عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

وہ اس بات سے ڈرتی تھی کہ ماں بہن کے دبائو میں آکر اولاد کے لیے ایک دن جہانگیر اس کے سر پہ سوکن لا بٹھائے گا ، ا س نے تصور نہ کیا تھا کہ سوکن تو اس کی زندگی میں بہت پہلے آگئی تھی۔ وہ جو اپنے شوہر کی محبت پہ ناز کرتی ہوئی آسمان پہ اڑتی پھرتی تھی، ایک د م زمین پہ آگری۔
عورت میں بڑا ظرف ہوتا ہے ، اگر مرد اپنی غلطی کو تسلیم کر کے معافی مانگ لے تو اس کا بڑے سے بڑا جرم معاف کر دیتی ہے ۔ مگر جب مرد اپنے گناہ کو چھپا کر یہ سمجھے کہ اس نے اپنی عورت کو بیوقوف بنا لیا تو پھربڑا بیوقوف وہ خود ہوتا ہے ۔ جس کو من کے سنگھاسن پہ بٹھایا ہوتاہے اس کے ہاتھوں اتنی تذلیل سہ کر عورت اپنی پہنچ کے مطابق بدلہ ضرور لیتی ہے اور کچھ نہیں تو اس مرد کوچٹکی سے پکڑ کردل سے باہر نکال پھینکتی ہے ۔ارم نے بھی ایسا ہی کیا ، جہانگیر عثمان کو ایسادل سے اتارا کہ پھر کبھی وہ دل میں اتر نہ سکا ۔ ارم کی پہنچ کچھ اس سے بھی زیاد ہ تھی ،اسی پہنچ کے مطابق اس نے انتقام لیا ۔
سکتے سے باہر آ کر خط اور بچی کی تصویر دونوں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینکے ، اپنے حواس بحال کیے اور جب جہانگیر بچی کو اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوا تو مُسکرا کر انہیں دیکھا ۔ یہ پہلی تہ تھی جو اس نے اپنے چہرے پہ چڑھائی تھی۔اس کے بعد ساری عمر وہ اس چہرے پہ تہیں ہی چڑھاتی رہی ۔
آئمہ جس پہ تھوڑا عرصہ ہی سہی ، ممتا تو نچھاور کی تھی ناں ، ماں کی طرح رات رات بھر جاگی تو تھی ناں اس کے لیے ، اس کی کھلکھلاہٹوں پہ ہنسی تھی ، اس کی بیماری پہ پریشان ہوئی تھی۔تھوڑا عرصہ ہی سہی، اس کی ماں تو بنی تھی ناں ۔ ا س لیے نفرت نہ کر پائی اس سے کبھی بھی۔ جب اسے دیکھتی تو اس پہ پیار آتا ، جب سوچتی کہ وہ کس کی بیٹی ہے ،تو اس پہ غصہ آتا ۔ لیکن نفرت کبھی نہ ہوئی ۔ نفرت تو اسے اپنے مجازی خدا سے ہوئی تھی۔ وہ جہانگیر پہ جان نچھاور کرتی رہی اور وہ اس سے بے وفائی کرتا رہا ۔
وہ عورت تھی، مقابلے پہ بے وفائی کر کے اندر لگی آگ کو ٹھنڈا نہ کر سکتی تھی ، مگر اسے معاف بھی نہ کر سکتی تھی۔اس نے جہانگیر عثمان سے بدلہ لیا مگر کسی اور طرح سے۔
” ممی، دانی کہتا ہے کہ میںڈیڈی کی بیٹی نہیں ہوں۔”آئمہ اپنی پھوپھو کے بیٹے کی شکایت لگانے آئی تھی۔
”اپنے ڈیڈی کو بتائو بیٹا ۔”
”ڈیڈی ! دانی کہتا ہے ، میں آپ کی بیٹی نہیں ۔”
جہانگیر عثمان کے چہرے پہ اس وقت جو تکلیف دہ تاثرات نظر آئے ،انہیں دیکھ کر ارم کو اپنے اندر لگی آگ پہ ٹھنڈے چھینٹے سے محسوس ہوئے۔ جہانگیر نے بہن کو تو ڈانٹ دیا تھا ، مگر خود کتنا بے چین رہے تھے ، ارم نے دیکھا تھا اور دیکھ دیکھ کر چپکے چپکے مسکرائی تھی اور پھر چہرے پہ تہ چڑھاتی ہوئی مجازی خدا کے پاس آ کر اس کی دل جوئی کرنے لگی تھی۔
ایسا ایک بار نہ ہوا تھا ، بار بار ہوا تھا ۔


محلے میں سے ، نوکروں میں سے کہیں نہ کہیں یہ بات نکل جاتی کہ آئمہ کو گود لیا گیا ہے ۔ جہانگیر بے بسی کے ساتھ سنتے اور زیادہ سے زیادہ چلا پڑتے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کر سکتے تھے ۔ کسی کی زبان کھینچ سکتے تھے نہ اُسے چپ کروا سکے۔ بس خود کا اطمینان رخصت ہو جاتا تھا اور بیوی کو کچھ سکون مل جاتا تھا۔
جہانگیر نے ملک ہی چھوڑ دیا تھا ۔ ارم راضی نہ تھی مگر جہانگیر اپنے فیصلے سے نہ ہٹے ۔
وقت گزرتا رہا ۔ ارم آئمہ کے لیے دو کیفیات کا شکار رہی اور شوہر کے لیے ایک ہی کیفیت کا ۔ اسے جہانگیرکو آئمہ کے حوالے سے ذہنی اذیت دے کر سکون ملتا تھا۔
یہاں کوئی اور بے سکون کرنے والا نہ تھا ، تو کیا ہوا، وہ خود ہی کافی تھی۔
” آج ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا ۔ اس میں ایک سائیکاٹرسٹ اورایک اسکالر کو بلایا گیا تھا ۔ پروگرام کی میزبان نے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی فیملی بچے کو گود لے تو اسے بچے کے علم میں یہ بات لانی چاہیے یا نہیں ۔انہوں نے جواب دیا تھا کہ بچے سے چھپانا نہیں چاہیے ، اسے بتا دینا چاہیے کہ اسے گود لیا گیا ہے ، ورنہ بچے کو جب بعد میں کہیں اور سے پتا چلتا ہے تو وہ ڈسٹرب ہوتا ہے ۔ میں سوچ رہی ہو کہ ہمیں آئمہ کو بھی بتا دینا چاہیے ۔”
”کیا بتا دینا چاہیے ؟” جہانگیر جو تحمل سے اس کی بات سن رہا تھا ، تپ گیا ۔
”یہی کہ وہ ہماری بیٹی نہیں ۔”
”آئمہ ہماری بیٹی ہے ۔” جہانگیر نے سُرخ چہرے کے ساتھ ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا ۔
”وہ تو ہم سمجھتے ہیں مگر ہے تو نہیں ناں ۔” وہ آرام سے کہتے ہوئے اس کے خراب ہوتے موڈ کو انجوائے کرتی۔
کبھی بیٹھے بیٹھے کہتی: ” حیرت کی بات ہے آئمہ بھی آپ کی طرح اُلٹے ہاتھ سے کام کرنے والی ہے ۔ ”
جہانگیر مُسکرا دیتا ۔
” وہ لیفٹی ہے ، اس کی آنکھیں بھی آپ کی آنکھوں جیسی، آپ دونوں کے بالوں کا رنگ بھی ایک جیسا۔ کوئی دوسرا دیکھ کر کہہ نہیں سکتا کہ وہ آپ کی بیٹی نہیں ۔”
”کسی کو کہنا بھی نہیں چاہیے ، آئمہ میری ہی بیٹی ہے ۔”
” کہنے سے کیا ہوتا ہے ، بیٹی ہے تو نہیں ناں ۔ اس کا باپ کو جانے کس گھٹیا خاندان، کس گھٹیا نسل سے ہو گا ۔”
جہانگیر مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتا ۔ چہرے کا رنگ لال ہو جاتا ۔ کچھ کہتے کہتے رُک جاتا اور وہ دل ہی دل میں مسکرا دیتی۔
اسے یاد ہے ، جب آئمہ سولہ سال کی ہوئی تھی اور وہ پاکستان آئے تھے ۔اس کی نند کو آئمہ اور جہانگیر کے بیچ والہانہ پیار نہبھایا اور وہ بڑبڑاتی رہی تھیں ۔ اس نے ان کی بڑبڑاہٹ کو جہانگیر تک پہنچایا تھا ۔
”باجی کہتی ہیں، آئمہ اب بڑی ہو گئی ہے ۔آپ ۔۔۔آپ آئمہ سے ذرا دور رہا کریں ۔ اسے اس طرح سے ملا نہ کریں ، پیار نہ کیا کریں ۔ ان کا مطلب ہے کہ وہ بیٹی ہے مگر سگی تو نہیں ناں ۔ آپ ہیں تو نا محرم ناں ایک دوسرے کے لیے ۔ ”
جہانگیر کے چہرے کا رنگ ایک دم پھیکا پڑا تھا ۔ ایسے لگا جیسے ان کے اندر سے سارا خون اس زہریلے جملے نے نچوڑ ڈالا ۔اُن کی یہ حالت دیکھ کر وہ جی ہی جی میں مسکرائی، مگر چہرے پہ دکھ کی تہ بٹھا لی۔
اس پوری رات جہانگیر سو نہ پایا تھا ۔ بار بار سینے کو مسلتا تھا ۔ اس وقت اندر کہیں اس کے یہ خواہش تھی کہ جہانگیر بول اٹھیں ، سب سچ کہہ ڈالیں ۔پھر روتے ہوئے اس سے معافی مانگ لیں ۔ وہ معاف کر دے اورسب ہنسی خوشی رہنے لگیں ۔
مگر جہانگیر نہیں بولے تھے ۔


اس ڈھٹائی پہ اس کے اندر کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔اس آگ پر وقتاً فوقتاً چھینٹے مارتی رہتی تھی مگر سکون نہ ملتا تھا ۔ پھر اسے یہ آگ بجھانے کا نادر موقع ملا ۔
آئمہ کی نہایت شریف گھرانے میں بات طے ہوئی تھی ۔ دولت سے زیادہ ان کے ہاں عزت اور شرافت معنی رکھتی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اعلیٰ حسب نسب کو لے کر خاقان کا باپ کچھ گھمنڈی تھا تو غلط نہ ہو گا۔ جب اسے پتا چلا کہ آئمہ لے پالک ہے تو اس کے بیک گرائونڈ ، اس کی نسل اور خاندان کے بارے میں مشتبہ ہو کر اس نے رشتہ ختم کر دیا۔آئمہ الگ سوالیہ نشان بن کر ان کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔
ان دنوں جہانگیر عثمان کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ کھانا پینا سب بھول بیٹھے تھے وہ۔ بیٹھے بیٹھے رونے لگتے ۔ برسوں کے مریض لگنے لگے ، راتوں کو اٹھ اٹھ کر پاگلوں کی طرح چکر لگانے لگانے لگتے۔ ارم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اپنے سر کے بال نوچتے اور روتے تھے۔
انہیں لگتا تھا کہ ان کی بہن نے یہ آگ لگائی ہے ، وہ نہ جانتے تھے کہ یہ ان کی بیوی نے اپنی آگ بجھائی ہے ۔ انجان نمبر سے ایک کال کرنا کوئی مشکل کام تو نہ تھا ۔
اصلی چہرہ کئی تہوں میں چھپا کر ارم ان کا ہاتھ تھام کر انہیں تسلی دیتی اور اندر ہی اندر کسی عیار جادوگرنی کی طرح مُسکرا دیتی ۔
اسے تکلیف دیتے تھے تو آئمہ کے آنسو جب وہ ”ممی ” کہتے ہوئے اس کے پروں میں چھپنے کی کوشش کرتی ۔ وہ بُری عورت نہ تھی مگر جہانگیر کے دھوکے اور مسلسل دھوکے نے اسے اتنا بُرا بنا دیا تھا کہ اسے خود بھی سمجھ نہ آتی کہ بدلے کے لیے وہ کیا کر رہی ہے اور کس حد تک گر رہی ہے ۔ مگر اس دفعہ جہاں جہانگیر کی حالت نے اسے شانت کا تھا وہیں آئمہ کی حالت نے اسے پچھتانے پہ مجبو ر کیا ۔
”مجھے معاف کرنا آئمہ ، تمہار ا باپ ایک دفعہ بھی مجھ سے معافی مانگ لیتا تو میں اسے معاف کر دیتی ، مگر اس کی ڈھٹائی نے مجھے ضدی بنا دیا ۔” وہ آئمہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی سوچتی ۔
جب خاقان اپنے گھر والوں کو پھر لے کر آیا اور شادی کی بات چیت آگے چلی تو اس کو زیادہ سکون حاصل ہوا ۔بہت مل گئی تھی جہانگیر عثمان کو سزا۔ اب وہ آئمہ کو خوش دیکھنا چاہتی تھی لیکن وہ خوش نظر نہ آتی تھی ۔ اس کو ایک ساتھ کئی دھچکے ملے کہ بہت عرصے تک سنبھل نہ پائی ۔ مگر جب ہنی مون سے لوٹی تو پہلے جیسی آئمہ تھی۔ خوش باش۔۔۔ وہ ان کے لیے تحائف لے کر آئی تھی اور پہلے جیسی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ ارم جو اپنی حرکت پہ ابھی تک نادم تھی، پُرسکون ہو گئی لیکن جہانگیر عثمان کی معافی نے ایک بار پھر اسے بے سکون کر دیا ۔
معافی۔۔۔
ہاں کل رات جہانگیر عثمان نے اس کا ہاتھ تھام کر روتے ہوئے اپنی بے وفائیوں کا اقرار کیا تھا۔ جو خیانت آج تک وہ کرتے آئے ، اس کی معافی مانگی تھی۔ انہوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ آئمہ کے سگے باپ ہیں ۔
وہ اک عمر سے منتظر تھی کہ جہانگیر اس سے معافی مانگ لیں اور جب انہوں نے مانگ لی تو اسے اپنا جرم دکھائی دینے لگا۔اس سے بھی تو اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اگر جہانگیر کو پتا چل جاتاکہ خاقان کے باپ تک آئمہ کے لے پالک ہونے والی بات ان کی اپنی بیوی نے پہنچائی تو کیا کر ڈالتے وہ اس کے ساتھ ۔ آ ئمہ کو پتہ چلتا تو کیا عزت رہ جاتی ان کی اس کی نظر میں ۔
آج ارم جانگیر کو سمجھ آرہی تھی کہ کچھ جرم ، کچھ گناہ ، کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان اپنا گھر اپنی عزت کے لیے چھپانے پہ مجبو ر ہوتا ہے ۔ مگر اندر ہی اندر احساس جرم سرطان کی طرح پھیلتا جاتا ہے۔اس نے جہانگیر عثمان کو معاف کر دیا تھا اور خود معافی مانگنے کا حوصلہ نہ رکھتی تھی۔وہ شوہر اور بیٹی کو اپنا مکار جادوگرنی والا چہرہ نہ دکھا سکتی تھی۔ اپنا وہ چہرہ اسے خود کو شرمندہ کرتا تھااس لیے اپنے چہرے سے تمام تہیں کُھرچ ڈالی تھیں ۔
٭٭٭٭٭


ا س کے قدموں تلے پتے چرمُرا رہے تھے ۔ اُداسی بھری شام میں اس نے ”شہر خموشاں ‘ ‘ میں قدم رکھا اور قبروں کے بیچ کی جگہ پہ چلتا ہوا اس قبر تک پہنچا جس کے اندر وہ وجود ابدی نیند سو رہا تھا جس کی امیدوں پہ آج تک وہ پورا نہ اترا ۔ اس نے قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگنے لگا ۔
دعا مانگتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو نے لگی تھی ۔اس نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ دعا کے بعد جب اس نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا تو اس کا پورا چہرہ بھیگا ہوا تھا ۔
”بیگم شاہ جہاں نے کہا تھا ”میرے مرنے کی خبر اخبار میں لگوا دینا ، وہ ضرور آئے گا ۔ اتنا حق تومیرا بنتا ہے اس پر ۔”
وہ اپنے عقب میں آواز سُن کر چونکا ۔ یہ آواز وہ پہچان سکتا تھا ، یہ آواز اس لڑکی کی تھی جو متاع زیست تھی ۔
وہ آہستہ سے مڑا ۔اس کی بہن اس کی گلاب اس کے سامنے کھڑی تھی۔
وہ اسے دیکھتا رہ گیا ۔ اس نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ وہ ہلا تو خواب ٹوٹ جائے گا ۔
” اچھا بدلہ لیا آپ نے مجھ سے ۔” وہ قدم قدم اُٹھاتی اس کے بالکل قریب آئی ۔ ” پہلے مجھے تلاش کرتے رہے ، اور بعد میں مجھے اپنی تلاش پرلگادیا ۔ خوب بدلہ لیا ۔” گلاب جیسی لڑکی ہنسی ۔
” آپ ۔۔۔ ” وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ہمیشہ کی طرح اس کے سامنے گونگا ہوا۔
”گلاب ۔” وہ آہستہ سے بولی ۔
دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔اپنے آنسو صاف کرتے کرتے وہ منجمد ہوا ۔ اس کی گلاب نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا پھر اس ہاتھ کی پشت پہ اس نے بوسہ دیا ۔

Loading

Read Previous

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Read Next

بیگم شرف النساء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!