چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

تو انہوں نے خود کو تھکا دیا ہے۔ وہ ایک محنتی عورت ہیں وہ اپنی بیٹی کو پال رہی ہیں۔گھر کا رینٹ، بلز، ٹیکس، سب خود pay کرتی ہیں۔ کسی سے مدد نہیں مانگتیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتیں۔ آپ کے ذہن میں آج سے سالوں پرانی ناصرہ تسکین ہوگی جو اس وقت ایک ٹین ایجر لڑکی تھی۔
شاید وہ اس وقت صحیح فیصلہ نہ کرپائی ہوں۔ آپ لوگوں کیsociety میں لوگوں کی غلطیوں کو معاف کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور پھر آپ نے خود ہی تو بتایا کہ وہ بہت غریب تھیں۔ کیا معلوم ان کے گھر میں غربت کے علاوہ اور بھی مسائل ہوں۔
اور وہ اپنے گھرکے حالات سے تنگ ہوں۔ کیا پتا کہ اُس آدمی نے انہیں بہکایا ہو…… کچھ بھی ہوسکتا ہے امی آپ کیسے اُن کے اوپر اتنی باتیں کرسکتی ہیں …… انسانوں سے غلطیاں ہوجایا کرتی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے کریکٹر کو ہی برا کہہ دیں۔“
عشنا نے سارہ کی ممی کی خوب وکالت کی۔
امی بے زار ہوگئیں۔
”اچھا بس کرو…… تم تو ان ماں بیٹی کی طرف داری ہی کروگی۔“
وہ خفا ہوئیں۔
”امی…… سارہ بہت معصوم لڑکی ہے۔ اُس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے…… وہ بہت اچھی لڑکی ہے…… جیسے میں ایک اچھی لڑکی ہوں۔“
عشنا کا جملہ سن کر وہ ساکت رہ گئیں اور کچھ بول نہیں سکیں۔
٭……٭……٭

رانیہ کے ساتھ والے گھر میں کوئی نئے پڑوسی آئے تھے۔ ان کے ساتھ والا گھر زیادہ بڑا نہیں تھا، کشادہ صحن اور دو تین کمروں پر ہی مشتمل تھا، ہاں مگر صحن میں جامن اور امرود کے درخت لگے تھے۔
پرانے پڑوسی ثمن اور ٹیپو کی حرکتوں کے عادی تھے اور رانیہ کے گھر والوں کے مزاج سے بخوبی واقف تھے اور شریف لوگ تھے۔ انہوں نے کبھی کوئی شکایت بھی نہیں کی تھی۔ وہ اپنے پڑوسیوں کے مزاج کے ساتھ سمجھوتہ کرچکے تھے۔
ثمن اور ٹیپو دیوار پار کرکے ان کے صحن میں لگے جامن اور امرود کے درختوں سے دھڑلے سے خوب پھل توڑ لیا کرتے، انہوں نے کبھی اس بات کا برا نہیں منایا تھا۔ بلکہ وہ لوگ کہا کرتے کہ یہ درخت تو انہوں نے لگائے ہی پڑوسیوں کے لئے تھے۔
بڑے ادب لحاظ والے لوگ تھے، مجال ہے جو کبھی کسی قسم کی شکایت کی ہو۔ مگر پھر اُن لوگوں نے یہ گھر بیچ دیا اور خود کہیں اور چلے گئے۔
اب کوئی نئے پڑوسی آئے تھے جو اپنے رویے سے ذرا بداخلاق قسم کے لوگ لگتے تھے۔ محلے میں کسی سے بھی میل میلاپ نہیں تھا اُن کا۔
جس خاموشی سے آئے تھے، اسی خاموشی سے رہ رہے تھے، نہ کسی سے میل جول نہ کسی سے بات چیت…… حتیٰ کہ کسی کو پتا بھی نہیں تھا کہ اب وہ گھر کس نے خریدا تھا اور وہاں کون رہ رہا تھا۔
ثمن اور ٹیپو روزانہ کی طرح صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے کہ ثمن نے زور دار چھکا لگایا اور گینڈ اڑتی ہوئی پڑوسیوں کے گھر میں گئی اور گاڑی کا بونٹ کھولے، قریب کھڑے پڑوسی کے سر پر لگی۔ اس شاندار شاٹ پر ثمن اور ٹیپو نے خوب شور بھی مچایا۔
پڑوسیوں پر بیٹھی رسالہ پڑھتی عنایا بھی اس شارٹ سے متاثر ہوگئی۔
پڑوسی نے غصے سے ساتھ والے گھر سے آنے والے شور کو سنا اور بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔
”عجیب بدتمیز قسم کے پڑوسی ہیں۔ نجانے میں نے کہاں گھر لے لیا ہے۔“
وہ غصے سے بڑبڑایا اور زور دار آواز کے ساتھ اُس نے گاڑی کے بونٹ کو بند کیا۔ ابھی وہ ان لوگوں کی خبر لینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ یہ دیوار کے ساتھ رکھے اسٹول پر چڑھ کر ٹیپو اور ثمن نے دیوار کے پار سے جھانکا۔
”بات سنیں …… ہماری بال واپس کردیں۔“
ثمن نے بے اعتماد سے مطالبہ کیا۔
پڑوسی نے غصیلی نظروں سے ثمن کی طرف دیکھا۔
”یہ بال ہر گز واپس نہیں ہوگی۔“
پڑوسی نے غصے سے کہا۔
”ہیں؟ کیا مطلب؟“
ثمن اور ٹیپو اس رویے پر حیران پریشان رہ گئے۔ وہ پڑوسیوں کے اس جارحانہ رویے کے عادی نہیں تھے۔
”میں نے تم لوگوں سے کوئی الجبرا کا سوال نہیں پوچھا جس کی تمہیں سمجھ نہیں آرہی۔ یہ ہمایوں کو تنگ کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہے کیا؟ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس محلے میں اس قسم کے لوگ رہتے ہیں تو کبھی یہاں گھر نہ خریدتا۔“
پڑوسی نے انہیں اچھی خاصی سنادیں۔
ثمن نے قدرے ہراساں انداز میں کرسی پر بیٹھی عنایا سے شکایت کی۔
”عنایا باجی! دیکھیں …… یہ نیا پڑوسی ہم سے بدتمیزی کررہا ہے۔“
یہ بات سن کر عنایا فوراً اپنی جگہ سے اُٹھی۔ کرسی دیوار کے پاس رکھی اور اُس پر کھڑی ہوگئی۔
”اس کی طبیعت تو میں ابھی صاف کرتی ہوں۔ یہ ابھی اس گھر کے اصولوں سے اور یہاں کے لوگوں سے واقف نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں اسے تھوڑا وقت لگے گا۔“
دل میں سوچتے ہوئے عنایا نے دیوار کے اُس پار دیکھا۔
”بات سنیں …… بچوں کی گیند واپس کیوں نہیں کررہے؟“
اس نے صحن میں کھڑی گاڑی کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھ کر ذرا رعب سے کہا۔
پڑوسی نے اپنا سر پکڑ لیا۔
”یہ کوئی نیا نمونہ ہے۔“ آخر اُس نے کہاں گھر لے لیا تھا۔ وہ بے اختیار پچھتایا۔
”بات سنیں ……آپ کے بچے انتہائی بدتمیز، اخلاقیات سے عاری اور تہذیب سے نابلدہیں۔ انہیں کوئی تمیز نہیں ہے۔ آپ کو ان کی تربیت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔“
وہ ہر لحاظ بالائے طاق رکھ کر بولا۔
عنایا نے گھور کر اُسے دیکھا۔
”آپ کوئی ٹیچر ہیں؟ اُستاد ہیں؟ لوگوں کو مفت لیکچرز دیتے ہیں؟“
عنایا نے بھی تیز لہجے میں کہا۔
”مجھے ایسے لوگوں کا استاد بننے کا شوق بھی نہیں ہے۔“
اس نے بھی ادھار نہیں رکھا۔
”آپ ایک لاحاصل بحث کررہے ہیں۔ اگربچوں کی بال غلطی سے آپ کے گھر آہی گئی تھی تو آپ کا فرض تھا کہ آپ انہیں واپس کردیتے۔“
عنایا نے خفا سے انداز میں کہا۔
واہ کیا دھونس تھی۔ یہ خاتون بھی ان بچوں کی طرح عقل سے پیدل ہی لگ رہی تھیں۔
”آپ کے بچوں کی بال نے مجھے زخمی کیا ہے۔ اور اس غلطی کو میں معاف نہیں کرسکتا۔“
وہ سرد مہری سے بولا۔
”زخم کے نشان تو نظر نہیں آرہے۔“
عنایا نے اس بدتمیزی پڑوسی کو سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔
اگر یہ آدمی زخمی ہوتا تو یوں سینہ تانے کھڑا ان سے لڑائی نہ کررہا ہوتا۔
”میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ ویسے بھی مجھے آپ کے بچوں پر الزام لگانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔“
وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔
”الزام تو آپ نے لگا ہی دیا ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ یہ سلوک آپ کو بہت مہنگا پڑے گا۔“
عنایا نے اُسے دھمکاتے ہوئے کہا۔
”میں خمیازہ بھگتنے کو تیار ہوں۔“
اس نے قریب گری گیند اٹھائی اور کہتے ہوئے اندر چلا گیا۔
ثمن اور ٹیپو کے چہرے اُتر گئے۔ اُن کا میچ ادھورا رہ گیا تھا۔
عنایا بھی دانت کچکچا کر نیچے اتر آئی۔
”عجیب بدتمیز آدمی ہے۔ پرانے پڑوسیوں نے اس شخص کو یہ گھر بیچ کر اتنے سالوں کا بدلہ ایک ساتھ ہی لے لیا۔“
عنایا غصے سے بڑبڑائی۔
”اس شخص کے ساتھ تو ہمارا گزارا بہت مشکل ہوجائیگا۔ روزانہ لڑائیاں ہوا کریں گی۔“
ثمن نے کہا۔
”اس آدمی کو اپنی عادتیں، مزاج اور رویے کو بدلنا ہوگا۔“
عنایا نے خفگی سے کہا۔
اور وہ لوگ پڑوسی سے لڑجھگڑ کر اندر آئے تو امی فون پر فردوسی خالہ سے بات کررہی تھیں۔
ماموں اپنے تخت پر بیٹھے شاعری کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔
”عقیل بھائی کینیڈا سے آرہے ہیں۔“
فون بند کرکے امی نے ماموں کو خوشی خوشی اطلاع دی۔
”اچھا۔“
ماموں کتاب کا صفحہ پلٹتے ہوئے بولے۔
”ہاں …… فردوسی خالہ اور روشنی تو بہت خوش ہیں۔ عقیل بھائی کافی سالوں بعد جو آرہے ہیں۔“
انہوں نے کہا۔
”ہمارے لئے بھی کینیڈا سے کوئی تحفے تحائف لا رہے ہیں کیا؟“
ماموں مسکرا کربولے۔
”ہمارے لئے کیا لانا ہے انہوں نے…… شکر کرو کہ اتنے سالوں بعد ماں بہن سے ملنے آرہے ہیں۔“
”ارے کینیڈا میں رہنے والے رشتہ داروں کا ہمیں بھی تو کچھ فائدہ ہو۔“
ماموں مسکرائے۔
”بس اپنے فائدے نقصان کا ہی سوچتے رہنا۔“ امی نے انہیں ڈانٹ دیا۔
”فردوسی خالہ کا سوشل ورک ہمارے گھر سے بھی تو چلتا ہے مگر کینیڈا سے آئے سارے تحفے وہ اپنے پاس ہی رکھ لیں گی۔“
ثمن نے کہا۔
”یا اپنے پیارے فضلو دودھ والے کو دے دیں گی۔“
کتنی بار تم لوگوں کو سمجھایا ہے کہ ثواب حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے…… نیکی کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔“
امی نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”رشتہ داروں کے لئے تحفے تحائف لانا بھی تو ثواب کا کام ہے۔“
ماموں چپ نہ رہ سکے۔
”بالکل۔“
عنایا نے اُن کا ساتھ دیا۔
امی نے ان وونوں کی باتوں کو دانستہ نظر انداز کردیا۔
”خیر…… عقیل میاں کی دعوت تو کرنی پڑے گی چاہے وہ ہمارے لئے تحفے لے کر آئیں یا نا لائیں …… عقیل میاں کی فیملی اور فردوسی خالہ کے ساتھ روشنی اور ثاقب کو بھی بلانا پڑے گا…… کافی لوگ ہوجائیں گے۔“
انہوں نے حساب لگاتے ہوئے کہا۔
ماموں فوراً سیدھے ہوکر بیٹھے۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں عنایا کو کوئی اشارہ کیا۔ وہ ان کا اشارہ سمجھ گئی۔
”جب اتنے لوگ آرہے ہیں تو ہم بھی اپنے مہمان کو بلالیتے ہیں …… اب کیا بار بار دعوتیں کریں گے۔“
ماموں نے کہا انہوں نے سوچا بھلا موقع کیوں ضائع کریں۔
”اسے کسی اور وقت بلالینا۔“
امی نے ٹوک دیا۔
”امی ماموں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اب کیا ایک مہمان کے لئے پھر سے دعوت کا اہتمام کریں گے کیا؟ میں کھانے پکانے کے لئے تیار ہوں کافی ڈشز بنالوں گی۔“
عنایا نے ماموں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔
”ارے کون ہے وہ مہمان؟“
امی عاجز آگئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اب اس مہمان کو بلانا پڑے گا۔
”جب آئے گا تو مل لیجیے گا۔ آپ کے کنجوس مہمانوں جیسا نہیں ہے۔ بہت امیر کبیر اور رئیس مہمان ہے۔ جب آپ لوگ اُسے دیکھیں گے تو دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔“
عنایا نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”اچھا ٹھیک ہے…… ایک مہمان سے کیا ہوتا ہے۔ جہاں اتنے لوگ آرہے ہیں۔ وہاں وہ بھی سہی…… بس اپنی ہی من مانی کرتے ہو تم لوگ۔“
امی بادل ناخواستہ مان ہی گئیں۔ پھر انہوں نے عنایا اور ثمن دونوں کو ہدایات دیں۔
”عنایا! تم نے میرے ساتھ کچن میں کام کروانا ہے۔ کھانے بھی پکانے ہیں اور پھر کچن بھی سمیٹنا ہے اور ثمن کو بھی اپنے ساتھ لگا لینا۔
”اور ثمن! اب تم یہ کرکٹ چھوڑ کر عنایا کے ساتھ کچن میں تھوڑا وقت گزارا کرو۔ اب کوئی گھر داری سیکھو تاکہ تمہیں بھی کوئی ڈھنگ کا کام آئے۔“
ثمن نے منہ بناکر ان کی بات سنی۔
ماموں فوراً بیچ میں کود پڑے۔
”ارے آپا…… ابھی ثمن کی عمر ہی کیا ہے۔ وہ کرکٹ کھیلنا چاہتی ہے تو کھیلنے دیں اُسے۔ گھر داری سیکھنے کے لئے تو عمر پڑی ہے۔“
ماموں نے ہمیشہ کی طرح ثمن کی طرف داری کی۔
امی ان کی اس دخل اندازی پر خفا ہوگئیں۔
”ان سب کو بگاڑنے میں تمہارا ہی ہاتھ ہے جیمو۔“
انہوں نے ماموں کو ڈانٹ دیا۔
وہ سرخم کرتے ہوئے بے ساختہ مسکرائے۔ وہ یہ سارے الزام بخوشی اپنے سر لینے کے عادی تھے۔
عنایا اور ثمن نے ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ پڑوسی سے ہونے والی لڑائی کا امی کو ہر گز علم نہ ہو ورنہ ہمیشہ کی طرح وہ پڑوسی کی ہی حمایت کریں گی اور ان کے حصے میں ڈانٹ ڈپٹ ہی آئے گی۔
٭……٭……٭
عشنا پاکستان جانے کے لئے بے حد ایکسائیٹڈ تھی۔
اُسے مشن ایڈونچر سے متعلق بہت سارے کام کرنے تھے۔ سارہ کے رشتہ دار کو ڈھونڈنا تھا، اُس سے ملنا تھا۔ اسے منانا تھا۔ سارہ اور ناصرہ آنٹی سے ملنے کے لئے اُسے قائل کرنا تھا۔
وہ بڑے جوش وخروش سے پاکستان جانے کی تیاریاں کررہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اُسے کون سا کام کس طریقے سے کرنا ہے۔
پاکستان جاکر وہ اکیلی تو گھر سے باہر نہیں نکل سکے گی، وہ سوچ رہی تھی اس کام کے لئے اُسے کسی کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ کوئی عقلمند اور ہمدرد انسان جو اس کی بات سن سکے، سمجھ سکے اور اس معاملے میں سارہ کی مدد کرسکے۔
ایسے کسی انسان کی مدد سے ہی وہ گھر سے باہر جاسکتی تھی اور سارہ کے رشتہ دار کو ڈھونڈ بھی سکتی تھی۔
اُس نے سوچا کہ یہ تو وہ پاکستان جا کر اپنے رشتہ داروں سے مل کر ہی فیصلہ کرے گی کہ کون بندہ اس کام میں اُس کی مدد کرنے کا اہل ہوگا۔ اُس نے چپکے سے اور بہت احتیاط سے وہ کاغذ تہہ کرکے اپنے ہینڈبیگ کی جیب میں رکھ دیا۔ یہ کاغذ اُس کے پاس امانت تھا۔
امی اس کے اس جوش و خروش پر حیران ہورہی تھیں۔ عشنا نے تو کبھی پاکستان جانے کے لئے اصرار بھی نہیں کیا تھا۔ اور نہ وہ پاکستانی رشتہ داروں سے اتنی attachedتھی اور نہ اُس کے ساتھ اُس کا کوئی جذباتی لگاؤ تھا تو اُس کا یہ جوش وخروش انہیں حیرت میں مبتلا کررہا تھا۔
فردوسی خالہ کو اتنے سالوں بعد اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کے آنے کا پتا چلا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا۔
روز روشنی کو لے کر بازار چلی جاتیں، خوب تیاریاں کررہی تھیں۔ روشنی کے شوہر سے اُسے بازار لے جانے کی اجازت لینا بھی تو ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ وہ اپنے داماد کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں مگر مجبور تھیں۔
وہ اپنے داماد ثاقب اجمل کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔ ثاقب نے ان کی بیٹی روشنی کو خوش نہیں رکھا ہوا تھا۔ ثاقب کا شمار ان مردوں میں ہوتا تھا جو اپنی بیوی پر بے حد پابندیاں لگاتے ہیں اور بیوی کو خوب پردہ کراتے ہیں مگر خود شتربے مہار بنے گھومتے رہتے ہیں۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!