عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

”جس دن تم اس بڑے باپ کی بیٹی کے سامنے جاؤ گے ناں تو پوچھے گی وہ ۔۔۔ کون سا بھائی کیسا بھائی ۔ اس دن احسا س ہو گا کہ تمہاری دنیا محض خوابوںکی دنیا تھی۔”
”میں بڑے باپ کی بیٹی کے سامنے نہیں جاؤں گا ، اپنی بہن کے سامنے جاؤں گا ۔”
”میری بات سمجھو عبداللہ ۔ تمہاری بہن تمہیں کبھی نہیں ملے گی ۔ مل بھی گئی تو باقی کی عمر اس میں اپنی بہن تلاش کرتے رہ جاؤ گے۔”
”آپ اس طرح کی باتیں اس لیے کر تی ہیں کہ آپ کا اپنا لالچ ہے ۔ آپ چاہتی ہیں کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کرسی پر بیٹھ کر آپ کا یتیم خانہ چلاؤں ۔” مجھے غصہ آ گیا تھا ۔ میری بات سُن کر وہ کچھ دیر بولنے کے قابل نہ رہیں ۔
”میں تمہاری ماں ہوتی تو تھپڑ لگاتی تمہارے منہ پر ۔” شاید ان کی آنکھیں نم ہوئی تھیں ۔ شاید ایسا نہیں تھا ۔ میری اپنی آنکھوں میں پانی تھا اس لیے مجھے ایسا محسوس ہوا۔
‘آپ میری ماں نہیں ہیں ، پھر بھی تھپڑ لگا سکتی ہیں ۔ ایک نہیں دو تھپڑ لگائیں ، مجھے ماریں پیٹیں مگر مجھے میری بہن کی تلاش سے نہ روکیں ۔”
”جاؤ ۔۔۔ چلے جاؤ ۔ جہاں جانا ہے جاؤ ۔ جہاں جیسے مرضی تلاش کرو اس کو ۔اب میرے پاس تب آنا جب اپنی بہن کو ڈھونڈ لو ۔ اس سے پہلے اپنی شکل مت دکھانا ۔”
” ٹھیک ہے اب میں آپ کے پاس اپنی بہن کے ساتھ ہی آؤں گا۔”
میں اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے چلا آیا ۔میں نے مڑ کر انہیں دیکھا نہ تھا ، انہوں نے مجھے روکا نہ تھا ۔ میں بیگم شاہ جہاں سے ناراض ہو گیا تھا جو مجھے پاگل دیوانہ کہتی تھیں ۔
میں نے لاہور چھوڑ دیا ۔ جانے سے پہلے میں آمنہ سے ملا تھا ۔ بس دل چاہ رہا تھا اسے دیکھنے کو۔ میں اس کے گھر جائے بنا رہ نہ سکا ۔ اس کی دادی سے بھی ملا ۔آمنہ کی صورت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ مجھے یہاں آنا نہیں چاہیے تھا ۔ اب سفر مشکل ہو گا ۔پھر سوچا کہ سفر میں کچھ زاد راہ بھی تو ساتھ ہونا چاہیے ۔ اس کی یاد سے بہتر بھلا کیا زادِ راہ ہو گا ۔
میرے جانے کا سُن کر آمنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔ میں اس کے آنسو پونچھ کر اس کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دینا چاہتا تھا اسے کہنا چاہتا تھا ۔
”میں لوٹ کر آؤں گا ۔”
لیکن میں نے نہ ہی اس کے آنسو پونچھے ، نہ ہی اس کا ہاتھ تھاما اور نہ ہی کوئی تسلی دے سکا ۔
٭٭٭٭٭



وہ اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ڈرائیو کر رہی تھی کہ خاقان احسن کو لگا کہ وہ ایکسیڈنٹ کر بیٹھے گی۔ اس نے گاڑی موڑ کر ا س کے پیچھے لگا لی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اسے کال بھی کر رہا تھا مگر گھر سے نکلتے ہوئے اس نے موبائل اٹھایا ہی کب تھا ۔ وہ خود نہ جانتی تھی کہ وہ کیا کر رہی ہے ۔ عقل نے ساتھ چھوڑ دیا تھا ،دماغ نے دغا دے دی تھی ۔ اسے یہ بھی لگنے لگا تھا کہ وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو دے گی۔ خاقان نے گاڑی لا کر اس کی گاڑی کے آگے کھڑی کی تو اسے بریک لگانا پڑے ۔
”کیا کر رہی ہو آئمہ؟ ” خاقان تیزی کے ساتھ اپنی گاڑی سے نکل کر اس کی گاڑی کی طرف آیا اور ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا، اور اب خفگی کے ساتھ اس سے پوچھ رہا تھا ۔وہ اس کی طرف خالی نظروں سے دیکھتی رہی۔
”مرنا ہے کیا ؟” خاقان بگڑ رہا تھا۔
”ابھی مرنا باقی ہے کیا ۔” وہ نظریں زمین پہ گاڑ کر نیچی آواز میں بولی۔
خاقان کو وہ اپنے حواس میں نہ لگی تھی۔
”چلو میرے ساتھ ۔”
وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی تھی۔ خاقان نے اس کا بازو پکڑ کر زبردستی اسے کھینچا ۔
”چھوڑو مجھے ،تمہارے باپ نے دیکھ لیا تو دفعہ لگادے گا کوئی تم پر بھی۔”
خاقان کا چہرہ سرخ ہو ا مگر ضبط کر گیا ۔وہ اس کی ذہنی حالت کو سمجھتا تھا ۔
”آؤ میرے ساتھ ۔”
اس بار وہ اتنی نرمی اور پیار کے ساتھ بولا کہ وہ چُپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑی ۔وہ اسے لے کر ایک ریسٹورنٹ میں چلا آیا تھا ۔ آرڈر کرنے کے بعد اس نے آئمہ کی طرف غور سے دیکھا۔
وہ جس کا چہرہ ہمیشہ گلاب کی طرح ترو تازہ رہتا تھا آج مرجھائی ہوئی تھی ۔ جس کے لباس پہ ایک شکن نہ ہوتی تھی ،آج سلوٹوں سے بھرا پڑا تھا۔ پیروں میں باتھ روم سلیپرز تھے ۔
”آئمہ ۔” خاقان نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پکارا ۔” کیا حال بنا رکھا ہے اپنا ۔ ساتھ مجھے بھی پریشان کر رکھا ہے۔ فون نہیں اٹھاتی ہو میرا ، ملتی نہیں ہو مجھ سے ۔ کیوں سزا دے رہی ہو خو د کو اور مجھ کو ۔”
اس کی آنکھوں کی سطح تیزی کے ساتھ زیر آب آئی اور پھر آنسو چہرہ بھگونے لگے ۔
”تمہارے آنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں آئمہ ۔” خاقان نے اس کا چہرہ صاف کیا مگر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے ۔
”تم نے آنٹی اور انکل کو بھی کتنا پریشان کر رکھا ہے ۔۔اندازہ ہے تمہیں ۔ ایسے مسئلے حل نہیں ہوتے آئمہ۔” وہ بہت نرمی کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔
”میں ٹھیک ہوں ۔ تم بتاؤ ،کوئی کا م تھا مجھ سے ۔” اپنے آنسو صاف کر تے ہوئے وہ اجنبی بنی۔ خاقان بہت دیر تک اسے دیکھتا رہ گیا ۔
”چلتی ہوں میں پھر۔” وہ اُٹھنے لگی تھی۔ خاقان نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے واپس بٹھایا ۔
”کیا کرتی ہو آئمہ ؟” وہ خفگی کے ساتھ بولا۔ سارے قصے میں اس کا قصور کہیں نہ تھا مگر سزا اسے سب سے زیادہ مل رہی تھی۔ آئمہ ملتی نہیں تھی، بات نہیں کرتی تھی۔ گھر میں بابا کے ساتھ الگ جنگ چل رہی تھی۔
”کیا کرے آئمہ ۔۔۔تم بتاؤ خاقان احسن ۔۔۔” وہ جس بے بسی اور لاچاری کے ساتھ بولی ، خاقان احسن کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔ ”کیا کرے آئمہ ۔۔۔اپنا شناخت ختم ہو جانے کا غم منائے یا اپنی شادی ختم ہونے پہ ماتم کرے۔ ”
”ہماری شادی ختم نہیں ہوئی آئمہ۔” خاقان جلدی سے بولا تووہ عجیب سا ہنس دی۔
”تمہارے باپ نے اس رشتے کو ختم کر دیا ہے خاقان احسن۔”
” میں اور ابا جی منا رہے ہیں انہیں ۔ وہ مان جائیں گے ۔”
”تو آئمہ جہانگیر نے تمہیں با پ کے سامنے بھیک مانگنے پہ مجبور کر دیا ۔۔۔ ناٹ گڈ ناں ۔” وہ پھر ہنسی تھی۔
خاقان نے ہونٹ بھیجے ۔ اسے آئمہ جہانگیر کے آنسو بھی تکلیف دیتے تھے اور یہ ہنسی بھی۔
٭٭٭٭٭



وہ سفیدے کے درخت کی ادھڑی ہوئی کھال اکٹھی کر رہا تھا جب آئمہ نے اسے گاڑی نکالنے کے لیے کہا۔ خاقان کی شکایت کے بعد عثمان جہانگیر ایک بار پھر اس کی ڈرائیونگ پہ پابندی لگا چکے تھے۔
آئمہ نے اسے پنڈی کے ایک گنجان بازار میں چلنے کو کہا تھا ، اسے حیرت ہوئی تھی۔ ایسی مارکیٹس تو آئمہ جہانگیر کا اسٹینڈرڈ نہ تھیں ۔ خیر خاموشی کے ساتھ وہ حکم کی تعمیل بجا لایا تھا۔
لوگوں سے ٹکراتے لوگ ، آوازیں لگا لگا کر بلاتے ہوئے دکان دار ، اور ہر عمر کے بھکاری ۔
آئمہ کا چہرہ سپاٹ تھا ۔ اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر کے آٹھ دس سال کی ایک بھکارن بچی کو آواز دے کر بلایا تھا ۔ نا صرف وہ دوڑتی ہوئی چلی آئی بلکہ اس کے ساتھ مختلف عمروں کے دو اور بچے بھی آ گئے ۔
”سنو، تمہارے باپ کا نام کیا ہے ؟”
”اللہ دتا ۔” بچی نے جواب دیا ۔
”تمہاری ماں کا نام؟”
”مختاراں ۔”
”اور تمہارے باپ کا نام کیا ہے ؟” اب اس نے ساتھ کھڑے لڑکے سے پوچھا ۔
” سائیں ۔”
”تمہاری ماں کا ۔”
”صفیہ۔”
”اور تمہارے باپ کا نام؟” اب وہ سب سے چھوٹے لڑکے سے مخاطب تھی۔ اسے لگا آئمہ جہانگیر پاگل ہو گئی ہے ۔
”یہ میرابھائی ہے ۔” بڑے لڑکے نے اسے اپنے ساتھ لگایا ۔
”خوش نصیب ہو ۔ تمہیں تمہارے ماں باپ کا نام پتا ہے ۔” اس نے ان کے ہاتھ میں ہزار ہزار کا نوٹ دیتے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔
” تمہارے ماں باپ تم سے ہی بھیک منگوا کر تمہارا پیٹ بھرتے ہیں مگر تمہیں پھینکتے نہیں ہیں ۔ خوش نصیب ہو ۔”
بچوں کو اس میم کی باتیں سمجھ کیا آنی تھیں ، ہزار ہزار کے نوٹ نے ان کی مت مار دی تھی۔
”چلو ۔۔۔” سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر اس نے تھکے ہوئے سے انداز میں چلنے کو کہا ۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی ۔
گاڑی چلاتے ہوئے وہ آئمہ کی طرف دیکھنے سے خود کو باز نہ رکھ سکا تھا ۔ اس کی ذہنی کیفیت اسے تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔
”سنو۔”
بہت دیر بعد وہ بولی تھی۔
”جی۔”
”تمہارے ماں باپ کہاں ہیں ؟”
”وہ حیات نہیں رہے ۔” سویا ہوا کوئی دکھ بیدار ہواتھا ۔
”تمہاری ماں کا نام کیا تھا ۔”
اس نے اپنی ماں کا نام بتا دیا ۔
”باپ کا نام؟”
وہ بھی اس نے بتا دیا ۔
”خوش نصیب ہو ۔”
اس نے پھر سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا لی تھی۔ اس کے سپاٹ چہرے پہ کرب سایہ بن کر لہرایا تھا اور خودپہ بہت قابو پانے کے باوجود اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔ وہ چپکے چپکے رونے لگی تھی۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭



آمنہ فرمان نے دادی کو بتایا تھا کہ آج پھر وہ اپنی ماں سے مل کر آئی ہے ۔ انہوں نے کوئی تبصرہ نہ کیا ،صرف مسکرا دی تھیں ۔ جب سے آمنہ اپنی ماں سے ملی تھی، انہیں لگنے لگا تھا کہ اب مرنا ان کے لیے آسان رہے گا ۔
تایا کو جب سے خبر ملی تھی، غصے سے دندناتے پھرتے تھے ۔
”ہمارے گھر میں پل کر ماں کی یاد ستانے لگی ہے اسے ۔ آخر خون تو اثر دکھاتا ہے ناں ۔چلی جائے گی یہ بھی ایک دن ماں کی طرح ۔ خود ہی نکال دیں اسے اماں ۔”
چچا بھی خوش نہ تھے اس بات پر کہ وہ اپنی ماں سے ملنے لگی ہے مگر انہوں نے کہا کچھ نہیں تھا ۔ دادی اس بار بڑے بیٹے کے غصے سے خائف ہوئی تھیں نہ ہی بہوؤں کی میٹھے میٹھے طعنوں نے اثر کیا تھا ۔ وہ آمنہ کے لیے ڈھال بنی تھیں،جو غلطیاں انہوں نے ماضی میں کیں ،انہیں دہرانا نہیں چاہتی تھیں ۔
میاں بیوی کے جھگڑے میں ، علیحدگی میں ،طلاق میں سب سے زیادہ ہاتھ کسی تیسرے کا ہوتا ہے۔جہاں بات بیڈروم کی کھڑکیوں،دروازوں سے نکل کر اِدھر اُدھر اڑتی ہے ، وہیں سے بات بگڑتی ہے ورنہ پیار لڑائی ،روٹھنا منانا تو اس رشتے کی خوب صورتی ہیں بشرط یہ کہ بات ان کے بیچ رہے ۔ آمنہ کے ماں باپ کے بیچ بھی طلاق تک نوبت تب آئی جب یہاں سے دیورانی جٹھانی چھوٹی چھوٹی با ت پر فرمان کے کان بھرنے لگی اور وہاں سے کلثوم کا میکا چھوٹی چھوٹی بات پہ جواب دہی کے لیے آ پہنچتا ۔
میاں بیوی کے جھگڑے میں ، علیحدگی میں ،طلاق میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کا ہوتا ہے۔ یہاں بھی تما م تر محرومیاں آمنہ ہی کے حصے میں آئیں ۔ اس کا بچپن دوسرے بچوں جیسا بچپن نہ تھا ، اس کے لڑکپن میں بانکپن نہ تھا ،اس کی جوانی میں شوخی نہ تھی ۔ اس کی زندگی کے حسین تر پل ماں باپ کے بیچ بن جانے والی دیوار میں چُن دیے گئے ۔
فرمان نے اس وقت تو بڑے زعم میں آ کر ”میری بچی ہے ۔” کہہ کر اسے کلثوم سے چھین لیا تھا مگر ماں بننا تو دور کی بات ،اچھا باپ بھی بن نہ پایا ۔ مزارو ں پہ پڑا رہتا ۔ کہتا تھا کہ زائرین کی خدمت کرتا ہوں ۔بوڑھی ماں کی خدمت اس کا فرض نہ تھا ،وہ تو اس کی پوتی بھی کر لیتی تھی۔
سال چھے مہینے سال کے بعد چکر لگاتا ۔ رات میں پہنچتا صبح فجر ادا کر کے نکل جاتا۔ جاتے جاتے ماں کے سرہانے اور بیٹی کے ہاتھ میں کچھ نوٹ رکھ جاتا۔چلو جی فرض ادا ہوا۔
دادی پہلے توانا تھیں ، بہو بیٹے کے جھگڑے میں ہمیشہ بیٹے کا ساتھ دیا ۔ بہو کو طلاق دے کر بیٹے نے گھر سے نکالا تو ”خس کم جہاں پاک ” کہہ کر ہاتھ جھاڑے ۔مگرگزرتے وقت نے پچھتانے پہ مجبور کیا ۔ آج آمنہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی کسی یتیم کی سی زندگی گزار رہی تھی۔چاچا تایا اور ان کے بیوی بچے اس کے ساتھ سلوک بھی ایسا ہی رکھتے تھے، جیسے وہ بن ماں باپ کی بچی ہے ۔ بہت پچھتاتی تھیں وہ کہ بچی کو ماں کے ساتھ جانے دیا ہوتا تو شاید اس کے اندر اتنی محرومی نہ رہ جاتی ۔بچی کو ماں تو مل جاتی ، ماموؤں کا پیار بھی ملتا تو باپ کی کمی کسی حد تک پوری ہو ہی جاتی ۔
یہ تو اب انہیں پتا چلا تھا کہ بھائی جو بڑے دھڑلے کے ساتھ بہن کو لے گئے تھے ، ا ن کی بیویوں نے زیادہ عرصہ برداشت نہ کیا ۔ اب کئی برسوں سے کلثوم ایک یتیم خانے میں آیا کی حیثیت سے کام کر رہی ہے اور وہیں رہتی ہے ۔ وہ تو بھلا ہوا عبداللہ، کا جس نے ماں بیٹی کو ملوا دیا ۔ وہ عبداللہ سے ایک ہی بار ملی تھیں اور انہیں وہ لڑکا اچھا لگا تھا ۔
”عبداللہ نہیں آیا ۔”
اب تو دادی بھی اکثر یہ سوال پوچھنے لگی تھیں ۔ وہ سر جھکا کر نفی میں سر ہلا دیتی۔ دادی کچھ دیر سوچتی رہتیں ۔
”تیری ماں کو تو کچھ پتا ہو گا ؟”
وہ یونہی سر ہلا دیتی۔
”تو فون کرکے پوچھ لے ،کب آئے گا ۔”
” نمبر نہیں ہے میرے پاس ۔”



”بیگم کے پاس تو ہوگا نمبر ۔۔۔وہ بیگم ۔۔۔ وہ کیا بھلا سا نام تھا بیگم۔۔۔” دادی نام سوچنے لگتیں تو وہ ان کی مشکل آسان کر دیتی۔
”ہاں ۔۔۔وہی بیگم شاہ جہاں ۔۔۔ اس کے پاس تو ہو گا نمبر۔”
وہ ایک بار پھر نفی میں سر ہلاتی۔ اس آس پہ تو وہ ماں سے ملنے کے بعد بیگم شاہجہاں کے پاس آبیٹھتی تھی کہ شاید کوئی خیر خبر شاید کوئی نوید مل جائے ۔
جانے کیوں ایسے شخص کو دل دے بیٹھی تھی جو رابطے ہی بحال نہ رکھنا چاہتا تھا۔ ابھی تو اس نے محبت کو ٹھیک طرح سے محسوس بھی نہ کیا تھا کہ وہ چلا گیا ۔
”حفیظاں پھر آئی تھی۔ ”ہر سوال کا نفی میں جواب پا کر دادی کو یاد آتا کہ اتنا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ ابھی آپشنز باقی ہیں ۔ بس وہ لڑکا بھلا تھا ، دل کو لگتا تھا ۔ مگر اب چلا گیا تو اس کے پیچھے تو لڑکی کی جوانی تو برباد نہیں کرنی ناں ۔
”دادی ۔۔۔ابا بہت دن ہوئے نہیں آئے ۔” حفیظاں کا ذکر سنتے ہی وہ موضوع بدلنے کی کوشش کرتی۔
”ہاں۔۔۔بس اب توزندگی میں انتظا ر ہی باقی رہ گیا ہے ۔”
”ہاں ۔۔۔ انتظار ہی باقی رہ گیا ہے ۔” وہ دادی کے لفظ دہراتی۔
اس ہر جائی نے پلٹ کر پوچھا تک نہ تھا کہ کیسے حالوں میں ہو ۔ بڑا چالاک تھا ، کوئی اقرار نہ کیا تھا ، کوئی وعدہ نہ کیا تھا۔ پکڑ سے بچ گیا تھا ۔
٭٭٭٭٭
میز پہ پڑی چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی ۔ جہانگیر عثمان اخبار بینی کے دوران اسے پینا بھولے ہوئے تھے ۔ مگر یہ تو دیکھنے والے کو لگتا تھا کہ وہ اخبار پڑھ رہے تھے ۔ حقیقتاً وہ کہیں اور پہنچے ہوئے تھے ۔
آج کل وہ اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے تھے ۔ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی بہت تکلیف میں تھی ۔ وہ جو اس کی آنکھ میں ایک آنسو نہ آنے دیتے تھے ، آج کل اسے روتے تڑپتے دیکھتے تھے ۔ وہ اسے اس تکلیف سے نکالنا چاہتے تھے مگر خود کو بے بس پاتے تھے ۔
وہ ایک دم چونکے تھے ۔انہیں محسو س ہو ا تھا کہ کوئی ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو اہے ۔ انہوں نے سامنے پھیلی اخبار سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھا ۔
ان کے سامنے ہاتھ باندھے مالی کھڑاتھا ۔
انہوں نے بیزاری محسوس کی۔ا س وقت وہ گھریلو ملازمین کے مسئلے سننے یا حل کرنے کے موڈمیں نہ تھے ۔ ویسے بھی یہ ان کی بیوی کا ڈپارٹمنٹ تھا ۔
” مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔”
وہ اسے وہاں سے بھیجنے کے لیے کہنے ہی والے تھے جب مالی بولا تھا ۔ اس کا لہجہ ایسا تھا کہ جہانگیر عثمان ٹھٹھک گئے تھے۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
بچے آمنہ فرمان کے ادگرد منڈلا ہے تھے ، جب کہ اس کا دھیان اندر کمرے میں ہونے والی میٹنگ پہ تھا ۔ میٹنگ کا ایجنڈا تو اسے معلوم نہ تھا ۔ بس تا یا اور چاچا کی صورت دیکھ کر سمجھ گئی تھی کہ معاملہ گھمبیر ہے۔ وہ چائے بنا کر اندر لے کر گئی تھی مگر ان کی گفت گو سے کچھ پلے نہ پڑا تھا ۔ان کے جاتے ہی اس نے بچوں کو بزی کیا اور خود کمرے میں دادی کے پاس چلی آئی ۔
”حفیظاں کا نمبر ملا کر دے مجھے ۔” اسے دیکھتے ہی انہوں نے کہا تو وہ کھٹکی ۔
”کیوں؟”
”بس ملا کر دے مجھے اور خود باہر جا بچوں کے پاس ۔”
”پہلے بتائیں ، آپ نے ان سے کیا بات کرنی ہے ؟”
”ہمارے وقت تھے ، ماں باپ پوچھتے نہیں تھے ، بتاتے تھے فلاں دن تمہاری فلاں کے ساتھ شادی ہے ۔ اور بچے سر جھکا دیتے تھے ۔ اب بچے سو سوال پوچھتے ہیں ۔” وہ بڑبڑانے لگیں تھیں ۔
”ظالم تھے ناں اس دور کے ماں باپ ۔ بچے کی رضامندی جاننا تو ان کا فرض تھا۔”
”ظالم نہیں تھے ، مان ہوتا تھا انہیں اپنی اولاد پہ کہ ا ن کی رضا بھی وہی ہو گی جو والدین کی ہے۔”
”باجی ۔۔۔ندانقل کر رہی ہے ۔” اریبہ کمرے میں شکایت لگانے آگئی تھی۔
”اچھا دادی ! میں بچوں سے فری ہو جاؤں ۔۔۔ پھر بات کرتے ہیں ۔”
”اچھا ، جب تک حفیظاں کا نمبر تو ملا کر دے ۔” دادی بھی آج کاکی بن گئی تھیں ، ایک ہی ضد۔
” دادی جلدی میں کیے گئے فیصلے ٹھیک نہیں ہوتے ۔ اماں ابا کی زندگی آپ کے سامنے ہے۔ سب کی باتوں میں آ کر ابا نے چھوڑ دیا اماں کو ، خوش ہیں کیا وہ دونوں ، مطمئن ہیں کیا وہ ؟ جنہوں نے آگ لگائی تھی ، وہ تو مزے سے بیٹھے ہیں اپنے گھروں میں ۔ زندگی تو میری محرومیوں کے ساتھ گزری۔”


Loading

Read Previous

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Read Next

بیگم شرف النساء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!