عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

” دوسروں کے گھروں میں آگ لگا کر کوئی مزے سے نہیں بیٹھا کرتا آمنہ ۔یہ تجربہ ہے میرا ۔ دیکھ سال بھر ہونے کو آیا ، ندرت میاں سے لڑ کر میکے بیٹھی ہوئی ہے ۔دیکھ رافعہ نے کیا گل کھلایا ، محلے کے لڑکے کے ساتھ نکل گئی۔ منہ پہ کالک مل گئی ماں باپ کے ۔دیکھ آج پانچ بچوں کی ماں ہو کر میں اکیلی ، لاچار پڑی ہوں یہاں ۔ یہ کچھ اور نہیں ، میرے کیے میرے سامنے آ رہے ہیں ۔ ”
”اکیلی کیوں ہیں ، میںہوں ناں آپ کے پاس ۔” آمنہ نے ان کا ہاتھ تھاما ۔
”ہاں کی ہو گی کوئی نیکی میں نے ، جس کا صلہ ہے تُو ۔” انہوں نے نم ناک لہجے میں کہتے ہوئے اس کے سرپہ ہاتھ پھیرا۔
”باجی ! ا حمر ڈانس کر رہا ہے ۔” نبیل نے دروازے سے جھانک کر بتایا ۔
وہ دادی کا ہاتھ تھپتھپا کر باہر چلی آئی۔لیکن اس کا ذہن دادی کی باتوں میں رہا ۔ میٹنگ میں ایسے کیا چارجز لگ گئے اس پہ جو دادی کو حفیظاں سے ہنگامی طور پر بات کرنا تھی جو دو سال سے اپنے سپوت کے لیے اس کا رشتہ مانگ رہی تھیں ۔
لڑکا شریف تھا ، کمائو تھا ، ذمہ دار تھا اور بھی کئی خصوصیات ہوں گی ، مگرایک خصوصیت تھی جو صرف عبداللہ میں تھی ۔
وہ اچھا لگتا تھا ۔
٭٭٭٭٭



گھر میں پھر سے شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے تھے۔سسرالیوں کے چکر لگنے لگے،مالکوں کے چہرے پہ مسکراہٹ لوٹ آئی تھی۔
”خاقان احسن کی ضد تھی کہ شادی کرے گا تو بی بی سے ۔اس نے خود سارا پتا کروایا ، تب جا کر مانا ہے اس کا باپ۔”
جتنی اطلاع خانساماں تک پہنچی ،اتنی وہ آگے پیش کر رہاتھا ۔ وہ مسکرا دیا تھا ۔خانساماں نے حیران ہو کر اسے دیکھا ۔
اس رات پھر وہ سجدوں میں پڑا رہا ۔
مہندی سے کچھ دن پہلے کٹے بالوں والی وہ ایونٹ منیجر پھر آپہنچی اور بتانے لگی کہ کہاں اسٹیج بنے گا اور کون سے پودے کاٹنے پڑیں گے۔
”نہیں ۔”آئمہ نے بیچ میں ٹوکا ۔”کوئی پودا نہیں کٹے گا۔”
”مگر آئمہ ڈئیر اسٹیج ۔۔۔”
”کہا ناں کوئی پودا نہیں کٹے گا ، کوئی اپنی جڑ سے جدا نہیں ہو گا ۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا جہاں دُکھ کا سایہ لہرایا تھا ۔اس گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں تھیں مگر بات پہلے جیسی نہ رہی تھی۔گلاب جیسی آئمہ جہانگیر مُرجھا سی گئی تھی۔ لگتا تھا اس کے وجود پہ خزاں بڑے دیرپا اثرات چھوڑ کر گئی ہے ۔
مایوں ،برائیڈل شاور، مہندی سب ہو گئے ۔آئمہ بہ ظاہر مسکرا تی رہی ۔شادی سے ایک دن پہلے نوین بھی پہنچ گئی تھی۔ شادی کا انتظام اتنا اعلیٰ تھا کہ لوگ برسوں یاد رکھتے ۔دلہن کے ماں باپ نے اپنا صحیح فرض نبھایا تھا۔
وہ دلہن بن کر بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔ نگاہ تھی کہ اس پر سے ہٹتی نہ تھی۔زرق برق ملبوسات زیب تن کیے لوگ اسٹیج پہ آتے ۔دلہا دلہن کوقیمتی تحائف دیتے ۔ ان کے ساتھ فوٹو بنواتے ۔اس گہما گہمی میں کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ جب دلہن اسٹیج سے اُتر کر رخصت ہو رہی تھی تو اس کے سنہری جوتی کی ایڑی تلے کئی گلابی گلاب کچلے گئے تھے۔
٭٭٭٭٭



”دادی مجھے پتا ہے آپ کو کھانا ہضم کیوں نہیں ہو رہا ۔” آمنہ فرمان نے کتاب سے نظر ہٹا کر انہیں دیکھا ۔
”کیوں ؟” دادی نے چکر لگانے چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔
”مجھ سے باتیں چھپا کر اپنے اندر رکھیں گی تو بد ہضمی کا شکارہی ہوں گی ۔”
دادی نے پھر چکر لگانے شروع کر دیئے تھے ۔ ایک آنکھ کی نظر تو پہلے ہی بالکل بند ہو گئی تھی ،لائٹ چلی گئی تو دوسری کے سامنے بھی اندھیرا چھایا ۔ وہ صحن میں پڑے پنکھے سے ٹکرا گئیں ۔ آمنہ نے جلدی سے انہیں تھا م کر کرسی پہ بٹھایا ۔
”قربان کہہ رہا تھا کہ وہ میری آنکھ کا آپریشن کروائے گا ۔”
”اچھا۔۔۔ وہ کب ؟” وہ حیران ہوئی ۔
”جب گھر بکا ۔” دادی کی آواز آہستہ ہو گئی تھی۔
”کون سا گھر ؟”
”یہ ۔۔۔یہی تو ایک گھر ہے جس میں حصے بنتے ہیں سب کے ۔”
آمنہ چپ کی چپ بیٹھی رہ گئی ۔ سر پہ جو چھت تھی ،وہ بھی چھنتی ہوئی محسوس ہوئی ۔
”حصے مانگنے آئے تھے آج ۔ ” آخر انہوں نے میٹنگ کا لب لباب بیان کر ہی دیا ۔
”دادی پھر ہم کہاںرہیں گے ؟”
”تیری ماں کے سر پہ اپنی چھت ہوتی تو بھیج دیتی تجھے اس کے پاس ۔” یہ جملہ بولنے کے لیے انہیں اپنے اندر بہت حوصلہ پیدا کرنا پڑا ۔
”میری ماں کے پا س بنگلہ بھی ہوتا تو نہ جاتی آپ کو چھوڑ کر ۔”
اولاد اور اس کی اولاد کی طرف سے ایسا اظہار محبت بڑھاپے میں شاد کر دینے کو کافی ہوتی ہے مگر ان کے دل پہ بوجھ سا آپڑا ۔ انہیں لگتا تھا کہ وہ اپنی اس پیاری پوتی کی راہ میں رکاوٹ بنی بیٹھی ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کو ویسے جی نہیں پا رہی جیسے ان کی دوسری پوتیاں بھرپور زندگی گزار رہی ہیں ۔
”آپ کا اور ابا کا حصہ بھی تو ہے ناں اس مکان میں ۔” آمنہ نے پوچھا۔
” باپ کی بات نہ کر تُو ۔ وہ تو موئے (مرے ) برابر ہے ۔”
”ایساتو نہ کہیں دادی۔”
وہ تڑپ اٹھی تھی۔ داد ی نے اندھیرے میں بھی اس کی تڑپ کو محسو س کیا۔ خود غرضوں کے بیچ کھڑی ان کی یہ پوتی بہت پر خلوص تھی۔ وہ اسے مزید آزمائشوں میں گھرا نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔
”حفیظاں کا لڑکا بڑااچھا ہے آمنہ ۔ تیری تائی کا دل ہے ، نزہت کا رشتہ کر لے ۔ حفیظاں نے خود مجھے بتایا ۔”
”تو ٹھیک ہے ناں دادی ۔نزہت بھی تو آپ کی پوتی ہے ۔ کر دیں اس کا رشتہ حفیظاں کے لڑکے سے ۔”
”بدتمیز۔۔۔ رشتے میں پھوپھی ہے تیری۔ ” دادی نے اس کے حفیظاں کہنے پہ کلاس لی تو وہ ہنس دی مگر دل میں ایک نئی پریشانی شروع ہو چکی تھی۔
اس کے گرد مجبوریاں گھیرا تنگ کر رہی تھیں اور اس شخص کی کوئی خبر نہ تھی جوزبان سے انتظار کا پابند نہ کر کے گیا تھا مگر اس کی آنکھیں آس دلا گئی تھیں ۔
”میں لوٹ کر آئوں گا ، میرا انتظار کرنا ۔”
٭٭٭٭٭



برف پوش اور سبزہ پوش پہاڑ، رنگ جھلکاتی جھیلیں ، خطر ناک رستے آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ ان نظاروں کو دیکھ کر جہاں منہ سے بے اختیار ”سبحان اللہ ” نکلتا وہیں ان رستوں پہ ان موڑوں پہ ”اللہ خیر۔۔۔اللہ خیر” کے الفاظ ادا ہوتے ۔ وہ دونوں آج کاغان پہنچے تھے ۔ شادی سے پہلے آئمہ نے ہی ہنی مون کے پروگرام میں کاغان کو شامل کیا تھا ۔
”مجھے کاغان جانا ہے ۔ مجھے جھیل سیف الملوک دیکھنی ہے تمہارے ساتھ ۔”
وہ یہاں آنے کے لیے بہت پُر جوش تھی ۔مگر آج اس کے کسی انداز سے وہ ایکسائٹمنٹ جھلک نہ رہی تھی۔خامو ش سی، ہر شے کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی ہوئی ۔ ناران ویلی میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ ویسی مٹی کا ماوا بن کر بیٹھی رہی۔
”تم نے مجھے سیف الملوک کی کیا داستان سنائی تھی؟” خاقان نے اپنے کیم کورڈر سے پہاڑوں کے حسن کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا ۔
”یاد نہیں ۔” اس نے مختصر سا جواب دیا ۔
خاقان نے اسے دیکھا اور پھر ڈرائیور کی طرف۔ پھر خاموشی سے باہر کا نظارا کرنے لگا ۔
اسے آئمہ کا رویہ ڈسٹرب کر ر ہا تھا ۔پتا نہیں ،و ہ خوش کیوں نہیں لگ رہی تھی حالاںکہ اس کے حساب سے تواب سب ٹھیک تھا ۔ سسرال میں اس کو کھلے دل سے خوش آمدید کیا گیا ، یہاں تک کہ بابا نے بھی اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر دعا دی تھی۔ امی، اماں جی، ابا جی، خولہ سب ہی خوش تھے اس کے آنے سے۔ آئمہ ہی ریزرو سی تھی ان کے ساتھ ۔ کسی بھی بات کا جواب مختصر سا دیتی ، مسکراتی بھی تو یوں لگتا کہ زبردستی اس سے یہ کام کروایا جا رہا ہے ۔شاید وہ بُرا مان گئی تھی کہ مہندی اورشادی کے دن کے لیے اتنی چاہ کے ساتھ ڈیزائنر سے ان سب کے لیے جو ڈریسز تیار کروائے، وہ بابا نے لینے سے انکار کر دیا تھا ۔
”ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ لڑکی والوں کے دیے کپڑے پہنیں گے ۔”بابا گھر آ کر خفگی کے ساتھ بولے تھے ۔اس معاملے میں ابا جی نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا ۔ وہ بھی یہ مناسب نہ سمجھتے تھے ۔ حالاںکہ خولہ کو وہ ملبوسات پسند آئے تھے مگر بابا کی تیوری کے ایک بل نے اس کا کپڑوں کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں روک دیا تھا ۔ خاقان نے بھی وہ ڈریس نہ پہنا تھا جو آئمہ کے برائیڈل ڈریس کی میچنگ میں تیار کیا گیا تھا۔اماں جی نے بہت مہذب طریقے سے معذرت کر لی تھی ۔ جہانگیر عثمان اور ارم جہانگیر بہ ظاہر مسکرا دیئے تھے ۔
خولہ کو یہ بھی لگ رہا تھا کہ ان کے گھر کا سادہ سا ماحول آئمہ کو پسند نہیں آ رہا ۔ یہ درست تھا کہ آئمہ کا زندگی گزارنے کا انداز کچھ اور تھا ، اسے اس گھر میں، اس رہن سہن پہ کچھ اعتراض ہو سکتا تھا مگر ایسا تو تب ہوتا ناں جب اس پہ کوئی پابندی لگائی جاتی۔ اور خاقان احسن پابندیاں لگانے والے مردوں میں سے نہ تھا ۔ وہ سمجھتا تھا کہ پیار محبت سے کسی کو اپنے رنگ میں رنگنا زیادہ بہتر ہے ۔
اس کی محبت ، اس کے جذبے ، اس کی گرم جوشی آئمہ کے لیے وہی تھی مگر آئمہ اس کی طرف سے غافل سی نظر آنے لگی تھی یا شاید و ہ اپنے آپ سے غافل ہونے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭



سیف الملوک تک جانے کے لیے انہوں نے جیپ کروائی ۔ ان خطرناک رستوں پہ جیپ اور ماہر ڈرائیور ہی چل سکتے تھے ۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑ ، دوسری طرف گہری کھائیاں اور بیچ میں چند فٹ کی سڑک اور پھر موڑ پہ موڑ ۔۔۔ پہلی بار سفر کرنے والے کا دل ضرور دہل کر رہ جاتا ہے ۔ پہلے موڑ پر ہی آئمہ نے خاقان کا بازو سختی کے ساتھ تھام لیا تھا ۔
خاقان احسن دل ہی دل میں ان رستوں کا شکر گزار ہوا جن کی وجہ سے بیگم نے پہلی بار بے تکلفی دکھائی تھی۔ ورنہ آئمہ کااجنبی سا رویہ دیکھ کر تو یوں لگتا تھا جیسے ان کے بیچ پیار کا ، اقرر و اظہار کے کوئی پل کبھی آئے ہی نہ تھے ۔
”سنو ، میرے دل کو کچھ کچھ ہو رہا ہے ۔” خاقان نے شرارت سے اس کے کان میں کہاتو وہ اس کا بازو چھوڑ کر کچھ پرے ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ مگر اگلے ہی موڑ پر پھر اس کا بازو تھام لیا ۔ وہ ہنس دیا تھا ۔
جھیل سیف الملوک کا حسن دیکھ کر وہ مبہوت سا رہ گئے ۔ دونوں نے دنیا دیکھی تھی ، اور دونوں ہی دل میں اقرار کر رہے تھے کہ ایسے نظارے بہت کم دیکھے ۔ کاغان کے چپے چپے پہ حسن بکھرا پڑا تھا ۔
” یہ بہت اچھا کیا کہ ہم نے ہنی مون پاکستان کاہی پلان کیا ،ان خوبصورت لمحوں میں ہمیں ان خوبصورت جگہوں پہ ہی ہونا چاہیے تھا ۔” خاقان نے اس کی تصویر کھینچتے ہوئے کہا جو جانے کہاں کھوئی ہوئی تھی۔
بلیو جینز کے ساتھ گھٹنوں تک آتی وائٹ شرٹ کے اوپر ڈارک گرین کارڈیگن اور گلے میں گرین اور بلیواور ریڈ کلر کا پرنٹڈ اسکارف لیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔خاقان احسن کا جی چاہا ،وہ اسے یونہی دیکھتا رہے ۔
”پل بھی حسین ،جگہ بھی حسین ۔۔۔مگر مجھے سب سے زیادہ حسین میرا محبوب لگتا ہے ۔ میں نے سیف الملوک کی پری بدرالجمال کو نہیں دیکھا مگر یقین ہے کہ وہ میری محبوب سے زیادہ حسین نہ ہوگی۔” خاقان پہ رومانی ماحول کا اثر چڑھنے لگا تھا ۔
آئمہ نے اس کی طرف غور سے دیکھا ۔
”نہ دیکھو ۔۔۔کچھ کچھ ہوتا ہے ۔” وہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے شوخ ہوا ۔
آئمہ چل دی تھی۔ وہ بھی اس کے ساتھ ساتھ چلا ۔ اسے محسوس ہوا کہ آئمہ کو سردی لگ رہی ہے۔ اس نے بیگ میں سے شال نکال کر اسے اوڑھائی اور اسے چارپائی پہ بیٹھنے کا کہہ کر چائے لینے چلا گیا ۔
”میں آپ کو داستان سیف الملوک سنا سکتا ہوں ۔”ایک بابا جی آئمہ تک آیا ، اس کے ہاتھ میں داستان سیف الملوک اور دوسری رومانی داستانوں کی کتابیں بھی تھیں ۔
”وہ میں اپنی بدر الجمال سے سن لوں گا ۔” خاقان نے چائے کا کپ آئمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔
بابا جی مایوس سا ہو کر وہاں سے جانے لگے ۔ خاقان نے اسے روک کر ایک کتاب خریدی اور کتاب کی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت ادا کی ۔ آئمہ نے غور سے اسے دیکھا ۔
مطمئن چہروں کے راز اسے سمجھ آنے لگے تھے ۔



”نہ دیکھو ۔۔۔کچھ کچھ ہوتا ہے ۔ ” بابا جی چلے گئے تو خاقان پھر شوخ ہوا ۔ وہ نظروں کا زاویہ بدل کر چائے کے گھونٹ بھرنے لگی ۔ ویسے خاقان کو امید کم تھی کہ وہ اس چائے خانے کی ،اس کے برتنوں کی حالت دیکھ کر یہاں کی چائے پیے گی ۔
خاقان نے چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے اسے کھینچ کر اپنے پاس کیا اور ایک سیلفی لی۔
”چھوڑ و مجھے ۔” آئمہ نے کندھے پہ رکھا اس کا بازو جھٹکا اور خود پرے ہوئی ۔
دوسری چارپائی پہ بیٹھی فیملی نے ، کچھ دور کھڑے نو بیاہتا جوڑے نے ان کی طرف دیکھا تھا ۔ خاقان کو یہ سب تضحیک آمیز لگا تھا ۔آئمہ کو بھی احساس ہوا کہ وہ غلط کر گئی۔ خاقان وہاں چپ رہا تھا مگر کمرے میں آتے ہی اس کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا ۔ اور سنجیدگی کے ساتھ پوچھا ۔
”پرابلم کیا ہے ؟”
وہ چپ رہی تھی۔
”آئمہ بتائو مجھے کہ آخر پرابلم کیا ہے ؟”خر کب تک ایسا چلناتھا ۔ وہ جھنجلا گیاتھا ۔
”کچھ پرابلم نہیں ۔” اس نے آہستہ سے جواب دیا۔
” آئمہ تمہیں لگتا ہے کہ کوئی پرابلم نہیں ؟ ”’خاقان نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا ۔
اس کی آنکھیں بھرنے لگیں ، اس نے ہونٹ بھینچ کر ضبط کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس کا چہرہ سرخ ہوا ۔ خاقان کا غصہ ایک سیکنڈ میں ختم ہوا۔ اس نے کندھوں سے تھام کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود ساتھ بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
” تم مجھے پریشان کر رہی ہو آئمہ ؟”
وہ رو دی تھی ۔خاقان نے اسے اپنے کندھے کے ساتھ لگایا اور رونے دیا ۔وہ ہچکیوں کے ساتھ رو نے لگی تھی اور جب سب آنسو بہا لیے تو چہرہ صاف کرتے ہوئے سیدھی ہوئی۔
”اب بتائو ۔۔۔ کیا ہے تمہارے دل میں ، جو تمہیں تنگ کر رہا ہے اور تم مجھے تنگ کر رہی ہو۔”
”خاقان ! مجھے میری بے وقعتی مار رہی ہے ۔”
”بے وقعتی ؟” خاقان حیران ہوا۔ اس کی قیمتی متاع تھی وہ ۔ جانے ایسا کیوں ایسی بات کی اس نے۔
”ہاں خاقان ! اگر مجھے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا گیا ہوتا تو کیا ہوتی میری وقعت ؟”
”تمہاری وقعت وہی ہوتی جو اب ہے میری جان۔”
”جھوٹ بولتے ہو ۔۔۔ میری وقعت میرے ماں باپ کے حسب نسب کے ساتھ ہے ، ورنہ ورنہ ۔۔۔ عرفان احسن کبھی اپنی بہو بناتا مجھے؟”
”مجھے پتا نہیں ۔مگر اتنا جانتا ہوں کہ تم اونچے حسب نسب والی ہوتیں یا تمہیں کچرے کے ڈھیر سے اُٹھایا گیا ہوتا ، خاقان احسن کی بیوی تم ہی ہوتیں ۔”
اس نے سر کو یوں جھٹکا جیسے اس کی بات کا یقین نہ ہو۔
”میرا یقین کرو آئمہ ۔۔۔مجھے نہیں پتا تھا کہ جس تگ و دو میں ، میں لگا ہوا ہوں اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ میرے باپ کا خوف سچ ثابت ہو گا یا نہیں ۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھامگر میں نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا تھا کہ بابا کا ڈر صحیح ہوا تو مجھے کیا کرنا ہے ، ان کا ڈر غلط ثابت ہوا تو مجھے کیا کرنا ہے ۔ مجھے دونوں صورتوں میں صرف اور صرف تمہیں اپنا نا تھا ، کوئی دوسری سوچ میرے ذہن میں ایک پل کے لیے بھی نہیں آئی۔” اس کے جذبوں کی اس کی نیت کی سچائی اس کے لہجے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ آئمہ کواس کے لفظوں پہ یقین آنے لگا تھا ۔
”دیکھو میرے پاس اپنی محبت کو ثابت کرنے کے لیے اب ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ سامنے والے پہاڑ سے کود کر جان دے دوں۔” اس نے کھڑکی سے نظر آتے بلند و بالا پہاڑ کی طرف اشارہ کیا ۔
”چڑھو گے کیسے ؟”
وہ بولی تو خاقان اسے گھورنے لگا ۔ وہ ہنس دی تھی۔
خاقان احسن نے محسوس کیا کہ ہر شے نکھر سی گئی ۔
اور آئمہ سوچ رہی تھی کہ کچھ باتوں کا ، سوچوں کاکوئی سر پیر نہیں ہوتا مگر انہیں اند ہی اندر دبا لیا جائے ، ڈسکس نہ کیا جائے تو یہی سوچیں مڑے ہوئے پیروں والی سر کٹی عفریت بن کر خوشیوں کاگلا گھونٹنے لگتی ہیں ۔ اس لیے ہر غلط فہمی، ہر سوچ، ہر گلے اور شکوے پہ کھل کر بات کر لینی چاہیے۔ زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔
٭٭٭٭٭



دو ہفتے بعد جب دلہا دلہن اپنے ہنی مون سے واپس لوٹے تو دلہن کے رخسار وں پہ پھر سے گلابی گلاب کھِل اٹھے تھے۔ خاقان احسن کی محبت نے اس کی ہنسی میں پھر سے رنگ بھر دیئے تھے۔ اس نے کئی حسین لمحوں میں اسے اپنی محبت کے احساس سے گل رنگ کیا تھا ۔و ہ بہت خوش تھی،وہ بہت مُسکرا رہی تھی۔
وہ اور خاقان ممی اور ڈیڈی کے تحائف لے کران سے ملنے گئے تھے ۔ خاقان اسے میکے چھوڑنا نہ چاہتا تھا مگر ساس کے اصرار پہ مجبور ہوا۔ بُرے بُرے منہ بناتا وہ رخصت ہوا تو وہ اسے گاڑی تک چھوڑنے آئی۔
”سنو چلو بھاگ چلتے ہیں ۔” خاقان نے اس کا ہاتھ تھام کر گاڑی کی طرف اشارہ کیا ۔ اس نے کھلکھلا کر ہنستے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوایا ۔
” ظالم لڑکی ۔۔۔ میکے آتے ہی بدل گئی ۔ سن لو ۔۔۔کل لینے آجائوں گا ۔” اس نے جاتے جاتے دھمکی دی تھی۔ وہ پھر ہنسی تھی۔
یونہی بات بہ بات ہنسنے لگی تھی وہ ۔ خاقان نے اسے ہنستے دیکھ کر شاد ہوا اور ”اللہ حافظ ” کہتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی ۔ جب تک گاڑی گیٹ سے نکل نہ گئی وہ وہیں کھڑی رہی تھی۔ چوکی دار گیٹ بند کرنے لگا تو وہ بھی مُسکراتے ہوئے مڑنے لگی جب ٹھٹک کر رکی۔
”یہ ۔۔۔یہ یہاں ۔” گیٹ سے اندر داخل ہوتی عورت کو دیکھ کر وہ حیران تھی۔وہ اس عورت سے پہلے بھی ایک بار مل چکی تھی جب وہ اپنی تلاش میں نکلی تھی۔
”اس نے تمہارے لیے اتنا کچھ کیا اور تم ۔۔۔تم۔۔۔خیر میں یہاں صرف اس کی ڈائریز لینے آئی ہوں ۔ وہ ڈائری لکھتا تھا مجھے پتا ہے ۔ اس کے کمرے میں ہوں گی ڈائریاں ۔کسی نوکر سے کہہ کر منگوا دو۔” سلام کے بعد عورت نے روکھے سے انداز میں کہا ۔
وہ کچھ بھی سمجھ نہ پائی تھی۔ وہ حقیقت میں کچھ بھی سمجھ نہ پائی تھی۔
”کون ۔۔۔کس کی بات کر رہی ہیں بیگم شاہ جہاں ۔۔۔کون سی کس کی ڈائریاں۔”
”بڑے لوگوں کی یہی تو شان ہے ، کوئی آئے کوئی جائے، کوئی جیے کوئی مرے ، کندھے اچکا کر لاعلم بن جاتے ہیں ۔” عورت کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی۔
” میں واقعی لا علم ہوں۔۔۔کون چلا گیا ؟” اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے ۔
”عبداللہ چلا گیا تم اونچے لوگوں کی دنیا سے ۔”
‘عبداللہ۔” اسے سوچنے میں وقت لگا کہ عبداللہ کون ہے ۔اور جب یاد آیا توجانے کیوں ساکت سی رہ گئی۔
گلابی گلابو ں کا کاشت کار چلا گیا ۔
٭٭٭٭٭



جانے دل کیوں اداس تھا ، فون پہ خاقان کی پیار بھری باتیںبھی دل ہلکا کیوں نہ کر رہی تھیں۔ پوری رات اسے ٹھیک نیند کیوں نہ آئی تھی۔نظر بھٹک بھٹک کر اس گل دان پہ کیوں چلی جاتی تھی جس میں چند مرجھائے ہوئے گلابی گلاب پڑے تھے ۔
نوکر کا چلے جانا یا غائب ہو جانا کوئی ایسی بڑی بات نہ تھی پھر جانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے ۔
رات بھر بے قرا ر رہنے کے بعد صبح ہوتے ہی وہ اس کے کمرے کی طرف آ گئی ۔خانساماں نے کمرہ کھولا تھا ۔صاف ستھرا کمرہ تھا جتنا وہ خود صاف ستھرا رہتا تھا ۔کونے میں لکڑی کی ایک میز اور کرسی پڑے تھے۔ میز پہ چند کتابیں رکھی تھیں جن کو دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ وہ ایم فل کر رہا تھا۔ڈائریاں بیگم شاہ جہاں لے جا چکی تھیں ۔ میز کے ساتھ والی کھڑکی میں ایک گلاس میں پانی ڈال کر گلابی گلاب ٹہنی سمیت رکھا ہوئے تھے۔گلاب اب مرجھا چکے تھے ۔
خانساماں اداسی سے بتا رہا تھا کہ اس کی شادی پہ وہ بہت خوشی سے تیار ہو ا تھا اور پہلی بار اس نے بہت سی باتیں بھی کی تھیں۔اس نے بی بی کے لیے گلابوں کا گلدستہ بھی تیار کیا تھا ۔پھر پتا نہیں چلا کہ کب وہ فنکشن ختم ہونے سے پہلے ہی ہال سے نکل گیا تھا۔بعد میں لوٹا ہی نہیں ۔

Loading

Read Previous

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Read Next

بیگم شرف النساء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!