آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

’’کل بھائی صاحب کے ہاں چلیں گے۔ انہیں بتائیں گے یہ سب کچھ… وہی بات کریں گے سالار سے۔‘‘ سعیدہ اماں اس کے پاس بیٹھی کہہ رہی تھیں۔ وہ بے حد پریشان تھیں۔
امامہ نے ان کی بات کی تائید کی نہ تردید۔ اب اس کا دل کچھ بھی کہنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ بس اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے چپ چاپ بیٹھی سعیدہ جاماں کی باتیں سنتی رہی۔
’’اچھا، چلو اب سو جاؤ بیٹا! صبح سحری کے لیے بھی اٹھنا ہو گا۔‘‘
سعیدہ اماں کو اچانک خیال آیا۔ بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے نکلتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
’’لائٹ آف کر دوں؟‘‘
پچھلی رات ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آئی تھی۔
’’نہیں… رہنے دیں۔‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے لیٹ گئی۔
سعیدہ اماں دروازہ بند کر کے چلی گئیں۔ کمرے کی خاموشی نے اسے سالار کے بیڈ روم کی یاددلائی۔
’’ہاں، اچھا ہے نا… میں نہیں ہوں، آرام سے لائٹ آن کر کے سو تو سکتا ہے۔ یہی تو چاہتا تھا وہ…‘‘ وہ پھر سے رنجیدہ ہونے لگی اور تب ہی اس کا سیل فون بجنے لگا۔ امامہ کے خون کی گردش پل بھر کے لیے تیز ہوئی، وہ اسے بالآخر کال کر رہا تھا۔ اس نے بے حد خفگی کے عالم میں فون بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پھینک دیا۔
وہ اسے ساتھ لے کر نہیں گیا اور اب اسے اس کی یاد آرہی تھی۔ اس کی رنجیدگی، غصے میں بدل رہی تھی۔ وہ اس طرح کیوں کررہی تھی کہ رائی کا پہاڑ بنا رہی تھی۔
اس نے جیسے اپنا تجزیہ کیا اور اس تجزیے نے بھی اسے اذیت دی۔ میں زود رنج ہو گئی ہوں یا وہ مجھے جان بوجھ کر بری طرح اگنور کر رہا ہے۔ یہ جتانا چاہتا ہے کہ میں اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کے دوست، اس کا آفس، اس کی فیملی… بس یہ اہم ہیں اس کے لیے… دوبارہ کال نہیں آئی، چند سیکنڈ کے بعد اس کا میسج آیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ یقینا اس سے کہے گا وہ اسے مس کر رہا تھا۔
ٹیکسٹ میسج میں اس کے لیے ایک موبائل سکریچ کارڈ کا نمبر تھا اور اس کے نیچے دو لفظ…
’’گڈ نائٹ سوئیٹ ہارٹ!‘‘
پہلے اسے شدید غصہ آیا پھر بری طرح رونا۔ اسے پہلے بھی زندگی میں سالار سکندر سے برا کوئی نہیں لگا تھا اور آج بھی اس سے برا کوئی نہیں لگ رہا تھا۔
٭٭٭٭





’’آمنہ سے بات کروا دو… میں اور طیبہ بھی اس سے بات کر لیں… شادی کر لی… اسے گھر بھی لے آؤ… اب کسی کام میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے یا نہیں۔‘‘ سکندر نے ابتدائی سلام و دعا کے ساتھ چھوٹتے ہی اس سے کہا۔
’’وہ آج اپنے میکے میں ہے۔‘‘ سالار نے کچھ سوچ کر کہا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی سعیدہ اماں کے گھر سے واپس آیا تھا۔
’’تو برخوردار! تم بھی اپنے سسرال میں ہی ٹھہرتے ، تم منہ اٹھا کر اپنے اپارٹمنٹ کیوں آگئے؟‘‘ سکندر نے اسے ڈانٹا، وہ جواباً ہنسا۔
’’ممی پاس ہی ہیں؟‘‘ اس نے موضوع بدلا۔
’’ہاں… کیوں، بات کرنی ہے؟‘‘
’’نہیں، فی الحال تو آپ ہی سے بات کرنی ہے… بلکہ کچھ زیادہ سیریس بات کرنی ہے۔‘‘
سکندر یک دم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ ’’یہ سالار سکندر ‘‘ تھا، وہ اگر سیریس کہہ رہا تھا تو بات یقینا ’’بہت سیریس تھی۔‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’مجھے… اصل میں آمنہ کے بارے میں آپ کو کچھ بتانا ہے۔‘‘
سکندر الجھ گئے۔ وہ آمنہ کے بارے میں انہیں نکاح کے بعد بتا ہی چکا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی جس کے ساتھ اس نے اپنی کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر ایمرجنسی میں نکاح کیا تھا… سکندر عثمان، ڈاکٹر سبط علی کو جانتے تھے اور سالار کے توسط سے دو تین بار ان سے مل بھی چکے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی کے بجائے کسی بھی لڑکی سے اس طرح اچانک ان لوگوں کو مطلع کیے بغیر نکاح کرتا، تب بھی انہیں اعتراض نہ ہوتا۔ وہ اور ان کی فیملی کچھ اتنی ہی لبرل تھی اور سالار تو بہرحال ’’اسپیشل کیس‘‘ تھا… یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ شادی ’’انسانوں‘‘ کی طرح کرتا۔ یہ تبصرہ طیبہ کاتھا جو انہوں نے اس کے نکاح کی خبر ملنے پر قدرے خفگی لیکن اطمینان کے ساتھ کیا تھا اور اب وہ کہہ رہا تھا کہ اسے آمنہ کے بارے میں کچھ بتانا تھا۔
’’کیا بتانا ہے آمنہ کے بارے میں؟‘‘
سالار نے گلا صاف کیا۔ بات کیسے شروع کرے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
’’آمنہ اصل میں امامہ ہے۔‘‘ تمہید اس نے زندگی کبھی نہیں باندھی تھی، پھر اب کیسے باندھتا۔ دوسری طرف ایک دم خاموشی چھا گئی۔ سکندر کولگا، انہیں سننے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔
’’کیا… کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔
’’امامہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی۔ وہ اتنے سالوں ان ہی کے پاس تھی۔ انہوں نے اس کا نام چینج کر دیا تھا اس کے تحفظ کے لیے۔ مجھے نکاح کے وقت یہ پتا نہیں تھا کہ وہ امامہ ہے، لیکن وہ امامہ ہی ہے۔‘‘ آخری جملے کے علاوہ اسے باقی تفصیل احمقانہ نہیں لگی۔
سکندر عثمان نے رکتی ہوئی سانس کے ساتھ برابر کے بیڈ پر بیٹھی بیوی کو دیکھا جو اسٹار پلس پر کوئی ٹاک شودیکھنے میں مصروف تھی اور یہ اچھا ہی تھا۔
وہ اسی طرح رکتی ہوئی سانس کے ساتھ، ننگے پاؤں اپنے بستر سے اتر کر بیڈ روم کا دروازہ کھول کر، بے حد عجلت کے عالم میں باہر نکل گئے۔ طیبہ نے کچھ حیرت سے انہیں اس طرح اچانک جاتے دیکھا۔
’’ایک تو ان باپ بیٹے کا رومانس ہی ختم نہیں ہوتا، اب دو گھنٹے لگا کر آئیں گے۔‘‘ طیبہ نے قدرے خفگی سے سوچا اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
باہر لاؤنج میں سکندر عثمان کے چودہ طبق روشن ہو رہے تھے۔ وہ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی طیبہ کے ساتھ اپنے آخری اولاد کے ’’سیٹل‘‘ ہو جانے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ولیمہ پلان کر رہے تھے اور انہیں وقتی طور پر یہ بھول گیا تھا کہ وہ آخری اولاد ’’سالار سکندر‘‘ تھا۔
دو گھنٹے تک لاؤنج میں اس کے ساتھ طویل گفت و شنید کے بعد وہ جب بالآخر واپس بیڈ روم میں آئے تو طیبہ سو چکی تھی لیکن سکندر عثمان کی نیند اور اطمینان دونوں رخصت ہو چکے تھے۔
٭٭٭٭
وہ تقریباً اڑھائی بجے ڈاکٹر صاحب کے ڈرائیور کے ساتھ اس کے اپارٹمنٹ پر پہنچی تھی اور اس نے آتے ہی سب سے پہلے دونوں بیڈ رومز چیک کیے تھے۔ بیڈ رومز یا باتھ رومز میں کچھ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
سالار آفس جانے سے پہلے یقینا ہر کام خود ہی کر کے گیا تھا۔ا س نے ایک بار پھر اپنے وجود کو ’’بے مصرف‘‘ محسوس کیا۔
ایک بیڈ روم شاید پہلے ہی گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہو رہا تھا، جب کہ دوسرا بیڈ روم وہ اسٹڈی کے طور پر بھی استعمال کر رہا تھا۔ وہاں ایک ریک پر کتابوں کے ڈھیر کے علاوہ اسی طرح کے ریکس پر سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے انبار بھی نظر آئے سٹنگ روم میں موجود ریکس پر بھی ڈی وی ڈیز اور سی ڈیز تھیں لیکن ان کی تعداد اس کمرے کی نسبت بہت کم تھی۔ کمرے میں کچھmusical instruments بھی پڑے ہوئے تھے اور ایک اسٹڈی ٹیبل پر جس ایک ڈیسک ٹاپ تھا۔ وہ اسٹڈی ٹیبل اس کمرے کی وہ واحد چیز تھی جس پر پڑے کاغذ، فائلز اور desk organizer اسے بے ترتیب نظر آئے۔ وہ اٹھنے سے پہلے اسے ٹھیک کرنا بھول گیا تھا یا شاید اس کے پاس وقت نہیں تھا۔
ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ وہ ان پیپرز کو ٹھیک کر دے، اگلے ہی لمحے اس نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ اسے خدشہ تھا وہ یہ کام سالار جیسی پرفیکشن کے ساتھ نہیں کر سکتی تھی اور اگر کوئی پیپر اِدھر اُدھر ہو گیا تو…؟
وہ دروازہ بند کر کے باہر نکل آئی۔ فریج اور فریزر میں واقعی کھانے کا بہت سا سامان تھا اور اس کو یقین تھا کہ ان میں سے نوے پرسنٹ اشیاء فرقان ور نوشین کی مرہون منت تھی۔ جو چیزیں سالار کی اپنی خریداری کا نتیجہ تھیں ان میں پھلوں کے علاوہ ڈرنکس اور ٹن پیکڈ فوڈ آئٹمز کی ایک محدود تعداد تھی۔ اس نے چند ٹن نکال کر دیکھے، وہ تقریباً سب کے سب سی فوڈ تھے۔
امامہ کو کھانے میں صرف ایک چیز ناپسند تھی۔ سی فوڈ… روزے کی وجہ سے اس کا معدہ خالی نہ ہوتا تو ان ڈبوں پر بنے ہوئے کریبز اور پرانز دیکھ کر اسے وومٹنگ شروع ہو جاتی۔ اس نے بڑی مایوسی کے عالم میں ان ٹنز کو واپس فریج میں رکھ دیا۔ یقینا وہ ڈیکوریشن کے مقصد سے خرید کر نہیں رکھے گئے تھے۔ وہ خرید کر لاتا تھا تو یقینا کھاتا بھی ہو گا۔ اس کا خراب موڈ کچھ اور ابتر ہو ا۔ ابھی اور کیا کیا پتا چلنا تھا اس کے بارے میں…
اس نے کچن کے کیبنٹس کھول کر دیکھے اور بند کر دیے۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کچن میں فریج کے علاوہ صرف کافی کیبنٹس اور برتنوں کے ریکس کے علاوہ کہیں کچھ نہیں۔ وہ کچن صرف ناشتے اور سینڈوچ والے mealsکے علاوہ صرف چائے یا کافی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ وہاں اسے چند فرائنگ پینز کے علاوہ کسی قسم کے پکانے کے برتن نظر نہیں آئے۔ کچن میںموجود کراکری بھی، ایک ڈنر سیٹ اور چند واٹر اور ٹی سیٹس پر مشتمل تھی یا اس کے علاوہ کچھ مگز تھے یا پھر بریک فاسٹ سیٹ۔ یقینا اس کے گھر آنے والے افراد کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ کچن سے نکل آئی۔
اپارٹمنٹ کا واحد غیر دریافت شدہ حصہ بالکونی تھا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئی اور وہ پہلی جگہ تھی جہاں آتے ہی اس کا دل خوش ہوا تھا۔ چھ فٹ چوڑی اور بارہ فٹ لمبی وہ ٹیرس نما بالکونی کو ٹیرس گارڈن کہنا زیادہ مناسب تھا۔ مختلف شکلوں اور سائزز کے گملوں میں مختلف قسم کے پودے اور بیلیں لگی ہوئی تھیں اور شدید سرد موسم میں بھی ان کی حالت بتا رہی تھی کہ ان پر خاصی محنت اور وقت لگایا گیا تھا۔ وہاں آس پاس کی بالکونیوں سے بھی اسے سبز رنگ کے پودے اور بیلیں جھانکتی نظر آرہی تھیں لیکن یقینا سالار کی بالکونی کی حالت سب سے بہتر تھی۔
لاؤنج کی قد آدم کھڑکیاں بھی اسی بالکونی میں تھیں اور بالکونی میں ان کھڑکیوں کے پاس دیوار کے ساتھ زمین پر ایک میٹ موجود تھا۔ وہ شاید یہاں آکر بیٹھتا ہو گا یا دھوپ میں لیٹتا ہو گا۔ شاید ویک اینڈ پر… ورنہ سردی کے موسم میں اس میٹ کی وہاں موجودگی کا مقصد اسے سمجھ میں نہیں آیا۔ بالکونی کی منڈیر کے قریب ایک اسٹول پڑا ہوا تھا۔ وہ یقینا وہاں آکر بیٹھتا تھا۔ نیچے دیکھنے کے لیے … منڈیر پر مگ کے چند نشان تھے۔ چائے یا کافی پیتا ہے یہاں بیٹھ کر … مگر کس وقت… یقینا رات کو… اس نے سوچا اورآگے بڑھ کر نیچے جھانکا۔ وہ تیسری منزل تھی اور نیچے بلڈنگ کا لان اور پارکنگ تھے۔ کچھ فاصلے پر کمپاؤنڈ سے باہر سڑک بھی نظر آرہی تھی۔ وہ ایک پورش ایریا تھا اور سڑک پر ٹریفک زیادہ نہیں تھی۔ وہ واپس اندر آگئی۔
وہ کپڑے تبدیل کر کے ابھی اپنے بال بنا رہی تھی کہ جب اسے ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ فوری طور پر اسے نوشین ہی کا خیال آیا تھا۔
لیکن دروازے پر ایک ریسٹورنٹ کا ڈیلیوری بوائے چند پیکٹس لیے کھڑا تھا۔
’’میں نے آرڈر نہیں کیا۔‘‘ اسے لگا شاید وہ کسی غلط اپارٹمنٹ میں آگیا ہے۔
اس نے جواباً سالار سکندر کا نام ایڈریس کے ساتھ دہرایا۔ چند لمحوں کے لیے وہ چپ سی ہو گئی۔ وہ کم از کم اتنا لاپروا نہیں تھا اس کے بارے میں کہ اس کے افطار کے لیے کچھ انتظام کرنا بھول جاتا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اپنے پیرنٹس کو لینے کے لیے آفس سے نکل چکا ہو گا اور ایئر پورٹ پہنچنے کی بھاگ دوڑ میں اسے شاید وہ یاد بھی نہیں ہو گی۔
کچن میں ان پیکٹس کو رکھتے ہوئے اس کا غصہ اور رنجیدگی کچھ کم ہوئی اور یہ شاید اس کا ہی اثر تھا کہ اس نے کال کر کے سالار کو مطلع کرنا اور اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا۔ وہ اس وقت ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے فوراً کال ریسیو کی تھی۔
امامہ نے اسے کھانے کے بارے میں بتایا۔
’’میں رات کا کھانا اکثر اس ریسٹورنٹ سے منگواتا ہوں۔ کھانا اچھا ہوتا ہے ان کا…‘‘ اس نے جواباً بڑے معمول کے انداز میں کہا۔میں نے سوچا’’ میں جب تک ان لوگوں کو لے کر گھر آؤں گا تب تک بھوکی بیٹھی رہو گی۔‘‘
وہ اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر یک دم اسے احساس ہوا کہ یہ بہت مشکل کام ہے سالار سے یہ دو لفظ کہنا، ایک عجیب ی جھجک جو اسے محسوس ہو رہی تھی۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!