ڈرائیونگ کرتے ہوئے سالار کو اندازہ نہیں ہوا کہ گفت گو کے لیے موضوعات کی تلاش میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اس نے کس قدر سنگین موضوع کو چھیڑ دیا تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے جیسے ایک بارودی سرنگ کے اوپر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا تھا جو اس کے پاؤں اٹھاتے ہی پھٹ جاتی۔
سعیدہ اماں کی گلی میں گاڑی پارک کرنے کے بعد سالار نے ایک بار پھر امامہ کے موڈ میں تبدیلی محسوس کی۔ اس نے ایک بار پھر اسے اپنا وہم گردانا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہ بھی غلط فہمی کا شکار رہا۔ آخر ہو کیا گیا ہے مجھے…؟ وہ بھلا کیوں صرف چوبیس گھنٹے میں مجھ سے ناراض ہوتی پھرے گی۔ اس نے اطمینان سے سوچا۔
سعیدہ اماں دروازہ کھولتے ہی امامہ سے لپٹ گئی تھیں۔ چند لمحوں بعد وہ آنسو بہا رہی تھیں۔ سالار جزبز ہوا۔ آخر اتنے عرصے سے وہ اکٹھے رہ رہی تھیں۔ یقینا دونوں ایک دوسرے کو مس کر رہی ہوں گی۔ اس نے بالآخر خود کو سمجھا۔
سعیدہ اماں نے سالار کے سلام کا جواب دیا، نہ ہی ہمیشہ کی طرح اسے گلے لگا کر پیار کیا۔ انہوں نے امامہ کو گلے لگایا، اس سے لپٹ کر آنسو بہائے اور پھر اسے لے کر اندر چلی گئیں۔ وہ ہکا بکا دروازے میں ہی کھڑا رہ گیا تھا۔ انہیں کیا ہوا؟ وہ پہلی بار بری طرح کھٹکا تھا۔ اپنے احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکنے کی کوشش اس بار کامیاب نہیں ہوئی۔ کچھ غلط تھا مگر کیا…؟ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر اس نے پلیٹ کر بیرونی دروازہ بند کیا اور اندر چلا آیا۔
وہ دونوں کچھ باتیں کر رہی تھیں، اسے دیکھ کر یک دم چپ ہو گئیں۔ سالار نے امامہ کو اپنے آنسو پونچھتے دیکھا۔ وہ ایک بار پھر ڈسٹرب ہوا۔
’’میں چائے لے کر آتی ہوں… بادام اور گاجر کا حلوہ بنایا ہے آج میں نے۔‘‘ سعیدہ اماں یہ کہتے ہوئے کھڑی ہوئیں۔ سالار نے بے اختیار نہیں ٹوکا۔
’’سعیدہ اماں! کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم لوگ کھانا کھا کر آئے ہیں اور چائے بھی پی لی ہے۔ صرف آپ سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔‘‘
وہ کہتے کہتے رک گیا، اسے احساس ہوا کہ وہ پیش کش سرے سے اسے کی ہی نہیں گئی تھی۔ سعیدہ اماں مکمل طور پر امامہ کی طرف متوجہ تھیں اور امامہ اسے کچھ کھانے پینے میں متامل نظر نہیں آئی۔
’’میں کھاؤں گی اور میں آ پ کے ساتھ چلتی ہوں آپ کس طرح اٹھائیں گی برتن۔‘‘ امامہ نے سعیدہ اماں سے کہا اور پھر ان کے ساتھ ہی کچن میں چلی گئی۔ سالار ہونقوں کی طرح وہاں بیٹھا رہ گیا۔
اگلے پندرہ منٹ وہ اس صورت حال پر غور کرتا، وہیں بیٹھا کمرے کی چیزوں کو دیکھتا رہا۔
بالآخر پندرہ منٹ کے بعد امامہ اور سعیدہ اماں کی واپسی ہوئی۔ اسے امامہ کی آنکھیں پہلے سے کچھ زیادہ سرخ اور متورم لگیں، یہی حال کچھ اس کی ناک کا تھا۔ وہ یقینا کچن میں روتی رہی تھی مگر کس لیے؟ وہ اب الجھ رہا تھا۔ کم از کم اب وہ آنسو اسے سعیدہ اماں اور اس کی باہمی محبت و یگانگت کا نتیجہ نہیں لگ رہے تھے۔ سعیدہ اماں کے چہرے اور آنکھوں میں اسے پہلے سے بھی زیادہ سردمہری نظر آئی۔
اسے اس وقت چائے میں دلچسپی تھی نہ کسی حلوے کی طلب… کچھ بھی کھانا اس کے لیے بدہضمی کا باعث ہوتا لیکن جو ماحول یک دم وہاں بن گیا تھا، اس نے اسے ضرورت سے زیادہ محتاط کر دیا تھا۔ کسی انکار کے بغیر اس نے خاموشی سے پلیٹ میں تھوڑا سا حلوہ نکالا۔ امامہ نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر کی طرح یہاں بھی اس سے پوچھے بغیر اس کی چائے میں دو چمچ چینی ڈال کر اسے کے سامنے رکھ دی، پھر اپنی پلیٹ میں لیا حلوہ کھانے لگی۔
چند منٹوں کی خاموشی کے بعد بالآخر سعیدہ اماں کی قوت برداشت جواب دے گئی تھی۔ اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ ایک طرف رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی عینک کو ناک پر ٹھیک کرتے ہوئے تیز نظروں سے سالار کو گھورا۔
’’بیویوں کے بڑے حقوق ہوتے ہیں۔‘‘
اپنی پلیٹ میں ڈالے حلوے کو چمچ سے ہلاتے سالار ٹھٹکا۔ اس نے پہلے سعیدہ اماں کو دیکھا، پھر امامہ کو… وہ بھی ٹھٹکی تھی… اور کچھ گڑبڑائی بھی… سالار کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اور اس کے گلے شکوے کرنا اور بات تھی مگر اس کے سامنے بیٹھ کر وہی کچھ دہرانا، خاص طور پر جب ان الزامات کا کچھ حصہ کسی جھوٹ پر مبنی ہو۔ وہ واقعی گھبرا گئی تھی۔
سالار کو یہ سوال نہیں، تبصرہ لگا۔
’’جی۔‘‘ اس نے ان کی تائید کی۔
’’وہ مرد دوزخ میں جاتے ہیں جو اپنی بیویوں کو تنگ کرتے ہیں۔‘‘ سعیدہ اماں نے اگلا جملہ بولا۔
اس بار سالار فوری طور پر تائید نہیں کر سکا۔ وہ خود مرد تھا اور شوہر بھی، لاکھ وہ امامہ پر مرتا ہو لیکن ’’بیوی‘‘ کی موجودگی میں اس تبصرہ کی تائید اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مصداق تھا۔ وہ شادی کے دوسرے ہی دن اتنی فرماں برداری نہیں دکھا سکتا تھا جس پر وہ بعد میں ساری عمر پچھتاتا۔
اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔ اس کی خاموشی نے سعیدہ اماں کو کچھ اور تپا دیا۔
’’دوسروں کے دل دکھانے والے کو اللہ کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘ سالار نے حلوہ کھاتے کھاتے اس جملے پر غور کیا، پھر تائید میں سر ہلا دیا۔
’’جی بالکل۔‘‘ سعیدہ اماں کو اس کی ڈھٹائی پر غصہ آیا۔
’’شریف گھرانے کے مردوں کا وتیرہ نہیں ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کو پہلے بیاہ کر لے جائیں اور پھر انہیں پہلی بیویوں کے قصے سنانے بیٹھ جائیں۔‘‘
امامہ کی جیسے جان پر بن گئی۔ یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔
’’آپ کی چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اماں!‘‘ اس نے صورتِ حال سنبھالنے کی کوشش کی۔
سالار نے باری باری ان دونوں کو دیکھا، اسے اس جملے کا سر پیر سمجھ میں نہیں آیا تھا اور پہلے جملوں سے ان کا کیا تعلق تھا، وہ بھی سمجھ نہیں پایا لیکن تائید کرنے میں کوئی برائی نہیں تھی کیوںکہ بات مناسب تھی۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ‘‘ اس نے بالآخر کہا۔
اس کی سعادت مندی نے سعیدہ اماں کو مزید تپا دیا۔ شکل سے کیسا شریف لگ رہا ہے۔ اسی لیے تو سبط بھائی بھی دھوکا کھا گئے۔ انہوں نے ڈاکٹر سبط علی کو غلطی کرنے پر چھوٹ دی۔
’’آمنہ کے لیے بہت رشتے تھے۔‘‘ سعیدہ اماں نے سلسلہ کلام جوڑا۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک غلط آدمی کو امامہ کی قدروقیمت کے بارے میں غلط لیکچر دے رہی تھیں۔ حلوے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے سالار نے ایک نظر امامہ کو دیکھا پھر سعیدہ اماں کو، جو بے حد جوش و خروش سے کہہ رہی تھیں۔
’’یہ سامنے والے ظہور صاحب کے بڑے بیٹے نے آمنہ کو کہیں دیکھ لیا تھا۔ ماں باپ کو صاف صاف کہہ دیا اس نے کہ شادی کروں گا تو اسی لڑکی سے۔ خالہ کی بیٹی کے ساتھ بچپن کی منگنی بھی توڑ دی۔‘‘
اس بار سالار نے حلوے کی پلیٹ ٹیبل پر رکھ دی۔ وہ کم از کم امامہ کے کسی ایسے رشتے کی تفصیلات مزے سے حلوہ کھاتے ہوئے نہیں سن سکتا تھا۔ امامہ نے اس بار سعیدہ اماں کو روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ بڑی ہی عامیانہ بات تھی لیکن وہ بھی جیسے چاہتی تھی کہ کوئی سالار کو بتائے کہ وہ ’’قابل قدر‘‘ ہے، وہ اسے صرف ’’بیوی‘‘ سمجھ کر برتاؤ نہیں کر سکتا۔
’’جوتے گھس گئے لڑکے کی ماں کے یہاں کے چکر لگا لگا کر، محلے کے ہر معزز آدمی سے کہلوایا اس نے، میرے بیٹے تک کو انگلینڈ فون کرایا اس رشتے کے لیے۔‘‘ سعیدہ اماں بول رہی تھیں۔
سالار اب بے حد سنجیدہ تھا اور امامہ قدرے لا تعلقی کے انداز میں سر جھکائے حلوے کی پلیٹ میں چمچ بلا رہی تھی۔
’’اس کے ماں باپ نے کہا کہ جو چاہیں حق مہر میں لکھوا لیں، بس اپنی بچی کو ہماری بیٹی بنا دیں۔‘‘
سالار نے بے حد جتانے والے انداز میں اپنی رسٹ واچ یوں دیکھی جیسے اسے دیر ہو رہی تھی۔ سعیدہ اماں کو اس کی اس حرکت پر بری طرح تاؤ آیا۔ اس گفت گو کے جواب میں کم از کم وہ اس سے اس بے نیازی کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔
’’ابھی آج بھی اس کی ماں آئی ہوئی تھی۔ بہت افسوس سے کہہ رہی تھی کہ بڑی زیادتی کی ان کے بیٹے کے ساتھ میں نے… ایک بار نہیں، دو بار … کہہ رہی تھی کہ ہمیں چھوڑ کر کسی ایرے غیرے کے ساتھ پکڑ کر بیاہ دیا۔ میرا بیٹا کیوں نظر نہیں آیا آپ کو… رانیوں کی طرح رکھتا آمنہ کو… دیکھ دیکھ کر جیتا اسے۔‘‘
سعیدہ اماں اب مبالغہ آمیزی کی آخری حدود کو چھونے کی سر توڑ کوشش کر رہی تھی۔ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے چہرے پر اب بھی مرعوبیت نام کی کوئی چیز نمودار نہیں ہوئی تھی۔ وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ انہیں یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ سعیدہ اماں کو لگا، انہوں نے اس کے ساتھ شادی کر کے واقعی آمنہ کی قسمت پھوڑی تھی۔
بے حد خفگی کے عالم میں انہوں نے سردی کے موسم میں بھی پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ میں پیا تھا۔ اس کی یہ خاموشی امامہ کو بھی بری طرح چبھی تھی۔ وہ رات کو اس سے کیا کچھ کہہ رہا تھا اور اب یہاں سعیدہ اماں کو بتانے کے لیے اس کے پاس ایک لفظ بھی نہیں تھا کہ وہ اس کے لیے اہم ہے… یا وہ اُس کا خیال رکھے گا… یا کوئی اور وعدہ… کوئی اور تسلی… کوئی اور بات… کچھ تو کہنا چاہیے تھا اسے سعیدہ اماں کے سامنے… اسے عجیب بے قدری اور بے وقعتی کا احساس ہوا تھا… رنج کچھ اور سوا ہو… فاصلہ کچھ اور بڑھا تھا… اس نے کسی دوسرے کے سامنے بھی اسے تعریف کے دو لفظوں کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ اکیلے میں تعریف نہ کرے لیکن یہاں بھی کچھ کہہ دیتا… کچھ تو… اس کا دل ایک بار پھر بھر آیا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ سالار اس سے روایتی شوہروں والا رویہ رکھے لیکن خود وہ اس سے روایتی بیوی والی ساری توقعات لیے بیٹھی تھی۔
’’بہت دیر ہو گئی، میرا خیال ہے، ہمیں اب چلنا چاہیے۔ مجھے صبح آفس جانا ہے، آج کل کام کچھ زیادہ ہے۔‘‘ سالار کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا۔
اس نے بڑے تحمل کے ساتھ سعیدہ اماں سے کہا اور پھر اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ اب امامہ کے کھڑے ہونے کا منتظر تھا لیکن امامہ نے ٹیبل پر رکھے برتن اٹھا کر ٹرے میں رکھتے ہوئے اسے دیکھے بغیر بڑی سرد مہری کے ساتھ کہا۔
’’میں آج یہیں رہوں گی سعیدہ اماں کے پاس…‘‘
سالار چند لمحوں کے لیے بھونچکا رہ گیا۔ اس نے پچھلے کئی گھنٹوں میں ایک بار بھی ایسا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ سعیدہ اماں کے پاس رات گزارنے کا اردہ رکھتی ہے اور اب یک دم بیٹھے بیٹھائے یہ فیصلہ…
’’ہاں، بالکل یہیں چھوڑ جاؤ اسے۔‘‘ سعیدہ اماں نے فوری تائید کی۔ امامہ اس کے انکار کی منتظر تھی۔
’’ٹھیک ہے، وہ رہنا چاہتی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ سالار نے بڑی سہولت سے کہا۔
برتن سمیٹتی امامہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ا س نے ایک منٹ کے لیے بھی اسے ساتھ لے جانے پر اصرار نہیں کیا تھا، وہ اتنا تنگ آیا ہوا تھا اس سے…
اس سے پہلے کہ سالار کچھ اور کہتا ، دو ایک جھپاکے کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔ سعیدہ اماں نے بے حد قہر آلود نظروں سے اسے دیکھا، سالار نے جیسے امامہ کے ہر الزام کی تصدیق کر دی تھی۔ سالار کو امامہ کے یوں جانے کی وجہ سمجھ میں آئی، نہ سعیدہ اماں کی ان ملامتی نظروں کا مفہوم سمجھ سکا وہ۔ وہ گفت گو جتنی اپ سیٹ کرنے والی تھی اتنا ہی امامہ کا یک دم کیا جانے والا یہ اعلان تھا کہ وہ آج وہیں رہے گی۔ اسے برا لگا تھا لیکن اتنا برا نہیں لگا تھا کہ وہ اس پر اعتراض یا خفگی کا اظہار کرتا اور وہ بھی سعیدہ اماں کے سامنے۔
’’اوکے… میں چلتا ہوں پھر۔‘‘ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ باہر صحن میں نکل آیا۔
اس کا خیال تھا، امامہ کچن میں برتن رکھ کر اسے خدا حافظ کہنے تو ضرور آئے گی لیکن وہ نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ دیر سعیدہ اماں سے بے مقصد باتیں کرتا صحن میں کھڑا اس کا انتظار کرتا رہا۔ سعیدہ اماں کے لہجے میں اتنی سرد مہری نہ ہوتی تو ان سے امامہ کو بلوانے جکا کہتے ہوئے اسے جھجک محسوس نہ ہوتی۔
سعیدہ اماں کے گھر سے نکلتے ہوئے اس نے پہلی بار اس محلے اس کے سامنے والے گھر کو سر اٹھا کر دیکھا تھا۔ وہاں سے اکیلے واپس آنا اسے کھل رہا تھا۔ وہ اتنے سال اس کے بغیر ہی رہا تھا۔ اسے کبھی تنہائی نہیں چبھی تھی۔ اس نے ایک رات اس کے ساتھ گزاری تھی اور تنہائی کا مفہوم اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ وہاں سے واپسی کی ڈرائیو کی زندگی کی سب سے طویل ڈرائیو تھی۔
٭٭٭٭