عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

”بچے کا تو مجھے نہیں پتہ۔”
میں تو منصوبہ بنائے بیٹھا تھا کہ جیسے ہی ریحانہ پروین ملے گی ،اسے منہ مانگی قیمت دے کراس کی رضامندی کے ساتھ یا پھر جبراً بچہ لے لوں گا ۔مگر یہاں نیا مرحلہ در پیش تھا ۔ریحانہ پروین مر گئی تھی اور بچے کا پتا نہ تھا ۔میں چکر لگاتا رہا ،بندے بندے سے پوچھتا رہا ۔ اسی تلاش میں کیسریا بائی تک پہنچا۔ وہ تو ریحانہ پروین کا نام بھی سننا نہ چاہتی تھی۔ اس کا بڑا نقصان کر گئی تھی وہ بھری جوانی میں مر کر ۔ اوپر سے بچی بھی غائب کر دی جس سے کیسریا بائی کو انویسٹمنٹ کا پیسہ سود سمیت واپس ملنا تھا ۔ اس سے مجھے کچھ پتا نہ چلا تو مایوسی کے عالم میں سیڑھیاں اترنے لگا ۔
” مجھے گلاب بہت یاد آتی ہے ۔ میں اس سے بہت پیار کرتا تھا ۔ وہ بھی کرتی تھی۔ مجھے ”بھا ” بھی کہنے لگی تھی۔” میں ایک جھٹکے کے ساتھ رکا تھا ۔ ایک سات آٹھ سالہ لڑکا سیڑھیوں پہ میرے پیچھے کھڑا تھا ۔
”تم ۔۔۔ تم جانتے ہو ریحانہ پروین ۔۔۔ میرا مطلب کنگنا کو ۔” میں نے بے قراری سے پوچھا ۔ اس نے اثبا ت میں سر ہلایا ۔ میں نے جیب سے ہزار کو نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا یا تھا ۔ اس نے بلا جھجک تھا م لیا ۔
”تم بتائو گے میری بیٹی ۔۔ میرا مطلب گلاب کہاں ہے ؟”
اس نے ادھر ادھر دیکھا تھا ۔
”چل ہم باہر چلتے ہیں ۔” میں اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے باہر لے آیا ۔ وہ کیسریا بائی کے کوٹھے پہ سودا سلف وغیرہ لانے کا کام کرتا تھا ۔ کنگنا نے اسے بچی کوبہلانے اور کھلانے کے لیے رکھا تھا ۔میں نہ جانتا تھا کہ اس کامنہ کھلے گا تو ایک او ر تکلیف دہ خبرمیری منتظر تھی کہ میری یعنی کہ جہانگیر عثمان یعنی کہ سونے و چاندی کی دو دکانوں کے مالک کی بیٹی یتیم خانے میں صدقے خیرات پہ پل رہی ہے۔ میں وہاں سے سیدھا یتیم خانے پہنچا ،اس کی انچارج سے ملا ،اسے بتایا کہ ہم بچہ گود لینا چاہتے ہیں۔ وہ مجھے بچوں کے بارے میں کوئی انفارمیشن دینے کو تیا ر نہ تھی۔ اس نے کہا تھا کہ بیوی کو ساتھ لے کر آئو ۔
میں نے بیوی سے بچہ ایڈاپٹ کرنے کی بات کی تو وہ خوش ہو گئی ۔ کیوںکہ میری ماں اور بہن اب مجھے دوسری شادی کے بارے میں مشورہ دینے لگی تھیں ۔ میں ان کا مشورہ مان لیتا اگر اس دور میں کسی بھی ایسے بندے سے ملا ہوتا، جس نے ایک سے زیادہ شادیاں کر رکھی ہوں اور وہ سکون میں ہو ، خو ش ہو ۔
میں نے تو ماں بہن کا مشورہ نہ مانا مگر بیوی اتنی پریشان ہوتی تھی ساس نند کے منہ سے ایسی بات سن کر کہ وہ بچہ گود لینے والی بات پہ سکون میں آ گئی ۔ وہ حیرت میں بھی تھی کہ میں تو بچہ ایڈاپٹ کرنے سے قطعیت کے ساتھ انکار کر دیتا تھا ، اب یہ کایا پلٹ کیسی، مگر وہ خوش زیادہ تھی، اس لیے زیادہ سوال جواب نہ پوچھے ۔
بیگم شاہ جہاں نے ہمارے بارے میں معلومات کرو ا لینے کے بعدہمیں دو ہفتے بعد پھر بلوایا اور تین ماہ کا ایک بچہ دکھایا تھا۔ میں یہاں لوگوں کے پاپ تھوڑی دھونے آیا تھا ،مجھے تو میری بچی چاہیے تھی ۔
”میں چاہتا ہوں کہ ہم ایسا بچہ گود لیں جس کے نین نقش ، آنکھوں بالوں کا رنگ وغیرہ ہم سے ملتا جلتا ہو تا کہ وہ ہمارا ہی بچہ لگے اور مستقبل میں ہم اور خاص طور پر بچہ یا بچی بہت سے مسائل سے بچے ۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ رہی ہوں گی۔ ” میں وہاں کام کرنے والے لال آنکھوں والے ایک مرد سے اکٹھی کی گئی معلومات کی روشنی میں بات کی۔ بیوی کے دل کو بھی میری بات لگی ۔ اور شاید بیگم شاہ جہاں بھی سمجھ گئی تھی۔ وہ کچھ سوچ میں پڑی تھی۔
” میں نے یہاں آتے ہوئے ایک سات آٹھ سالہ بچے کے ساتھ ایک بچی دیکھی ۔۔۔ یہی کوئی ڈھائی تین برس کی ۔” میں نے ان کا یہ مسئلہ بھی حل کیا ۔
”کون۔۔۔او اچھا ۔۔۔گلاب ۔”
”نام تومیں نہیں جانتا ۔” میں نے خود کو لاپرا ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
بیگم شاہ جہاں پھر کسی سوچ میں پڑ گئی تھیں ۔ میں پہلو پہ پہلو بدلنے لگا تھا ،بیوی البتہ اطمینان سے بیٹھی تھی۔
” اگر وہ بچی ہم کسی کو گودیتے ہیں تو عبداللہ۔۔۔کیا آپ ایک بیٹے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔” خودکلامی کرتے کرتے بیگم شاہ جہاں نے اچانک سر اٹھا کر ہم سے پوچھا ۔
”نہیں ۔” میں نے قطعیت کے ساتھ جواب دیا ۔ جب کہ بیوی کا سر اثبات میں ہلا تھا۔


”دراصل وہ بچہ اس بچی کے ساتھ بہت اٹیچڈ ہے ۔ ہم انہیں الگ نہیں کرنا چاہتے ۔”
”ٹھیک ہے ۔۔۔ ہمیں ویسے بھی بچی کو سنبھالنے کے لیے ملازم یاملازمہ کی ضرورت تو ہو گی۔ بچے کو بھی رکھ لیتے ہیں ۔”
”ایکس کیوزمی۔۔۔ یہ بچے میرے بچے ہیں ، کسی کے ذاتی ملازم نہیں ہیں ۔” بیگم شاہجہاں تو غصے میں ہی آگئی تھیں ۔
مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ بچی کو بھی ہمیں دینے سے انکار نہ کر دیں ۔ میں دل ہی دل میں اپنی بیٹی کو حاصل کرنے کے لیے کوئی دوسرا طریقہ سوچنے لگا تھاجب میں نے بیگم شاہ جہاں کو چونکتے محسوس کیا ۔ اور پھر انہوں نے جن نظروں کے ساتھ مجھے دیکھا ، مجھے فوراً سمجھ آگئی کہ میری چوری پکڑی گئی۔
بیگم شاہ جہاں کے سامنے گلاب کی فائل کھلی ہوئی تھی۔ اس فائل میں یقینا باپ کا نام بھی ہو گا۔ میرے لگا کہ بس اب دھماکہ ہوا اور میری شادی شدہ زندگی زمین بوس ہوئی ۔
” آپ نے جو معلومات اپنے بارے میں دی ہیں ، ان میں سے کچھverify ہونا باقی ہیں ۔ اس میں ابھی چند دن لگیں گے ، اس کے بعد ہم آپ کو کال کریں گے۔”
خلاف توقع بیگم شاہ جہاں نے یہ الفاظ ادا کیے تھے ۔ میں ان کو ممنون نظروں سے دیکھتے ہوئے بیوی کے ساتھ اٹھ آیا۔ اگلے دن بیگم شاہ جہاںکی کال میری دکان والے فون پہ آئی تھی۔ انہوں نے مجھے بلایا ۔
”بہتر ہو گا کہ آپ مجھ سے سچ کہیں ۔ ۔۔گلاب آپ کی بیٹی ہے ؟”
وہ بغیر کسی تمہید کے سیدھی بات پر آئیں ۔ میں نظریں جھکا گیا ۔
”مسٹر جہانگیر۔۔۔ میں آپ کے منہ سے سننا چاہتی ہوں جو بھی سچ ہے ۔”
”گلاب میری بیٹی ہے ۔” میں نے اپنے گناہ کا اقرار کیا ۔
”ہوں ۔۔۔ٹھیک ہے آپ کل اپنی مسز کے ساتھ آ کر بچی کو لے جائیں ۔ ”
میں اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا تھا کہ وہ اتنے آرام کے ساتھ میری بیٹی میرے حوالے کر دیں گی۔
”میں بچی کی کسٹڈی آپ کو اس لیے دے رہی ہوں کہ میں سمجھتی ہوں ایک بچی کے لیے یتیم خانے سے بہتر جگہ اس کے باپ کا گھر ہے ۔ ”
میں نے جوش کے ساتھ سر ہلایا ۔ بیگم شاہ جہاں کے چہرے پہ سنجیدگی تھی۔
”میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری بیوی کے سامنے یہ راز ، راز ہی رہنے دیا ورنہ ۔۔۔”
”مسٹر جہانگیر ! ۔۔۔” بیگم شاہ جہاں نے مجھے منمناتے دیکھ کر میری بات کاٹی ۔ ”مجھے کسی کا گھر خراب کرنے میں کوئی دل چسپی نہیں ۔جو غلطی گناہ آپ سے ہوئے اس کے لیے آپ اللہ کے سامنے،کنگنا کے سامنے ، گلاب کے سامنے اور اپنی بیوی کے سامنے جواب دہ ہیں ، میرے سامنے نہیں ۔ میں نے اس راز کو راز اس لیے بھی رہنے دیا کہ کوئی بھی عورت یتیم خانے سے گود لی ہوئی ایک بچی پہ اپنی بے حساب مامتا نچھاور کر سکتی ہے مگر اپنے شوہر کی ناجائز بیٹی پر نہیں اور میں چاہتی ہوں کہ گلاب کو ماں باپ کا بھرپور پیار ملے ۔”


چہرے مہرے سے سخت گیر لگنے والی اس عورت سے میں حد درجہ متاثر ہوا تھا ۔
اگلے دن میں بیوی کے ساتھ گیا اور اپنی بیٹی کو لے آیا ۔ بچی زندگی میں کیا آئی ،بہار آ گئی ۔ گلاب نام سن کر یا پکار کر مجھے ان گلیوں کا خیال آتا جہاں میری بیٹی نے جنم لیا۔ میں نے اس کا نام آئمہ رکھا ایک عزت دار نام۔۔ ۔
شروع میں وہ بہت روتی تھی۔ ہر وقت ”بھائی بھائی ” کرتی تھی۔ کچھ کھاتی تھی نہ پیتی تھی، رو رو کر بھوکی سو جاتی تھی۔ سو کر اٹھتی تو اس کی نگاہیں جیسے کسی کو ڈھونڈتیں ۔ وہ بیمار پڑ گئی تھی۔
”اس بچے کو بھی لے آتے تو اچھا تھا ۔” بیوی کو ایک دو بار افسوس ہوا ۔مگرمجھے ا فسوس نہیں ہوا ۔ میری بیٹی کا باپ اس کے پاس تھا ، اسے کیا ضرورت تھی منہ بولے رشتوں کی ۔ آہستہ آہستہ وہ ”بھائی ” کو بھولتی گئی اور ”ممی ڈیڈی ” کو پہچاننے لگی۔
بیوی ایک لے پالک بچی کی ماں تھی اور میں اپنی بچی ۔۔۔ہاں اپنی بچی کا باپ تھا ۔ ہم دونوں بہت خوش تھے ۔ میں زیادہ خوش تھا ۔ لیکن میری بہن کو یہ خوشی زیادہ بھائی نہ تھی۔
”بچہ گود ہی لینا تھا تو میرا بیٹا لے لیتے ۔ پتا نہیں کس کے گناہ کی دھول اپنے سر ڈال لی ۔”
‘ ‘ آج کے بعد ایسی بات مت کرنا۔” مجھے بہت برا لگا تھا ۔ اس نے میری بیٹی کو گالی دی تھی۔
بہن چپ ہو گئی تھی۔
میں نے سختی سے سب کو منع کر دیا تھا کہ کبھی میری بچی کو لے پالک نہ کہا جائے ، میں ایسا برداشت ہی نہ کر سکتا تھا ۔ وہ میری بیٹی تھی، لے پالک نہیں تھی۔
ویسے ہمارا خاندان میں ملنا ملانا کم تھا ، بیوی کے بہن بھائی اور میری بہن ہی کے گھر آنا جانا تھا ۔ بیوی کے بہن بھائیوں کی طرف سے تو کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہو ا مگر میری بہن کے اندر کہیں کوئی کینہ کوئی رنجش پنپ رہی تھی۔
”ڈیڈی ! دانی کہتا ہے ، میں آپ کی بیٹی نہیں ۔”
ایک دن چار سالہ آئمہ میرے پاس منہ بسورتی آئی تھی۔ میرے اندر غصے کی لہر اٹھی۔ میں نے بہن سے اس کے بیٹے کے متعلق جواب طلبی کی۔
”بچہ ہے ۔ منہ سے نکال دی ایسی بات ۔”
” اور بچے کو بتا کون رہا ہے ، اس کے ذہن میں کون ڈال رہا ہے یہ بات؟”
بہن چپ ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی ۔ اس دن اسے میں نے کہہ دیا تھا کہ آئندہ اگر اس نے بچوں کے ذہن میں ایسی بات ڈالنے کی کوشش کی تو میں اس سے ہر رشتہ ختم کر لوں گا ۔اس دھمکی کے بعد بہن نے سُدھر گئی ، یہ اس کی مجبوری تھی ۔ اس کا شوہر میری پہلی دکان پہ مالکوں کی طرح بیٹھتا تھا ۔ان کے سارے عیش میری وجہ سے تھے ۔
بہن تو چپ ہو گئی تھی مگر مجھے سنجیدہ ہو کر سوچنا پڑا ۔
جب تک میں اس شہر ،ا س محلے میں رہا ، جب تک پرانے ملازم ہمارے ہاں کام کرتے رہے ، کوئی نہ کوئی آئمہ سے ایسی بات کر سکتا تھا ۔ ابھی تو وہ چار سال کی تھی، اس کو بہلا لیا مگر جیسے جیسے بڑی ہو گی ، ایسی باتیں اسے ڈسٹرب کریں گی ۔ پھر وہ میرے بہلانے سے نہیں بہلے گی۔
میں نے وہ شہر ، وہ ملک ہی چھوڑ دیا ۔
چودہ سال ہم دبئی میں رہے ۔ وہاں قدم جمانے کے لیے مجھے محنت تو بہت کرنا پڑی مگروقت بڑے ذہنی سکون کے ساتھ گزرا ۔ آئمہ ، میں اور بیوی جب ساتھ چلتے تھے تو فیملی لگتے تھے ۔ آئمہ کے سنہری بال، اس کی سنہری آنکھیں دیکھ کر کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہم نے اسے اڈاپٹ کیا ۔ ہم سال بعد پاکستان کا چکر لگا لیتے تھے ۔ میں اپنی بیٹی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا جس میں میری جان تھی۔ آئمہ بھی مجھے بہت پیا رکرتی تھی اور پیار کا اظہار بھی بڑے پیارے پیارے انداز میں کرتی تھی۔ میں تو نہال ہو جاتا تھا۔


وقت گزرتا رہا ۔ آئمہ ماشاء اللہ اب سولہ سال کی ہو گئی تھی۔ اس کی چھٹیوں میں ہم پاکستان آئے تو بہن بھی ملنے آئی تھی ۔ اس دن میں پاکستان میں موجود اپنی دکانوں کا دورہ کر کے چار دن بعد گھر آیا تھا ۔ آئمہ میرے گاڑی سے نکلتے ہی دیوانہ وار میری طرف لپکی تھی۔ میری سات دن کی تھکن مٹ گئی ۔ وہ بہت دیر میرے سینے سے لگی رہی ۔ میں بار باراس کے بالوں کو چومتا ۔ پھر بہن اور اس کے بچوں سے ملا ۔ گپ شپ کرتے ہوئے صوفے کے پیچھے کھڑی آئمہ کبھی میرے گلے میں بانہیں ڈالتی کبھی صوفے پہ آ کر میرے کندھے پہ سر رکھ کر بیٹھ جاتی۔ میری بیٹی کے پیار کے ایسے اظہار مجھے اندر تک نہال کر دیتے تھے۔ میں اس کا ماتھا چومتا کبھی ہاتھ ۔
رات سونے کے لیے جب میں لیٹا تو بیوی نے جھجکتے ہوئے بات شروع کی ۔
”باجی کہتی ہیں، آئمہ اب بڑی ہو گئی ہے ۔آپ ۔۔۔آپ آئمہ سے ذرا دور رہا کریں ۔ اسے اس طرح سے ملا نہ کریں ، پیار نہ کیا کریں ۔ ان کا مطلب ہے کہ وہ بیٹی ہے مگر سگی تو نہیں ناں ۔ آپ ہیں تو نا محرم ناں ایک دوسرے کے لیے ۔ ”
مجھے ایسا لگا جو گناہ برسوں پہلے میں نے کیا تھا ، اس کی گالی آج مجھے دی گئی ہے ۔
میرا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا ۔ بیوی نے میرے جذبات کو سمجھتے ہوئے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔ میں اس وقت اپنی بہن کو ،ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتانا چاہتا تھا ۔
”آئمہ میری بیٹی ہے ۔۔۔ میرا خون ہے ۔ ”
مگر بیوی کی صورت دیکھ کر اندر ہی اندر گھُٹ کر رہ گیا ۔ اگر میں ایسا کرتا توگناہوں کے پرانے کھاتے کھلتے ، کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ، سزا ملتی نہ ملتی ۔ بیوی اور بیٹی کی نظروں میں گر جاتا ۔ اس سے بڑی سزا بھلا اور کیا ہونی تھی۔
میں چپ ہو رہا مگر اللہ جانتا ہے کہ وہ رات مجھ پہ کیسی بھاری تھی۔ میں سو سکتا تھا نہ ہی رو سکتا تھا۔ اس دن کے بعد سے میں کبھی اپنی بیٹی سے کھل کر پیار کا اظہار نہ کر سکا ، اسے بھینچ کر سینے سے نہ لگا سکا۔ مجھے لگا کہ جب بھی میں اپنی بیٹی کو پیار کرنے لگتا ہوں ۔ میری بیوی بھی مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگی ہے۔
میری سزائوں کا وقت شروع ہو چکا تھا ۔
جب آئمہ بی بی اے کے لیے آسٹریلیا گئی تو اس کی خواہش تھی کہ ہم بھی آسٹریلیا موو ہو جائیں مگر میرا بزنس اجازت نہ دیتا تھا ۔ بیوی کی خواہش پر ہم پاکستان میں اسلام آباد شفٹ کر گئے۔ یہاں کوئی رشتہ دار رہتا تھا نہ ہی کوئی پرانا جاننے والا ۔ اس لیے کوئی نہ جانتا تھا کہ ہم نے آئمہ کو گود لیا تھا۔ لیکن دنیا بہت چھوٹی ہے ۔
آئمہ اسٹڈیز مکمل کر کے پاکستان لوٹی تو ہم نے اس کی خواہش پر اس کی شادی خاقان حسن سے طے کر دی تھی۔روپے پیسے اور رہن سہن کے حساب سے شاید وہ ہم سے پیچھے تھے ۔ مگر حسب نسب اور شرافت میں آگے تھے ۔ میں نے آئمہ کی پسند پہ فوراً رضامندی دے دی تھی کیوںکہ اندر ہی اند ر کہیں دل ہی دل میں میری یہ خواہش تھی کہ میری بیٹی ایسے لوگوں میں جائے جو کردار و اوصاف کے لحا ظ سے مجھ سے بہتر ہوں ۔ تاکہ میری بیٹی کے خون میں جو گندگی شامل ہوئی تھی وہ صاف ہو سکے ۔
ہم سب بہت خوش تھے ، شادی کی تیاریاں زوروشور سے چل رہی تھیں جب ایک دن آئمہ کے ہونے والے سسر عرفان احسن کا فون آیا ۔ وہ بہت خفا ہو رہا تھا کہ ہم نے ان سے یہ بات چھپائی کہ آئمہ لے پالک ہے ۔ اس نے رشتہ ختم کر دیا تھا ۔ میرے لیے تو زمین و آسمان گھوم گئے۔یہ کیا ہو گیا تھا ؟ کس نے یہ نیچ حرکت کی تھی؟ میرے ذہن میں ایک ہی نام ایک ہی چہرہ آیا تھا ۔ یقیناً یہ میری بہن کی حرکت تھی۔ کہاں تو وہ آئمہ کو کبھی بھتیجی کے روپ میں قبول نہ کر پائی اور اب دو سال سے اس کا رشتہ مانگ رہی تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ اور اس کا بیٹا لالچی ہیں ۔ میں نے انکار کر دیا تھا ۔ بہن نے بدلہ لیا تھا مجھ سے ۔
میری بیٹی ، میری جان میری کائنات پہ دو دو بھاری غم ایک ساتھ آپڑے تھے ۔ اس کا رشتہ ختم ہو گیا تھا اور اس پہ بھی بھاری غم یہ کہ وہ ہماری بیٹی نہ تھی۔
جس بیٹی کی آنکھ میں کبھی آنسو نہیں آنے دیا ،اب وہ روتی تھی ، مچلتی تھی ۔ میں تڑپ کر کہتا ۔
”تم ہماری بیٹی ہو میری جان ۔”


وہ نفی میں سر ہلاتی چلی جاتی۔ اس وقت میرا جی چاہتا ۔ آئمہ ، عرفان احسن اور ساری دنیا کے سامنے میں قرآن اٹھا کر قسم اُٹھائو ں کہ آئمہ میری بیٹی ہے ، میری بیٹی ۔ ۔۔۔اور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لوں ۔ لیکن مجھے اپنے ہونٹ سینے پڑے ۔
اگر اس موقع پر میں یہ راز کھولتا تو میرا گھر خراب ہوتا ،میری سات نسلیں خاقان کی فیملی کی نظروں میں مشکوک ٹھہرتیں ، بدکردار ٹھہرتیں ۔ پھر خاقان کی باپ کو منانے کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہ ہوتی ، عرفان احسن مر جاتا مگر آئمہ کو بہو نہ بناتا ۔ اور سب سے بڑی سزا میرے لیے یہ ہوتی کہ اپنی ہی بیٹی کے سامنے نظر اٹھانے کے قابل نہ رہتا ۔ وہ جو مجھے آج تک آئیڈیل باپ مانتی آئی ، اس کے سامنے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا تو میں خود ہی خود کو سزائے موت سنا دیتا ۔
میں خاموش رہا ، اپنی بیٹی کو تڑپتے ، بلکتے دیکھتا رہا ۔ ن دنوں میں اللہ سے سجدوں میں پڑ پڑ کر پیار جتانے لگا تھا ۔کیوںکہ وہی تھا جو میری بیٹی کو اس تکلیف سے نکال سکتا تھا ۔
ایک دن میں لان میں بیٹھا ہوا اپنی بیٹی کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا جب مالی میرے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔ مجھے لگا کہ اُٹھا لایا ہو گا اپنا کوئی مسئلہ کوئی مطالبہ ۔ میں اسے سر سے ٹالنے ہی والا تھا جب اس نے مجھ سے کہا تھا ۔
” مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔”
اس کا لہجہ ایسا تھا کہ میں چونک گیا ۔ پھر مجھے اس کی بات سننی پڑی ۔
”گلا۔۔گلا ب بہت تکلیف میں ہے ، وہ اپنی شناخت چاہتی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے بتائیں کہ اس کی ماں کو ن تھی، اس کا باپ کون تھا ؟”
آخری لفظ کہتے ہوئے اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالی تھیں ۔ میں تو ششدر بیٹھا رہ گیا تھا ۔ یہ کون تھا جو آئمہ کو گلاب کے نام سے جانتا تھا ، یہ کون تھا جو اس راز سے واقف تھا جو میرے اور بیگم شاہجہاں کے کے علاوہ کوئی اور نہ جانتا تھا ۔
”تم ہوتے کون ہے مجھ سے ایسی بات کرنے والے؟”کچھ حواس بحال ہوئے تو میں نے اپنے مخصوص گھمنڈی لہجے میں پوچھا ۔
”میں اس کا بھائی ہوں ۔” سامنے والا میرے رعب میں نہ آیا تھا اور اسی طرح اکڑ کر میرے سامنے کھڑا تھا ۔
”کون سا بھائی ؟”
”عبداللہ۔”
”کون عبداللہ؟”مجھے اس وقت تک وہ بچہ بالکل بھول چکا تھا جس کی بابت بیگم شاہ جہاں نے کہا تھا کہ آئمہ کے ساتھ بہت پیار کرتا ہے اور جس کو نہ پا کر میری بیٹی شروع میں بہت رویا کرتی تھی اور پھر بیمار بھی پڑ گئی تھی۔
” عبداللہ کو رہنے دیں آپ ۔۔۔ گلاب کی بات کریں ۔”
”مجھے اپنی بیٹی کے بارے میں تم سے کوئی بات نہیں کرنی ہے ۔” میں نے خشک لہجے میں جواب دیا۔
” مگر مجھے اپنی بہن کے بارے میں آپ سے بات کرنی ہے ۔آپ نے اسے اون کیا مگر حقیقت میں ساری عمر ڈ س اون کرتے رہے۔”
”یہاں سے دفع ہو جائو۔” میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔
”میں چلا جائوں گا ۔ آپ صرف اتنا بتا دیں کہ آئمہ کو اس کی ماں اور اس کے باپ کا نام آپ بتائیں گے یا میں ؟”
مجھے محسو س ہوا کہ وہ اس وقت میرے نوکر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک بھائی بن کر میرے سامنے کھڑا تھا ۔ میرا رعب اس پہ چلنے والا نہ تھا ۔
”دیکھو۔” میں نے پینترا بدلتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کیا۔ ” کیا تم چاہتے ہو کہ آئمہ جسے چاہتی ہے ، اس سے اس کی شادی کبھی بھی نہ ہو ۔ خاقان کا باپ اس شادی پہ کبھی راضی نہ ہو گا اگر اسے پتہ چلا کہ آئمہ نا جائز اولاد ہے وہ بھی میری ۔”

Loading

Read Previous

عبداللہ – قسط نمبر ۰۱

Read Next

بیگم شرف النساء

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!