الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

حسن نے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا: ‘‘وزیر نے جو بیٹے کی یہ حالت دیکھی تو از بس پریشان ہوا۔اسے بلا کر کہا اے جانِ بابا، یہ تمہارا کیا حال ہے؟ وزیر زادے نے سارا ماجرا حرف بہ حرف باپ کو کہہ سنایا۔ وزیر نے اسی وقت ہر کارے دوڑائے اور وہ چور کی مشکیں کس کر پکڑ لائے۔ وزیر نے چور سے تصویر کی بابت دریافت کیا تو اس نے سب کچھ بتا دیا کہ عراق کے بادشاہ کی دختر ِ نیک اختر ہے اور اس کے اشتیاق میں ہزاروں کا حال ابتر ہے۔ وزیر نے تصویر بحق ِ سرکار ضبط کی اور چور کو داخل ِ زنداں کیا۔
تاج الملوک نے شہزادی کی تصویر پائی تو گویا دولت ِ غیر مترقبہ ہاتھ آئی۔ دن رات فرطِ حسن میں مدہوش رہنے لگا، خود فراموش رہنے لگا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ اس کا باپ وزیر ایک عارضہء مہلک میں گرفتار ہوا،اجل کے گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس کے انتقال کے بعد جب وصیت کھولی گئی تو معلوم ہوا سب کچھ اپنے لاڈلے بیٹے تاج الملوک کے نام کر گیا ہے۔ یہ دیکھ کر اس کے باقی بیٹوں کو اس قدر حسد ہوا کہ راتوں رات تاج الملوک کا منہ سر لپیٹ کر ہاتھ پاؤں باندھے اور ایک بحری جہاز پر مثلِ غلام کے چالیس اشرفیوں کے عوض بیچ دیا اور اسے سمندر میں بھیج دیا۔’’
زلیخا نے ششدر ہو کر کہا: ‘‘یہ سب اس کے سگے بھائیوں نے کیا؟ کیوں؟’’
حسن نے آہ بھری اور کہا: ‘‘بس زلیخا، دولت ایسی چیز ہے کہ خون سفید کر دیتی ہے۔’’
زلیخا نے حیرت سے کہا:‘‘اس زمانے میں بھی یہ سب ہوتا تھا؟’’
حسن نے جواب دیا: ‘‘زمانہ کوئی بھی ہو، دنیا میں برادرانِ یوسف کی کبھی کمی نہیں رہی۔’’
زلیخا نے ہمدردی سے کہا: ‘‘ہائے بے چارہ۔ اس کی تو پہلے ہی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جہاز میں تو اسے بہت غش آتے ہوں گے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘نہیں جہاز پر جا کر ٹھیک ہو گیا۔’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ‘‘ٹھیک ہو گیا؟ عجیب بات ہے۔ عشق ہوا تو غش آتے تھے اور اغوا ہو گیا تو ٹھیک ہو گیا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘تب اس کے پاس معشوقہء گلعذار کی تصویر نہیں تھی اس لیے غش آتے تھے۔ اب جب تصویر ہاتھ آئی تو جان میں جان آئی۔ دن رات اس کی تصویر میں گم رہتا تھا، فراق کے صدمے سہتا تھا۔’’
زلیا نے ترچھی نظر سے حسن کو دیکھااور کہا: ‘‘اتنا شدید عشق اس کو صرف تصویر دیکھ کر ہو گیا؟ میں نہیں مانتی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘یہ تو پھر تصویر تھی اور پورے چہرے کی تھی۔ اس زمانے میں جب عورتیں سخت پردہ کیا کرتی تھیں تو لوگ رخسار کی جھلک دیکھ کر ہی عاشق ہو جاتے تھے یا ہلتے ہوئے برقعے میں سے جھلکتے ٹخنے کا کونہ دیکھ کر۔ یہ بھی نصیب نہ ہو تو صرف حسن کا شہرہ سن کر غائبانہ ہی عاشق ہو جاتے تھے۔’’
‘‘فرسٹریشن کی انتہا ہے۔’’ زلیخا بڑبڑائی۔‘‘اور یہ جو ایسی چیزوں پر عاشق ہوتے تھے انہیں یہ خیال نہیں آتا تھا کہ اگر یہ لڑکی بدمزاج نکلی یا پھوہڑ یا لڑاکا یا گنوار نکلی تو کیا ہو گا؟’’
حسن نے سادگی سے کہا: ‘‘یہ خیال مردوں کو کب آتا ہے، زلیخا؟ تم خود ہی بتاؤ مردعاشق ہوتے ہوئے کبھی عورت کے حسن سے آگے بھی بڑھا ہے؟’’
زلیخا کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ آہستہ سے بولی: ‘‘ٹھیک کہتے ہو۔ مردوں کی فطرت تو آج بھی وہی ہے۔’’
حسن نے دوبارہ کہانی شروع کرتے ہوئے کہا: ‘‘اب سنیے کہ وہ جہاز جس پر تاج الملوک کو قیدی بنا کر لیے جاتے تھے، ایک گرداب میں پھنس گیا اور چشمِ زدن میں ڈوب گیا۔ تاج الملوک کے ہاتھ ایک تختہ لگا اور اس کے سہارے تیرتا ہوا وہ ایک ساحل پر جا پہنچا۔ دیکھا تو جنگل بیابان، نہ حیوان نہ انسان۔ تاج الملوک نے خدا کا نام لیا اور حیران پریشان سہما ہوا ایک سمت کو چل کھڑا ہوا۔ جدھر جاتا تھا جنگل ہی جنگل نظر آتا تھا، مفر کا کوئی راستہ نہ پاتا تھا۔ شب کو مثلِ طیور درخت پر بسیرا لیتا، دن بھر بھاگنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا۔ بن کی پتیاں کھاتا تھا، دریاؤں سے پانی پی آتا تھا۔ انواع و اقسام کے رنج سہتا تھا، سر دھنتا تھا تنکے چنتا تھا۔
دو مہینے تک اسی جنگل میں بھٹکتا رہا۔ ایک دن ایک چشمہ سار پر پہنچا کہ بے حد دلفریب مقام تھا۔ وہاں اپنے لیے گھاس کا بستر بنایا اور ہری دوب کا تکیہ لگایا اور سو گیا۔ گو دِل سرد تھا، پُردرد تھا مگر حسن کے مقابل چودھویں کا چاند بھی گرد تھا ۔اب سنیے کہ یہ مقام سالہاسال سے ویران پڑا تھا، انسان کا وہاں کبھی گزر نہ ہوا تھا۔ اس چشمے میں ایک غار تھا او راس غار میں ایک پری رہتی تھی۔ اس پری کا نام فارینہ تھا اور یہ ایک نامی گرامی دیو کی بیٹی تھی۔ جب تین پہر رات گزری اور یہ پری چشمے سے نکلی تو ایک آدم زاد کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ برسوں سے یہاں رہتی ہوں، آج یہ نئی بات نظر آئی۔
آگے آئی تو وزیر زادے تاج الملوک کو آرام کرتے پایا اور قریب آکر کپڑا جو اوڑھے ہوئے تھا اس کے چہرے سے ہٹایا تو دیکھا کہ ایک حور نژاد آدم زاد مصروفِ خواب ناز ہے، انسان کیا ہے رشکِ حورانِ پرستان ہے۔ اس کو دیکھا تو پری خدا کی قدرتِ بالغہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوئی کہ اپنے قلمِ قدرت سے کیا کیا پیاری صورتیں بنائی ہیں کہ پریاں تک وجد میں آئی ہیں۔ ہزار جان سے عاشق ہو گئی۔ عالمِ بے خودی میں وزیر زادے کے رخسار اور پیشانی کو بوسہ دیا اور اس قدر عشق کا جنون ہوا کہ غش آیا۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!