آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

اس نے آخری بار شراب آٹھ سال پہلے پی تھی، لیکن وہ انرجی اورnon alcoholic drinks تقریباً ہر رات کام کے دوران پیتا تھا۔ امامہ کو ویسٹ باسکٹ کے پاس شاکڈ دیکھ کر اسے یہ جاننے میں سیکنڈز بھی نہیں لگے تھے کہ ویسٹ باسکٹ میں پڑی کون سی چیز اس کے لیے شاکنگ ہو سکتی ہے۔
وہ کارپوریٹ سکیٹر سے تعلق رکھتا تھا اور جن پارٹیز میں جاتا تھا وہاں ڈرنکس ٹیبل پر شراب بھی موجود ہوتی تھی اور ہر بار اس ’’مشروب‘‘ سے انکار پر کسی نے پچھلے آٹھ سال کے دوران شاید ایک بار بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، کیوںکہ ان میں سے کوئی بھی نو سال پہلے والے سالار سکندر سے واقف نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک فرد جو دو دن پہلے اس کے گھر میں آیا تھا، اس کے پاس سالار کی کسی بھی بات اور عمل پر شبہ کرنے کے لیے بڑی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔
’’یہ سب تو ہو گا ہی… ایسی حرکتیں نہ کرتا تب قابل اعتبار ہوتا۔ اب جب کہ ماضی کچھ اتنا صاف نہیں ہے تو اس پر اپنا اعتبار قائم کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔‘‘ بیرونی دروازے کی طرف جاتے ہوئے اس نے بڑی آسانی کے ساتھ سارا الزام اپنے سر لے کر امامہ کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
’’تمہارے کپڑے پریس کردوں؟‘‘ اس نے بیڈ روم میں آکر پوچھا۔ وہ ڈریسنگ روم میں وارڈ روب کھولے اپنے کپڑے نکال رہا تھا۔
’’نہیں، میرے کپڑے تو پریس ہو کر آتے ہیں۔‘‘ ایک ہینگر نکالتے ہوئے وہ پلٹ کر مسکرایا تھا۔
امامہ کو یک دم اپنے کانوں کے بندے یاد آئے۔
’’تم نے میرے ایر رنگز کہیں دیکھے ہیں میں نے واش روم میں رکھے تھے، وہاں نہیں ملے مجھے۔‘‘
’’ہاں میں نے اٹھائے تھے وہاں سے۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل پر ہیں۔‘‘ سالار دو قدم آگے بڑھا اور ایر رنگز اٹھا کر امامہ کی طرف بڑھا دیے۔
’’یہ پرانے ہو گئے ہیں۔ تم آج میرے ساتھ چلنا، میںتمہیں نئے لے دوں گا۔‘‘
وہ ایر رنگز کانوں میں پہنتے ہوئے ٹھٹکی۔
’’یہ میرے ابو نے دیے ہیں جب مجھے میڈیکل میں ایڈمیشن ملا تھا۔ میرے لیے پرانے نہیں ہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے اپنے پیسے ضائع کرنے کی۔‘‘
اس کا ردِ عمل دیکھنے کے لیے امامہ نے پلٹ کر دیکھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر چلی گئی تھی۔ وہ اگلے کچھ سیکنڈز وہیں کھڑا رہا۔ وہ محبت سے کی ہوئی آفر تھی، جسے وہ اس کے منہ پر مار کر گئی تھی۔ کم از کم سالار نے یہی محسوس کیا تھا۔ اسے یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ محبت سے کی جانے والی اس آفر کو اس نے ضرورت پوری کرنے والی چیز بنا دیا تھا۔ وہ مرد تھا، ضرورت اور محبت میں فرق نہیں کر پاتا تھا۔ وہ عورت تھی ضرورت اور محبت میں فرق رکھتے رکھتے مر جاتی۔
٭٭٭٭





ڈاکٹر سبط علی کو اس دن صبح ہی سعیدہ اماں سے طویل گفت گو کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ وہ دود یا تین دن بعد ان کی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا کرتے تھے اور آج بھی انہوں نے سعیدہ اماں کی طبیعت پوچھنے کے لیے ہی فون کیا تھا۔ وہ ان کی آواز سنتے ہی پھٹ پڑی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی بے یقینی سے ان کی باتیں سنتے رہے۔ انہیں سعیدہ اماں کی کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔
بے حد پریشانی کے عالم میں انہوں نے اِمامہ کو فون کیا۔ اِمامہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سعیدہ اماں، ڈاکٹر سبطِ علی سے واقعی سب کچھ کہہ دیں گی اور وہ بھی اتنی جلدی… ڈاکٹر سبطِ علی نے اس کا حال احوال پوچھتے ہی اس سے اگلا سوال کیا۔
’’سعیدہ بہن نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کو سالار سے کچھ شکایتیں ہیں۔‘‘ وہ بے حد پریشان لگے تھے۔
اِمامہ کا حلق خشک ہوگیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اقرار کرے یا انکار۔ اس کی خاموشی نے ڈاکٹر سبطِ علی کو مزید پریشان کیا۔
’’اور سالار آپ سے کون سی پہلی بیوی کے بارے میں باتیں کرتا رہا ہے…؟‘‘
وہ بے اختیار ہونٹ کاٹنے لگی، اس کا ذہن اس وقت بالکل ماؤف ہوگیا تھا۔ وہ سالار کے خلاف تمام شکایات کو الزامات کے طور پر دہرانا چاہتی تھی لیکن اس وقت مسئلہ یہ تھا کہ وہ ڈاکٹر سبطِ علی سے اتنی بے تکلفی کے ساتھ وہ سب کچھ نہیں کہہ سکتی تھی جو اس نے سعیدہ اماں سے کہا تھا۔ سعیدہ اماں سے شکایتیں کرتے ہوئے اس نے مبالغے سے بھی کام لیا تھا اور اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ سعیدہ اماں نے اس کی کون سی بات کس طرح انہیں بتائی ہے۔ اس کی مسلسل خاموشی نے ڈاکٹر سبطِ علی کی پریشانی میں اضافہ کیا۔
’’بیٹا! جو بھی بات ہے، آپ مجھے بتادیں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’ابو! وہ مجھے بہت اِگنور کرتاہے، ٹھیک سے بات نہیں کرتا مجھ سے…‘‘ اس نے ہمت کر کے کہنا شروع کیا۔
دو جملوں کے بعد اسے سب کچھ بھول گیا۔ جو یاد تھا اسے وہ ڈاکٹر سبطِ علی کو نہیں بتاسکتی تھی کہ اس نے اتنے دنوں میں اس کی یا اس کے کپڑوں کی تعریف نہیں کی… اس کے ساتھ سحری نہیں کی… افطاری نہیں کی… آفس سے دیر سے آتا ہے… صبح اس کو بتائے بغیر گھر سے چلاجاتا ہے… اسے اتنے دنوں سے فرقان کے گھر کا کھانا کھلارہا ہے… اور اسے شادی کے دوسرے دن سعیدہ اماں کے پاس چھوڑ گیا۔ ڈاکٹر سبطِ علی نے اس کی دونوں شکایت پر غور کیے بغیر اس سے کہا۔
’’اس نے آپ سے کسی اور شادی کا ذکر کیا ہے؟‘‘
وہ چند لمحوں کے لئے ہونٹ کاٹتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے سعیدہ اماں سے جھوٹ بولا ہے اور یہی وہ جھوٹ تھاجس نے سعیدہ اماں کو اس قدر ناراض کر رکھا تھا۔
’’نہیں، سعیدہ اماں کو کچھ غلط فہمی ہوگئی ہوگی۔ ایسا تو کچھ نہیں ہے۔‘‘ اس نے سرخ چہرے کے ساتھ تردید کی۔ دوسری طرف فون پر ڈاکٹر سبطِ علی نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
’’آپ کو پرسوں سعیدہ اماں کے پاس کیوں چھوڑ گیا؟‘‘
انہوں نے دوسرے الزام کے بارے میں کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا۔
’’جب آپ دونوں ہمارے گھر پر تھے، تب تو آپ کا وہاں ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ راستے میں آپ لوگوں کا کوئی جھگڑا ہوا؟‘‘ انہوں نے اپنی آخری جملے سے اِمامہ کو جیسے بنابنایا جواب دیا۔
’’جی۔‘‘
’’میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ…‘‘ ڈاکٹر سبطِ علی بات کرتے کرتے رُک گئے۔ وہ سالار کے جس رویّے کی منظر کشی کررہی تھی، وہ ان کے لیے نیا تھا۔
’’خیر، میںڈرائیور کو بھیجتا ہوں، آپ میری طرف آجائیں۔ سالار کو بھی افطار پر بلوا لیتے ہیں، پھر میں اس سے بات کر لوں گا۔‘‘
امامہ نے بے اختیار آنکھیں بند کیں۔ اس وقت یہی ایک چیز تھی جو وہ نہیں چاہتی تھی۔
’’وہ آج کل بہت دیرسے آفس سے آرہا ہے۔ کل رات بھی نو بجے آیا، شاید آج نہ آسکے۔‘‘ اس نے کمزور سی آواز میں کہا۔
’’میں فون کر کے پوچھ لیتا ہوں اس سے۔‘‘ ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
’’جی۔‘‘ اس نے بہ مشکل کہا۔ وہ ان کے کہنے پر آنکھیں بند کر کے کسی سے بھی شادی کرنے پر تیار ہو گیا تھا، وہ افطار کی دعوت پر نہ آنے کے لیے کسی مصروفیت کو جواز بناتا؟
وہ جانتی تھی کہ ڈاکٹر سبط علی کو کیا جواب ملنے والا ہے۔ فون بند کر کے وہ بے اختیار اپنے ناخن کاٹنے لگی… یہ درست تھا کہ اسے سالار سے شکایتیں تھیں، لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ شادی کے چوتھے ہی دن اس طرح کی کوئی بات ہوتی۔
’’ہیلو! سویٹ ہارٹ۔‘‘ پانچ منٹ بعد اس نے اپنے سیل پر سالار کی چہکتی ہوئی آواز سنی اور اس کے ضمیر نے اسے بری طرح ملامت کیا۔
’’بندہ اٹھتا ہے تو کوئی میسج ہی کر دیتا ہے… فون کر لیتا ہے… یہ تو نہیں کہ اٹھتے ہی میکے جانے کی تیاری شروع کر دے۔‘‘ وہ بے تکلفی سے حالات کی نوعیت کا اندازہ لگائے بغیر اسے چھیڑ رہا تھا۔
امامہ کے احساس جرم میں مزید اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر سبط علی نے یقینا اس سے فی الحال کوئی بات کیے بغیر اسے افطار پر بلایا تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب ابھی افطار کے بارے میں کہہ رہے تھے۔ میں نے انہیں کہاکہ میں آج آفس سے جلدی آجاؤں گا اور تمہیں اپنے ساتھ لے آؤں گا۔‘‘ وہ اسے بتا رہا تھا۔
امامہ کو یک دم کچھ امید بندھی۔ وہ اگر پہلے گھر آجاتا ہے تو وہ اس سے کچھ بات کر لیتی، کچھ معذرت کر کے اسے ڈاکٹر صاحب کے گھر متوقع صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کر سکتی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہاں، یہ ہو سکتاتھا۔
’’لیکن اگر تم جانا چاہو تو میں تمہیں بھجوا دیتا ہوں۔‘‘ سالار نے اگلے ہی جملے میں اسے آفر کی۔
’’نہیں… نہیں، میں تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی۔‘‘ امامہ نے بے اختیار کہا۔
’’اوکے… میں پھر انہیں بتا دیتا ہوں… اور تم کیا کر رہی ہو؟‘‘
اس کا دل چاہا، وہ اس سے کہے کہ وہ اس گڑھے سے نکلنے کی کوشش کی رہی ہے جو اس نے سالار کے لیے کھودا تھا۔
’’فرقان کی ملازمہ آئے گی آج صفائی کرنے کے لیے، عام طور پر تو وہ صبح میرے جانے کے بعد آکر صفائی کرتی ہے لیکن تم اس وقت سو رہی ہوتی ہو، تو میں نے اسے فی الحال اس وقت آنے سے منع کیا ہے۔ تم بھابھی کو کال کر کے بتا دینا کہ وہ اسے کب بھیجیں۔‘‘
وہ شاید اس وقت آفس میں فارغ تھا اس لیے لمبی بات کر رہا تھا۔
’’کچھ تو بولو یار… اتنی چپ کیوں ہو؟‘‘
’’نہیں… وہ… میں… ایسے ہی۔‘‘ وہ اس کے سوال پر بے اختیار گڑبڑائی۔
’’ تم فری ہو اس وقت؟‘‘ اس نے بے حد محتاط لہجے میں پوچھا۔
اگر وہ فارغ تھا تو وہ ابھی اس سے بات کر سکتی تھی۔
’’ہاں، ایویلیوایشن ٹیم چلی گئی ہے… کم از کم آج کا دن تو ہم سب بہت ریلیکسڈ ہیں۔ اچھے کمنٹس دے کر گئے ہیں وہ لوگ۔‘‘ وہ بڑے مطمئن انداز میں اسے بتا رہا تھا۔
وہ اس کی باتوں پر غور کیے بغیر اس ادھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی کہ بات کیسے شروع کرے۔
’’آج اگر ڈاکٹر صاحب انوائیٹ نہ کرتے تو میں سوچ رہا تھا رات کو کہیں باہر کھانا کھاتے… فورٹریس میں انڈسٹریل ایگزی بیشن لگی ہوئی ہے… وہاں چلتے… بلکہ یہ کریں گے کہ ان کے گھر سے ڈنر کے بعد فورٹریس چلے جائیں گے۔‘‘
چلو بھرپانی میں ڈوب مرنے کا محاورہ آج پہلی بار امامہ کی سمجھ میں آیا تھا۔ یہ محاورتاً نہیں کہا گیا تھا۔ واقعی بعض سچویشنز میں چلو بھر پانی بھی ڈبونے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ وہ بات شروع کرنے کے جتن کر رہی تھی اور یہ کیسے کرے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
’’ٹھیک ہے! پھر میں ذرا ڈاکٹر صاحب کو بتا دوں۔ وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ اسے کچھ کہتی، سالار نے بات ختم کرتے ہوئے کال بند کر دی۔ وہ فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہ گئی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!