الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

اگلے دن نانی نے حسن کو فون کیا اور کہا:‘‘بیٹا، اب گھر میں ہم صرف تین عورتیں رہ گئی ہیں۔ زاہد تو چلا گیا اور زمانہ تو توُ جانتا ہے کتنا خراب ہے۔ میں نے تجھے یہ کہنے کے لیے فون کیا ہے کہ اب توُ گھر آجا، ہمیں تیری ضرورت ہے۔’’
حسن نے گومگو کے عالم میں کہا:‘‘میں کیسے آسکتا ہوں؟ ممانی میری شامت لائے گی، اس کے ہاتھوں میری جان جائے گی۔’’
نانی نے بے پروائی سے کہا:‘‘پروین کی فکر نہ کر، اس سے بات کرلی ہے میں نے۔ ویسے بھی اس غریب کا حال اب پتلا ہے۔ اپنے غم میں دنیا سے کٹ کے پڑی ہے، نہ کسی سے بات نہ چیت، نہ لینا نہ دینا۔ صدمہ بھی تو بڑا اٹھایا ہے بے چاری نے ،بس توُ اس کی فکر نہ کر، توُ آ جا میرا بچہ۔’’
چنانچہ حسن اپنا سازو سامان اٹھا کر گھر آیا اور جب اپنے کمرے کو پایا کہ صاف ستھرا تھا اور ماموں کے کھنکھارنے کی کوئی آواز نہ تھی تو بے حد خوش ہوا۔ بہت ہشاش بشاش ہوا اور بصد مسرت وہاں رہنے سہنے لگا۔
حسن کے آنے کے اگلے ہی دن بنّے بھائی آئے۔ حسن کو دیکھ کر طنز سے مسکرائے اور بے حد تکبر اور نخوت کے ساتھ چلتے ممانی کے کمرے میں چلے گئے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ برآمد ہوئے۔ چہرہ لال بھبوکا، آتش پارہ، آنکھیں سرخ انگارہ۔ غیظ و غضب سے کانپتے تھے، طیش کے مارے ہانپتے تھے۔ پاؤں پٹختے صحن میں نکلے، وہاں حسن کی بائیک کھڑی پائی۔ طبیعت آتشِ غضب کی تاب نہ لائی، ایسی رکھ کے لات جمائی کہ حسن کی بائیک اڑا اڑا دھم گر پڑی۔ ادھر ادھر کی چیزوں کو ٹھوکروں سے اڑاتے، پاؤں پٹختے پھاٹک سے نکل گئے۔
نانی نے سر ہلایا اور کہا:‘‘لگتا ہے آج پتا چلا بنّے کو زاہد اور نسیمہ کا۔ اللہ خیر کرے، اب پتا نہیں کیا کرے گا۔’’
حسن نے فکرمندی سے کہا:‘‘کہیں بچہ تو نہیں چھین لیں گے نسیمہ باجی سے؟’’
نانی ہنس کر بولیں:‘‘کبھی کبھی یہ جو بہت چالاک لوگ ہوتے ہیں نا یہ اپنے ہی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ بچے کے بارے میں تو بنّا لکھ کر دے چکا ہے کہ اس کا ہے ہی نہیں۔ مجھے تو سچی بات ہے، اپنے بیٹے کی فکر ہے، کہیں اسے کوئی نقصان نہ پہنچادے۔’’
ماموں کو بنّے بھائی کیا نقصان پہنچاتے، اس کے لیے خود ماموں کافی تھے۔عقل کے پیچھے لٹھ لیے تو گھومتے ہی تھے، اس طرح گھومتے پھرتے ایک دن گھر آٹپکے۔ ماموں کو جو صحن میں کھڑے پایا تو نانی کا دل از بس گھبرایا۔ بے حد حیران ہوئی، بڑی پریشان ہوئی۔ گھبرا کر کہا: تو ُیہاں کیوں آیا ہے زاہد؟’’
ماموں نے دلیر ہوکر کہا:‘‘آپ سے اور بچوں سے ملنے آیا ہوں۔ اور پھر نسیمہ نے مجھ سے کہا کہ جا کر پروین کا حال پوچھ آؤں۔ آخر کو وہ بیوی ہے اور اس کے حقوق کی جوابداری ہے مجھ پر۔’’
اب سنیے کہ ادھر تو ماموں صحن میں کھڑے یہ باتیں کرتے تھے، ادھر اندر ممانی کے دل میں جانے کیا سمائی یا پھر شاید شیطان نے انہیں انگلی دکھائی کہ جا اور جا کر صحن میں کھڑے اپنے شوہر سے اپنے حقوق کی جوابدہی کرے۔ اب ممانی جو صحن میں نکلی تو سامنے ماموں کو کھڑا پایا۔ پہلے تو ہکا بکا کھڑی ماموں کو دیکھتی رہی پھر آنکھوں میں خون اتر آیا۔ بھوکی شیرنی کی طرح ماموں پر حملہ آور ہوئی۔ ماموں کی دلیری بھی بس یہیں تک تھی کہ چل کر صحن تک آگئے تھے اور ماں کو حقوق و فرائض پر نصیحت کرتے تھے۔ اب ممانی کو جو شبرژیاں کی مانند آتے دیکھا تو ڈر کر نانی کے پیچھے چھپ گئے اور لگے گھگھیانے۔
نانی نے ماموں کو اپنے پیچھے چھپا لیا، حسن نے بھی بیچ بچاؤ میں اپنا حصہ ڈالا اور یوں ماموں کا سر پھٹنے سے بچ گیا۔ کچھ یہ بھی کہ ممانی کو صدمے کے تحت ہونے والی نقاہت ابھی کچھ کچھ باقی تھی اور اس میں وہ پہلے کی سی پھرتی نہیں رہی تھی کہ ماموں کو طمانچے مارتی اور کسی کے قابو نہ آتی۔
نانی نے ماموں کو اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے کہا:‘‘ہائے ہائے کیا کرتی ہے پروین؟ تیرا شوہر ہے۔’’
ممانی نے دانت کچکچا کر کہا:‘‘یہ میرا نہیں، اس چڑیل کا شوہر ہے ۔میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔’’ یہ کہہ کر جھپٹی۔
نانی نے طرح دے کر وار بچایا۔ ماموں کو چھپایا اور منہ بنا کر کہا:‘‘چھوڑا تو تو ُنے اسے تب بھی نہیں جب یہ تیرا تھا۔ اسی وقت کچھ لحاظ کرلیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہ ملتا۔’’
ممانی نے طیش میں آکر کہا:‘‘کیا لحاظ نہیں کیا؟ اس کے ساتھ ہر طرح کے حالات میں گزارا کیا۔ غربت سہی، تنگی سہی، کتنی قربانیاں دیں میں نے اس کے لیے، اس نے یہ قدر کی؟’’
ماموں نے نانی کے پیچھے سے سر نکالا اور کہا:‘‘لیکن ان قربانیوں کا پورا خراج بھی وصول کیا مجھ سے۔ نہ خود خوش رہی نہ مجھے رہنے دیا۔’’ممانی نے ایک اور کوشش کی حملہ کرنے کی لیکن حسن نے ہاتھ پکڑ لیا اور دھکیل کر کرسی پر بٹھا دیا۔ ممانی اتنی کوششوں سے تھک گئی تھی۔ ہانپتے ہوئے بولی:‘‘اس خوش فہمی میں نہ رہنا کہ نئی والی تمہیں خوشی دے گی۔ میری طرح نہ کوئی خدمت کرسکتی ہے نہ تمہارے ساتھ غربت میں گزارا کرسکتی ہے۔’’
ماموں شرما کر بولے:‘‘خدمت تو وہ میری اتنی کرتی ہے کہ آج تک کسی بیوی نے اپنے شوہر کی نہ کی ہوگی اور غربت تو ہے ہی نہیں ہمارے گھر۔ بیوٹی پارلر کھول لیا ہے اس نے گھر میں۔ مجھے بھی پاس کی دکان میں سیلز مین کی نوکری مل گئی ہے۔ ہم بہت خوش ہیں۔ ہاں لیکن میں تم لوگوں کو بھولا نہیں ہوں۔ دکان کا کرایہ بدستور تم لوگوں کو ملتا رہے گا۔ تمہیں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔’’
یہ سن کر کہ ماموں اپنی نئی بیوی کے ساتھ خوش ہیں، ممانی بہت جھلائی۔ بے حد غصے میں آئی اور ماموں کو اس قدر برا بھلا کہا اور اتنا غل مچایا کہ نانی نے ماموں کو وہاں سے بھگایا اور جب ممانی چیختے چیختے بے دم ہوگئی اور تھک گئی تو حسن نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اٹھایا اور کمرے میں چھوڑ آیا۔ گھر بھر نے سکون کا سانس لیا۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

One Comment

  • Why last episode is incomplete it has only six pages and story is not complete please check it and upload the rest of pages thank you.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!