الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

حسن نے سر ہلا کر کہا:‘‘ہاں جو ہوا سو ہوا۔ ماموں پر خفا ہونا بے کار ہے۔ اب تو معاملہ پار ہے۔’’
یہ سن کر نانی اور بھی مسرور ہوئیں۔ کہا:‘‘بس تو پھر مجھے ابھی لے چل۔ یہ جوڑے اچھی طرح سے پیک کر دے۔ راستے سے مٹھائی بھی لیتے چلیں گے۔ زلیخا تو اس وقت کالج میں ہوگی، اسے پتا بھی نہیں چلے گا۔’’
بے چاری نانی کے منصوبے تیز تھے اور نصیب سست، لہٰذا عین وہی ہوا جس سے وہ چوری چھپے بھاگ رہی تھیں۔ عین جس وقت حسن اور نانی شہر کی سب سے بڑی حلوائی کی دکان پر کھڑے مٹھائی خرید رہے تھے، کسی نے پیچھے سے حسن کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مڑ کر دیکھ تو زلیخا کھڑی تھی۔
حسن اور نانی گھبرائے اور اول جلول باتیں کرنے لگے۔ زلیخا کو اور بھی شک گزرا اور اس نے دونوں کو چشم خشم آلودہ دکھائی اور ڈانٹ بنائی۔ پہلے تو حسن نے آئیں بائیں شائیں کرکے ٹالنے کی کوشش کی لیکن زلیخا بھی اپنے نام کی ایک تھی۔ حسن کو ایسی چنگاری بھری آنکھوں سے گھورا کہ سہہ نہ سکھا اور قبول ہی دیا کہ ماموں کے گھر جا رہے ہیں، انہی کے لیے مٹھائی لے جانی ہیں۔
نتیجہ اس صورتحال کا یہ نکلا کہ تھوڑی دیر بعد زلیخا بھی نانی کے ساتھ حسن کی بائیک پر بیٹھی تھی۔ حسن بائیک چلاتا تھا اور دل ہی دل میں پچھتاتا تھا کہ کیوں نانی کو ماموں کے گھر لایا۔ بھلا دولہا دلہن دیکھنے کا یہ کیا شوق چرایا؟
ماموں کے دیے پتے پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک خستہ حال گھر کا ننھا منا بالائی منزل کا حصہ تھا جس کے صحن میں ماموں کا سکوٹر کھڑا تھا۔ حسن نے گھنٹی بجائی تو ماموں برآمد ہوئے۔ باچھیں کھلی ہوئی، چہرہ روشن، بال خضاب سے سیاہ، آنکھوں میں سرورِ تازہ بیاہ۔ نانی سے گلے ملے، زلیخا کا ماتھا چوما، حسن کو آنکھ ماری اور اندر لے گئے۔ اندر چھوٹے سے لاؤنج میں نسیمہ باجی گلابی جوڑا پہنے، سرخی لگائے بیٹھی تھیں۔ ہاتھ میں سبزی کی ٹوکری تھی، سبزی چھیلتی تھیں۔ پاس فرش پر بچہ بیٹھا کھلونوں سے کھیلتا تھا۔ نسیمہ باجی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ان لوگوں کو دیکھ کر شرما گئیں۔ چہرہ سرخ ہوگیا، نظریں جھک گئیں۔ جلدی سے دوپٹہ سر پر اوڑھا اور اٹھ کر نانی کو سلام کیا۔ زلیخا سے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھیں لیکن زلیخا نے بے اعتنائی سے رخ موڑ لیا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ حسن نے البتہ سر پر ہاتھ پھیرا اور برادرانہ شفقت سے دعا دی۔
نسیمہ باجی چائے بنانے باورچی خانے میں گئی تو نانی ماموں سے جویائے راز ہوئی، ہمدم وہمساز ہوئی۔ پوچھا، کیا خبر ہے؟
ماموں خوشی سے بولے: ‘‘میرے ذہن میں تو دور دور تک شادی کا خیال نہ تھا لیکن جب نسیمہ ہمارے گھر آئی اور پروین نے اسے گھر کے کاموں میں لگایا تو زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے معلوم ہوا کہ ایک خدمت گزار عورت کیا ہوتی ہے اور گھر گرہستی کا سکھ کسے کہتے ہیں۔ حسن کا مشورہ رہ رہ کر میرے کانوں میں گونجنے لگا۔ جب پروین نے نسیمہ کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیا تو تب میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب بس ہم دونوں ایک ہی عورت کے زخم خوردہ ہیں۔ ہمیں ہی ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے۔’’
زلیخا یہ سن کر بے حد خفا ہوئی۔ جتائی ہوئی نظروں سے ماموں کو دیکھا اور کہا:‘‘جو کچھ بھی ہو، ماما آپ کی بیوی ہیں اور جب سے انہوں نے یہ خبر سنی ہے، ان کی طبیعت بہت خراب ہے۔’’
ماموں جز بز ہوئے، کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر بولے:‘‘ مجھے افسوس ہے لیکن پروین نے تمام عمر جو میرے ساتھ کیا……’’
زلیخا نے بات کاٹ کر کہا:‘‘وہ آپ کی اپنی کم ہمتی تھی، ابا۔ مارنے والے کا ہاتھ کیوں نہ پکڑا؟ بولنے والے کی زبان کیوں نہ روکی؟ لوگ آپ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جس کی آپ انہیں اجازت دیتے ہیں۔ آپ نے ماما کو خود کو bully کرنے کی اجازت کیوں دی؟ کیوں doormat بنے رہے ساری عمر؟’’
ماموں کی آنکھیں بھر آئیں۔ بولے: ‘‘ہاں، وہ میری بزدلی تھی۔’’
زلیخا نے اداسی سے کہا:‘‘تھی؟ ہے کہیے، ابا۔ اب بھی آپ نے جو کیا، اس طرح چوری چھپے……’’ زلیخا نے بات ادھوری چھوڑ دی اور گہرا سانس لیا۔
ماموں سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے۔ سر اٹھایا تو آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ رنج سے بولے:‘‘میں جانتا ہوں میں نے تم لوگوں کو دکھ پہنچایا ہے۔ ہوسکے تو مجھے معاف کردینا۔’’
نانی نے کڑی نظروں سے زلیخا کو دیکھا اور ڈانٹ کر بولیں:‘‘شرم تو نہیں آتی باپ سے معافی منگواتے؟’’
زلیخا نے کچھ کہنے کو منہ کھولا، پھر ارادہ بدل دیا۔ ناراضی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئی۔
نانی نے اسی ناراضی کے عالم میں ماموں سے کہا:‘‘چھوڑ توُ اِس کو، یہ آج کل کی بے دید نسل ہے۔ چل تو ُمجھے اپنا گھر دکھا۔’’ یہ کہہ کر بڑبڑاتی ہوئی اٹھیں۔ ‘‘بیٹی ہوکر باپ سے باز پرس کرتی ہے، شرم بھی نہیں آتی، کوئی لحاظ نہیں۔’’
ماموں نے نانی کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور اندر لے گئے۔
زلیخا انہیں اندر جاتے دیکھتی رہی، پھر غصے سے حسن سے بولی:‘‘ ہونہہ بیٹی! جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے نا، میں ابا کی اماں بنی ہوئی ہوں۔ ہر پرابلم، ہر ضرورت، ہر تکلیف میں یہ میرے پاس روتے ہوئے آتے تھے اور میں ہی انہیں سہارا دیتی تھی۔ ضرورت تھی تو ماں بنا لیا، ضرورت نکل گئی تو بے دید بد لحاظ کا طعنہ منہ پر مار دیا۔’’
حسن نے تسلی دیتے ہوئے کہا:‘‘ نانی کی بات کا برا مت مانو، وہ پرانے زمانے کی ہیں۔’’
زلیخا نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا اور بولی:‘‘ تم سے زیادہ پرانے زمانے کی تو نہیں ہیں۔ تم ان سے کہیں پرانے ہو۔’’
حسن کو ہنسی آئی۔ کہا:‘‘زمانے کا تعلق عمر سے ہوتا ہے، وقت سے نہیں۔’’
زلیخا نے طنز سے کہا:‘‘ٹھیک کہتے ہو، ابا کو ہی دیکھ لو، اس عمر میں یہ کیا حرکت کی۔’’
حسن نے سادگی سے کہا:‘‘کس عمر میں زلیخا؟ کیا عمر ہے ماموں کی؟ تم بیس سال کی ہو۔ ماموں تم سے کتنے بڑے ہیں؟’’
زلیخا چونکی، کچھ حیران ہوئی۔ سوچتے ہوئے بولی:‘‘چھبیس سال۔’’
حسن نے فوراً کہا:‘‘یعنی ماموں اس وقت چھیالیس سال کے ہیں۔ چھیالیس سال کی عمر بڑھاپے کی تو نہیں ہوتی، زلیخا۔’’
زلیخا لاجواب ہوکر حسن کی صورت دیکھنے لگی۔ یہ خیال تو پہلے کبھی اسے آیا ہی نہیں تھا۔ حسن نے کہا:‘‘ہم اپنے ماں باپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کیوں کردیتے ہیں؟ ان پر زندگی کی فطری خوشیوں کا دروازہ یہ کہہ کر کیوں بند کردیتے ہیں کہ اب ان کی عمر دنیا میں دل لگانے کی نہیں رہی۔ انہیں صرف اپنے لیے قربانیاں دینے کے لیے کیوں رکھ لیتے ہیں؟’’
زلیخا یک ٹک حسن کو دیکھتی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا، ایک جاتا تھا۔ ان سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اتنے میں ماموں آتے دکھائی دیے۔ آکر بولے:‘‘امی ذرا غسل خانے گئی ہیں۔’’
یہ کہہ کر زلیخا کے پاس آئے۔ اس کا سر تھپتھپا کر چوما اور محبت سے بولے:‘‘مجھ سے ناراض مت ہو ،میری بیٹی۔ اس پوری دنیا میں اگر میں کسی کی ناراضی برداشت نہیں کرسکتا تو وہ تم ہو۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

One Comment

  • Why last episode is incomplete it has only six pages and story is not complete please check it and upload the rest of pages thank you.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!