الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

حسن نے کہا: ‘‘مجوسی کی لڑکی نے وزیرزادے کی زنجیر کھول دی اور ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی، محبت کا دم بھرنے لگی۔ یہ دیکھ کر وزیر زادے کی باچھیں کھل گئیں کہ ایک اجنبی ملک میں ایک عورت مجھ پر شیدا ہوئی ہے۔’’
زلیخا چلا اٹھی۔ ‘‘دیکھا دیکھا! مجھے پتا تھا یہی کرے گا۔ کتنا بڑا فلرٹ ہے یہ۔ ایک طرف معشوقہ کی تصویر جیب میں لیے پھرتا ہے دوسری طرف اور لڑکیوں کی کمپنی انجوائے کرتا ہے۔ what a pervert۔’’
حسن نے زلیخا کی ناراضی کو ایک کان سن، دوسرے سے نکالا اور کہا: ‘‘مجوسی کی لڑکی سے پیار سے بات کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ مار پیٹ اور ایذا کی بجائے وہ اچھی طرح سے خاطر کرنے لگی اور عمدہ عمدہ غذائے لذیذ کھلانے لگی۔ حتیٰ کہ اس کی نقاہت دور ہو گئی۔ جانِ تازہ پائی، تاج الملوک کی خوب بن آئی۔’’
‘‘ہائے اب مجھے بے چاری مجوسی کی لڑکی پہ ترس آرہا ہے۔’’ زلیخا نے مغموم ہو کر کہا: ‘‘مجھے بتاؤ یہ اسے چھوڑ جائے گا نا؟’’
حسن نے کہا۔ ‘‘ہاں ۔کیوں کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔ لیکن تم اس کے لیے کیوں اتنی ملول ہو؟’’
زلیخا نے اداسی سے کہا: ‘‘کیوں کہ مجھے لگ رہا ہے میرے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی کہانی بیتی ہے۔ ارسلان نے بھی تو اپنے فائدے کے لیے۔۔۔’’
زلیخا نے جملہ ادھور اچھوڑ دیا اور سوچ میں گم ہو گئی۔
حسن نے اس کا دھیان ہٹانے کی غرض سے داستان پھر شروع کی اور کہا: ‘‘ایک دن تاج الملوک نے مجوسی کی لڑکی سے بہ طریق ِ اخلاق کہا کہ تم نے میرے ساتھ جس مہربانی کا سلوک کیا ہے اس کا بدلہ تو میں نہیں چکا سکتا لیکن میرا دل چاہتا ہے تمہیں کوئی تحفہ دوں۔ میرے پاس بزرگوں کا دیا ہوا ایک تعویذ ہے۔ اسے آگ دکھاتا ہوں تو دونوں عالم کے پردے نگاہوں سے ہٹ جاتے ہیں۔ ساری دنیا کے عجائبات نظر آتے ہیں۔ افسوس تمہارے باپ نے وہ مجھ سے چھین لیا۔ چاہتا ہوں کہ تمہیں وہ دکھاؤں مگر اب خود کو مجبور پاتا ہوں، سیر ِ لامکاں سے دور پاتا ہوں۔ مجوسی کی لڑکی نے جو اسے ملول و مغموم پایا تو دل بھر آیا۔ بصد محبت بولی کہ ابھی دم کے دم میں ابا سے وہ تعویذ لاتی ہوں۔ بھلا یہ کیا بات ہے اور کون سی بڑی کرامات ہے؟ یہ کہہ کر گئی اور طلسم لے آئی۔ تاج الملوک نے اس طلسم کو مشک کی دھونی دی اور تپش پہنچائی تو جنوں کی فوج مانند موج امڈ آئی۔ تاج الملوک نے حکم دیا کہ مجھے یہاں سے نکالو اور عراق کے بادشاہ کے شہر میں پہنچاؤ۔ اسی وقت جنوں نے اسے اٹھایا چشمِ زدن میں عراق میں پہنچایا۔’’ 
زلیخا بڑبڑائی۔ ‘‘ذلیل آدمی۔’’
حسن حیران ہوا۔ کہا: ‘‘ذلیل کیوں؟ وزیر زادہ تھا، مردِ بلند ارادہ تھا۔’’
زلیخا نے مغموم ہو کر کہا: ‘‘چھوڑ کے چلا گیا اس غریب کو۔ پہلے اس سے پیار جتاتا رہا اور جب فائدہ نکل گیا تو اسے کتنی آسانی سے ditch کر دیا۔ وہ بے چاری کتنا روئی ہو گی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘پہلی بات تو یہ کہ پیار نہیں جتاتا تھا۔۔۔’’
زلیخا نے بات کاٹ کر کہا: ‘‘لیکن پیار سے انکار بھی تو نہیں کرتا تھا۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اس کا کیا قصور تھا، بے چارہ تقدیر سے مجبور تھا۔ اس کی مہربانیوں کو ٹھکراتا تو کبھی آزادی نہ پاتا۔ تمام زندگی قیدخانے میں گزر جاتی۔ معشوقہ کی صورت کبھی دیکھنے میں نہ آتی۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘لیکن اسے یوں چھوڑ کر جانا بھی تو شرافت نہیں۔’’
حسن نے زلیخا کو سنجیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ‘‘تم ہوتیں تو کیا کرتی؟’’
زلیخا یکدم خاموش ہو کر حسن کی صورت دیکھنے لگی۔
حسن نے کہا: ‘‘ساتھ لے جاتا تو کہاں دھکا دیتا؟ وہ تو معشوقہء گلعذار کی آرزو میں جاتا تھا۔ مجوسی کی لڑکی کو ساتھ رکھتا تو معشوقہ کے ملنے کے بعد اسے چھوڑ دیتا یا اس پر سوت لاتا؟ خود ہی بتاؤ کیا کرتا؟’’
زلیخا نے گہرا سانس لیا اور کہا: ‘‘fair enough۔ یہ بتاؤ وہ جو اس کی معشوقہ تھی کیا نام تھا اس کا؟ تاج الملوک؟’’
حسن نے خفگی سے کہا: ‘‘تمہارا وہ حال ہے کہ ساری رات کہانی سنتے رہے۔ صبح اٹھ کر پوچھا زلیخا عورت تھی یا مرد؟’’
زلیخا نے گڑبڑا کر کہا: ‘‘کیا مطلب؟ سب کو پتا ہے زلیخا عورت تھی۔’’
ححسن نے کہا: ‘‘تاج الملوک وزیرزادہ تھا اور اس کی معشوقہ کا نام درۃ التاج تھا۔’’
زلیخا نے جلدی سے کہا: ‘‘ہاں ہاں! اس کے نام میں بھی تاج آتا ہے نا، اس لیے غلط فہمی ہو گئی۔ اچھا تو اس کی کہانی بھی تو بتاؤ۔ وزیر زادے کی کہانی سن سن کر کان پک گئے۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!