پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے

گیسا سے علیحدگی بھی پائلو کے لیے ذہنی دباﺅ کا باعث بنی۔ جلد ہی پائلو کو کرس(Chris)کی شکل میں اس کا متبادل مل گیا۔ آزاد خیال گھرانے سے تعلق رکھنے والی کرسٹینامستقبل میں ایک بہترین ہم سفر اور مددگار ثابت ہوئی۔ اگرچہ چینی انداز میں سکے پھینک کر فیصلے کرنے والا، اچھے اور برے شگون پر ایمان رکھنے والا پائلو زندگی کے بارے میں بڑی سیدھی اور پریکٹیکل سوچ رکھنے والی کرس کے لیے اتنا آسان ہم سفر ثابت نہ ہو رہا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کے اتفاقات اختلافات پر قابو پانے لگے اور ان کا درمیانی تعلق مضبوطی اختیار کرتا چلا گیا اور اس کی وجہ دونوں کی مشترکہ کوشش اور محبت تھی۔
1981 ءمیں کرس کے مشورے پر ”زندگی کے صحیح معانی “ ڈھونڈنے کے لیے وہ 17900امریکی ڈالر لیے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی کے وسطی یورپ کی سیاحت کو نکلتے ہیں۔
پائلو کی پہلی شہرت یافتہ کتاب 1987 ءمیں لکھی گئی مگر 23 فروری 1982 ءکو چھتیس سال کی عمر میں مصنف پائلو کوئلو کا جنم اسی سفر کے دوران جرمنی میں ڈاچو کنسنٹریشن کیمپ (Dachau concentration camp) کے دورے کے دورا ن ہوا۔ برازیل کی ڈکٹیٹرشپ کے چنگل سے بچ جانے والے کنسنٹریشن کیمپ کے دروازے پر پائلو کھڑا ہو کر رو پڑا۔ نازی حکومت کے ہاتھوں 30,000 لوگوں کی قید ،موت اور جلائے جانے کی زندہ گواہی نے اس کا انسان اور دنیا پر سے ایمان اٹھا دیا۔ لاشوں کے ڈھیر وں کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے اسے اندازہ ہوا کہ طاقت کی لڑائی اور نشے میں مارے اور جلائے جانے والے ہزاروں لوگ بے نام و نشان ذرے نہ تھے بلکہ انسانیت کی زندہ شکلیں تھے جنہیں جلا دیا گیا۔ یہیں اسے اپنا روحانی پیشوا جے ملا جس سے اس کو رہنمائی ملی۔یہ سفر پائلو کی زندگی کو بدل دینے کا باعث بنا۔
برازیل واپسی پر 1982 ءمیں پائلو اور کرس نے اپنا پبلشنگ ہاﺅس شوگن Shogun قائم کیا جس نے خاصی تر قی کی۔1986 ءمیں اپنے روحانی پیشوا جے کی صلاح اور کرس کے مجبور کرنے پر پائلواور کرس سنتیاگو کے رستہ پر نکلے جو ایک روحانی زیارت مانا جاتا ہے۔ یہی سفر اس کی پہلی کتاب The Pilgrimage کا موضوع بنا۔ پائلو نے جانا کہ ہمیشہ کل پر ٹالتے رہنے سے وہ کبھی بھی لکھاری نہیں بن سکے گا۔
” اگر مصنف بننا ہے تو کتاب لکھو!“
3 مارچ 1987ءکو پائلو اپنے ٹائپ رائٹر اور کچھ لکھنے کے عزم کے ساتھ خود کو کمرے میںبند کرلیتا ہے۔اکیس دن کی انتھک محنت کے دوران پائلو نے بغیر کسی بنیادی ضرورت کے اپنی جگہ نہ چھوڑی اور اکیسویں دن اس کے ہاتھ میں دو سو الفاظ پر مشتمل The Pilgrimage کا مسودہ تیار تھا۔ Ernest Mandarino نامی پبلشر نے اسے چھاپا ۔عام لکھاریوں سے ہٹ کر پائلو نے خود اس کتاب کی بے تحاشا پبلسٹی کی ،چرچ، پارک اور تھیٹرز میں اس کے پمفلٹ بانٹے گئے۔پائلو کے پاس پیسے کی کمی نہ تھی اس نے کمیشن پر کچھ نوجوان بھی پبلسٹی کے لیے مقرر کیے۔ جلد ہی اس کے راستے کی رکاوٹیں ہٹنے لگیں اور صحافیوں اور لکھاریوں کی فون بکس میں اس کا نمبر محفوظ ہونے لگا۔ ایک مصنف کے طور پر خبریں لگنے سے پائلو کو وہ سکون ملا، جو راک سٹار کے ساتھ ملنے والی شہرت اور پیسہ بھی نہ دے سکا تھا۔ دو سال کے عرصے میں دوسرے ناول الکیمسٹکے دو سو صفحات پائلو نے دو ہفتوں میں لکھے۔
یہی وہ وقت تھا جب پائلو کی زندگی کے سب خواب پورے ہو چکے تھے وہ خوشی جس سے محرومی، اس کا سکون ختم کر چکی تھی اس کے دامن میں آ گئی۔ اندھیری راتوں کا اختتام اور چمکتا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود کہ نقادوں نے پائلو کا ناطقہ بند کیے رکھا مگر مشکل ترین دن بھی پائلو کا رستہ نہ روک سکے یہ تو پھر بھی دن کے اُجالے تھے۔
 1988 ءمیں الکیمسٹ کی پبلشنگ کے وقت برازیل جیسے تین ہزار کاپیاں چھاپنے والے ملک میں The Pilgrimage کی اشاعت 40,000 کاپیوں سے بڑھ چکی تھی اور برازیل کی اخباروں میں مسلسل انیس ہفتوں تک بیسٹ سیلر کے مقام پر رہ چکی تھی۔ الکیمسٹ جب بازار میں آئی تو فروخت کے سب ریکارڈ توڑ گئی۔ایک ہی وقت میں پائلو کی دونوں کتابیں بیسٹ سیلر میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے لگیں۔اس کے بعد ہر نئی کتاب کے ساتھ پائلو کی شہرت کا سورج پوری دنیا میں پہلے سے زیادہ چمکا ۔یہی وہ طویل اور کٹھنائیوں بھرا سفر تھا جس نے پائلو کو یہ وجدان دیا۔
”کوئی بھی خواب سچ تب بنتا ہے جب
اس کی طرف قدم اٹھایا جائے سو جب بھی تم کوئی خواب
دیکھو پوری کائنات اس میں تمہاری کامیابی کے لئے سازش
کرنے لگتی ہے لیکن اس کے لیے تمہیں قدم اٹھانا پڑے گااور
پھر تمہاری رہنمائی کی جاتی ہے۔“

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!