
محبت نام ہے جس کا —– محمد حارث بشیر
اُداس موسم کی ایک سرد شام ،اُس خزاں گزیدہ شجرکا وجوداپنی پیشانی پر کئی داستانیں رقم کیے کھڑا تھا ۔موسم ِ ِبرگ ریز کا شاخسانہ
![]()

اُداس موسم کی ایک سرد شام ،اُس خزاں گزیدہ شجرکا وجوداپنی پیشانی پر کئی داستانیں رقم کیے کھڑا تھا ۔موسم ِ ِبرگ ریز کا شاخسانہ
![]()

محبت کا ستایا ہوا انسان اکثر بھٹک جاتاہے، وہ بھی اسی سفر کی ایک تھکی ماندی مسافر تھی۔ ”اماں ابھی نماز کا وقت ہے؟” اس
![]()

”محبت کی کہانی دنیا میں سب جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔” یہ پہلا جملہ جو میں نے اُس سے سُن کر اپنے آپ کو دنیا
![]()

”اماں تجھے میری قسم مان لے نا اس بار…” اس نے نویں بار ماں کی منت کی تھی لیکن دوسری طرف مجال ہے کہ کوئی
![]()

لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔ جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے
![]()

کنول شکل سے اجڑی ہوئی، چہرے پر خراشیں اور چوٹ کے نشان لیے بار بار بے چینی سے ریحان کے فلیٹ پر کھڑی بیل دے
![]()

اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک
![]()

آج کافی دن کے بعد فوزیہ عابد کی دکان میں کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی۔اب گاہ بہ گاہ وہ اس کی دکان میں آتی رہتی
![]()

” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
![]()

”سنو! مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو؟” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں
![]()