انہیں نہیں جانتے، انہیں پتا چل گیا تو وہ چپ نہیں بیٹھیں گے۔‘‘ وہ پریشان ہونے لگی تھی۔
’’وہاں کبھی کبھار جایا کریں گے، خاموشی سے جائیں گے اور آجایا کریں گے۔ یار! اتنا socialize نہیں کریں گے وہاں۔‘‘ وہ اس کی بے فکری سے چڑی۔
’’انہیں پتا چلا تو وہ مجھے لے جائیں گے… وہ مجھے مار ڈالیں گے۔‘‘ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
’’فرض کرو امامہ! اگر انہیں اتفاقاً تمہارے بارے میں پتا چلتا ہے یا یہاں لاہور میں تمہیں کوئی دیکھ لیتا ہے، تمہیں کوئی نقصان پہنچاتے ہیں تو…؟‘‘
’’نہیں پتا چلے گا میں کبھی باہر جاؤں گی ہی نہیں۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
’’تمہارا دم نہیں گھٹے گا اس طرح…؟‘‘ اس نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔
اس کی آنکھوں میں مسیحا جیسی ہمدردی تھی۔
’’مجھے عادت ہو گئی ہے سالار… اتنا ہی سانس لینے کی… مجھے فرق نہیں پڑتا۔ جب میں جاب نہیں کرتی تھی تو مہینوں گھر سے نہیں نکلتی تھی۔ میں اتنے سالوں سے لاہور میں ہوں لیکن میں نے یہاں بازاروں، پارکس اور ریسٹورنٹس کو صرف سڑک پر سفر کرتے ہوئے باہر سے دیکھا ہے یا ٹی وی اور نیوز پیپرز میں۔ میں اگر اب ان جگہوں پر جاؤں تو میری سمجھ میں ہی نہیں آئے گا کہ مجھے وہاں کرنا کیا ہے۔ جب ملتان میں تھی ہاسٹل اور کالج کے علاوہ دوسری کوئی جگہ نہیں تھی میری زندگی میں۔ اب لاہور آگئی تو یہاں بھی پہلے یونیورسٹی اور گھر… اور اب گھر… مجھے ان کے علاوہ دوسری ساری جگہیں عجیب سی لگتی ہیں۔ مہینے میں ایک بار میں سعیدہ اماں کے گھر کے پاس ایک چھوٹی سی مارکیٹ میں ان کے ساتھ جاتی تھی، وہ میری واحد آؤٹنگ ہوتی تھی۔ وہاں ایک بک شاپ تھی۔ میں پورے مہینے کے لیے بکس لے لیتی تھی وہاں سے۔ کتاب کے ساتھ وقت گزارنا آسان ہوتا ہے۔‘‘
وہ پتا نہیں اسے کیوں بتاتی گئی۔
’’ہاں، وقت گزارنا آسان ہوتا ہے، زندگی گزارنا نہیں۔‘‘
اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اُسے دیکھا، وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔
’’مجھے فرق نہیں پڑتا سالار۔‘‘
’’مجھے فرق پڑتا ہے… اور بہت فرق پڑتا ہے۔‘‘ سالار نے بے اختیار اس کی بات کاٹی۔ ’’میں ایک نارمل زندگی گزارنا چاہتا ہوں… جیسی کبھی تمہاری زندگی تھی۔ تم نہیں چاہتیں یہ سب کچھ ختم ہو جائے…؟‘‘ وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
’’ابنارمل لائف ہی سہی لیکن میں سیف ہوں۔‘‘
سالار نے بے اختیار اس کے کندھوں پر اپنا بازو پھیلایا۔
’’تم اب بھی سیف رہو گی…trust me… کچھ نہیں ہو گا… میری فیملی تمہیں protect کر سکتی ہے ۔‘‘
’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ سالار نے بولتے بولتے اس کی خاموشی نوٹس کی۔
’’مجھے تمہارے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہیے تھی… کسی کے ساتھ بھی نہیں کرنا چاہیے تھی… میں نے اپنے ساتھ تمہیں بھی مصیبت میں ڈال دیا۔ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔‘‘ وہ بے حد اپ سیٹ ہو گئی۔
’’ہاں، اگر تم کسی اور کے ساتھ شادی کرتیں تو یہ واقعی unfairہوتا لیکن میری کوئی بات نہیں۔ میں نے تو خیر پہلے بھی تمہاری فیملی کی بہت گالیاں اور بددعائیں لی ہیں، اب بھی سہی۔‘‘ وہ بڑی لاپروائی سے کہہ رہا تھا۔
’’تو پھر سیٹ بک کروا دوں تمہاری؟‘‘ وہ واقعی ڈھیٹ تھا۔ وہ چپ بیٹھی رہی۔
٭٭٭٭
اس شام سالار کو ڈاکٹر سبط علی اور ان کی بیوی کچھ سنجیدہ لگے تھے اور اس سنجیدگی کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ امامہ بھی کھانے کے دوران بالکل خاموش رہی تھی، لیکن اس نے اس کی خاموشی کو گاڑی میں ہونے والی گفت گو کا نتیجہ سمجھا۔
وہ لاؤنج میں بیٹھے چائے پر رہی تھے۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس موضوع کو چھیڑا۔
’’سالار ! امامہ کو کچھ شکایتیں ہیں آپ سے۔‘‘ وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے ٹھٹکا۔ یہ بات اگر ڈاکٹر سبط علی نے نہ کہی ہوتی تو وہ اسے مذاق سمجھا۔ اس نے کچھ حیرانی کے عالم میں ڈاکٹر سبط علی کو دیکھا، پھر اپنے برابر میں بیٹھے امامہ کو۔ وہ چائے کا کپ اپنے گھٹنے پر رکھے چائے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال گاڑی میں ہونے والی گفت گو کا آیا لیکن امامہ نے کس وقت ڈاکٹر صاحب کو گاڑی میں ہونے والی گفت گو کے بارے میں بتایا تھا…؟ … وہ بے حد حیران ہوا۔
’’جی…!‘‘ اس نے کپ واپس پرچ میں رکھ دیا۔
’’امامہ آپ کے رویے سے ناخوش ہیں۔‘‘ ڈاکٹر سبط علی نے اگلا جملہ بولا۔
سالار کو لگا، اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔
’’جی…‘‘ اس نے بے اختیار کہا۔’’ میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’آپ امامہ پر طنز کرتے ہیں…؟‘‘ وہ پلکیں جھپکے بغیر ڈاکٹر سبط علی کو دیکھتا رہا۔ بہ مشکل سانس لے کر چند لمحوں بعد اس نے امامہ کو دیکھا۔
’’یہ آپ سے امامہ نے کہا؟‘‘ اس نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سبطِ علی کہا۔
’’ہاں، آپ اس سے ٹھیک بات نہیں کرتے۔‘‘
سالار نے گردن موڑ کر ایک بار پھر امامہ کو دیکھا۔ وہ اب بھی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
’’یہ بھی آپ سے امامہ نے کہا؟‘‘ اس کے تو جیسے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے سر ہلایا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہونٹ کا ایک کونا کاٹتے ہوئے چائے کا کپ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔ اس کا زاہن بری طرح چکرا گیا تھا۔ یہ اس کی زندگی کی سب سے پریشان کن صورت حال میں سے ایک تھی۔
امامہ نے چائے کے کپ سے اٹھتی بھاپ پر نظریں جمائے بے حد شرمندگی اور پچھتاوے کے عالم میں اس کو گلا صاف کرتے ہوئے، کہتے سنا۔ ’’اور…؟‘‘
جو کچھ ہو رہا تھا، یہ امامہ کی خواہش نہیں تھی، حماقت تھی، لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
’’اور یہ کہ آپ کہیں جاتے ہوئے اسے انفارم نہیں کرتے۔ پرسوں آپ جھگڑا کرنے کے بعد اسے سعیدہ بہن کی طرف چھوڑ گئے تھے۔‘‘ اس بار سالار نے پہلے کلثوم آنٹی کو دیکھا پھر ڈاکٹر سبط علی کو… پھر امامہ کو… اگر آسمان اس کے سپر گرتا تب اس کی یہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت ہوئی تھی۔
’’جھگڑا…؟ میرا تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔‘‘ اس نے بہ مشکل اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہنا شروع کیا تھا۔
’’اور امامہ نے خود مجھ سے کہا تھا کہ وہ سعیدہ اماں کے گھر رہنا چاہتی ہے اور میں تو پچھلے چار دنوں سے کہیں۔‘‘ وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
اس نے امامہ کی سسکی سنی تھی۔ اس نے بے اختیار گردن موڑ کر امامہ کو دیکھا، وہ اپنی ناک رگڑ رہی تھی۔ کلثوم آنٹی اور ڈاکٹر صاحب بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ سالار بات جاری نہیں رکھ سکا۔ کلثوم آنٹی اٹھ کر اس کے پاس آکر اسے دلاسا دینے لگیں۔ وہ ہکا بکا بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ملازم کو پانی لانے کے لیے کہا۔
سالار کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن اس وقت وہاں اپنی صفائیاں دینے اور وضاحت کرنے کا موقع نہیں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھتا رہااور سوچتا رہا، وہ اُلّو کا پٹھا ہے کیوںکہ پچھلے چار دن سے اس کی چھٹی حس جو سگنلز بار بار دے رہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھے۔ صرف اس نے خوش فہمی اور لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔
پانچ دس منٹ کے بعد سب کچھ نارمل ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب تقریباً آدھے گھنٹے تک سالار کو سمجھاتے رہے۔ وہ خاموشی سے سر ہلاتے ہوئے ان کی باتیں سنتا رہا۔ اس کے برابربیٹھی امامہ کو بے حد ندامت ہو رہی تھی۔ ا ٓج کے بعدسالار کا اکیلے میں سامنا کرنا کتنا مشکل تھا۔ یہ اس سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔
آدھے گھنٹے کے بعد وہ دونوں وہاں سے رخصت ہو کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گاڑی ڈاکٹر سبط علی کے گھر کے گیٹ سے باہر نکلتے ہی امامہ نے اسے کہتے سنا۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا۔ میں یقین نہیں کر سکتا۔‘‘
اسے اس سے اسی رد عمل کی توقع تھی۔ وہ ونڈ اسکرین سے نظر آتی ہوئی سڑک پر نظریں جمائے بیٹھی اس وقت بے حد نروس ہو رہی تھی۔
’’میں تم پر طنز کرتا ہوں… تم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا… تمہیں بتائے بغیر جاتا ہوں… تمہیں سعیدہ اماں کے گھر چھوڑ گیا تھا… جھگڑا کیا۔ تم نے ان لوگوں سے جھوٹ بولا؟‘‘
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ وہ جھوٹ کا لفظ استعمال نہ کرتا تو اسے اتنا برا نہ لگتا۔
’’میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔‘‘ اس نے بے حد خفگی سے کہا۔
’’میں تم پر طنز کرتا ہوں؟‘‘ سالار کی آواز میں تیزی آگئی۔
’’تم نے اس رات میری اندھیرے میں سونے کی عادت کو ’’عجیب‘‘ کہا۔‘‘ وہ بے یقینی سے اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
’’وہ طنز تھا؟ وہ تو بس ایسے ہی ایک بات تھی۔‘‘
’’مگر مجھے اچھی نہیں لگی۔‘‘ اس نے بے ساختہ کہا۔
’’تم نے بھی تو جواباً میری روشنی میں سونے کی عادت کو عجوبہ کہا تھا۔‘‘ وہ اس بار چپ رہی۔ سالار واقعی بہت زیادہ ناراض ہو رہا تھا۔
’’اور میں تم سے ٹھیک سے بات نہیں کرتا…؟‘‘ وہ اگلے الزام پر آیا۔
’’مجھے لگا تھا۔‘‘ اس نے اس بارمد افعانہ انداز میں کہا۔
’’لگا تھا…؟‘‘ وہ مزید خفا ہوا۔ ’’تمہیں صرف ’’لگا‘‘ اور تم نے سیدھا ڈاکٹر صاحب سے جا کر کہہ دیا۔‘‘
’’میں نے ان سے کچھ نہیں کہا، سعیدہ اماں نے سب کچھ کہا تھا۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
وہ چند لمحے صدمے کے مارے کچھ بول ہی نہیں سکا۔
’’یعنی تم ان سے بھی یہ سب کچھ کہا ہے؟‘‘ وہ چپ رہی۔
وہ ہونٹ کانٹے لگا۔ اسے اب سعیدہ اماں کی اس رات کی بے رخی کی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔
’’اور میں کہاں جاتا ہوں جس کے بارے میں مَیں نے تمہیں نہیں بتایا…؟‘‘ سالار کو یاد آیا۔