چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

”عجیب باتیں کررہی ہو تم!“
عنایا کو اس کی بات سمجھ ہی نہیں آئی۔
”اتنے سارے Handicrafts کا آپ کیا کریں گے؟“ عنایا کی دوست نے زوار سے متاثر ہوتے ہوئے پوچھا۔
”انہیں ایکسپورٹ کروں گا۔“
زوار نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”آپ کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس ہے؟“
عنایا کی دوسری سہیلی نے بے ساختہ پوچھا۔
”جی …… یہی سمجھ لیں۔“
وہ مسکرا کر بولا۔
”مگر اتنا سارا سامان آ پ لے کر کیسے جائیں گے؟“
عنایا کی سہیلی نے بل بناتے ہوئے پوچھا۔
”آ پ فکر نہ کریں …… میں اپنے ڈرائیور کو بتا دیتا ہوں وہ یہاں سے یہ سارا سامان لوڈ کروا لے گا۔“
اُس نے نارمل سے انداز میں کہا۔
پھر عنایا کی سہیلی نے اُس کے سامنے بل رکھا۔ اس نے جیب سے چیک بک نکالی۔ پھر میز پر پڑا بال پوائنٹ اٹھایا اور چیک لکھنے لگا۔ ماموں منٹوں میں سب کے لئے کافی لے آئے۔
چیک لکھ کر اُس نے عنایا کے حوالے کیا۔ عنایا کو تو چیک لے کر بھی یقین نہیں آیا کہ اتنی بڑی رقم ان لوگوں کو یوں اچانک ہی مل گئی۔
زوار نے ایک نظر گم صم کھڑی رانیہ پر ڈالی۔
”آپ بھی بیٹھ جائیں مس رانیہ۔“
اُس نے نرمی سے کہا۔
”ہاں رانیہ…… آؤ بیٹھو…… کافی پیو۔“
ماموں نے کرسی آگے کی پھر اُسے کافی کا کپ تھمایا۔ آخر یہ بندہ جو کوئی بھی تھا، رانیہ کے توسط سے ہی یہاں آیا تھا۔
وہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔
”آپ کون ہیں؟ آپ نے اپنا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔“
عنایا نے خوشگوار انداز میں زوار سے کہا۔
”میں زوار آفندی ہوں …… بس اتنا ہی تعارف ہے میرا۔“
وہ کافی پیتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
”نام تو شاندار ہے آپ کا……“
ماموں مسکرا کر بولے، وہ بھی محض مسکرایا۔

”دراصل ہم لوگ رضا کارانہ طور پر ایک NGO کے ساتھ کام کرتے ہیں جو تھر کی غریب اور محنت کش عورتوں کے لئے کام کرتی ہے۔ یہ سارا سامان ہمارے پاس تھر سے ہی آتا ہے اور اس سامان سے حاصل ہونے والی رقم ہم لوگ تھر کے غریب لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک بہت بڑا یونٹ ہے ہمارا، جو یہ کام کرتا ہے۔“
عنایا کی دوست اُسے بتارہی تھی اور وہ کافی پیتے ہوئے بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔ جیسے یہ کوئی بڑی اہم بات ہو۔
”مس رانیہ کی بہن کون سی ہیں؟“
اس بات کے جواب میں بس اس نے اتنا ہی کہا۔
”میں ہوں رانیہ کی بہن۔“
عنایا نے فوراً کہا۔
”اور میں رانیہ کا ماموں ہوں ……“
ماموں بھی خوشی سے بولے۔
”خوشی ہوئی آپ لوگوں سے مل کر۔“
وہ مسکرا کر بولا۔ اس کے چہرے کی خوشی سے لگتا تھا کہ یہ صرف ایک رسمی جملہ ہی نہیں تھا۔
”ہمیں بھی۔“
ماموں بھی مسکرائے۔ ایک امیر کبیر آدمی کو اُن سے مل کر خوشی ہوئی تھی۔ یہ تو ایک انہونی سی بات ہی تھی۔
”کافی تو زبردست ہے۔“
وہ مسکرایا اور دوستانہ انداز میں بولا۔ اُس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ ان لوگوں سے اپنائیت اور دوستی کا رشتہ استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔
”آپ خود زبردست ہیں مسٹر زوار آفندی۔“
ماموں ہنسے۔
اُس نے ان کی بات کو کافی انجوائے کیا تھا۔
اُسے یہاں آکر، ان لوگوں سے مل کر حقیقتاً خوشی ہوئی تھی۔
رانیہ خاموشی سے ان لوگوں کی باتیں سنتی رہی۔ زوار نے عنایا کو اپنا کارڈ دیا اور عنایا اور ماموں کے فون نمبرز بھی لے لئے۔
”میں آپ سے مزید Handicrafts بھی منگواتا رہوں گا۔“
”جی ضرور۔“
وہ خوش ہوگئی۔
”آپ آئیں نا کسی دن ہمارے گھر۔ ہمارے ساتھ کھانا کھائیں …… ہمیں بھی میزبانی کا شرف بخشیں۔“
ماموں خوشدلی سے بولے۔
”آپ میری دعوت کیجیے…… تو میں ضرور آؤں گا۔“
وہ ایک نظر رانیہ کو دیکھ کر بے تکلفی سے بولا۔
”تو بس پھر دعوت پکی ہی سمجھے۔“
ماموں نے خوشگوار انداز میں کہا۔
رانیہ کو زوار کی یہ بے تکلفی عجیب لگ رہی تھی۔
”اس کارڈ پر میرا فون نمبر لکھا ہے۔ مجھے فون کرلیجیے گا…… میں دعوت پر پہنچ جاؤں گا۔“
زوار کے انداز میں اپنائیت تھی۔
ماموں نے دل میں سوچا کتنا رئیس آدمی ہے مگر کتنی انکساری ہے اس میں۔
”پھر آپ ہمارے فون کا انتظار کیجیے گا۔“
ماموں نے خوشدلی سے کہا۔
”ضرور……“
وہ مسکرایا۔
پھر اُس نے خاموش بیٹھی رانیہ کو ایک نظر دیکھا۔
”کوئین…… اب تم سے ملاقات تمہارے گھر پر ہی ہوگی۔“
وہ دل میں سوچتے ہوئے مسکرایا۔
٭……٭……٭
عنایا اور جیمو ماموں جب سے نمائش سے واپس آئے تھے۔ زوار آفندی کا ہی ذکر کئے جارہے تھے۔
رانیہ کے سب گھر والے ذو ق و شوق سے زوار کے بارے میں پوچھتے رہے، وہ اُن کے سوالوں اور ان کے اس اشتیاق سے تنگ ہی آگئی تھی۔
عنایا نے سب کو ڈرامائی انداز میں اُس کے بارے میں بتایا۔
”اونچا، لمبا شہزادوں جیسا ایک بے حد شاندار سا بندہ…… اتنا امیر کبیر…… دولت مند اور رئیس آدمی…… ارے اُسے دیکھ کر تو لوگ شہزادے گلفام کو بھول جائیں گے۔“
ثمن اور ٹیپو شو ق اور اشتیاق سے اُس کی باتیں سن رہے تھے۔
”بتائیں نا رانیہ باجی …… وہ بندہ کون ہے؟“
ثمن نے اشتیا ق سے پوچھا۔ یوں جیسے کسی کہانی کے ہیرو کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔
”معلوم نہیں۔“
رانیہ اس کا ذکر سن سن کر تھک چکی تھی۔
”رہتا کہاں ہے؟“
ٹیپو نے پوچھا۔
”مجھے کیا پتا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔“
اس نے بے زاری سے جواب دیا۔ اُس کے گھر والے بھی عجیب ہی تھے۔ فوراً ہی کسی سے متاثر ہوجاتے۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم اُسے جانتی ہی نہیں۔ تمہارے ساتھ ہی تو آیا تھا وہ ہمارے اسٹال میں ……“
عنایا نے کہا۔
رانیہ کی بے زاری میں اضافہ ہوگیا۔
”ہاں مگر میں اُسے اتنا نہیں جانتی ہوں۔ بس میرا فین ہے وہ، تھیٹر ڈرامہ دیکھنے آتا رہتا ہے۔ ایک بار اُس نے میرا آٹو گراف لیا تھا…… بس…… اس کے علاوہ میں اُس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔“
رانیہ نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔
زوار اُس کافین تھا اور اُس کے سارے گھر والے زوار کے فین بن گئے تھے۔ حتیٰ کے جن لوگوں نے اُسے دیکھا تک نہیں تھا وہ بھی اُس کے fansمیں شمار ہوتے تھے۔
”اچھا……! ویسے بڑ ادولت مندآدمی ہے وہ۔ اُس نے ہمارے سارے Handicrafts منٹوں میں خرید لئے…… پورا سٹال ہی خالی ہوگیا…… بڑے فیاضانہ انداز میں چیک بھی دے دیا اور اُس کا چیک کیش بھی ہوگیا۔ اپنا پرافٹ رکھ کر ہم نے ساری رقم تھر کی خواتین کو بھجوادی…… ذرا بھی غرور نہیں تھا اُس میں بہت اپنائیت سے بات کررہا تھا۔ بہت ہی اچھا انسان ہے وہ۔“
عنایا نے اُس کی تعریف کرتے کرتے ثمن اور ٹیپو کے اشتیاق کو اور بڑھادیا۔
”یہ تو کسی ہیرو والی خصوصیات ہیں۔“
ثمن مسکرا کر بولی۔
”ہیرو ہی تھا وہ…… ایسے ہی تو ہم لوگ اُس سے متاثر نہیں ہوگئے……ماموں اُسے دعوت پر کب بلائیں؟“
عنایا نے پرجوش انداز میں کہا۔
”بس جلدی بلائیں گے۔“
ماموں مسکرائے۔
رانیہ نے فوراً ٹوک دیا۔ اُسے غصہ آیا کہ اُس کے گھر والوں میں عقل ہی نہیں تھی۔
”وہ کیا سوچے گا کہ ابھی مجھ سے مل کر گئے ہیں اور ابھی گھر جائیں …… وہ کون سا آپ ہی کی دعوت کا انتظار کررہا ہوگا۔“
رانیہ آف موڈ میں بولی۔
”کیا پتا کررہا ہو انتظار…… جیسے ہم اُسے یاد کرتے ہیں، وہ بھی ہمیں یاد کرتا ہوگا۔“
رانیہ نے ماموں کی بات پر اپنا سرپیٹ لیا۔
اُسے ماموں سے ایسے احمقانی پن کی توقع نہیں تھی۔
”وہ کوئی پاگل نہیں ہے۔“
وہ بڑبڑائی۔
اور تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم کوئی پاگل ہیں۔“
عنایا کو اُس کا جملہ برا لگا۔
”ہر وقت ایک ہی شخص کی باتیں کرتے رہے ہو تم لوگ…… یہ پاگل پن کی ہی تو نشانی ہے۔“
رانیہ نے خفا سے انداز میں کہا۔ اُس کے گھر والے فارس کو تو برا بھلا کہتے تھے اور ایک اجنبی کی تعریفیں کئے جارہے تھے۔
”اپنے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔“
عنایا کہنا نہیں چاہتی تھی مگر کہہ بیٹھی۔
رانیہ اس کا طنز سمجھ کر خاموش ہوگئی۔ عنایا کو اپنے جملے کی سنگینی کا احساس ہوا اور اُسے محسوس ہوا کہ اُسے اپنی بڑی بہن سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ سو اُس نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے بات بدل دی۔
”زوار آفندی نے کہا تھا کہ وہ ہم سب مزید Handicrafts بھی خریدے گا۔ اس بارے میں تو ہمیں اُس سے بات کرنی چاہیے نا۔“
”ہاں …… تو اُسے فون کرلیتے ہیں۔“
ماموں فوراً بولے۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اُسے مزید Handicrafts کی ضرورت ہوگی تو وہ ہمیں خود ہی بتادے گا۔ سب کے فون نمبرز ہیں اُس کے پاس…… کیا سوچے گا وہ کہ یہ لوگ تو میرے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔“
رانیہ نے اُسی انداز میں کہا۔
”ہاں …… مناسب بھی یہی لگتا ہے…… دعوت پر آئے گا۔ تب ہی تفصیل سے بات کرلیں گے۔“
ماموں کو یہ بات معقول محسوس ہوئی۔
”ہاں پھر ہم سب بھی اُسے دیکھ لیں گے۔ دیکھتے ہیں کہ کون ہے زوار آفندی…… کیسا لگتا ہے دیکھنے میں ……“
ثمن بھی فوراً بولی۔
گھر میں دن رات بس اُسی کا تذکرہ ہوتا رہتا۔ رانیہ اُس کی باتیں سن سن کر عاجز آگئی تھی۔

عجیب تھے اُس کے گھر والے۔ ایک اجنبی آدمی کی شان میں دن رات قصیدے پڑھتے اور اُس کے منگیتر فارس سے نفرت کرتے تھے۔
وہ فارس کے معاملے میں جتنی حساس تھی، اس کے گھر والے فارس سے اُتنے ہی بے زار تھے۔
ساحل سمندر پر ہونے والی فارس سے ملاقات بالکل بھی خوشگوار نہیں رہی تھی۔
اُس کے بعد وہ فارس کو فون کرتی رہی، اُسے میسجز بھی کرتی رہی مگر نہ فارس نے اُس کا فون اُٹھایا اور نہ اُس کے کسی میسج کا جواب دیا۔
وہ اُس کے فون کا انتظار کرتی رہتی مگر فارس نے نہ اُسے فون کیا نہ میسج کیا۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے ناراض ہے مگر وہ سوچتی تھی کہ کیا ناراضگی میں انسان اتنا بے حس ہوجاتا ہے۔
اُسے احساس ہوا کہ وہ بے حد غیر ذمہ دار، لاپرواہ اور سخت دل آدمی تھا۔ وہ جانتا بھی تھا کہ رانیہ بے قصور ہے۔ پھر بھی وہ اُسے ہی سزا دے رہا تھا۔ بے قصور عورتوں پر اپنا غصہ نکالنے والے اور انہیں سزا دینے والے مرد اعلیٰ ظرف نہیں ہوتے۔
وہ اپنا موبائل دیکھ کر اداس ہوجاتی۔سوچتی کہ اُس موبائل کا کیا فائدہ جس پر محبوب کا فون ہی نہ آئے۔
دن رات گزرتے جارہے تھے اور اُس نے خود کو تھیٹر میں مصروف کردیا۔
٭……٭……٭
فردوسی خالہ اپنے بیٹے عقیل سے فون پر بات کررہی تھیں بلکہ اُس کی خوب خبر لے رہی تھیں۔
”اماں کیسی ہیں آپ؟ کیسی گزر رہی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد؟ سب محلے اور خاندان والے تو آپ کا خیال رکھتے ہو ں گے…… روشنی کے پاس چلی جائیں یا اُسے اپنے پاس بلالیں …… جیمو بھائی اور انیسہ باجی بھی آتے جاتے رہتے ہوں گے۔“
عقیل فون پر بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”ارے بیٹا…… دور بیٹھ کر بس مشورے ہی دیتے رہو گے کیا؟ میں پوچھتی ہوں کہ پاکستان کا چکر کب لگاؤگے۔ مجھے تو کینیڈا تم نے بلایا نہیں، ڈرتے ہو اس لئے نہیں بلاتے، پتا نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو ولایت سے گھوم پھر کر آجاتے ہیں …… نیک اور خیال رکھنے والی اولاد ہوگی اُن کی۔“
فردوسی خالہ نے بیٹے کو جھاڑتے ہوئے شکوہ بھی کردیا۔
”ارے اماں …… یہاں آکر آپ کیا کریں گی……یہاں زندگی بہت مختلف ہے۔ آ پ یہاں ایڈجسٹ نہیں ہوسکیں گی۔ آپ فکر نہ کریں، میں پیسے بھجوا رہا ہوں آپ کو۔“
عقیل نے کہا۔
”ارے بیٹا…… پیسے تو مل ہی جاتے ہیں …… پنشن ہی آجاتی ہے میری، بات پیسے کی نہیں، بات محبت اور احساس کی ہے۔“
فردوسی خالہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔
”اماں! آپ ساری زندگی اردو ٹیچر رہی ہیں۔ بچوں کو اردو پڑھاتی رہی ہیں۔ یہ لفاظی تو آپ کی گفتگو کا حصہ ہی بن گئی ہے۔“
بیٹا ماں کی بات سمجھ نہیں سکا۔
خالہ فردوسی کو دکھ ہوا۔
”بیٹا…… دل کی آواز کو بھی لفاظی سمجھتے ہو…… پردیس کیا گئے تمہارے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے، تمہارا تو لہجہ ہی بدل گیا۔ ذرا ذرا سی بات کے لئے تمہیں وضاحتیں دینی پڑتی ہیں …… تمہاری بیوی کی منتیں کرنی پڑتی ہیں کہ میرے بیٹے سے بات کروا دو، پوتی سے بات کروا دو۔ خود تو تمہیں توفیق ہی نہیں ہوتی کہ ماں کو اپنی آواز ہی سنادو۔“
وہ دکھی انداز میں بولیں۔
”اماں! اِن گلے شکوؤں کے جواب میں میں کیا کہوں …… آپ میری بات سمجھ ہی نہیں سکتیں۔ میں یہاں کون سا فارغ بیٹھا رہتا ہوں۔ میں دن رات کمانے میں مصروف رہتا ہوں، کام کرتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھار تو آرا م کو بھی تر س جاتا ہوں۔“
اُس نے ماں کو وضاحت دی۔ ڈسٹنگ کرتی عطیہ یہ گفتگو سن رہی تھی۔
”بیٹا…… کس کے لئے اتنا کمار ہے ہو؟ کیوں خود کو اتنی مشقت میں ڈال رکھا ہے۔“
خالہ نے خبر لی۔
”اماں …… سوچتا ہوں کچھ عرصے بعد پاکستان ہی سیٹل ہوجاؤں گا۔ مگر اتنا سرمایہ تو جمع کرلوں کہ وہاں جاکر کوئی کاروبار شروع کرسکوں، گھر بناسکوں۔“
”بیٹا…… یہ بھی تو تمہار ا گھر ہے۔ تین کمرے ہیں اس گھر میں …… اسی گھر پر اکتفا کرو۔“
انہوں نے رعب سے کہا۔
عقیل جانتا تھا کہ ماں سے بحث کرنا بے کار ہے۔
”اماں …… اچھا چلیں جیسے ہی پاکستان آنے کاپروگرام بنا تو میں آپ کو اطلاع کردوں گا۔“
اُس نے سہولت سے بات سمیٹی۔ اُسے احساس ہوگیا تھا کہ اس وعدے کے بغیر وہ یہ فون بند ہی نہیں کرسکتا۔
فون بند کرکے اُس نے گہرا سانس لیا۔
لاؤنج میں ڈسٹنگ کرتی عطیہ عقیل کے قریب آکر بیٹھ گئی۔
”بات سنیں …… اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ہمیں پاکستان کا ایک چکر لگا لینا چاہیے۔“
انہوں نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ چاہتی تھی کہ کچھ عرصہ عشنا سارہ سے دور رہے۔ اُن کے خیال میں اگر عشنا پاکستان چلی جائے گی تو اُس کے سرسے سارہ کا بھوت اتر جائے گا۔
”ہاں …… ٹھیک ہے…… میں حساب لگاتاہوں۔ بینک سے پتا کرتا ہوں۔کتنے پیسے ہیں آنے جانے کے ٹکٹ، پھر وہاں بھی سو اخراجات ہوں گے۔“
عقیل سوچتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔
عطیہ نے طے کرلیاتھا کہ کچھ عرصے کے لئے پاکستان ضرور جائے گی۔
”آپ فکر نہ کریں۔ میرے پاس بھی کچھ رقم پڑی ہوئی ہے جو میں وقتاً فوقتاً جمع کرتی رہی تھی…… میں بھی اپنے گھر والوں سے کافی عرصے سے نہیں ملی ہوں۔ ہم کچھ عرصے سے پاکستان نہیں جاسکے۔ تو اب چلتے ہیں۔ اگر اتنی زیادہ رقم نہیں بھی جمع ہوئی تو بھی گزارہ کرلیں گے۔ پاکستان میں عزیزوں سے مل کر واپس آجائیں گے۔“
عطیہ نے حتمی انداز میں کہا۔
”اچھا! دیکھتا ہوں۔ چھٹی کے لئے درخواست دیتا ہوں۔“
وہ سوچ میں پڑگیا۔
پھر عطیہ نے عقیل سے سارہ کے بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
”آپ نہیں جانتے کہ ہمیں کتنے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ میں ناصر ہ تسکین سے خوفزدہ ہوں۔“
عقیل ذرا حیران ہوا۔
”کون ہے یہ عورت؟“
ا س نے حیرت سے پوچھا۔
عطیہ نے بے اختیا ر ایک گہرا سانس لیا۔
”ناصرہ تسکین ہمارے کالج کی ایک بدنام لڑکی تھی۔ اُس نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔ اب وہ یہاں کینیڈا میں موجود ہے۔ اُس کا شوہر بھی اُسے چھوڑ کر جاچکا ہے۔ اُس کی بیٹی عشنا کی کلاس فیلو ہے اور سہیلی ہے۔ ناصرہ کی بیٹی بھی ناصر ہ جیسی ہی ہوگی۔گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی اپنی بیٹی کی بھلا کیسی تربیت کرسکتی ہے۔سارہ کی کمپنی کا عشنا پر برا اثر پڑسکتا ہے۔ مگرعشنا تو کسی کی بات ہی نہیں سنتی۔ اُس لڑکی سارہ کے پیچھے پاگل ہے کہ وہ میری دوست ہے، یہ ہے، وہ ہے، فلاں ہے…… اب آپ خود ہی بتا ئیں کہ اتنی محنت سے ہم نے عشنا کو پالا ہے۔ اُس کی تربیت پر بھرپور توجہ دی ہے۔ اُسے اسلامک سینٹر بھیجتے ہیں، آپ کی اماں بھی پاکستان سے فون کرکے ہمیں ہدایات دیتی رہتی ہیں۔ اب ہم اپنی بیٹی کو ناصرہ کی بیٹی کے ساتھ بگڑتے ہوئے تو نہیں دیکھ سکتے نا۔“
عطیہ نے کہا۔
عقیل کوبھی احساس ہوا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
”یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو، ہم کچھ عرصے کے لئے پاکستان چلے جاتے ہیں۔ اس طرح عشنا کا دھیان بٹ جائے گا۔“
وہ سوچتے ہوئے بولا۔
”وہ لڑکی سارہ ایک جادوگرنی ہے۔ اُس نے عشنا پر جادو کردیا ہے۔ عشنا تو اُس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ عشنا کو کیسے سمجھاؤں، آ ج کل کے بچوں کی سوچ ہم پرانے لوگوں کی سوچ سے بہت مختلف ہے۔
”اگر ایسی بات ہے تو پھر تو ہمیں پاکستان جانے کی تیاری کرلینی چاہیے۔“
عقیل نے کہا۔ عطیہ کو اطمینان ہوا۔
عشنا کو پاکستان جانے کے بارے میں پتا چلا تو وہ بے حد ایکسائیٹڈ ہوگئی۔ عطیہ تو سمجھ رہی تھی کہ عشنا ٹال مٹول سے کام لے گی اور انہیں اُسے منانے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑے گی مگر عشنا کی ایکسائٹمنٹ اور خوشی نے انہیں حیران کردیا۔
”امی! ہم واقعی پاکستان جارہے ہیں؟“
عشنا نے خوشی خوشی پوچھا۔
”ہاں ……بس اب تیاری کرلو…… تمہاری دادی انتظار کررہی ہیں۔“
امی نے کہا۔
”بہت سال پہلے ہم پاکستان گئے تھے تب تو میں چھوٹی بھی تھی۔ میرا بھی سب لوگوں سے ملنے کو بہت دل چاہ رہا ہے۔“
عشنا نے کوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ کہا۔
”تمہیں بھلا سب لوگ کہاں یاد ہوں گے۔“
”کیوں نہیں ……روشنی پھپھو مجھے بہت اچھی لگتی ہیں اور دادو بھی اکثر یادآتی ہیں۔ جیمو ماموں کی بیٹی ثمن سے تو میری دوستی بھی بہت تھی۔“
عطیہ حیران ہوگئیں یہ اچانک عشنا کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ ا پنے ددھیال والوں سے اٹیچڈ کب تھی۔
”تمہیں تو سارہ کے سوا کوئی اور دکھائی ہی نہیں دیتا۔“
امی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ نجانے عشنا کو کیوں محسوس ہوا کہ امی ناصرہ آنٹی کو صرف ناپسند ہی نہیں کرتیں بلکہ ان سے نفرت بھی کرتی ہیں۔
”سارہ میری دوست ہے امی اور میں آپ کو بتاؤں کہ میں نے سارہ کی ممی کو ہمیشہ کام کرتے ہی دیکھا ہے۔ اتنا کام کرکے

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!