الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

زلیخا کی آنکھیں بھر آئیں۔ آہستہ سے بولی:‘‘آپ مجھے تو بتا دیتے ،ابا۔ میں یہ معاملہ کسی طرح ہینڈل کرلیتی۔’’
ماموں نے رنج سے کہا: ‘‘مجھے خیال آیا تھا کہ تمہیں بتا دوں، پھر میں نے سوچا ماں چڑیل بھی ہو تو اولاد ماں ہی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ میں جانتا تھا تم مخالفت کرتیں،کبھی مجھے دوسری شادی نہ کرنے دیتیں۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے خودغرض ہوکر سوچا۔ میں نے سوچا میں کب تک دوسروں کی خوشی کے لیے اپنی خوشی قربان کرتا رہوں گا۔ آج سے کئی سال پہلے میں پروین سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے سہارا دینے کے لیے، اماں کی مرضی پوری کرنے کے لیے شادی کرلی۔ تمام عمر اس سے گالیاں کھاتا رہا، چھوڑ نہیں سکا کہ دنیا کیا کہے گی اور میرے بچے کیا کریں گے۔ بنّے کی باتیں برداشت کرتا رہا کہ کچھ کارروائی کی تو دنیا کیا کہے گی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھا اور اپنے دل کی سنی کہ وہ کیا کہتا ہے۔ اور اب زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے معلوم ہوا ہے سچی خوشی کہتے کسے ہیں۔ ہوسکے تو اپنے خودغرض باپ کو معاف کردینا ،بیٹی۔’’
زلیخا اداسی سے مسکرائی اور اثبات میں سر ہلایا۔ ماموں نے خوش ہوکر اس کا سر تھپکا اور ادھر ادھر دیکھ کر بولے:‘‘یہ چائے نہیں بنی ابھی تک۔ میں ذرا دیکھ کر آتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر باورچی خانے کی راہ لی جہاں نسیمہ باجی کھڑی چائے بنارہی تھیں۔
زلیخا سوچ میں گم بیٹھی رہی۔ پھر سر ہلا کر حسن سے بولی:‘‘life lesson نمبر ایک: مرد کتنا بھی مسکین ہو، بیوی اسے اطاعت گزار ہی چاہیے۔ سبق نمبر دو: ہمت، جرأت، جیب خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو، ego ہر مرد کی بہت بڑی ہوتی ہے۔ سبق نمبر تین: عورت کی نرمی میں خیر ہی خیر ہے اور عورت کی سختی اور سخت مزاجی میں شر ہی شر۔ سبق نمبر چار: مجھے تمہاری باتیں سننی چاہئیں کیونکہ تم نے آج تک مجھ سے جتنی باتیں کہیں سب صیحح نکلیں۔’’
یہ سن کر حسن خوش ہوا اور پوچھا:‘‘ اے خاتونِ رعنا شمائل، خوش تقریر و زیبا خصائل، یہ تو بتاؤ کہ میری کون سی بات کو تم نے عین درست پایا ہے کہ زبان پر یہ اعتراف آیا ہے؟’’
زلیخا نے مسکرا کر کہا۔ ‘‘یہی کہ جوانوں کی نسبت بڈھے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ بڑے شریر و بے باک ہوتے ہیں۔’’
حسن ہنسا اور کہا:‘‘خود ہی دیکھ لو۔ میں سمجھتا تھا کہ ماموں نے اپنے حالات سے فرار اور ممانی کے آزار کے سبب عقدِثانی کیا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ نسیمہ باجی کا عشق چرایا، ان کی شیریں حرکات پر دل آیا۔ مرض ِعشق میں گرفتار ہوئے، آئیلو یولو سے دوچار ہوئے۔’’
زلیخا نے کوئی جواب نہ دیا،وہ باورچی خانے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر حیرانی، سراسمیگی اور بے یقینی اتنی واضح تھی کہ حسن نے بے اختیار گردن موڑ کر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ماموں نسیمہ باجی کی کمر میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں اور وہ شرما رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ماموں نے اپنی معشوقہ، مطبوعہ اور زوجہ منکوحہ کو گلے لگایا اور بہ صد ادائے رعنائی ایک بوسۂ جاں بخش لیا اور ان کے شرمانے لجانے سے اس قدر وار و شیفتہ ہوئے کہ ایک بار پھر گلے لگایا۔
حسن بدر الدین خود بھی عاشق مزاج تھا، یہ دیکھ کر بے حد خوش و محظوظ ہوا کہ دولہا دلہن میں عشق کا سرور دوچند ہے، درِ حجاب بند ہے۔۔۔ لیکن پھر ماموں کے خراٹے یاد آئے، ان کی پرانی بلغمی کھانسی اور ہمہ دم کھنکھارنا اور غرارے کرنا یاد آیا۔ اس یاد کا آنا تھا کہ دل گھبرایا، از بس خلفشار ہوا، بڑا انتشار ہوا۔ گھبرا کر نظریں موڑ لیں۔ اب جو زلیخا پر نظر پڑی تو اس کی شکل ایسی بنی ہوئی پائی کہ گویا کوئی ناپسندیدہ چیز نگل لی ہے اور اب اسے اگلناہی چاہتی ہے۔
زلیخا اور حسن کی نظریں ملیں۔ دونوں چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر بے اختیار ہنسنے لگے۔ دونوں ہی جانتے تھے کہ دوسرا کیوں ہنس رہا ہے۔ دونوں ہی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ دوسرے کے دماغ میں اس وقت کیا خیالات ہیں۔ اپنی بات کہنے کے لیے انہیں لفظوں کی ضرورت نہیں تھی۔ دونوں بغیر کچھ کہے بس ہنستے رہے، ہنستے رہے حتیٰ کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بل پڑ گئے۔
نانی آئیں تو دونوں کو یوں ہنستا دیکھے پہلے تو خفا ہوئیں پھر ان کے ساتھ ہنسنے لگیں۔ اتنے میں نسیمہ باجی اور ماموں چائے لے آئے۔ سب نے چائے پی اور مٹھائی کھائی اور نانی کے لائے جوڑے دیکھے۔ اس سارے عرصے میں حسن اور زلیخا نے کوشش کرکے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے سے احتراز کیا کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ جونہی نظر ملی، دوبارہ ہنسی کا حملہ ہوگا اور اب کی بار ہنسی شروع ہوئی تو روکے نہیں رکے گی۔
شام کو یہ لوگ جانے کے لیے اٹھے تو نسیمہ باجی نے جھک کر زلیخا سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ زلیخا ہلکے سے مسکرائی اور آگے بڑھ کر نسیمہ باجی کوگلے لگا لیا۔
جب بائیک پر بیٹھنے لگے تو زلیخا نے چپکے سے حسن کے کان میں کہا:‘‘سبق نمبر پانچ: لوگوں کومعاف کرنا پڑتا ہے۔’’
حسن نے سرگوشی میں کہا:‘‘اور کوئی چارہ بھی تو نہیں، مجبوری کا نام شکریہ۔’’
دونوں پھر سے ہنسنے لگے۔

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

One Comment

  • Why last episode is incomplete it has only six pages and story is not complete please check it and upload the rest of pages thank you.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!