پائلو کوئلو – شاہکار سے پہلے


پائلو کوئلو(Paulo Coelho)

۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ کیمروں کی فلیش لائٹس اور ریفلیکٹرز کی نیلی ڈسکو سٹائل چمک کے بغیر پائلو کائلو کے قدم اٹھنے سے بیزار ہو جائیں ،رپورٹرز اور پاپا رازیوں کے ہجوم کے بغیر اس کا سانس دوبھر ہونے لگے، انٹرویوز، سیلفیاں اور آٹوگراف اس کے لیے زندگی کی اہم ترین خوشیاں بن جائیں اور وہ ایک عام انسان کی طرح عام بے نیاز لوگوں میں ا ک بے نیازی کے ساتھ چل نہ سکے۔ ا س مشہورِ زمانہ لکھاری کی زندگی میں وہ وقت بھی آتا ہے جب وہ اندھیرے کمرے میں تنہایوں کو دُکھڑے سناتا ہے۔ تاریک راتوں کو مدھم مدھم روشنی دینے والی موم بتیوںکے ساتھ سلگتا ہے۔ آنسوﺅں سے گیلے کاغذ پر کالے حروف اور غمزدہ لمحے اتارتا ہے اور پلکیں سوکھ جانے کے بعد سورج کی اوّلینشعاﺅں کے ساتھ خود سے نئے عزم اور نئے حوصلوں کے وعدے کرتا اور ہر آنے والے دن اپنی محنت اور اپنی جنگ کا دوبارہ صفر سے آغاز کرتا ہے۔
پائلو کوئلو کی زندگی بھی کوپاکبانا(Copacabana beach) کے ساحل کی سمت کھلنے والی کھڑکیوں والے مہنگے اور پرتعیش فلیٹ سے پہلے Rio de Janeiro کے ایک مڈل کلاس علاقے کے مڈل کلاس گھرانے کے ناکام سپوت کی کہانی تھی۔ایک ایسا ناکام بیٹااور بے کار انسان جو نہ تو اپنے اساتذہ سے توصیف سمیٹ سکا اور نہ ہی والدین کی پلکوں پر اترنے والے خوابوں کا بوجھ اپنی پوروں سے اٹھا سکا۔ ایسا عام انسان جو اپنے اندر ایک مضطرب روح ،ایک بے چین وجود کی شناخت کے سفر پر تھا اور سفر بھی ایسا جو لمبا بھی تھا کٹھن بھی اور پرآسیب بھی۔لیکن برسوں کی دھوپ سر پر کاٹنے، صدیوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھا لینے کے بعد جب یہی مضطرب روح منظرعام پر آئی تو نہ صرف شہرت کی تمام حدیں پار کر گئی بلکہ ہزاروں لوگوں کو خواب دینے ، نئی دنیائیں دریافت کرنے کی تحریک دینے اور تعمیر کے اسباق سکھانے لگی۔ دنیا بھر میں دوسو ملین سے زیادہ بکنے والے کتابوں اور سٹرسٹھ (67)زبانوں میں ترجمہ ہونے والے ناول الکیمسٹ(The Alchemist) کا مصنف جس کے لفظوں سے ہزاروں لاکھوں لوگ روزانہ سونے سے پہلے زندگی اور معاشرے کے ہاتھوں اپنی کچلی روحوں کو تسلی دیتے، اپنے ماضی کو دفن کرنے اور نئی صبح کو روشن کرنے کا عزم کرتے ہیں، اسی کا نام پائلو کوئلو ہے۔
اپنی پیدائش سے ہی بدقسمتی کا شکار پائلو کوئلو نے اپنے پہلے سانس کے ساتھ ہی زندگی کی سختیوں اور مصائب سے لڑنے کی ہمت پکڑ لی تھی۔اسی لیے جب غمزدہ باپ اور آنسو بہاتی ماں اس نوزائیدہ بچے کے کفن دفن کی تیاری کر رہے تھے تو وہ انگڑائیاں لیتا اٹھ بیٹھا۔ اپنے پست قد کے ساتھ بلندیوں کے لیے لڑنے والا پائلو آخر اپنے ریگزاروں، پتھریلی مسافتوں اور نم راتوں سے گزر کر اپنے ہنر کی معراج پر پہنچ گیا۔
پتلی ٹانگوں اور بڑے سر کے ساتھ بدصورت دکھائی دینے والا بچہ پائلو ابتدائی عمر سے ہی غیر مقبول ثابت ہوا۔ اس میں صنف مخالف کو متوجہ کرنے کی کوئی صلاحیت نہ تھی، دوستوں میں دھاک بٹھانے کو ہمت تھی نہ بہادری ۔ والدین کا لاڈلا بننے کی روایت پسندی نہ تھی۔ ا یسے میں خود کو خوش رکھنے اور دوستو ں کو متاثر کرنے کا ایک ہی ذریعہ تھا اس کے پاس، اس کی کتابیں اور مطالعہ۔۔ بچپن سے ہی مطالعہ کے شوقین پائلو کائلو نے سکول کے دور سے ہی آنکھوں کی پتلیوں پر لکھاری بننے کا ایک خواب ،ایک جذبہ بُن لیا تھا ۔ سکول کی نصابی قابلیت والدین کی تمام تر کوشش کے باوجود وہ آسانی سے حاصل نہ کر سکا۔سکول کے ریکارڈ میں ہمیشہ آخری نمبر پر رہنے والا اور ہر وقت سکول سے نکالے جانے کے خوف میں مبتلا رہنے والا نوجوان جب ایک دن تخلیقی شاعری کے ایک مقابلے میں اپنے سکول میں پہلے نمبر پر آتا ہے تو اس کی آنکھوں کو ایک نیا خواب ملتا ہے۔ ایک ایسا راستہ جس پر اس کے لیے تالیاں بج سکتی ہیں، وہ انعامات جیت سکتا ہے۔ ناکامیوں سے نکل کر کامیابی کا مزا چکھ سکتا ہے۔ اس پر آشکار ہوتا ہے کہ اسی سمت اس کی طبیعت کا میلان اور رجحان ہے۔۔ جلد از جلد والدین کو یہ خوش خبری دینے ، خوابوں کی اونچی اڑان اور لکھاری بننے کا خواب سنانے کی چاہ لیے وہ سکول سے نکلنے والے پہلے طلبا میں سے تھا۔اس کے ہاتھ جیسے قارون کا خزانہ لگا تھا ۔

Loading

Read Previous

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

Read Next

شریکِ حیات قسط ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!