عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

عجیب بات ہے کہ مجھے آیا اچھی نہیں لگتی تھی مگر اس کی بیٹی اچھی لگنے لگی تھی۔
آمنہ۔۔۔
آمنہ فرمان ۔۔۔
آمنہ ۔۔۔عبداللہ
آمنہ عبداللہ
میں بھی یہ کیا بچوں جیسی حرکتیں کر رہا ہوں ۔کسی نے دیکھ لیا تو ہنسے گا مجھ پر ۔ چلو لائن لگا دیتا ہوں اس کانام۔ کاٹ دیتا ہوں آخری لائن کو ۔
کیا کروں چاہ کر بھی میں اس کا نام کاٹ نہیں پا رہا ۔میں بھی ناں ۔۔۔ مجھے لگتا ہے میرا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔ ابھی تو مجھے اپنی بہن کو ڈھونڈنا ہے ، اس کے لیے اچھا سا لڑکا تلاش کرنا ہے ، اس کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں ۔ پھر اپنے بارے میں سوچوں گا ۔ابھی تو بہت سے کام باقی ہیں ۔ یہ آمنہ خواہ مخواہ چلی آئی میری زندگی میں ۔ آئندہ نہیں سوچنا اس کے بارے میں ۔
میں نے دل میں تہیہ کیا۔
٭٭٭٭٭
”تم ۔۔۔تم ۔۔۔حیثیت کیا ہے تمہاری۔تمہاری اتنی جرات بھی کیسے ہوئی کہ تم ایسی بات کرو۔ تم ایک نوکر ۔۔۔ایک مالی ۔۔ایک دو ٹکے کے ۔۔۔تم ۔”
وہ آنکھیں بند کرتا تو غصے کے ساتھ چلاتی ہوئی آئمہ جہانگیر اس کے سامنے آجاتی ۔ وہ آنکھیں کھولتا تو اس کو اس کی حدیں جتاتی ہوئی آئمہ جہانگیر سامنے آ کھڑی ہوتی۔
”چراغ دین ۔۔اسے بتاؤ کہ ایک نوکر کی حد کیا ہے ۔”
وہ بہت مضبوط تھا ،لیکن ٹوٹ رہا تھا ۔
بہت بار اس نے سوچا کہ وہ یہاں سے چلا جائے ، آئمہ جہانگیر کی دنیا میں اس کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔مگر جس گلاب کی اس نے آب یاری کی تھی،اسے یونہی چھوڑ کر چلے جانا دشوار ہوا ۔وہ اسے پھول دار دیکھنا چاہتا تھا ، بھلے اس کے کانٹے اسے گھائل کرتے تھے ۔
شادی کے دن قریب آ رہے تھے ۔عورتوں جیسی چال والا ڈیزا ئنر دلہن اور دلہا کے ملبوسات ، دلہن دلہا کے ماں باپ ،دلہا کی بہن اور دلہن کی سہیلیوں کے ڈریسز کے بارے میں مشورے دینے اور ہدایات لینے چلا آتا، مردوں جیسے حُلیے والی ویڈنگ پلانراپنی ٹیم کے ساتھ گھر کا سروے کرنے چلی آتی۔ برائیڈل شاور کے لیے ہال اور مہندی کے ایونٹ کے لیے لان منتخب کیا تھا اس نے۔
”یہ اس طرف اسٹیج بنے گا ۔کچھ پودے کٹوانے پڑیں گے آپ کو ۔” اس نے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا ۔ارم جہانگیر نے سر ہلا دیا تھا ۔
اس نے تڑپ کر اس گلابی گلاب کے پودے کی طرف دیکھا جس کی ٹہنی اس نے اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی اور جس میں لگی ہرے رنگ کی ننھی ننھی کلیاں اشارہ دیتی تھیں کہ اب اس پہ پھولوں کی بہار آنے ہی والی ہے ۔
٭٭٭٭٭



”آپ نے مجھے میری ماں سے ملوایا ۔ میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔” آمنہ فرمان اکثر کہتی تھی اور میں مُسکرا دیتا تھا ۔ میں نے بھلا کیا احسان کیا تھا ۔بس آیا کو اس کی بیٹی سے ملوایا یہ سوچ کر کہ کوئی تو بچھڑا اپنے سے ملے ۔
جب وہ میری زیادہ احسان مند ہونے لگتی تو میں کہتا ۔
”تم نے احسان ہی اتارنا ہے ناں تو دعا کرو کہ میری بہن مجھے مل جائے ۔ ”
وہ اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے لگتی ۔ میں بس اسے دیکھ کر رہ جاتا ۔بہت خالص تھی وہ ۔مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ لڑکی میری راہ نہ کھوٹی کر ڈالے۔
غلط بات تھی ناں کہ میں نے حفصہ کے لیے انکار کیا تھا اور اب آمنہ کی طرف مائل ہونے لگا تھا۔ واقعی سچ کہتے ہیں دل بڑ ا ہی شہ زور ہوتا ہے ۔ دماغ پہ قابو پا لیتا ہے ۔ میں جو دل میں پکا عہد کرتا تھا کہ اب آمنہ کو نہیں سوچنا ، اس کو دیکھتے ہی ہر عہد بھول بیٹھتا ۔ دل اپنی منوا کر چھوڑتا ۔
ہم نے تھوڑے ہی عرصے میں بہت سی باتیں شیئر کی تھیں ۔ میں اپنی بہن کی باتیں کرتا اور وہ مجھے اپنے گھاؤ دکھاتی ۔
عجیب بات ہے کہ کسی کے پاس رشتے نہیں ہوتے،تو وہ تنہا ہوتا ہے ، کسی کے پاس بہت سے رشتے ہوتے ہیں پھر بھی وہ تنہا ہوتا ہے ۔ کوئی یتیم مسکین ہوتا ہے کیو ں کہ اس کے ماں باپ نہیں ہوتے اور کوئی ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم مسکین ہوتا ہے ۔
میری محرومیاں کسی حد تک مٹنے لگی تھیں ۔ میں یتیم خانے میں رہا اور آمنہ اپنے گھر میں۔ میرے ماں باپ حیات نہ تھے ، اس کے ماں باپ اسی دنیا میں تھے ۔ پھر بھی میں آمنہ سے زیادہ بہتر حالات میں رہا ۔ میں اب اللہ کا شکر ادا کرنے لگا تھا ۔
ہمارے بیچ کوئی اقرار نہ ہوا تھا ، کوئی وعدے نہ ہوئے تھے ۔ پھر بھی خود کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ایک ہی راہ پہ چلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے ۔
میرا ماسٹرز ہو گیا تو ایک نجی بینک میں کیشئر ہوگیا ۔ ہفتہ اور اتوار کے دن میں بیگم شاہ جہاں کے گھر بھی جاتا تھا بچوں کو ریاضی پڑھانے ، ہفتے بھر میں انہیں ریاضی میں جو بھی مسئلہ پیش آیا ہوتا ، میں انہیں سمجھاتا ۔ کبھی کبھی آمنہ بھی آتی تھی آیا سے ملنے ۔ جس دن وہ آتی ، اس دن میں بات بے بات مسکراتا اور شاید باتیں بھی زیادہ کرتا ۔ بیگم شاہ جہاں نے میری چوری پکڑ لی تھی۔ ایک ہفتے بچوں کو پڑھا کر ان میں ٹافیاں بانٹ کر میں بیگم شاہ جہاں کے پاس آبیٹھا ۔ وہ باہر لان میں بیٹھی بانو قدسیہ کی ”راہ رواں ” پڑھ رہی تھیں ۔ان سے باتیں کرتے ہوئے میری نگاہیں ادھر اُدھر بھٹک رہی تھیں ۔
”آمنہ نہیں آئی آج ۔ ”
ان کی نظریں کتاب پر تھیں اور آبزرو مجھے کر رہی تھیں ۔چالاک۔۔۔
میں شرما گیا تھا ۔ وہ بھی ہنس دی تھیں ۔
”کروں پھر آیا سے بات ؟”کتاب کا ورق پلٹتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
”نن ۔۔نہیں ابھی نہیں ۔” میں نے فوراً انہیں منع کیا ۔
”کیوں ؟” انہوں نے کتاب سے نظر ہٹا کر تیکھی نظر سے مجھے دیکھا ۔
”ابھی مجھے اپنی بہن کو تلاش کرنا ہے ، اس کی شادی کرنی ہے ۔ پھر ۔۔۔۔”
”تم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو ۔ ” انہوں نے افسردہ سے لہجے میں کہا ۔ مجھے ان کی افسردگی اچھی نہیں لگی۔
٭٭٭٭٭



دن گزرتے رہے ،شادی کی تیاریاں ہوتی رہیں ۔وہ ہنستی مسکراتی شاداب چہرہ لیے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز لیے اس کے پاس سے گزرتی رہی۔پھر ایک دن جانے کیا ہوا کہ اس گلاب جیسی لڑکی کی چمکتی آنکھوں میں آنسو بھر گئے ، مُسکراتا مطمئن چہرہ یک دم ماتمی لگنے لگا۔اس کے رخساروں کے گلابی گلاب مرجھا گئے اور وہاں زرد گلاب اگ آئے ۔
”شادی رک گئی ہے ، بی بی کے سسرال والوں کو پتا چل گیا ہے ۔”ملازموں کے بیچ ہونے والی گفت گو کچھ اس کے کانوں میں بھی پڑی تو وہ دل تھام کر رہ گیا ۔اس رات بھی اس کے سجدے طویل رہے۔
یہ دو دن بعد کی بات ہے جب آئمہ پچھلی سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی۔ اس نے چہرہ گھٹنوں میں چھپا رکھا تھا اور اس کا جسم یوں ہچکولے کھا رہا تھا جیسے وہ رورہی ہو۔
وہ اپنی حیثیت جانتا تھا پھر بھی خود کو روک نہ پایا اور اس کے قریب چلا آیا۔
”سنو۔” اس نے آہٹ پا کر سر اٹھایا تھا ۔اس کی سرخ سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ ٹھہر نہ پایا اور جانے لگا تھا جب آئمہ نے پکارا تھا ۔وہ رک گیا ۔
”کیا نام ہے تمہارا۔”
اس گھر میں مالکوں کے بیچ وہ مالی کے نام سے جانا جاتا تھا ۔آج وہ اس سے اس کا نام پوچھ رہی تھی۔ کچھ دیر کے لیے وہ خود بھی اپنا نام بھول گیا ،پھر یاد آنے پہ بولنا چاہا تو زبان تالو سے جڑی رہ گئی۔
”میں نے تمہیں تمہاری حیثیت یاد دلائی تھی ناں ،آج مجھے اپنی حیثیت پتا چل گئی ہے ۔”آنسو پلکوں کی باڑھ پھلانگ کر آئے اور ذرد گلابوں کو آب یار کر گئے۔
وہ گلابی گلابوں کا کاشت کار تھا ۔ان زرد گلابوں کو دیکھ نہ پایا اور منہ موڑ لیا ۔
”مٹی کے اس ذرّے سے بھی زیادہ حقیر اور کم تر ہوں میں ۔” اس نے پاس پڑے گملے سے مٹی کی مٹھی بھری اور اپنے اوپر اُڑا دی۔
”اس ۔۔۔اس پودے سے بھی زیادہ بے حیثیت ہوں میں ۔” اس نے گملے سے پودا اکھاڑ ڈالا تھا ۔”اس کی تو جڑیں اس کے ساتھ ہیں ۔اور میری جڑیں ۔۔۔میری جڑیں ۔۔جانے کدھر ہیں۔”
اس کو اپنا کوئی ہوش نہ تھا۔اس کو ایک ساتھ دو دو چوٹیں لگیں تھیں ۔ شادی کا ختم ہونا تو شاید برداشت ہو جاتا مگر ۔۔۔مگر اپنا بے شناخت ہونا موت تھا ۔ وہ مر رہی تھی۔ اسے اپنی شناخت چاہیے تھی۔ محبت کے بنا رہا جا سکتا ہے مگر شناخت کے بنا۔۔۔ہر گز نہیں ۔
وہ وہاں رک نہ پایا اور اپنے کمرے میں چلا آیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔
اگلے دن وہ گھر سے غائب رہا تھا ۔
٭٭٭٭٭



میں بیگم شاہ جہاں سے ناراض ہو گیا تھا ، بات ہی انہوں نے ایسی کی تھی۔
مجھے کہیں سے پتا چلا تھا کہ جس شخص نے میری بہن کو گود لیاتھا ، اس نام کا ایک شخص کراچی میں رہتا ہے ۔ میں کراچی چل پڑاتھا ۔ دنیا میں ایک نام کے کئی انسان۔ وہ بھی کوئی اور ہی نکلا تھا ۔ میں نے مایوس ہو کر واپسی کا ارادہ کیا ۔ میں جس ہوٹل میں ٹھہر ا تھا ، وہاں سے بیگ اٹھا کر باہر نکلا ،ابھی راستے میں ہی تھا کہ ایک دھماکہ ہوا اور ہر طرف چیخم چاخ ، آہ وبکامچ گئی ۔ میں ٹیکسی سے نکل کر لوگوں کی طرف بھاگا ۔ ہر طرف بھگڈر مچی ہوئی تھی ۔ کچھ ایسے تھے جو اپنے آپ کو بھول کر زخمیوں کی طرف بھاگے تھے ۔ میں بھی ان کے ساتھ مل کر زخمیوں کو فرسٹ ایڈ پہنچانے کی کوشش کرنے لگا ۔ ایمبولینسز آنے کے بعد زخمیوں کو روانہ کر کے میں بھی اسپتال پہنچا ۔ وہاں خون کی بوتل دی ۔اس دوران میں اپنے موبائل اور بیگ کی طرف سے بالکل غافل تھا ۔بعد میں معلوم چلا کہ میرا بیگ ٹیکسی میں ہی رہ گیا تھا ہاتھ میں پکڑا موبائل جانے کہاں گر گیا تھا۔ اصل میں مجھے اس وقت کسی شے کا ہوش نہ تھا ، دھیان صرف آہ و بکا کرتے زخمیوں کی طرف تھا۔
اگلے دن میں واپسی کے لیے روانہ ہو گیا ۔ایک دن بعد لاہور پہنچا تو بینک کا ایک کولیگ جو میرے ساتھ ہی فلیٹ میں رہتا تھا ، ا س نے بتایا کہ بیگم شاہ جہاں میری طرف سے بہت پریشان ہیں ۔وہ کل فلیٹ پر آئی تھیں اور اب کل سے مسلسل اسے فون کر کے میرے بارے میں پوچھ رہی ہیں ۔
”اوہ۔” مجھے شرمند گی ہوئی ۔ مجھے انہیں کال کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دے دینی چاہیے تھی۔ بم بلاسٹ کی خبر سُن کر وہ پریشان ہوئی ہوں گی۔ اس وقت مجھے یہ سوچ کر خوشی بھی ہوئی کہ اگر میں مر جاؤں تو کوئی تو ہے جو روئے گا اور میری تدفین لاوارث ہو کر نہیں ہو گی۔
میں منہ ہاتھ دھو کر کپڑے تبدیل کر کے بیگم شاہ جہاں سے ملنے آگیا ۔
”کہاں ، کہاں تھے تم ؟” جیسے ہی میں کمرے میں پہنچا ،بیگم شاہجہاںاپنی جگہ سے اٹھ کر تیزی کے ساتھ میری طرف بڑھیں ۔
”کراچی۔”
”کیوں ؟”
”بتایا تو تھا کہ تلاش میں ۔۔۔۔”
”کس کی تلاش ۔۔۔” بیگم شاہ جہاں میری بات کاٹ کر غصے سے بولیں ۔ ”کس کی تلاش میں اتنے پاگل اتنے دیوانے ہوئے پھرتے ہو تم؟” میں نظریں نیچی کیے کھڑا رہا ۔”کس کی تلاش میں اپنا آپ بھولے بیٹھے ہو تم ۔اس کی ۔۔۔اس کی جو تمہیں پہچانے گی بھی نہیں ۔”
میں نے تڑپ کربیگم شاہ جہاں کی طرف دیکھا ۔
”وہ پہچانے گی مجھے ، بھائی ہوں میں اس کا ۔۔ آپ کو یاد نہیں ، وہ میرے بغیر کچھ کھاتی نہ تھی ، میرے بغیر کھیلتی نہ تھی ، میرے بغیر ۔۔۔۔”
”تمہیں کیا لگتا ہے ۔ انیس سال بعد بھی وہ تمہارے بغیر کچھ کھاتی نہ ہوگی ، تمہارے بغیر کھیلتی نہ ہو گی ، تمہارے بغیر جیتی نہ ہوگی۔” پتا نہیں وہ اتنا سفاک کیوں ہو رہی تھیں۔
”نہیں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔”
”یہ دیوانگی چھوڑ دو عبداللہ ۔ نہیں ہو تم بھائی اس کے ۔ کان کھول کر سن لو نہیں ہو تم بھائی اس کے۔”
”آپ نے یہ رشتہ بنایا آپ ہی مکر رہی ہیں ۔” مجھے ان کے انداز پہ دکھ ہو رہا تھا ۔
”ہاں ، میں اقرار کرتی ہوں کہ میں نے یہ رشتہ بنایا ،وہ میری سب سے بڑی بیوقوفی تھی۔”
”مگر یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے ۔ دولت ہے ۔”
”تم سمجھتے کیوں نہیں عبداللہ۔۔۔ اس کی اپنی دنیا ہے ۔”
”مگر میری تو دنیا وہی ہے ۔”


Loading

Read Previous

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Read Next

بیگم شرف النساء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!