قسط نمبر2
”چنبیلی کے پھول“
”کیا؟“
عشنا نے یقینی سے سارہ کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کے جواب نے اُسے ششدرہ کردیا تھا اُسے سارہ کے منہ سے ایسی کوئی بات سننے کی توقع بھی نہیں تھی۔
سارہ کے چہرے پر گہری شام کے سائے تھے۔
”ہاں …… وہ میرے اسٹیپ فادر تھے۔“
سارہ نے نظریں جھکائے ہوئے مدھم آواز میں اپنا جملہ دہرایا۔
”اسٹیپ فادر؟ مگر تم نے تو کہا تھا کہ وہ تمہارے پاپا ہیں۔“
سارہ اپنے دونوں ہاتھ مسلتے ہوئے خاموش ہوگئی پھر اس نے گہرا سانس لیا۔
”میں انہیں پاپا ہی کہتی تھی،مگر وہ ممی کے سیکنڈ ہزبینڈ تھے۔“ اُس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”اچھا!“
عشنا حیران ہوئی اور سوچنے لگ گئی کہ ناصرہ تسکین نے گھر سے بھاگ کر جس امیر کبیر آدمی سے شادی کی تھی، تو وہ کون تھا بھلا……
”تو تمہارے اپنے فادر کہاں ہیں؟“
عشنا نے حیرت بھری سنجیدگی سے پوچھا۔
”بہت سال پہلے میرے باباکیdeath ہوگئی تھی۔“
سارہ نے اداسی سے کہا۔
”تو پھرتمہاری ممی نے دوسری شادی کب کی تھی؟ عشنا کے لئے انکشافات کا یہ سلسلہ بے حد حیران کن اور عجیب تھا۔
”ممی نے دوسری شادی کچھ سال پہلے پاکستان میں ہی کی تھی، پھر ممی کی فیملی نے ان کا بائیکاٹ کردیا اور ہم لوگ کینیڈا آگئے۔ ممی سمجھی تھیں کہ یہاں آکر ہم لوگ ایک نئی زندگی شروع کریں گے مگر یہاں آکرسب کچھ بدل گیا، جیسا ممی نے سوچا ویسا کچھ نہیں ہوا۔“
سارہ نے افسردہ انداز میں بتایا۔
”اگر تمہاری ممی نے تمہارے بابا کیdeath کے بعد دوسری شادی کرلی تھی تو ان کی فیملی ان سے ناراض کیوں ہوگئی؟ کیا پاکستان میں عورتیں دوسری شادی نہیں کرسکتیں؟“
عشنا نے سنجیدگی سے کہا۔ سارہ نے سرمزید جھکا لیا۔
”میرے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے۔“
سارہ نے مدھم مگر افسردہ آواز میں کہا۔
عشنا بھی سارہ کی بات سن کر اداس ہوگئی۔
”کتنے rudeاور cruelہیں تمہارے خاندان والے…… دوسر ں کو معاف کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے۔“
عشنا نے افسوس سے کہا۔ وہ سارہ اور اس کی ممی کا دکھ محسوس کرسکتی تھی۔
”Cruelتو پاپا بھی تھے…… ممی نے انہیں بہت روکا تھا…… وہ بہت روئی تھیں مگر پاپا کو ان پر رحم نہیں آیا۔ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، انہوں نے ممی کو دھوکہ دیا تھا۔ممی نے اپنی زندگی میں بہت دکھ دیکھے ہیں۔“
سارہ نے افسردہ آواز میں کہا۔ بہت چھوٹی سی عمر میں وہ اپنی ماں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔
”اوہ…… مجھے تو یہ سب سن کر بہت افسوس ہوا۔“
عشنا افسردہ ہوگئی۔
سارہ نے اداس آنکھیں اٹھاکر عشنا کی طرف دیکھا۔
”میں پاکستان جانا چاہتی ہوں کیونکہ وہاں کوئی میرا انتظار کررہا ہے۔“
سارہ نے پراسرار لہجے میں کہا۔ اس کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی جس نے عشنا کو چونکا دیا تھا۔
”کون؟“
عشنا بری طرح ٹھٹک گئی۔
”ہے کوئیrelative۔“
سارہ نے اسی پراسرار انداز میں جواب دیا۔
”کونrelative؟ دادا، دادی، نانا، نانی، خالہ، پھپھو؟“
عشنا نے بے ساختہ پوچھا۔
ناصرہ تسکین کی کہانی پرت در پرت کھلتی جارہی تھی اور مزید سنسنی خیز ہوتی جارہی تھی۔ ایک راز سے جڑے کئی راز تھے۔
”بس ہے کوئی رشتہ دار…… میں چاہتی ہوں کہ وہ ممی کو معاف کردے…… اس کے لئے مجھے پاکستان جانا ہوگا…… مگر نہ ممی خود پاکستان جانا چاہتی ہیں اور نہ ہی مجھے جانے دیتی ہیں۔“
سارہ نے چونکا تے ہوئے انداز میں کہا۔
”تمہیں چاہیے کہ سوشل میڈیا پر اور فون کے ذریعے اسrelativeسے رابطہ کرو۔“
عشنا نے پوچھتے ہوئے اُسے مشورہ دیا۔
”بہت کوشش کی ہم نے…… ممی انہیں فون کرتی ہیں مگر وہ ممی سے بات ہی نہیں کرتے۔ فون نہیں اٹھاتے، میسجز کا جواب نہیں دیتے…… اتنے سال گزر گئے مگر انہوں نے ممی کو معاف نہیں کیا۔ ممی تو بہت سالوں سے کوشش کررہی ہیں مگر انہیں کوئیsuccess نہیں ہوئی۔“
سارہ نے اداسی سے جواب دیا۔
عشنا کے ذہن میں فوراً ایک خیال آیا۔
”تم اس relative کا نام مجھے بتاؤ…… فون نمبر دو…… میں اُن سے contact کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں تمہارا یا ناصرہ آنٹی کا نام نہیں لوں گی…… کیا معلوم کچھ ہوجائے۔“
عشنا کی آواز پرجوش ہوگئی۔
سارہ نے بنچ پر پڑے بیگ کی جیب میں سے کاغذ اور پین نکالا اور کچھ لکھنے لگی۔
”عشنا میں تم پرtrust کرتی ہوں …… یہ میرے رشتہ دار کا نام ہے……میں ان کے پاس پاکستان جانا چاہتی ہوں، مگر یہ ہم سے بات نہیں کرتے…… تم ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرو…… مگرpromis meعشنا،یہ ہم دونوں کاsecret ہے۔“
سارہ نے کاغذ پر لکھتے ہوئے عشنا سے کہا۔
”Don’t worry Sara، تمہارا کام ضرور ہوجائے گا۔“
عشنا نے کاغذ پرلکھی تحریر پڑھتے ہوئے سارہ کو تسلی دی۔
اور اس کے بعد سارہ نے اُسے جو کچھ بتایا اُسے سن کر عشنا کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں …… اُسے اتنا شاک سارہ کے سوتیلے پاپا کے بارے میں سن کر نہیں لگا تھا جتنا سارہ کے رشتہ دار کے بارے میں جان کر لگا۔
٭……٭……٭
رانیہ کے گھر میں تناؤ کی سی کیفیت تھی۔ اُسے گھر والوں کے چہروں کو دیکھ کرہی محسوس ہوگیا تھا کہ وہ سب اُس سے ناراض ہیں۔ منہ سے تو کوئی کچھ نہیں کہتا تھا مگر اُن کے رویوں سے ایسا ہی لگتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ گھر والوں کو حویلی میں شفٹ ہونے والی بات بہت بری لگی تھی۔ اس کے بعد اس حوالے سے گھر میں کوئی ذکر تو نہیں ہوا تھا مگر تناؤ اور کشیدگی کی فضا برقرار رہی۔ رانیہ شرمندہ بھی تھی۔ اُس کے گھر والے فارس کو ناپسند کرتے تھے اور وہ چاہنے کے باوجود کسی کے دل میں فارس کے لئے جگہ نہ بناپائی۔
وہ اپنے کمرے سے باہر نکلتی تو گھر والے اُس سے نظریں چرا لیتے، اگر بات چیت میں مصروف ہوتے تو اُسے دیکھ کر خاموش ہوجاتے۔ رانیہ کے لئے یہ رویے تکلیف دہ تھے وہ پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا ناکرے۔ فارس کو بھی اُس سے گلے تھے اور اس کے گھر والے بھی اس سے ناراض تھے۔
وہ اپنے کمرے میں اکیلی، چپ بیٹھی رہتی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اکیلی ہوگئی ہے۔ نہ کوئی اس کی بات سمجھتا ہے او رنہ کوئی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ بذات خود اُسے چاند حویلی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں اِتنے مسائل پیدا ہوگئے تھے۔
چاند حویلی دراصل رانیہ اور عنایا کے دادا کی حویلی تھی اور وہ وراثت میں رانیہ کے والد کے حصے میں آئی تھی۔ رانیہ کے دادا نے ایک بیوہ عورت سے شادی کی تھی جن کے پہلے شوہر سے ایک بیٹا بھی تھا جو فارس کے ابا تھے۔
ساری زندگی رانیہ کے دادا، دادی نے دونوں بیٹوں میں فرق نہیں رکھا۔ رانیہ کے دادا نے اپنے سوتیلے بیٹے کو بھی وہی محبت اور شفقت دی جو اپنے بیٹے کو دی تھی مگر سوتیلے بیٹے ہونے کی وجہ سے وہ وراثت میں حصہ دار نہیں تھے اور رانیہ کے دادا نے وہ حویلی اپنی پوتیوں کے نام کردی تھی۔ اس بات کا فارس کی ماں کو گلہ تھا کہ انہوں نے ساری زندگی فارس کی دادا کی خدمتیں کیں، اُن کا خیال رکھا اور جائیداد انہوں نے کل کی بچیوں کے نام کردی۔
فارس کا بچپن اس ہی حویلی میں گزرا تھا۔ اس جگہ سے اُس کی یادیں جڑی تھیں۔ اُسے ضد ہوگئی تھی کہ وہ اسی حویلی میں رہے گا اور اسی وجہ سے ہی اس نے رانیہ سے منگنی کی تھی، ورنہ رانیہ کے ساتھ کبھی کسی نے اُس کے چہرے پر خوشی تو دیکھی نہیں تھی۔
ان حالات سے دلبرداشتہ ہوکر رانیہ نے دوبارہ تھیٹر جوائن کرلیا۔ اور اب وہ لوگ نئے ڈرامے macbeth کی ریہرسل کررہے تھے اور اس ڈرامے میں وہ لیڈی macbethکا کردار ادا کررہی تھی۔
”لیڈی میکبیتھ“ دراصل اسکاٹ لینڈ کی ملکہ تھی، یہ کردار رانیہ کے لئے بہت چیلنجنگ تھا اور وہ اس پر بہت محنت کررہی تھی۔
وہ خوش تھی کہ وہ ایک بار پھر ملکہ بن رہی تھی اور اس طرح اُس کا کتھارسس بھی ہوجاتا تھا۔ وہ ایک حساس لڑکی تھی اور سوچتی تھی کہ کاش اُس کے پاس بھی ملکہ جیسے اختیارات ہوتے۔ یا کم از کم وہ فارس کے دل کی ملکہ تو ہوتی۔ وہ اُس کی منگیتر ضرور تھی مگر اُس کی ملکہ نہیں تھی۔
وہ ریہرسل سے فارغ ہوئی تو واپسی پر فارس اُسے لینے آیا اور وہ دونوں ساحل سمندر پر چلے گئے۔
فارس ہمیشہ کی طرح سنجیدہ تھا، رانیہ کو ہمیشہ اس کی سنجیدگی سے خوف آتا تھا۔
”پھر تمہاری امی اور ماموں نے کیا فیصلہ کیا؟ مجھے تو ان لوگوں نے صاف جواب دے دیا تھا…… مگر تمہاری بات پر تو ضرور غور کریں گے۔ وہ لوگ آخر کب تک اپنی من مانی کرتے رہیں گے۔“
وہ سمندر کے کنارے گیلی ریت پر رانیہ کے ہمراہ چلتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
”فیصلہ!“
وہ ساکن سمندر کو دیکھ کر چند لمحوں کیلئے چپ سی ہوگئی۔
”فارس! وہ حویلی صرف میری نہیں ہے۔ عنایا کی بھی ہے اور عنایا اس بات کے لئے راضی نہیں ہے کہ میں اور تم شادی کے بعد وہاں رہیں۔“
وہ مدھم آواز میں بولی۔
”عنایا راضی نہیں ہے یا تمہاری ماں اور ماموں راضی نہیں ہیں؟“
وہ طنزیہ انداز میں بولا۔ اُس کی آواز میں دبا دبا سا غصہ تھا اور وہ اپنا غصہ بھی چھپانا نہیں جانتا تھا۔
”اس ضد کو چھوڑ دو فارس۔ گھر میں اس بات کی وجہ سے بہت جھگڑا ہوا ہے۔ سب لوگ مجھ سے ناراض ہیں۔“
رانیہ نے اداسی سے کہا۔ اُسے خود پر بھی افسوس ہوا کہ وہ باوجود کوشش کے کسی کو بھی خوش نہیں رکھ پائی۔
”تمہاری امی اور ماموں تمہاری اور میری شادی کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں …… تم بے وقوف لڑکی ہو جو ان لوگوں کی پلاننگ کو نہیں سمجھتی ہو۔ وہ لالچی لوگ ہیں اور تمہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔“
فارس رانیہ کے گھر والوں سے کچھ زیادہ ہی بدگمان تھا۔
رانیہ نے فوراً اُسے وضاحت دی۔
”ایسی بات نہیں ہے فارس……دراصل تمہاری جاب……“
فارس نے اُس کی بات کاٹ دی۔
”جاب تو مجھے مل ہی جائے گی…… ایک دو جگہ انٹرویو ز دیئے ہیں میں نے…… مسئلہ میری جاب کا نہیں ہے رانیہ…… مسئلہ چاند حویلی کا ہے…… تمہاری حویلی کا۔“
فارس جھنجھلا کربولا۔
اُسے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کا فن آتا تھا۔ اُسے ہر چیز میں دوسروں پر الزام لگانے کی عادت تھی۔
”وہ صرف میری حویلی نہیں ہے فارس…… تم کیوں بھول جاتے ہو؟“
رانیہ عاجز آگئی۔
فارس کی ضد اُسے تکلیف دینے لگی تھی۔ وہ فارس کے ساتھ خوش رہنا چاہتی تھی مگر فارس ہر وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کرلیتا۔
”تم کیوں بھول جاتی ہو، کہ تم اُس حویلی کی مالک ہو۔ اس حویلی کے حوالے سے فیصلہ کرسکتی ہو۔“
وہ اُسے اُکسا رہا تھا۔
وہ چاہتا تھا رانیہ اُس کی مرضی کا فیصلہ کرے،وہی کرلے جو وہ چاہتا ہے۔ وہ رانیہ کے منہ سے کسی بھی چیز کے لئے کبھی انکار سننا ہی نہیں چاہتا تھا۔
”میں اکیلی مالک تو نہیں ہوں …… مجھے اپنی بہن کے مشورے کا بھی احترام کرنا ہوگا۔“
رانیہ نے سنجیدگی سے کہا
وہ ذرا ناراض ہوا۔