الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

حسن نے کہا: ‘‘وہ خاتونِ عالی خاندان، حُسن کی کان، آتش کا پرکالہ، اندھیرے گھر کا اجالا، خوب مزے میں رہتی تھی، کبھی کاہے کو کوئی رنج سہتی تھی۔ اس نے اپنے حُسنِ صبیح سے ایک عالم کو شیدا بنایا تھا۔ تشنگانِ حجاز ایک نظر دیکھ لیتے تو شربتِ دیدار سے پیاس بجھ جاتی اور مُردوں کو بے قم کہے جِلا لاتی۔’’
زلیخا نے متاثر ہو کر کہا: ‘‘کیا بات ہے۔’’
حسن کہتا رہا: ‘‘جب تاج الملوک عراق میں وارد ہوا تو ایک سرائے میں اترا۔ معشوقہ کے شہر میں رہنے لگا، جدائی کے صدمے سہنے لگا۔ شب کو اختر شماری، دن کو گریہ و زاری۔بے قراری سے کام تھا، خواب وخور حرام تھا۔ سرائے کے مالک نے جو یہ حالت دیکھی تو پاس آیا ،پوچھا، خیرباشد ؟ نصیبِ اعدا کیا حال ہے؟ چہرۂ منور پر نشانِ رنج و ملال ہے۔ یہ سن کر تاج الملوک کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ کہا، دردِ دل کی تکلیفیں کیا بیان ہوں؟ بس یہ شعر دل کے ترجمان ہوں۔
نہ خط نہ پیامِ دلبر آمد
جانم زتغا فلت برآمد
سرائے کے مالک کو اس تقریرِ وحشت انگزیز اور کلامِ جنون خیز سے صاف معلوم ہو گیا کہ حضرت عشق کا ساختہ وپرداختہ ہے، جب ہی آنکھیں اشکبار اور رنگ روباختہ ہے۔ تاج الملوک کو تسلی دی اور مدد کا وعدہ کیا۔ اسی وقت ایک بوڑھی عورت کو بلایا اور اس سے کہا، اے زن پیر، اس نوجوان کو اس کی معشوقہ ناظورہ سے ملاؤ اور اس کا اجر خدا سے پاؤ۔نیز اس کام کے بدلے ایک ہزار اشرفیاں بھی وصول فرماؤ۔ بڑھیا نے کہا،یہ بے قراری اور گریہ و زاری بے کار ہے، بادشاہ کا ایک غلام میرے بیٹے کا دلی دوست اور یار ہے وہ دوست کے کام آئے گا، مجھے شہزادی تک پہنچائے گا۔ آپ اس کے نام ایک خط لکھ دیجئے، پھر میں جانوں میرا کام۔
زن پیر کی ان باتوں نے تاج الملوک کے دل کے ساتھ وہ کیا جو عاشق ِ خستہ جگر کے ساتھ کرشمۂ دلبر کرتا ہے اس قدر خوش ہوا کہ فرطِ طرب سے غش آیا۔’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ‘‘عشق اور غم کی وجہ سے غش آنے کی تو سمجھ آتی ہے، یہ خوشی کے مارے کیوں غش آنے لگے؟’’
حسن نے سنی ان سنی کر کے کہا: تاج الملوک نے اسی وقت قلم دوات طلب کیا اور یوں لکھنے لگا:
‘‘یہ نامہء نیاز منجانبِ عاشقِ خستہ جگر و دلفگار بنامِ معشوقہ طناز وپری زاد۔ آپ کے عشق نے سینے کو بھٹی بنایا ہے ، نہ راتوں کو نیند آتی ہے نہ دن کو قرار ہے، بے قراری بہت ستاتی ہے۔ ہر وقت مصروفِ آہ و فغاں ہوں ،اپنی موت کا نوحہ خواں ہوں۔ مجھ پر نظر کرم کیجئے کہ غریبوں پر رحم کرنا خدا ترسوں کا شعار ہے، اس حسنِ دو روزہ پرغرور بے کار ہے۔’’
زلیخا نے ششدر ہو کر کہا: ‘‘یہ لکھ دیا؟ what a jerk۔’’
حسن نے کہا: ‘‘خط لکھ کر اس کو اعلیٰ درجے کی مشک میں بسایا، طلبہ ء عطار کو شرمایا۔ ریشم میں لپیٹ کر زن پیر کو خط دیا اور کہا کہ شاہ زادی درۃ التاج کو جا کے دے دینا اور ہمارا نام لینا۔’’
اس زن پیر نے جا کر وہ خط شاہ زادی کو دیا۔ اس نے کھولا، پڑھا اور پوچھا: ‘‘آخر یہ ہے کون، اور کہاں سے آیا ہے اور کیا چاہتا ہے؟’’ یہ کہہ کر بددماغ ہو گئی، غصے سے بولی،’‘ اگر خوفِ خدا دل میں نہ لاتی تو اس موئے کو جہنم بھجواتی، اس کی لاش پھڑکتی نظر آتی۔ جا اس کو کہہ دے کہ :
کیوں رے بدبخت، بدکردار
بدوضع، بد اطوار
تو ہماری شمع حسن کا پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے، سر چڑھتا ہے، دیوانہ ہوا ہے۔’’
زلیخا نے ستائشی انداز میں کہا: ‘‘۔I like her’’
حسن نے کہا۔ ‘‘ یہ جواب پا کر بڑھیا نے سرائے کی راہ لی اور تاج الملوک کو خبر سنائی کہ خط پڑھ کر بہت بگڑیں مگر میں بھی جان لڑا دوں گی کہ تم آرزوئے دلی برلاؤ اور دل کے ارمان نکالو۔
تاج الملوک نے اس مادر مہربان کو ایک ہزار اشرفی انعام میں دی اور مزید کا وعدہ کیا۔ انعام پا کر وہ بڑھیا اس قدر خوش ہوئی کہ اس وقت تاج الملوک کو ہمراہ لے گئی۔ اسے غلاموں کے سے کپڑے پہنائے، شاہی غلام کا بھیس بنایا اور شاہ زادی کے محل میں پہنچایا۔ وہاں پہنچ کر اسے چلمن کے پیچھے سے شاہ زادی کی جھلک نظر آئی، عشقِ جنوں خیزوشورش انگیز نے ایسا زور کیا کہ غش آیا۔’’
زلیخا نے سرہاتھوں میں تھام لیا۔ ‘‘یااللہ !پھر غش آیا۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!