داستانِ محبت — سارہ قیوم (حصّہ اوّل)
پس لفظ سارہ قیوم یہ فیصل کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں نہ ڈرامائی موڑ ہیں، نہ سازشیں، نہ ہی کوئی ولن ہے۔ بس ایک
پس لفظ سارہ قیوم یہ فیصل کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں نہ ڈرامائی موڑ ہیں، نہ سازشیں، نہ ہی کوئی ولن ہے۔ بس ایک
تو جناب جب میرم پور میں بھی میرا دھندا کسی طرح سے نہ چلا فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ
’’آج تو میں اس کی جان لے لوں گا… دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے…‘‘ اظہر قہر برساتی نظروں سے گھورتا ہوا سویراکی طرف بڑھا
تیرہ جون بروز جمعہ (2013ء) صبح چھے بجے کا وقت تھاجب میرے کانوں میں مرتضیٰ کی کرخت آواز گونجی ۔ ’’اُٹھ جا باؤ…چھوٹو کے ساتھ
میں نے ایک آخری مرتبہ قد آدم آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا۔ میں بالکل تیار تھا۔جینز بلیک ٹی شرٹ اور اس کے ساتھ فینسی
تین جنوری بروز منگل (2013ء) شام کے سائے لمبے ہو کر اب گھر کی کچی دیواروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔سورج اپنی آب
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔
’’فارگاڈسیک مام۔۔۔ مجھے ٹھیک سے ریڈی تو ہونے دیں۔۔ آپ کے لیکچر کے لیے میں الگ سے ٹائم نکال لوں گی جانے سے پہلے۔۔‘‘ بلش
میں امجد عظیم پچھلے بارہ سال سے سعودی عرب میں محنت مزدوری کر رہا ہوں۔ سفر وہ واحد چیز تھی جس سے مجھے کوفت ہوتی
لوگوں کی نظریں خود پر ٹکتی دیکھ کر اسے ایک عجیب سی کوفت کا احساس ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کی نظروں میں اس کے لیے کبھی