آبِ حیات — قسط نمبر ۱ (آدم و حوّا)

سالار نے ہڑ بڑا کر آنکھ کھولی۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی۔ وہ فوری طور پر سمجھ نہیں سکا کہ وہ کہاں ہے۔ اس کی سماعتوں نے دور کہیں کسی مسجد سے سحری کے آغاز کا اعلان سنا۔ اس کمرے کے گھپ اندھیرے کو کھلی آنکھوں سے کھوجتے ہوئے اسے اگلا خیال اس خواب اور امامہ کا آیا تھا… وہ کوئی خواب دیکھ رہا تھا، جس سے وہ بیدار ہوا تھا۔
مگر خواب میں وہ امامہ کو کیا دکھانے والا تھا، اسے کچھ یاد نہیں آیا…’’امامہ!‘‘ اس نے دل کی دھڑکن جیسے ایک لمحے کے لیے رکی… وہ کہاں تھی؟ کیا پچھلی رات ایک خواب تھی؟
وہ یک دم جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا۔ اپنی رکی سانس کے ساتھ اس نے دیوانہ وار اپنے بائیں جانب بیڈ ٹیبل لیمپ کا سوئچ آن کیا۔ کمرے کی تاریکی جیسے یک دم چھٹ گئی۔ اس نے برق رفتاری سے پلٹ کر اپنی داہنی جانب دیکھا اور پرسکون ہو گیا۔ اس کی رکی سانس چلنے لگی۔ وہ وہیں تھی۔ وہ ’’ایک خواب‘‘سے کسی ’’دوسرے خواب‘‘ میں داخل نہیں ہوا تھا۔
یک دم آن ہونے والے بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی تیز روشنی چہرے پر پڑنے پر امامہ نے نیند میں بے اختیار اپنے ہاتھ اور بازو کی پشت سے اپنی آنکھوں اور چہرے کو ڈھک دیا۔
سالار نے پلٹ کر لیمپ کی روشنی کو ہلکا کر دیا۔ وہ اسے جگانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر تھی۔ گہری پر سکون نیند میں۔ اس کا ایک ہاتھ تکیے پر اس کے چہرے کے نیچے دبا ہوا تھا اور دوسرا اس وقت اس کی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس کی ادھ کھلی ہتھیلی اور کلائی پر مہندی کے خوب صورت نقش و نگار تھے۔ مٹتے ہوئے نقش و نگار، لیکن اب بھی اس کے ہاتھوں اور کلائیوں کو خوب صورت بنائے ہوئے تھے۔
سالار کو یاد آیا، وہ مہندی کسی اور کے لیے لگائی گئی تھی… اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔ اس نے بے اختیار چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کیں۔
کسی اور کے لیے؟
پچھلی ایک شام ایک بار پھر کسی فلم کی طرح اس آنکھوں کے سامنے سیکنڈ کے ہزاروں حصے میں گزر گئی تھی۔ اس نے سعیدہ اماں کے صحن میں اُس چہرے کو نو سال کے بعد دیکھا تھا اور نو سال کہیں غائب ہو گئے تھے۔ وہ ذرا سا آگے جھکا اس نے بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ کو اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ کی زرد روشنی میں اس سے چند انچ دور وہ اس پر جھکا، اسے مبہوت دیکھتا رہا۔ وہ گہرے سانس لیتی جیسے اسے زندگی دے رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ جیسے کسی طلسم میں پہنچا ہوا تھا۔ بے حد غیر محسوس انداز میں اس نے امامہ کے چہرے پر آئے کچھ بالوں کو اپنی انگلیوں سے بڑی احتیاط سے ہٹایا۔
٭٭٭٭





امامہ کی آنکھ الارم کی آواز سے کھلی تھی۔ مندھی آنکھوں کے ساتھ اس نے لیٹے لیٹے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑے اس الارم کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن الارم کلاک بند ہونے کے بجائے نیچے کارپٹ پر گر گیا۔ امامہ کی نیند یک دم غائب ہو گئی۔ الارم کی آواز جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہونے لگی تھی۔ وہ کچھ جھلا کر اٹھی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آن کر کے وہ کمبل سے نکلی اور بے اختیار کپکپائی۔ سردی بہت تھی۔ اس نے کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ کی پائنتی کی طرف اپنی اونی شال ڈھونڈنے کی کوشش کی… وہ وہاں نہیں تھی۔ اس نے جھک کر کارپٹ پر دیکھا الارم اب بھی بج رہا تھا۔ مگر نظر اب بھی نہیں آرہا تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ تب ہی اس نے اچانک کوئی خیال آنے پر سالار کے بستر کو دیکھا۔ وہ خالی تھا۔ اسے جیسے یک دم یاد آیا کہ وہ ’’کہاں‘‘ تھی۔ جھنجھلاہٹ یک دم غائب ہوئی تو اور ساتھ ہی الارم کی آواز بھی… یہ سحری کا وقت تھا۔
امامہ، سالار کے گھر پر تھی ا ور یہ اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا۔
وہ دوبارہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ کمبل کے ایک کونے سے اس نے اپنے کندھے ڈھانپنے کی کوشش کی۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ کچھ کم ہوئی۔ اس نے پہلی بار اپنے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی چیزوں کو غور سے دیکھا۔ وہاں رات کو سالار نے گھڑی رکھی تھی… لیکن اب وہاں نہیں تھی۔ ایک چھوٹا رائٹنگ پیڈ اور پین بھی تھا۔ پاس ہی کارڈ لیس فون تھا۔ پانی کی ایک چھوٹی بوتل بھی وہیں تھی اور اس کے پاس اس کا سیل پڑا تھا۔ اسے ایک بار پھر الارم کلاک کا خیال آیا۔ اسے یاد تھا کہ اس نے الارم نہیں لگایا تھا۔ یہ کام سالار کا تھا۔ شاید اس نے اپنے لیے الارم لگایا تھا۔
پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا۔ بیڈ کی وہ سائیڈ جو رات کو اس نے سونے کے لیے منتخب کی تھی، وہ سالار کا بستر تھا۔ وہ عادتاً دائیں طرف گئی تھی اور سالار اسے روک نہیں سکا۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی رہی، پھر اس نے بے حد ڈھیلے انداز میں اپنے سیل فون اٹھا کر ٹائم دیکھا اور جیسے کرنٹ کھا کر اس نے کمبل اتار پھینکا۔ سحری ختم ہونے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور سالار وہ الارم یقیناًاسے بیدار کرنے کے لیے لگا کر گیا تھا۔ اسے بے ساختہ غصہ آیا، وہ اسے خود بھی جگا سکتا تھا۔
جب تک وہ کپڑے تبدیل کر کے لاؤنج میں گئی، اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا۔ کم از کم آج وہ اس سے خوش گوار موڈ میں ہی سامنا چاہتی تھی۔سٹنگ ایریا کے ڈائننگ ٹیبل پر سحری کے لیے کھانا رکھا تھا۔ وہ بہت تیزی سے کچن میں کھانے کے برتن لینے کے لیے گئی تھی لیکن سنک میں دو افراد کے استعمال شدہ برتن دیکھ کر اسے جیسے دھچکا لگا تھا۔ وہ کھانا یقینا فرقان کے گھر سے آیا تھا اور وہ فرقان کے ساتھ ہی کھا چکا تھا۔ اسے خوامخواہ خوش فہمی ہوئی تھی کہ آج اس کے گھر میں پہلی سحری تو وہ ضرور اسی کے ساتھ کرے گا… بوجھل دل کے ساتھ ایک پلیٹ لے کر وہ ڈائننگ ٹیبل پر آگئی، لیکن چند لقموں سے زیادہ نہیں لے سکی۔ اسے کم از کم آج اس کا انتظار کرنا چاہیے تھا… اس کے ساتھ کھانا کھانا چاہیے تھا… امامہ کو واقعی بہت رنج ہوا تھا۔
چند لقموں کے بعد ہی وہ بڑی بے دلی سے ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی۔
برتن دھوتے دھوتے اذان ہونے لگی تھی، جب اسے پہلے بار خیال آیا کہ سالار گھر میں نظر نہیں آرہا۔
اپنے ہاتھ میں موجود پلیٹ دھوتے دھوتے وہ اسے اسی طرح سنک میں چھوڑ کر باہر آگئی۔ اس نے سارے گھر میں دیکھا۔ وہ گھر میں نہیں تھا۔
پھر کچھ خیال آنے پر وہ بیرونی دروازے کی طرف آئی۔ دروازہ مقفل تھا لیکن ڈور چین ہٹی ہوئی تھی۔ وہ یقیناً گھر پر نہیں تھا… کہاں تھا؟ اس نے نہیں سوچا تھا۔
اس کی رنجیدگی میں اضافہ ہوا۔ وہ اس کی شادی کے دوسرے دن اسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر کتنی بے فکری سے غائب ہو گیا تھا۔ اسے پچھلی رات کی ساری باتیں جھوٹ کا پلندہ لگی تھیں۔ واپس کچن میں آکر وہ کچھ دیر بے حد دل شکستگی کی کیفیت میں سنک میں پڑے برتنوں کو دیکھتی رہی۔ وہ ’’محبوبہ‘‘ سے ’’بیوی‘‘ بن چکی تھی مگر اتنی جلدی تو نہیں۔ ناز برداری نہ سہی خیال تو کرنا چاہیے۔ اس کی آزردگی میں کچھ اور اضافہ ہوا تھا۔ ’’چند گھنٹوں کے اندر کوئی اتنا بدل سکتا ہے، مگر رات کو تو وہ… ‘‘ اس کی رنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
’’یقیناً سب کچھ جھوٹ کہہ رہا ہو گا ورنہ میرا کچھ تو خیال کرتا۔‘‘ وہ رنجیدگی اب صدمے میں بدل رہی تھی۔
وہ نماز پڑھ چکی تھی اور سالار کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ اسے تھوڑی سی تشویش ہوئی۔ اگر وہ فجر کی نماز کے لیے بھی گیا تھا تو اب تک اسے آجانا چاہیے تھا۔ پھر اس نے اس تشویش کو سر سے جھٹک دیا۔
٭٭٭٭
سالار جس وقت دوبارہ اپارٹمنٹ میں آیا، وہ گہری نیند میں تھی۔ بیڈ روم کی لائٹ آف تھی اور ہیٹر آن تھا۔ وہ اور فرقان فجر کی نماز سے بہت دیر پہلے مسجد میں چلے جاتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد وہ دونوں وہیں سے بلڈنگ کے جم میں چلے جاتے اور تقریباً ایک گھنٹے کے ورک آؤٹ کے بعد وہاں سے آتے اور آج یہ دورانیہ ’’آمنہ‘‘ کے امامہ ہونے کی وجہ سے کچھ لمبا ہو گیا تھا۔ فرقان سحری کے وقت ان دونوں کے لیے کھانا لے کر آیا تھا اور وہ بھونچکا بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ رات کو سالار کے جس بیان کوصدمے کی وجہ سے ذہنی حالت میں ہونے والی کسی خراب کا نتیجہ سمجھ رہا تھا، وہ کوئی ذہنی خرابی نہیں تھی۔
وہ اطمینان سے اس کے سامنے بیٹھا سحری کر رہا تھا اور فرقان اسے رشک سے دیکھ رہا تھا۔ رشک کے علاوہ کوئی اس پر کر بھی کیا سکتا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ سالار نے سحری کرتے ہوئے اس کی اتنی لمبی خاموشی پر اسے کچھ حیرانی سے دیکھا۔ فرقان اس کے سامنے بیٹھا یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔
’’تم آج اپنی نظر اتروانا۔‘‘ فرقان نے بالآخر اس سے کہا۔
’’اچھا…؟‘‘ وہ ہنس پڑا۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کم از کم اس گفتگو کے بعد کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
’’میں مذاق نہیں کر رہا۔‘‘ فرقان نے اپنے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
جوکچھ ہوا تھا، اسے سمجھنے سے زیادہ اسے ہضم کرنے میں اسے دقت ہو رہی تھی۔ کسی کو بھی ہو سکتی تھی سوائے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخض کے، جو اس وقت کانٹے کے ساتھ آملیٹ کلا آخری ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ رہا تھا۔
’’اور اگر کوئی صدقہ جوغیرہ دے سکو تو وہ بھی بہتر ہے۔‘‘ فرقان نے اس کے ردِ عمل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ سالار اب بھی خاموش رہا۔
’’آمنہ سحری نہیں کرے گی؟‘‘ فرقان کو یک دم خیال آیا۔
’’سو رہی ہے وہ ابھی… میں الارم لگا آیا ہوں، ابھی کافی وقت ہے سحری کا ٹائم ختم ہونے میں۔‘‘ سالار نے کچھ لاپروائی سے اس سے کہا۔
’’فرقان! اب بس کرو…‘‘ اس سے بات کرتے کرتے وہ ایک بار پھر فرقان کی نظروں سے جھنجھلایا۔ وہ پھر اسے ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے اس طرح آنکھیں پھاڑ کر دیکھنا بند کرو۔‘‘ اس نے اس بار کچھ خفگی سے فرقان سے کہا۔
’’تم… تم بہت نیک آدمی ہو سالار…! اللہ تم سے بہت خوش ہے…‘‘ وہ آملیٹ کا ایک اور ٹکڑا لیتے لیتے فرقان کی بات پر ٹھٹھک گیا۔
اس کی بھوک یک دم ختم ہو گئی تھی۔ مزید ایک لفظ کہے بغیر اس نے پلیٹ پیچھے ہٹا دی اور اپنے برتن اٹھا کر اندر کچن میں لے گیا۔ وہ خوشی، سرشاری، اطمینان اور سکون جو کچھ دیر پہلے جیسے اس کے پورے وجود سے چھلک رہا تھا، فرقان نے پلک جھپکتے اسے دھواں بن کر غائب ہوتے دیکھا۔
مسجد کی طرف جاتے ہوئے فرقان نے بالآخر اس سے پوچھا تھا۔
’’اتنے چپ کیوں ہو گئے ہو؟‘‘ وہ اسی طرح خاموشی سے چلتا رہا۔
’’میری کوئی بات بری لگی ہے؟‘‘
وہ اب بھی خاموش رہا۔ مسجد کے دروازے پر اپنے جو گرز اتار کر اندر جانے سے پہلے اس نے فرقان سے کہا۔
’’مجھے تم سب کچھ کہہ لینا فرقان! لیکن کبھی نیک آدمی مت کہنا۔‘‘
فرقان کچھ بول نہیں سکا۔ سالار مسجد میں داخل ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭
امامہ کی آنکھ گیارہ بجے سیل فون پر آنے والی ایک کال سے کھلی تھی، وہ ڈاکٹر سبط علی تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی اس کا دل بھر آیا تھا۔
’’میں نے آپ کو نیند سے جگا دیا؟‘‘
وہ معذرت خواہانہ انداز میں بولے۔ انہوں نے اس کی رندھی ہوئی آواز پر غور نہیں کیا تھا۔
’’نہیں، میں اٹھ گئی تھی۔‘‘ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
وہ ا س کا حال احوال پوچھتے رہے۔ وہ بڑے بوجھل دل کے ساتھ تقریباً خالی الذہنی کے عالم میں ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔
چند منٹ اور بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا۔ کال ختم کرتے ہوئے اس کی نظر اپنے سیل فون میں چمکتے ہوئے نام پر پڑی تھی۔ وہ چونک اٹھی، اسے فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ اس نے سالار کا نام اور فون نمبر کب محفوظ کیا تھا۔ یقینا یہ بھی اسی کا کارنامہ ہو گا۔ اس نے اس کا ایس ایم ایس پڑھنا شروع کیا۔
’’پلیز جاگنے کے بعد مجھے میسج کرنا۔ مجھے ضروری بات کرنا ہے۔‘‘ اسے نجانے کیوں اس کا میسج پڑھ کر غصہ آیا۔
’’بڑی جلدی یاد آگئی میں۔‘‘ وہ میسج کا ٹائم چیک کرتے ہوئے بڑبڑائی۔ وہ شاید10:50 پر آیا تھا۔ ’’اگر آفس جاتے ہوئے اسے میں یاد نہیں آئی تو آفس میں بیٹھ کر کیسے آسکتی ہوں۔‘‘ وہ اس وقت اس سے جی بھر کر بدگمان ہو رہی تھی اور شاید ٹھیک ہی ہو رہی تھی۔ وہ پچھلی رات کے لیے ’’چیف گیسٹ‘‘ تھی اور اگلی صبح وہ اس کے ساتھ بن بلائے مہمان جیسا سلوک کر رہا تھا۔ کم از کم امامہ اس وقت یہی محسوس کر رہی تھی وہ اس وقت وہ باتیں سوچ رہی تھی جو سالار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں۔
وہ کچھ عجیب انداز میں خود ترسی کا شکار ہو رہی تھی۔ اس نے کمبل تہہ کرتے ہوئے بستر ٹھیک کیا اور بیڈ روم سے باہر نکل آئی۔ اپارٹمنٹ کی خاموشی نے اس کی اداسی میں اضافہ کیا تھا۔ کھڑکیوں سے سورج کی روشنی اندر آرہی تھی۔ کچن کے سنک میں وہ برتن ویسے ہی موجود تھے جس طرح وہ چھوڑ کر گئی تھی۔
وہ بے حد بے دلی سے اپنے کپڑے نکال کر نہانے کے لیے چلے گئی۔ واش روم سے باہر نکلتے ہی اس نے سب سے پہلے سیل فون چیک کیا تھا وہاں کوئی میسج تھا اور نہ کوئی مسڈ کال۔
چند لمحے وہ سیل فون پکڑے بیٹھی رہی پھر اس نے اپنی ساری انا اور سارے غصے کو بالائے طاق رکھ کر اسے مسیج کر دیا۔
اس کاخیال تھا، وہ اسے فوراً کال کرے گا لیکن اس کا یہ خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ پانچ منٹ… دس منٹ… پندرہ منٹ… اس نے اپنی انا کا کچھ اور مٹی کرتے ہوئے اسے میسج کیا۔ بعض دفعہ میسج بھی تو نہیں پہنچتے ہیں، اس نے اپنی عزت نفس کی ملامت سے بچنے کے لیے بے حد کمزور تاویل تلاش کی۔




Loading

Read Previous

ہدایت — ساجدہ غلام محمد

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۲ (آدم و حوّا)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!