فتور – ماہ وش عدیل کرمانی
فتور ماہ وش عدیل کرمانی ”اری نابکار! کچھ تو کام کر لیا کر۔ سارا بوجھ ماں کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، کام کی نہ
فتور ماہ وش عدیل کرمانی ”اری نابکار! کچھ تو کام کر لیا کر۔ سارا بوجھ ماں کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، کام کی نہ
باز فریال سید "مورے! میں ٹھیک ہو جاؤں گا ناں ؟” اس نے بڑی بڑی آنکھوں میں ڈھیروں ا مید سموتے ہوئے اپنی ضعیف ماں
عالیشان محل جیسے گھر میں رہنا کس کی آرزو نہیں ہوتی ؟بڑی لاگت اور مشقت کے بعد یہ مکان تعمیر تو کر لیے جاتے ہیں
تحریر:مدیحہ شاہد ”استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ) ”لاہور لاہور ہے” باب8 ہم مقررہ وقت پر استنبول سے جدہ جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔
تحریر:مدیحہ شاہد استنبول سے انقرہ تک ” (سفرنامہ)” انقرہ کی روشنیاں باب7 صبح سویرے ہم ناشتہ کرنے کے بعد کپاڈوکیہ سے انقرہ کے لئے روانہ
تحریر:نوید احمد قسط نمبر7 ”چنبیلی کے پھول” ”تم یہاں؟” بہت دیر بعد اُس کی آواز آئی۔ برسوں بعد دھوکہ دے کر چلے جانے والے لوگ
قسط نمبر5 ”چنبیلی کے پھول” سب کچھ آناً فاناً ہوا تھا کہ رانیہ کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ اچانک کیا ہوگیا ۔ برسوں پرانی
قسط نمبر4 ”چنبیلی کے پھول“ اُسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ کچھ لمحوں کے لئے اس کے حواس منجمد ہوگئے۔ وہ اتنی بے
تحریر:نوید احمد قسط نمبر3 ”چنبیلی کے پھول“ زوار نے اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی مگر وہ مسکرا بھی نہ سکی۔
”چنبیلی کے پھول“ تحریر:مدیحہ شاہد قسط نمبر1 اسٹیج کا منظر تھا جہاں شیکسپیئر کا ڈرامہ "Hamlet” پرفارم کیا جارہا تھا۔ جسے اردو زبان میں ٹرانسلیٹ