وہ تقریباً سوا نو بجے کے قریب آیا اور ڈور بیل کی آواز پر وہ بے اختیار نروس ہو گئی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سالار کی فیملی کے رد عمل سے خائف تھی۔ ایک ہمسائے کے طور پر بھی دونوں فیملیز کے درمیان بے حد رسمی تعلقات تھے اور بعد میں ہونے والے واقعات نے تو یہ فارمیلٹی بھی ختم کر دی تھی۔ اسے کئی سال پہلے سکندر عثمان سے فون پر ہونے والی گفت گو یاد تھی اور شاید اس کے خدشات کی وجہ بھی وہی کال تھی۔
بیرونی دروازہ کھولتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔
سکندر عثمان سمیت تینوں افراد اس سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے تھے۔ وہ ان کے رویوں میں جس روکھے پن اور خفگی کو ڈھونڈ رہی تھی، وہ فوری طور پر اسے نظر نہیں آئی۔ امامہ کی نروس نیس میں کچھ کمی آئی۔
فرقان کے گھر ڈنر کے دوران اس کی یہ نروس نیس اور بھی کم ہوئی۔
انیتا اور طیبہ دونوں بڑے دوستانہ انداز میں نوشین اور اس سے باتیں کرتی رہیں۔ نوشین اور فرقان سالار کے والدین سے پہلے بھی مل چکے تھے لیکن نوشین، انیتا سے پہلی بار مل رہی تھی اور دونوں کا موضوع گفت گو ان کے بچے تھے۔ وہ بے حد پرسکون انداز میں ایک خاموش سامع کی طرح ان لوگوں کی باتیں سنتی رہی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ فرقان کے گھر میں اس کی شادی یا اس کی ذات موضوع گفتگو بنے۔
اپنے اپارٹمنٹ میں واپسی کے بعد پہلی بار سکندر اور طیبہ نے سٹنگ روم میں بیٹھے، اس سے بات کی اور تب امامہ نے ان کے لہجے میں چھپی اس تشویش کو محسوس کیا جو امامہ کی فیملی کے متوقع رد عمل سے انہیں تھی۔ اس کا اعتماد ایک بار پھر غائب ہو گیا۔ اگرچہ انہوں نے کھلے عام امامہ کے سامنے ہاشم مبین یا ان کے خاندان کے حولے سے کوئی بات نہیں کی لیکن وہ لوگ اب ولیمہ کا فنکشن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں منعقد کرنا چاہتے تھے۔ وہ سالار کی رائے سننا چاہتی تھی لیکن وہ گفت گو کے دوران خاموش رہا۔ جب گفت گو کے دوران خاموشی کے وقفوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یک دم امامہ کو احساس ہوا کہ گفت گو میں آنے والی اس بے ربطی کی وجہ وہ تھی۔ وہ چاروں اس کی وجہ سے کھل کر بات نہیں کر پا رہے تھے۔
’’بالکل ،بیٹا! تم سو جاؤ تمہیں سحری کے لیے اٹھنا ہو گا۔ ہم لوگ تو ابھی کچھ دیر بیٹھیں گے۔‘‘
اس کے نیند آنے کے بہانے پر سکندر عثمان نے فوراً کہا تھا۔
وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔ نیند آنا بہت مشکل تھی۔ دو دن پہلے جن خدشات کے بارے میں اس نے سوچا بھی نہیں تھا، اب وہ ان کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔
اسے اندازہ تھا کہ سکندر عثمان ان دونوں کی شادی کو خفیہ ہی رکھنا چاہتا ہیں تاکہ اس کی فیملی کو اس کے بارے میں پتا نہ چلے۔
وہ بہت دیر تک اپنے بیڈ پر بیٹھے ان خدشات اور خطرات کے بارے میں سوچتی رہی جو انہیں محسوس ہو رہے تھے۔ اس وقت وہاں اکیلے بیٹھی پہلی بار اس نے سوچا کہ اس سے شادی کر کے سالار نے کتنا بڑا خطرہ مول لیا تھا۔ جو بھی اس سے شادی کرتا، وہ کسی نہ کسی حد تک خود کو غیر محفوظ ضرور کر لیتا لیکن سالار سکندر کی صورت میں صورتِ حال اس لیے زیادہ خراب ہوتی کیوںکہ اس کے ساتھ اس کے اس رشتے کا انکشاف ہونے کے چانسز زیادہ تھے۔
وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے تھے… اس نے سوچا… مجھے یا سالار کو جان سے تو کبھی نہیں ماریں گے… اسے اب بھی اندھااعتماد تھا کہ کہیں نہ کہیں اس کی فیملی اتنا لحاظ ضرور کرے گی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں گے اور پھر سالار سے طلاق دلوا کر کہیں اور شادی کرنا چاہیں گے۔
اس اضطراب میں یک دم مزید اضافہ ہوا۔ سب کچھ شاید اتنا سیدھا نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی یا سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ یہ اپنی مرضی سے کہیں شادی کرنے کا مسئلہ نہیں تھا، یہ مذہب میں تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اسے اپنے پیٹ میں گرہیں پڑتی محسوس ہوئیں، وہ واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔ اس وقت پہلی بار سالار سے شادی کرنا اسے ایک غلطی لگی۔ وہ ایک بار پھر اسی کھائی کے کنارے آکر کھڑی ہو گئی تھی جس سے وہ اتنے سالوں سے بچتی پھر رہی تھی۔
٭٭٭٭
نیند میں وہ اس کے ہاتھوں میں رسیاں باندھ کر اسے کھینچ رہے تھے۔ رسیاں اتنی سختی سے باندھی ہوئی تھیں کہ اس کی کلائیوں سے خون رسنے لگا تھا اور اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ وہ درد کی شدت سے بے اختیار چلّائی۔ وہ کسی بازار میں لوگوں کی بھیڑ کے درمیان کسی قیدی کی طرح لے جائی جا رہی تھی۔ دونوں اطراف میں کھڑے ہوئے لوگ بلند آواز میں قہقہے لگاتے ہوئے اس پر آوازے کس رہے تھے۔ پھر ان لوگوں میں سے ایک مرد نے جو اس کی کلائیوں میں بندھی رسیوں کو کھینچ رہا تھا… پوری قوت سے رسی کو جھٹکا دیا۔ وہ گھٹنوں کے بل اس پتھریلے راستے پر گری۔
’’امامہ… امامہ… Its me… اٹھ جاؤ… سحری ختم ہونے میں تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے۔‘‘
وہ ہڑ بڑا کر اٹھی، بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کیا۔ سالار اس کے پاس کھڑا نرمی سے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے اسے جگا رہا تھا۔
’’سوری… میں نے شاید تمہیں ڈرا دیا۔‘‘ سالار نے معذرت کی۔
وہ کچھ دیر تک خالی ذہن کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ گزرے ہوئے سالوں میں ایسے خواب دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی اور خوابوں کا یہ سلسلہ اب بھی نہیں ٹوٹا تھا۔
’’کوئی خواب دیکھ رہی تھیں؟‘‘
سالار نے جھک کر گود میں رکھے اس کے ہاتھ کو ہلاتے ہوئے پوچھا۔ اسے یوں لگا تھا، وہ ابھی بھی نیند میں تھی۔ امامہ نے سرہلا دیا۔ وہ اب نیند میں نہیں تھی۔
’’تم کمبل لیے بغیر سو گئیں؟‘‘ سالار نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔ امامہ نے چونک کر بیڈ پر پڑے کمبل کو دیکھا۔ وہ واقعی اسی طرح پڑا تھا۔ یقینا وہ بھی رات کو کمرے میں سونے کے لیے نہیں آیا تھا۔ کمرے کا ہیٹر آن رہا تھا، ونہ وہ سردی لگنے کی وجہ سے ضرور اٹھ جاتی۔
’’جلدی آجاؤ، بس دس منٹ رہ گئے ہیں۔‘‘
وہ اسے پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔
منہ ہاتھ دھونے کے بعد جب وہ سٹنگ ایریا میں آئی تو وہ سحری کر چکا تھا اور چائے بنانے میں مصروف تھا۔ لاؤنج یا کچن میں اور کوئی نہیں تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر اس کے لیے پہلے ہی سے برتن لگے ہوئے تھے۔
’’میں چائے بناتی ہوں۔‘‘ وہ سحری کرنے کے بجائے مگ نکالنے لگی۔
’’تم آرام سے سحری کرو، ابھی اذان ہو جائے گی۔ میں اپنے لیے چائے خود بنا سکتا ہوں، بلکہ تمہارے لئے بھی بنا سکتا ہوں۔‘‘ سالار نے مگ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے اسے واپس بھیجا۔
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
’’یہ سب لوگ سو رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں… ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سوئے ہیں۔ ساری رات تو باتیں کرتے رہے ہم لوگ اور شاید ہماری آوازوں کی وجہ سے تم ڈسٹرب ہوتی رہیں۔‘‘
’’نہیں، میں سو گئی تھی۔‘‘ اس کا لہجہ بہت بجھا ہوا تھا۔ سالار نے محسوس کیا، وہ اسے بہت اپ سیٹ لگی۔
’’کیا کوئی زیادہ برا خواب دیکھا ہے؟‘‘
وہ چائے کے مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’خواب…‘‘ وہ چونکی۔ ’’نہیں… ایسے ہی …‘‘ وہ کھانا کھانے لگی۔
’’صبح ناشتا کتنے بجے کریں گے یہ لوگ۔‘‘ اس نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
وہ بے اختیار ہنسا۔
’’یہ لوگ… کون سے لوگ… یہ تمہاری دوسری فیملی ہے اب … ممی، پاپا کہو انہیں اور انیتا کو انیتا…‘‘ وہ اس کی بات پر بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ وہ واقعی کل رات سے ان کے لیے وہی دو لفظ استعمال کر رہی تھی۔
’’ناشتا تو نہیں کریں گے۔ ابھی گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ تک اٹھ جائیں گے۔ دس بجے کی فلائٹ ہے۔‘‘ سالار نے اس کی شرمندگی کو بھانپتے ہوئے بات بدل دی۔
’’صبح نو بجے کی… اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’صرف تم سے ملنے کے لیے آئے تھے یہ لوگ، پاپا کی کوئی میٹنگ ہے آج دو بجے اور انیتا تو اپنے بچوں کو ملازمہ کے پاس چھوڑ کر آئی ہے۔ چھوٹی بیٹی تو صرف چھ ماہ کی ہے اس کی۔‘‘ وہ بتا رہا تھا۔ ’’چائے پئیں گے ناشتے کے بجائے، وہ تم بنا دینا۔ میں ابھی نماز پڑھ کر آجاؤں، پھرا ن کے ساتھ ہی آفس کے لیے تیار ہوں گا اور انہیں ایئرپورٹ چھوڑ کر پھر آفس چلا جاؤں گا۔‘‘ سالار نے جمائی روکتے ہوئے چائے کا خالی مگ اٹھایا اور کھڑا ہو گیا۔ امامہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’تم سوؤ گے نہیں؟‘‘
’’نہیں، شام کو آفس سے آنے کے بعد سوؤں گا۔‘‘
’’تم چھٹی لے لیتے۔‘‘ امامہ نے روانی سے کہا۔
سنک کی طرف جاتے ہوئے سالار نے پلٹ کر امامہ کو دیکھا اور پھر بے اختیار ہنسا۔ ’’سونے کے لیے آفس سے چھٹی لے لیتا؟ میرے پروفیشن میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
’’تم سوئے نہیں رات کو، اس لیے کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ اس کی بات پر جھینپی جتھی۔
’’میں اڑتالیس، اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے یو این کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ وہ بھی شدید گرمی اور سردی میں۔Disaster striken areas میں اور رات کو تو ماں، باپ کے پاس بیٹھا پرفیکٹ کنڈیشنز میں باتیں کرتا رہا ہوں، تھکتا کیوں؟‘‘
اذان ہو رہی تھی۔
’’اب پلیز مگ مت دھونا، مجھے اپنے برتن دھونے ہیں۔‘‘ امامہ نے چائے کا مگ خالی کرتے ہوئے اسے روکا۔ وہ ٹی بیگ نکال کر ویسٹ باسکٹ میں پھینکنے لگی تھی۔
’’ٹھیک ہے… دھویئے…‘‘
سالار نے بڑی خوش دلی کے ساتھ مگ سنک میں رکھا اور پلٹا۔ وہ کوڑے دان کا ڈھکن ہٹائے ہوئے فق ہوتی رنگت کے ساتھ، ٹی بیگ ہاتھ میں پکڑ کرکسی بت کی طرح کھڑی تھی۔ سالار نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر کوڑے دان کے اندر پڑ اس چیز کو جس نے اسے یوں شاکڈ کر دیا تھا۔
’’نان الکحولک ڈرنک۔‘‘ وہ مدھم آواز میں کہتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا تھا۔
وہ بے اختیار شرمندہ ہوئی۔ اسے یقین تھا۔ وہ اس کوڑے دان کے اندر بڑے جنجر بیئر کے اس خالی کین کو وہاں سے نہیں دیکھ سکتا تھا، جہاں وہ کھڑا تھا، اس کے باوجود اس کو پتا تھا کہ وہ کیا چیز دیکھ کر سکتہ میںآئی تھی۔
اس نے جنجر بعد میں پڑھا تھا، بیئر پہلے… اور یہ سالار سکندر کا گھر نہ ہوتا تو اس کا ذہن پہلے نان الکحولک ڈرنکس کی طرف جاتا، مگر یہاں اس کا ذہن بے اختیار دوسری طرف گیا تھا۔ جھک کر ٹی بیگ پھینکتے ہوئے اس نے non alcoholicکے لفظ بھی کین پر دیکھ لیے تھے۔ کچھ دیر وہیں کھڑی وہ اپنی ندامت ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ پتا نہیں وہ کیا سوچ رہا ہو تا میرے بارے میں اور سالار کو بھی واقعی کرنٹ لگا تھا۔ وہ دونوں اپنے درمیان اعتماد کا جو پل بنانے کی کوشش کر رہے تھے، وہ کبھی ایک طرف سے ٹوٹ رہا تھا، کبھی دوسری طرف سے۔