چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

”تمہاری بہن کو تمہاری خوشیوں کا کوئی خیال نہیں ہے۔ وہ تمہارے لئے قربانی نہیں دے سکتی، تم خود دیکھو کہ کتنی خود غرض ہے وہ۔“
فارس کو تو اس کے گھر والوں کے خلاف بات کرنے کا موقع چاہیے ہوتا تھا۔
”اور تم چاہتے ہو کہ میں خود غرض بن جاؤں؟“
اُس نے اُسے لاجواب کردیا،چاہتا تو وہ یہی تھا وہ ایک لالچی اور خودغرض آدمی تھا۔ اُسے رانیہ سے زیادہ چاند حویلی میں دلچسپی تھی۔
”تم حویلی کرائے داروں سے خالی کروا دو…… میں بارات لانے کو تیار ہوں۔“
کچھ دیر بعد اُس نے بے جھجھک اور حتمی انداز میں کہا۔ اُس کے چہرے پر پتھریلے تاثرات تھے۔
وہ دور سمندر کو دیکھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔
”شرط رکھ رہے ہو؟ رشتوں میں شرطیں نہیں رکھی جاتیں۔“
وہ اداس ہوگئی۔ فارس نے اُس کا مان نہیں رکھا تھا۔
”اِسے شرط نہ سمجھو…… یہ میری خواہش ہے۔ اور میری خواہش کا احترام کرنا تمہارا فرض ہے رانیہ۔“
وہ اُسے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے بے رحم انداز میں بولا۔
”یہ میرے اختیار میں نہیں ہے فارس۔“
اُس نے بے بسی سے کہا۔
”کوشش کرو……“
وہ نہیں مانا۔
وہ لوگو ں کی مجبوریوں کو سمجھنے والا آدمی نہیں تھا،وہ اداس ہوگئی۔
”تو کیا اگرمیرے گھر والے اس بات کے لئے نہ مانے تو ہماری شادی نہیں ہوگی؟“
رانیہ نے ڈائریکٹ یہ سوال پوچھ لیا۔
وہ اُسے سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے خاموش رہا۔ اُس نے جواب نہیں دیا۔ رانیہ نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔
”جواب دو فارس۔“
فارس کچھ نہیں بولا۔ رانیہ کچھ دیر اُس کے بولنے کی منتظر رہی پھر اُس نے اصرار نہیں کیا۔
کسی کا جواب نہ دینا بھی دراصل ایک جواب ہوتا ہے۔ وہ نم آنکھوں سے سمندر میں ڈوبتے سورج کا عکس دیکھنے لگی۔ وہ جس آدمی سے محبت کرتی تھی، اس گیلی ریت پر اُسی کے ساتھ کھڑی تھی مگر اداس تھی۔
سوہا نے زوار کو اپنے کلینک میں آتے دیکھا تو بہت حیران ہوئی پچھلی بار وہ جس آف موڈ میں یہاں سے اٹھ کر گیا تھا، تو اُسے امید نہیں تھی کہ وہ دوبارہ اُس کے کلینک میں آئے گا۔ مگر وہ آج پھر وہاں موجود تھا اور وہ بھی ہشاش بشاش انداز میں مسکراتے ہوئے……
”اس آدمی کو میں سائیکولوجسٹ ہونے کے باوجود کبھی سمجھ نہ پائی۔“
اس نے اپنی حیرانی چھپاتے ہوئے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔
”آؤزوار…… What a pleasant surpriseکافی دنوں کے بعد آئے! میں تو سمجھی تھی کہ……“
اس کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا پھر وہ ذرا ٹھہر گئی
”کیا سمجھی تھی کہ اب میں تمہارے کلینک میں نہیں آؤں گا؟“
زوار نے اُس کا جملہ مکمل کیا۔
وہ ذرا حیران ہوئی۔
”اور سناؤ…… کیسے آنا ہوا؟ تمہاری کوئین کیسی ہے؟“
اُس نے مسکراتے ہوئے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہی ہوگی۔ میری اُس سے پھر ملاقات نہیں ہوئی۔“
اس نے سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ماننے والی بات تو نہیں ہے……تم تو روزانہ تھیٹر صرف اُسے ہی دیکھنے جاتے تھے۔ میں تو سمجھی تھی کہ اب تک تم نے اُسے پرپوز بھی کردیا ہوگا۔“
سوہا نے شوخی سے اُسے چھیڑا۔
وہ کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگیا۔
پھر اپس نے گہراسانس لیتے ہوئے کہا۔
”اُس کی منگنی ہوچکی ہے۔“
سوہا بے ساختہ چونکی۔ یہ اُس کے لئے بے حد غیر متوقع اطلاع تھی۔ اس نے غور سے زوار کی طرف دیکھا۔
”تمہیں کیسے پتا چلا؟“
اُس نے بے ساختہ پوچھا۔
”کچھ دن پہلے جب میں تھیٹر گیا تھا تو وہاں اُس کا منگیتر بھی آیا ہوا تھا اور رانیہ کے چہرے اور انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے منگیتر سے بہت محبت کرتی ہے۔ خوش قسمت آدمی ہے وہ۔“
اُس نے سنجیدگی سے بتایا۔
”پھر؟ سر اب کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہو زوار؟“
اُس نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
زوار نے ابرو اُچکا کر اُس کی طرف دیکھا۔
”میں سراب کے پیچھے بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں۔“
وہ پراسرار انداز میں مسکرایا۔
”تو پھر کیا کروگے؟“
سوہا کو اُس کی مسکراہٹ بڑی عجیب لگی۔
”دیکھنا …… وہ خود ہی مجھے پرپوز کردے گی۔“
وہ اطمینان سے بولا۔
یہ بات سن کر سوہا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اُسے زوار کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
”زوار! کیا تم پاگل ہوگئے ہو؟ کیسی عجیب و غریب باتیں کررہے ہو؟ وہ لڑکی اپنے منگیتر سے محبت کرتی ہے تو بھلا تمہیں کیوں پرپوز کرے گی! تمہیں دوائیوں کی ضرورت ہے…… میں کچھ دوائیاں لکھ کے دے رہی ہوں تمہیں …… انہیں باقاعدگی سے استعمال کرنا۔“
سوہا نیچے پیپر پر لکھتے ہوئے بولی۔
زوار پر اُس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
”تم جانتی ہو کہ میں دوائیاں کھاتا ہی نہیں ہوں۔“
وہ نہیں مانا سوہا کو محسوس ہوا کہ آج وہ نارمل نہیں تھا۔ عجیب بہکی بہکی باتیں کررہاتھا۔
”زوار!I am sorryمیں نے پچھلی بار تمہاری ممی کا ذکر کرکے تمہیں اپ سیٹ کردیا تھا۔“
سوہا نے معذرت کی۔

”میں اُس بار ے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔“
وہ سرد انداز میں ٹوکتے ہوئے بولا۔
”زوار! کوئی غلط کام نہ کرنا۔“
سوہا نے نرمی سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ رانیہ کے لئے اُس کی دیوانگی سے واقف تھی۔ اسی لئے اُس کے ممکنہ ردعمل سے ڈر رہی تھی۔
”نہیں کروں گا…… تم فکر نہ کرو۔“
وہ اُسی پراسرار انداز میں مسکرایا۔ مگر اس مسکراہٹ میں عجیب جنون خیزی تھی۔
”مجھے تو تم سے خوف آرہا ہے۔“
وہ اُس کی باتیں سن کر اور اُس کا یہ انداز دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی تھی۔ وہ نفسیاتی مریض تھا۔ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتا تھا۔
”کیوں؟ ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے؟مجھ سے خوفزدہ نہ ہو سوہا۔“
زوار نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد سے انداز میں کہا
سوہا کو اس وقت وہ ایک شدت پسند اور جنونی آدمی لگا تھا۔
”زوار! اب تو میں تمہیں کوئی مشورہ دیتے ہوئے بھی ڈرتی ہوں …… وہ لڑکی منگنی شدہ ہے اور جیسا کہ تم بتار ہے ہو کہ وہ اپنے منگیتر سے محبت بھی کرتی ہے…… تو تمہیں چاہیے کہ اُس کے راستے میں نہ آؤ…… بھول جاؤ اُسے…… اُس کا پیچھا چھوڑ دو۔“
سوہا نے اُسے نرمی سے سمجھایا۔ زوار نے اُس کی بات کو اہمیت نہیں دی۔
”وہ ایک بے وقوف لڑکی ہے۔“
وہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔
سوہا کو اُس کے جملے نے حیران پریشان کردیا۔ وہ اس کی اس بات کو سمجھ نہ پائی۔
”کیوں؟ کیا اپنے منگیتر سے محبت کرنے والی لڑکیاں بے وقوف ہوتی ہیں؟“سوہا کو اُس پر غصہ تو آیا مگر اُس نے ضبط کرلیا۔
”وہ لڑکا اُس کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ اور وہ اس سے محبت بھی نہیں کرتا۔“
زوار نے سنجیدگی سے کہا۔
سوہا کو اُس کی بات پر بالکل یقین نہیں آیا۔
”زوار تمہارا خیال غلط ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تمہیں میری باتیں بری لگیں گی مگر لوگوں کی محبتیں بڑی کامیاب بھی ہوتی ہیں۔ سب لوگ محبت میں ناکام نہیں ہوتے۔“
”میں چہرے پڑھنا جانتا ہوں سوہا۔“
وہ پراسرار سے انداز میں بولا۔
”رہنے دو…… میرا چہرہ تو تم آج تک پڑھ نہیں سکے۔“
وہ عاجز آکر بولی۔
وہ عجیب انداز میں مسکرایا
”پڑھ چکا ہوں …… اسی لئے تو تمہاری کلینک میں آجاتا ہون۔“
وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی تھا۔
”جب وہ اپنے منگیتر کے ساتھ خوش ہے۔ تو تمہیں کیا اعتراض ہے۔ ٹھیک ہے تم اُس کا تھیٹر ڈرامہ دیکھنے جاتے ہو۔ اُس کی پرفارمنس اور اُس کے کردار کو پسند کرتے ہو۔ اس سے زیادہ تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بن سکتا۔“
”تعلق سوچ سمجھ کر نہیں بنائے جاتے سوہا۔“
سوہا کو اُس کی باتیں بالکل سمجھ نہیں آئیں۔ وہ جو سمجھ رہی تھی کہ وہ ٹھیک ہورہا ہے تو اُس کا خیال غلط تھا۔
”آخر تم چاہتے کیا ہو؟ آج مجھے بتاؤ کہ چاہتے کیا ہوتم؟“
اُسے آج زوار پر غصہ آرہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔
”میں کیا چاہتا ہوں؟سوچ کر بتاؤں گا۔“
وہ لاجواب ہوگئی،زوار نے اُسے پھر ٹال دیا تھا،مگر اُس نے مصلحت سے کام کیا۔
”ٹھیک ہے…… سوچ کر بتا دینا۔“اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
وہ زیر لب مسکرایا۔اُس نے غور سے زوار کے چہرے کو دیکھا تو اُسے احسا س ہوا کہ زوار کی مسکراہٹ برف جیسی سر د تھی۔اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی،اُس کا رویہ نارمل نہیں تھا۔
آج بہت عرصے بعد وہ اُسے وہی پرانے والا نفسیاتی مریض لگ رہاتھا۔
وہ اُسے دیکھتے ہوئے خوفزدہ ہوگئی۔
”کیا دیکھ رہی ہو؟“
نفسیاتی مریض ہونے کے باوجود وہ ایک تیز دماغ رکھتا تھا۔ اُس میں لوگوں کو لاجواب کردینے کی صلاحیت تھی۔
”ایسا کوئی کام نہ کرنا زوار، جس سے اُس لڑکی کوکوئی نقصان پہنچے۔“
سوہا نے اُسے واضح الفاظ میں ہدایت کی۔
وہ اُس کی بات پر ہنس پڑا۔سوہا منہ کھولے، آنکھیں پھیلائے گومگو سے انداز میں اُسے یوں ہنستے ہوئے دیکھنے لگی۔
”کیا اُسے پاگل پن کا دورہ پڑنے لگا تھا۔“
سوہا نے اپنا سرتھام لیا۔
”فکر نہ کرو…… میں رانیہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا بلکہ میں اُسے نقصان سے بچانا چاہتا ہوں۔“
ؤ وہ اپنی بات پر قائم رہا۔
”زوار میں جانتی ہوں کہ تم اُس سے محبت کرتے ہو اور اتنی آسانی سے اُس سے دست بردار نہیں ہوگے۔“
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وثوق سے کہا۔
وہ اُس کے د ل کی بات جان چکی تھی۔
زوار نے اثبات میں سرہلایا۔
”ہاں …… دست بردار تو نہیں ہوں گا میں اُس سے…… مگر تم فکر نہ کرو…… اُسے نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ اُس کی عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔ ہمیشہ اُس کے وقار کا خیال رکھوں گا۔“
زوار نے سوہا کے دل میں آئے سارے وسوسوں کے جواب دے دیئے۔ سوہا کچھ بول نہیں سکی۔
سوہا کو اندازہ ہوا…… وہ نفسیاتی مریض نہیں تھا۔ بلکہ اُس سے زیادہ ذہین سائیکولوجسٹ تھا۔
٭……٭……٭

قومی صنعتی نمائش میں لوگوں کا رش تھا۔ ہر طرف مختلف اسٹالز لگے ہوئے تھے۔ عنایا ہوم اکنامکس کی طالبہ تھی اور اُس نے اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر Handicraftsکا اسٹال لگایا تھا جنہیں اُس نے اس نمائش میں exhibitکیا تھا۔ وہ رضاکارانہ طور پر ایک این جی او کے لئے بھی کام کرتی تھی جو تھرکی خواتین سے دست کاری کی اشیاء بنوایا کرتے اور اس طرح خواتین کی مالی مدد بھی ہوجایا کرتی تھی۔
عنایا نے اس نمائش میں حصہ لیا اور اپنی دوستوں کے ساتھ اپنے سٹال پر موجود تھی اور یہی موقع تھا جب رانیہ نے عنایا کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا اور اُسے سپورٹ کرنے کے لئے وہ آج یہاں اُس کے ساتھ موجود تھی۔ ہاتھ کی بنی اشیاء سے بھرا ہوا سٹال، جہاں لوگ آکر ذوق و شوق سے سب چیزیں دیکھ رہے تھے اور خرید بھی رہے تھے۔
عنایا اپنی دوستوں کے ساتھ لوگوں کو یہ Handicraftsدکھانے میں مصروف تھی۔ جبکہ ماموں ایک کونے میں بیٹھے لوگوں سے گپ شپ لگانے میں مصروف تھے۔ ایک ایک Handicraftsکی شان ایسے ایسے قصیدے پڑھتے کہ سننے والا عش عش کر اٹھتا کہ وہ گفتگو کے فن کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
رانیہ کچھ دیر اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھی رہی پھر اُٹھ کر باہر آگئی اور اطراف میں موجود سٹالز کا جائزہ لینے لگی۔ پھر وہ ذرا فاصلے پر موجود جیولری کے سٹال تک گئی اور دلچسپی سے نگینوں والی انگوٹھیاں اور چاندی کی پازیب دیکھ رہی تھی کہ کسی نے اُسے عقب سے پکارا۔
”ہیلو کوئین……“
وہ بری طرح چونک گئی۔
اس انداز سے اُسے مخاطب کرنے والا تو ایک ہی شخص تھا…… بھلا وہ یہاں کہاں …… وہ اس آواز اور اس انداز کو بخوبی پہچانتی تھی۔
اُس نے فوراً مڑ کر دیکھا۔
وہ وہی تھا۔ نیلی جینز پر سفید شرٹ پہنے، آج وہ بڑے casualحلیے میں تھا۔ بالوں میں جیل لگا رکھی تھی۔
”آپ یہاں؟“
رانیہ نے قدرے حیرت سے کہا۔
”جی…… اور آپ یہاں کیسے؟ نمائش دیکھنے آئی ہیں؟“
اُس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اُسے اچانک دیکھ کر اُس کے چہرے پر خوشی کی روشنی سی چمکی تھی۔
”جی ہاں …… اصل میں میری بہن نے بھی اس نمائش میں حصہ لیا ہے۔“
اُس کے چہرے پر مروت بھری مسکراہٹ ابھری۔ وہ بے ساختہ چونکا۔
”آپ کی بہن نے!…… کون سا سٹال ہے اُن کا؟ کس چیز کاہے؟“
اُس نے بے ساختہ پوچھا۔
”Handicrafts کا…… اسٹا ل نمبر چار……“
اُس نے مسکرا کر جواب دیا۔
اُس نے وہیں کھڑے کھڑے گردن موڑ کر اسٹال نمبر چار کی طرف دیکھا۔
”اوہ اچھا…… آپ کے منگیتر آج آپ کے ساتھ نہیں آئے؟“
اُس نے فارس کے بارے میں پوچھا۔
”وہ کہیں بزی تھے۔“
رانیہ نے کہہ کر جان چھڑائی۔ اُسے لوگوں کو فارس کے حوالے سے جواب دینے پڑتے تھے۔
”کیا کام کرتے ہیں وہ؟“
اُ س نے اگلاسوال کیا۔
رانیہ گڑبڑا گئی۔ آخر وہ اُس سے اتنے ذاتی سوال کیوں کررہا تھا۔
”میں چلتی ہوں، میری بہن انتظار کررہی ہوگی۔“
رانیہ نے سہولت سے بات سمیٹی۔
زوار نے اُس کے گریز کو محسوس کرلیا۔
…  میں بے حد دلچسپی ہے…… چلیں میں بھی آپ کی بہن کا سٹال دیکھ لیتا ہوں Handicrafts۔مجھے“
وہ اُس کے ساتھ ہی قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
رانیہ کو ناچاراُسے اپنے ساتھ عنایا کے سٹال تک لے کر آنا پڑا۔
عنایا نے رانیہ کے ساتھ ایک بے حد شاندار سے بندے کو آتے دیکھتا تو بری طرح ٹھٹک گئی۔
یکدم ہی اس کے سٹال پر موجو د ہر ایک شخص کی توجہ اُس کی طرف مرکوز ہوگئی تھی۔
کے قریب آگیاwallhangingsوہ اندر آتے ہی میز پر پڑے شیشوں سے بنے  ۔
”یہ تو بہت خوبصورت ہیں …… ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں؟“
اُس نے بے اختیار اِن چیزوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا اور بڑی توجہ سے یہ سب چیزیں دیکھنے لگا۔
”جی بالکل ہاتھ کے بنے ہوئے ہیں اور ایسا کام آپ کو پاکستان میں اور کہیں نہیں ملے گا۔“
ماموں یک دم کرسی سے کھڑے ہوگئے اور میز کے قریب آکر قدرے مسکرا کر بولے۔
”کہاں سے آئے ہیں یہ Handicrafts۔“
زوار نے ان چیزوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”تھر سے…… بڑا ٹیلنٹ ہے ہمارے ملک میں …… لوگوں کے ہاتھ میں بڑا ہنر ہے۔“
ماموں نے مزید کہا۔
”جی بالکل…… کل کتنے Handicraftsہیں آپ کے پاس؟“
زوار نے بظاہر عام سے انداز میں پوچھا۔ اب وہ کڑھائی والے کشن دیکھ رہا تھا۔
”تقریباً چار ہزار۔“
جواب عنایا نے دیا۔
”تو آپ مجھے یہ چار ہزار Handicrafts ہی دے دیں …… میں خریدنے کو تیار ہوں۔ بل بتادیں۔“
یکدم ایک پل کے لئے ہر طرف سناٹا سا چھا گیا۔
سٹال میں موجود سب لوگ بے اختیار انٹرنس کے پاس کھڑی رانیہ کو دیکھنے لگے۔ اُسی کے ساتھ تو یہ بندہ آیا تھا۔ یہ کون بندہ تھا، کہاں سے آیا تھا، اتنا شاندار فیاض اور امیر کبیر جو ان کے سارے Handicrafts کھڑے کھڑے خریدنے کو تیار تھا، اور ادائیگی بھی کررہا تھا۔ مسکرا بھی رہا تھا اور کتنی اپنائیت بھرے انداز میں گفتگو کررہا تھا۔
”جی؟“
عنایا نے بوکھلا کر کہا۔ اسے لگا کہ اُسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
”بل بتادیں۔“
اُس نے نرمی سے کہا۔ کیا فیاضانہ انداز تھا۔
اور یکدم ہی ایک پل کا سناٹا ختم ہوا۔
ماموں نے بے اختیار کرسی اُس کے آگے رکھی۔
”آپ بیٹھیں نا!“
ماموں نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔
”آپ کے لئے چائے منگوائیں!“
عنایا نے اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”کافی۔“
وہ زیر لب مسکرایا اور آرام سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ جیسے وہ ان کے ڈرائنگ روم کا کوئی مہمان ہوتا ہے۔
”میں کافی لے کر آتا ہوں۔“
ماموں باہر بھاگے۔
عنایا رانیہ کے قریب آئی اور سرگوشی کے لئے انداز میں اُس سے پوچھنے لگی۔
”یہ کون ہے؟“
”معلوم نہیں۔“
رانیہ نے سرگوشی میں جواب دیا۔
”کیا مطلب؟ تمہارے ساتھ ہی تو آیا ہے یہ بندہ!“
عنایا نے اسی انداز میں کہا۔
”ہاں مگر میں اسے جانتی نہیں ہوں۔“
رانیہ نے بے ساختہ کہا۔

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!