الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۰

حسن کہتا رہا: ‘‘غشی دور ہوئی تو تاج الملوک کو یاد آیا کہ یہ ماہ وش، پری چھم، برق دم، صرف حسن کی کان نہیں تھی، فقہ اور علم و ادب میں بھی طاق تھی، تمام نفیس علوم میں شہرۂ آفاق تھی۔’’
زلیخا نے افسوس سے کہا: ‘‘ہائے کتنی اچھی لڑکی ہے ۔تمہیں سچی بات بتاؤں؟ یہ شخص اس لڑکی کے لائق نہیں ہے۔ He does’t deserve her.’’
حسن کہتا رہا: تاج الملوک ساتھ کے کمرے میں جا کر بیٹھا اور قرأت کے ساتھ سورۂ یاسین پڑھنے لگا۔ درۃ التاج نے یہ آواز سنی تو چونکی، دل میں سوچا کہ یہ داؤدِ ثانی ہے، کس قدر غضب کی قرآن خوانی ہے۔ نور کا گلا پایا ہے، کانوں نے عجب لطف اٹھایا ہے۔
بعد از قرآن خوانی تاج الملوک نے یہ شعر گایا اور اس خاتون کو اپنی خوش آوازی پر اور بھی رجھایا۔
مجھ سے اس درد کی تدبیر بھلا کیا ہووے
کرے مُردے کو جو زندہ وہ مسیحا ہووے
یہ سننا تھا کہ شاہ زادی کے د ل میں چاہت نے سر اٹھایا۔ دید کا شوق چرایا، یہاں تک کہ بے تکلف پردہ اٹھایا۔ تاج الملوک کے چاند سے چہرے پر نظر پڑی تو تیرِنگاہ کی گھائل ہوئی، عشق کی جانب مائل ہوئی۔’’
زلیخا بے ساختہ پکار اٹھی: ‘‘اوہ فار گاڈ سیک۔۔۔’’
حسن نے داستان جاری رکھی۔ ‘‘تاج الملوک کی رعنائی و کج ادائی نے وہ رنگِ اثر جمایا کہ شہزادی نے عقل و صبر سے ہاتھ دھویا اور اس درجہ مفتون ہوئی اور ملول و محزون ہوئی کہ اس کی جدائی از بس شاق گزری۔ زن پیر سے کہا، اے مادرِ مہربان! یہ جوانِ رعنا میرے صبر وہوش کے قافلے کو لوٹ لے گیا۔ وہ بڑھیا خوش خوش تاج الملوک کے پاس آئی اور اسے خوشخبری سنائی کہ خزاں کے دن گئے اور بہار آئی۔ یہ سن کر تاج الملوک پر شادی مرگ طاری ہوئی۔ دیوانہ وار تنکے چننے لگا، فرطِ جنوں سے سردھننے لگا۔ زن پیر نے تاج الملوک کا ہاتھ پکڑا اور لے جا کر شاہ زادی درۃ التاج کے قریب بٹھایا۔ خوش گلو کنیزانِ خوش تمثال نے ستار کو چھیڑ کر یہ نغمہ سنایا۔
سر پہ کیوں بار محبت کا اٹھایا ہم نے
جان کو ہائے یہ کیا روگ لگایا ہم نے
تاج الملوک کے دل پر اس قدر اثر ہوا کہ بے ساختہ رونے لگا۔ اس کا رونا دیکھ کر درۃ التاج اور بھی ہزار جان سے عاشق ہو گئی۔بے خودی میں تاج الملوک کو گلے لگایا اور خوب بوسے لیے اور دونوں اس قدر روئے کہ دونوں کو غش آیا۔’’
زلیخانے اپنے بال نوچ ڈالے،چلا اٹھی۔ ‘‘پھر وہی غش۔ میں تمہیں ایکسپرٹ opinion دوں؟ اس کہانی کے تمام کرداروں کو عشق وغیرہ کچھ نہیں تھا۔ ان میں سے آدھوں کا بلڈپریشر لو تھا۔ اور آدھوں کو hypoglycemia تھا۔ ویسے ان کے تھائی رائیڈ کے ٹیسٹ بھی ہو جانے چاہئیں۔ تھائی رائیڈ پرابلم بھی ہو سکتا ہے۔’’
حسن نے خفا ہو کر کہا: ‘‘بھئی بیچ میں مت ٹوکو۔ چپ کر کے کہانی سنو۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘اچھا سناؤ۔ لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ یہ جو موسلا دھار غش چلے آرہے ہیں، ان میں کوئی سٹاپ لگے گا یا یہ لوگ غش کھاتے کھاتے دنیا سے جائیں گے۔’’
حسن نے روٹھ کر کہا: ‘‘میں نہیں سناتا کہانی۔’’
زلیخا جلدی سے بولی: ‘‘اچھا سوری۔ اب میں کچھ نہیں کہوں گی۔ تم کہانی سناؤ۔’’
حسن نے کہا: ‘‘ابھی شاہ زادی اور وزیر زادہ نغمے سن رہے تھے، فرطِ مستی میں سردھن رہے تھے، تنکے چن رہے تھے کہ شاہ زادی کا باپ بادشاہ وہا ں آگیا۔’’
‘‘اوہ نو!’’
‘‘باپ وہاں آیا اور غیرمرد کو بیٹی کی بغل میں پایا تو مارے طیش کے تاب نہ لایا۔ آگ بھبھوکا ہو کر کہا، او نابکار تو جن ہے یا انسان ہے؟ تیرا یہاں کیا کام ہے؟ وزیر زادے نے غصہ ہو کر کہا، او گستاخ بے ادب تیری شامت آئی ہے، یہ کیا ڈھٹائی ہے؟ وزیر زادوں کو ارواحِ پلید سے تشبیہہ دیتا ہے، یہ گناہ گردن پر لیتا ہے۔
یہ سن کر شہزادی نے کہا، یہ میرے ابا جان ہیں، تمہیں دیکھ کر حیران ہیں۔یہ سن کر وزیرزادہ گھبرایا۔ فوراً طلسم نکالا اور اسے حرارت پہنچائی، جنوں کی فوج دوڑی آئی۔ وزیر زادے نے حکم دیا، فوراً ہمیں اڑا لے جاؤ اور ہندوستان پہنچاؤ۔ جنوں نے دونوں کو اٹھایا، یہ حال دیکھ کر لوگوں نے بہت غل مچایا۔ بادشاہ نے پکار کر کہا۔ اے وزیر زادے خدا کے لیے مجھ پر رحم کھا اور میری بیٹی مجھے واپس کر دے۔’’
‘‘ہائے بے چارہ باپ۔’’
‘‘وزیر زادے نے شہزادی سے پوچھا، اے نورِ عالم، رشکِ خوباں اگر ماں باپ کا پیار بلاتا ہو تو تم کو ابھی ابھی اتار دوں؟ مگر اس نے کہا، ماں باپ سے زیادہ تم عزیز ہو۔ تمہاری جدائی سے جان جائے گی، ماں باپ کی محبت کس کام آئے گی؟’’
زلیخا نے تیوری چڑھا کر کہا: ‘‘میں اپنے الفاظ واپس لیتی ہوں، یہ اسی شخص کے قابل تھی۔ They both deserve each other’’
حسن نے کہا: ‘‘یوں وزیرزادہ تاج الملوک اور شہزادی درۃ التاج وہ پری رو، عروسِ چاردہ سالہ۔۔۔’’
زلیخا نے حیران ہو کر کہا: ‘‘کیا کہا؟ کتنے سالہ؟’’
حسن نے کہا: ‘‘چار دہ سالہ یعنی چار اوپر دس سال یعنی چودہ سالہ۔’’
زلیخا کی آنکھیں پھٹ گئیں، بے یقینی سے چلا اٹھی۔‘‘ Fourteen years? Fourteen years? ۔۔۔ او مائی گاڈ۔ اوہ مائی گاڈ۔ This is child abuse، تمہارا ہیرو تو pedophile ہے۔’’

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۱۹

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!