الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

نسیمہ باجی کو اپنا جوڑے بے حد پسند آیا، سر آنکھوں سے لگایا اور چپکے سے حسن کو بلایا: ‘‘میری ٹریننگ مکمل ہو گئی ہے۔ بیوٹی پارلر کا سامان بھی خرید لیا ہے سارا۔ کرسیاں بھی اور شیشے بھی اور میک اپ بھی۔ باہر والے کمرے میں رنگ کرا لیا ہے، اب اس میں سامان سیٹ کر رہی ہوں۔ اگلے جمعے اماں جی سے افتتاح کراؤں گی اور اس دن یہ جوڑا پہنوں گی۔’’
حسن نے پوچھا: ‘‘اور بنے بھائی؟ وہ تو کوئی بات نہیں کرتے؟ دخل در معمولات نہیں کرتے؟’’
نسیمہ نے خوشی سے کہا: ‘‘نہیں۔ بہت بدل گئے ہیں بنے کے پاپا۔ جب سے تم نے محلے والوں کے سامنے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے، اس دن سے بالکل چپ ہیں۔ بلکہ جب میں پارلر سیٹ کر رہی ہوتی ہوں تو مسکرا کر مجھے دیکھتے بھی ہیں۔’’
حسن نے مسکرا کر کہا: ‘‘پیسہ چیز ہی ایسی ہے باجی۔ ولیوں کو بھوت اور بھوتوں کو ولی کر سکتی ہے۔’’
نسیمہ نے شرما کر کہا: ‘‘میں نے سوچا ہے کہ اپنی پہلی کمائی سے ان کے لیے اچھا سا تحفہ خریدوں گی، آخر کو میرے شوہر ہیں۔’’
بنے بھائی کے بدلنے کی خبر سن کر حسن بے حد خوش ہوا۔ نانی بھی بہت مسرور ہوئیں اور انہوں نے نسیمہ باجی کو شوہر کو مٹھی میں کرنے کے بہت سے گُر بتائے جن میں محبت ، خدمت، اطاعت وغیرہ وغیرہ کے سبق شامل تھے۔
زلیخا نے یہ ساری باتیں سن کر حسن سے چپکے سے کہا: ‘‘اس خوش فہمی میں نہ رہنا کہ بنے بھائی بدل گئے ہیں، میں انہیں بچپن سے جانتی ہوں۔ یہ ضرور ان کی کوئی چال ہے، بچ کے رہنا۔’’
زلیخا کا کہا اگلے ہی دن پورا ہو گیا۔ حسن ماموں کے ساتھ ان کی دکان میں بیٹھا تھا کہ بنے بھائی وہاں آن پہنچے۔ ہاتھ میں رجسٹر تھا اور کان کے پیچھے قلم دبا تھا۔ آتے ہی رجسٹر کھولا اور قلم اس پر رکھ کر بولے: ‘‘ہاں بھئی ،چلو ۔اب بتاؤ کتنے تھان ریشمی ہیں اور کتنے لان کے۔ پہلے سے حساب کتاب کر لینا اچھا ہوتا ہے۔’’
حسن اور ماموں ایک دوسرے کی صورت دیکھنے لگی۔
حسن نے ہمت کر کے پوچھا: ‘‘کیسا حساب کتاب، بنے بھائی؟’’
بنے بھائی نے مشفقانہ مسکراہٹ سے حسن کو یوں دیکھا جیسے کوئی بڑا کسی بچے کو دیکھتا ہے اور پچکار کر بولے: ‘‘بھئی دیکھو جو ہوا سو ہوا۔ گھر کی بات گھر ہی میں رہنی چاہیے۔ تم ابھی بچے ہو۔ بزنس میں نئے نئے ہو ۔تم سے کہاں چلے گی دکان ۔میرا بہت تجربہ ہے اور بہت contacts بھی ہیں۔ میں بہت کام کا آدمی ہوں۔ اگرچہ تم نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا لیکن میں نے بڑے بن کر تمہیں معاف کر دیا ہے۔ اب میں تمہیں گائیڈ کروں گا کہ بزنس کیسے چلاتے ہیں۔’’
یہ تقریرِ دلپذیر سن کر ماموں اور حسن حیران وپریشان ہوئے، انگشتِ بدنداں ہوئے۔ ماموں نے گھبرا کر مدد طلب نظروں سے حسن کی طرف دیکھا۔ حسن نے ماموں کا بازو پکڑا اور کونے میں لے گیا وہاں جا کر مدھم آواز میں پوچھا: ‘‘ماموں جان ،کیا خیال ہے؟’’
ماموں نے کہا: ‘‘میرا خیال ہے اس کو سبق مل گیا ہے۔ ویسے بھی گھر میں بہت ٹینشن ہے۔ تمہاری ممانی بہت ناراض ہے۔ بنے کو رکھ لیتے ہیں، بنا بھی خوش ہو جائے گا، اس کی ماں بھی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ماموں جان بے ادبی معاف لیکن ممانی خوش ہو جانے والوں میں سے نہیں ہیں۔ اور رہے بنے بھائی تو یہ آج انگلی اس غرض سے پکڑانے آئے ہیں کہ کل کو پائنچا پکڑیں۔ ساری خدائی گواہ ہے اور سارا بازار آگاہ ہے کہ بنے بھائی فسوں کا رہیں، بڑے محسن کش و عیار ہیں ۔ان کا ہرگز اعتبار نہ کیجئے اور بالکل اعزاز نہ دیجئے۔ ایسا نہ ہو دھوکا دے جائیں، دوستی کی آڑ میں دشمنی د کھائیں۔’’
ماموں نے پژمردہ ہو کر کہا: ‘‘اچھا جیسے تم مناسب سمجھو۔ لیکن پھر تم ہی بات کرو، مجھے اس معاملے سے الگ ہی رکھو۔’’
چنانچہ حسن نے آکر بصد ِعزت و احترام بنے بھائی سے کہا: ‘‘ازراہِ راخت و شرافت مجھے معاف کیجئے اور ذرا خود ہی انصاف کیجئے کہ آپ کا اس دکان پر کیا حق بنتا ہے؟’’
بنے بھائی کے چہرے پر غصے کا شرارہ لپکا لیکن خود پر قابو پایا کہا: ‘‘میرے ابا کی دکان ہے اور اگر حق کی بات کرو تو تم سے زیادہ ہی بنتا ہے حق۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ابا ہیں، مگر سوتیلے۔ اور اگر سگے بھی ہوتے تو باپ کی زندگی میں بیٹا جائیداد میں دخل نہیں ہو سکتا ۔اور رہی میری بات، تو یہ دکان میں نے ماموں سے کرائے پر لی ہے۔ اس میں سارا مال اپنے پیسوں سے ڈلوایا ہے۔ ماموں کی رضامندی سے یہ معاملہ طے پایا ہے۔ ماموں کو کرایہ ادا کروں گا، کسی کا احسان نہ لوں گا نہ دھروں گا۔’’
یہ سن کر بنے بھائی طیش میں آئے، لیکن تحمل سے بولے: ‘‘وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن تمہیں بزنس کا کوئی تجربہ نہیں۔ چار دن میں سب کچھ گنوا بیٹھو گے۔ میری مانو کسی غیر پر اعتبار کرنے کی بجائے میرے تجربے سے فائدہ اٹھاؤ۔ میں سپلائر بن جاتا ہوں تمہارا، دوگنا نفع کماؤ گے۔’’
حسن نے جھک کر سلام کیا اور کہا: ‘‘نہیں ،سپلائر میرے پاس موجود ہے۔ اس سے معاہدہ کر چکا ہوں۔’’
بنے بھائی نے چند لمحے خود پر قابو پانے میں لگائے، پھر کہا: ‘‘اچھا تو اکاؤنٹنٹ رکھ لو مجھے، جو دل چاہے تنخواہ دے دینا۔ میرا بہت تجربہ ہے حساب کتاب میں۔’’
حسن نے بے ساختہ کہا: ‘‘اور ہیرا پھیری میں بھی۔ معاف فرمائیے ۔میرے پاس منشی ہے۔’’
بنے بھائی نے چنگاریاں اگلتی نظروں سے حسن کو دیکھا اور سرد آواز میں کہا: ‘‘اچھا تو میں سیلز مین ہی بننے کو تیار ہوں۔ تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں خواہ کم درجے کی ہی کیوں نہ ہو۔’’
حسن نے قطیعت سے کہا: ‘‘نہیں۔ آپ اس دکان میں کچھ نہیں بن سکتے۔ برائے مہربانی مجھے معاف فرمائیے اور یہاں سے تشریف لے جائیے۔’’
بنے بھائی چند لمحے حسن کو گھورتے رہے۔ پھر یکایک عجیب انداز میں مسکرائے اور اٹھ کر چلے گئے۔ حسن اور ماموں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ باری تعالیٰ نے بنے کے چنگل سے آزاد کیا، رنج کے عوض خوش اور شاد کیا۔’’
صرف یہی خوشی نہ تھی جو حسن کے نصیب میں لکھی تھی ایک خوشی اور بھی تھی۔ اس کے ڈرامے کا تمام کام ختم ہو گیا تھا اور اب اس کی پہلی قسط ٹی وی پر نشر ہونے والی تھی۔ جس رات یہ ڈرامہ لگا، گھر بھر لاؤنج میں ٹی وی کے آگے جم گیا۔
ڈرامے کا پہلا منظر ہی شاہی دربار سے شروع ہوا جس کی دھوم دھام اور تزک و احتشام اور شاہی سامان اور شان و آن بان دیکھ کر سب گھر والے دنگ ہو گئے اور جب حسن بدرالدین نواب شمس النہار کے روپ میں سامنے آیا تو خدا کی قدرت مجسم نظر آئی۔ حسن خوبی میں بن گہے چاند کو مات کرتا تھا، اندازِ شاہانہ وشانِ خسروانہ سے ہر بات کرتا تھا۔
شروع کے چند منظر اچھے تھے جن میں جنگ و جدل کا جوش تھا، تلاطم بردوش تھا۔ پھر ہوتے ہوئے ہر چیز ٹھس ہونے لگی۔ خاموشی کے لمبے لمبے وقفے آنے لگی۔ کردار بوجھل باتیں کرتے تھے، بات بات پر آہیں بھرتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ منا زلیخا کے موبائل پر کھیلنے لگا،دادی تسبیح پڑھنے لگیں، ممانی تمسخر سے ہنستی اٹھ کر چلی گئیں اور زلیخا وہیں صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو گئی۔ لشکر نوم غالب آیا اور دم بھر میں ندائے لگنے لگی۔ صرف ماموں تھے جو ٹی وی پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے اور کسی اچھے جملے پر واہ واہ کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک زوردار واہ پر زلیخا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور گھبرا کر بولی: ‘‘کیا ہوا؟ رزلٹ آگیا کیا؟’’
دادی نے یہ موقع غنیمت جانا اور کہا: ‘‘بیٹی زلیخا، ذرا مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھا۔ کمر میں درد ہو گیا۔ بیٹھے بیٹھے۔ خدا کرے میں چل کر آرام کروں گی۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!