نسیمہ نے روتے ہوئے کہا: ‘‘واپسی پہ مجھے گلی میں ہی پکڑ لیا۔ اتنی زور زور سے تھپڑ مارے کہ پرلے محلے تک چٹاخ چٹاخ کی آواز گئی ہو گی۔ بال کھینچے۔ یہ دیکھو گچھے کے گچھے توڑ لیے۔’’ نسیمہ بھابھی نے سر کے بچے بال دکھاتے ہوئے کہا۔‘‘محلے والوں نے آکے چھڑایا۔ لوگوں نے شرم دلائی تو انہوں نے مجھ پر اتنے گندے الزام لگائے۔’’
یہ کہہ کر وہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔
زلیخا نے تیزی سے اٹھ کر نسیمہ کو تخت پر بٹھایا۔ پانی پلایا۔ حسن کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا ایک جاتا تھا، طیش کے مارے عنانِ صبر ہاتھ سے نکلا جاتا تھا۔
نسیمہ نے روتے ہوئے کہا: ‘‘میرا سگا شوہر، میرے بچے کا باپ۔ ساری دنیا کے سامنے مجھے ذلیل کرتا رہا۔ کہنے لگا، یہ آوارہ عورت ہے، اس نے کوئی یار پال رکھا ہے۔ اس سے پیسے لے کر آتی ہے اور بیوٹی پارلر کا کورس کر رہی ہے۔’’
زلیخا نے سراسیمہ ہو کر کہا: ‘‘اوہ مائی گاڈ۔ پاگل ہو گئے ہیں بنے بھائی؟’’
نسیمہ نے آنسو پونچھ کر کہا: ‘‘میری عزت کا سوال تھا۔ مجھے بتانا پڑا کہ یہ پیسے تو مجھے میرا بھائی دیتا ہے۔ پہلے تو مانتے نہیں تھے لیکن جب محلے والوں نے گواہی دی کہ ہاں ہم نے اس کے بھائی کو آتے جاتے دیکھا ہے اور اس کے علاوہ اس سے کوئی بھی ملنے نہیں آتا تو پھر اور بھی غصہ ہوئے۔ کہنے لگے تیرا بھائی ڈاکو ہے، اس نے ابا کی دکان پر غبن کیا ہے۔ میں اسے پولیس میں پکڑا دوں گا۔ حسن بھائی تم چھپ جاؤ۔ یہ شخص تمہیں چھوڑے گا نہیں۔’’
حسن نے غصے سے کہا: ‘‘میں بنے بھائی کی گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے والا نہیں۔ پہلے تو پھر بھی میں مروت میں خاموش رہتا تھا مگر اب تم پر ہاتھ اٹھایا ہے۔ اب میں جو کروں گا ڈنکے کی چوٹ کروں گا، کسی کے باپ سے بھی نہ ڈروں گا۔’’
یہ کہہ کر اٹھا، نسیمہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور کہا: ‘‘میرے ساتھ چلو باجی۔ جن لوگوں کے سامنے تمہارے شوہر نے تمہیں ذلیل کیا ہے، ان سب کے سامنے تمہارا بھائی تمہاری عزت کی گواہی دے گا۔ میں ان سب کو بتاؤں گا کہ تمہیں پیسے میں نے دیئے ہیں اور یہ پیسے تمہارا حق تھے۔ ببانگِ دہل سب کو بتاؤں گا کہ میں تمہیں بیوٹی پارلر کھول کر دے رہا ہوں تاکہ تم عزت کا روزگار کماؤ۔ اب بات پوری طرح کھل جانی چاہیے تاکہ بنے بھائی پھر کوئی تماشا نہ کر سکیں۔’’
حسن اس ہمشیرہء مہربان کو سہارا دیئے پھاٹک سے باہر نکل گیا۔ زلیخا گم صم وہیں کھڑے ان دونوں کو جاتے دیکھتی رہی۔
بعد میں زلیخا کو محلے والیوں کی زبانی معلوم ہوا کہ حسن نے بنے بھائی کے گھر کے عین سامنے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ نسیمہ اس کی بہن ہے اور جو پیسے حسن نے اس کو دیئے وہ اس کے ماں باپ کے ترکے کے تھے او ریہ کہ جس کسی کو نسیمہ کے بیوٹی پارلر کھولنے پر اعتراض ہے وہ آکر حسن سے بات کرے۔ اس وقت بنے بھائی وہاں سے غائب تھے ورنہ نجانے کیا تماشا دیکھنے کو آتا۔ محلے بھر میں بنے بھائی کی تھڑی تھڑی اور حسن کی واہ واہ ہو رہی تھی۔ بظاہر راوی چین ہی چین لکھتا تھا مگر زلیخا کا دل گھبراتا تھا، ہاتھ سے نکلا جاتا تھا۔ اس کی چھٹی حس کہتی تھی کہ کوئی انہونی ہونے والی ہے، بنے بھائی بڑے شریر و سفاک ہیں، بدلہ لینے میں سخت بے باک ہیں۔ خدا ان کے ہاتھ سے بچائے تو گھر بھر ازسر نو جانِ تازہ پائے۔
یہ سب سوچتی تھی اور پریشان ہوتی تھی لیکن حسن سے بات کرنے کا موقع نہ پاتی تھی۔ حسن کی شوٹنگ کے آخری دن چل رہے تھے، ادھر دکان بھی نئے سرے سے جمائی جا رہی تھی۔ وہ لمحے بھر کی فرصت نہ پاتا تھا، گھر صرف کپڑے بدلنے آتا تھا۔ خود زلیخا دن رات پڑھائی میں مصروف تھی۔ دن بھر کتابوں میں سرکھپاتی تھی، شام کو اکیڈمی جاتی تھی۔ جوں جوں امتحان کے دن نزدیک آرہے تھے زلیخا کے ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے تھے۔ چوں کہ گھر میں کسی کو بتایا نہ تھا کہ ڈاکٹری کا امتحان دینے لگی ہے اس لیے کسی سے دعا کے لیے بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ مضطرب حال و پریشان تھی، عجب شکنجے میں جان تھی۔
جس دن حسن کی شوٹنگ کا آخری دن تھا، اسی دن زلیخا کا پرچہ تھا۔ حسن نے تتو تھمبو کر کے تمام رات لگا کر شوٹنگ مکمل کرائی اور جب فجر کے وقت بھاگا بھاگا گھر آیا تو زلیخا کو صحن میں کھڑا پایا۔ ایک سپیدۂ صبح آسمان میں جھلکتا تھا اور ایک سفیدی زلیخا کے چہرے پر کھنڈی تھی۔ انواع و اقسام کے صدمے سہتی تھی، سردھنتی تھی، تنکے چنتی تھی۔ حسن کو دیکھا تو بھاگی آئی اور اس کا بازو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں کس کر پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ بولی: ‘‘مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ میں یہ نہیں کر سکتی۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا کہ میں نے پھر سے یہ بلا گلے ڈال لی۔ اب کیا ہو گا؟ میری تو بالکل تیاری نہیں ہے۔ جو پڑھا تھا سب بھول گیا۔ ہائے اب کیا ہو گا؟’’