سرد سورج کی سرزمین — شاذیہ ستّار نایاب
سرمد آفس سے باہر نکلا تو لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اگرچہ شام ڈھل رہی تھی لیکن جون کا مہینہ تھا
سرمد آفس سے باہر نکلا تو لو کے گرم تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔ اگرچہ شام ڈھل رہی تھی لیکن جون کا مہینہ تھا
’’ میرے پا س تمہارے لیے ایک سرپرائز ہے۔ ‘‘ مریم نے کمرے میں آکر ہاتھ میں پکڑا ہوا لفافہ لہراتے ہوئے کہا ۔ ’’کیسا
اردو سے پرہیز کریں۔ انگریزی لکھیں، انگریزی پڑھیں۔ انگریزی سنیں، انگریزی بولیں، انگریز بنیں، ترقی کریں۔ یہ نعرہ ہے ہمارے انگلش میڈیم نجی تعلیمی اداروں
پس لفظ سارہ قیوم یہ فیصل کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں نہ ڈرامائی موڑ ہیں، نہ سازشیں، نہ ہی کوئی ولن ہے۔ بس ایک
تو جناب جب میرم پور میں بھی میرا دھندا کسی طرح سے نہ چلا فاقے پر فاقے ہونے لگے اور جیب میں آخری اٹھنی رہ
’’آج تو میں اس کی جان لے لوں گا… دیکھتا ہوں کون روکتا ہے مجھے…‘‘ اظہر قہر برساتی نظروں سے گھورتا ہوا سویراکی طرف بڑھا
تیرہ جون بروز جمعہ (2013ء) صبح چھے بجے کا وقت تھاجب میرے کانوں میں مرتضیٰ کی کرخت آواز گونجی ۔ ’’اُٹھ جا باؤ…چھوٹو کے ساتھ
میں نے ایک آخری مرتبہ قد آدم آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا۔ میں بالکل تیار تھا۔جینز بلیک ٹی شرٹ اور اس کے ساتھ فینسی
تین جنوری بروز منگل (2013ء) شام کے سائے لمبے ہو کر اب گھر کی کچی دیواروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔سورج اپنی آب
وہ ملنگ چلا جارہا تھا بغیر کوئی صدا لگائے۔ کشکول ہاتھ کی بہ جائے گردن میں لٹک رہا تھا جیسے کوئی طوق پہن رکھا ہو۔