محبتیں ہمارے عہد کی — ثناء شبیر سندھو
”یہ جو کہتے ہیں اورنگزیب ٹوپیاں بیچ کر گزارہ کرتا تھا، یہ سب کہانیاں گھڑی ہوتی ہیں۔” قمر صاحب کی آواز کانوں پر ہتھوڑے کی
”یہ جو کہتے ہیں اورنگزیب ٹوپیاں بیچ کر گزارہ کرتا تھا، یہ سب کہانیاں گھڑی ہوتی ہیں۔” قمر صاحب کی آواز کانوں پر ہتھوڑے کی
گہرے سرمئی بادلوں سے گرتی سفید برف نے فضا میں سحر انگیز منظر تخلیق کیا ہوا تھا اور یہ منظر پچھلے کئی دنوں سے یکسانیت
دور افق پر سورج ڈھل رہا تھا۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں بادلوں پر اپنا ہر عکس بکھیررہی تھیں اور یہی مدھم کرنیں جب ڈالیوں پر
زمین کی کوکھ میں سب جب دکھ پنپ جائیں تو ہر فصل کے بیچ میں سیاہی مائل رنگوں کا بسیرا ہوتا ہے جو پھر نسل
تپتی دھوپ میں شیخ حسام الدین گھر میں داخل ہوئے تو بُری طرح پسینے میں شرابور تھے ۔ ذرا دم لینے کے لیے پنکھے کے
”اوئے کہاں پھینک دی؟” وکٹ کیپر حیرت اورکچھ غصے سے چلایا تھا۔ گیند کو چھکا مار ا گیا تھا اور اب وہ ہوا میں جارہی
جنید دم سادھے گال پر ہاتھ رکھے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا، جو ہوا تھا اس کی اسے توقع نہیں تھی، پر جواب ہورہا
رابیل نے چلتے چلتے اچانک عثمان کو بڑ بڑاتے سنا۔ اس نے کچھ حیرانی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے ہوئے زیر
17جنوری لاہور ڈیئر مریم! السلام علیکم! تمہاری شادی کے بعد انگلینڈ سے بھیجا ہوا تمہارا پہلا خط مجھے آج ہی ملا ہے۔ فاصلے دلوں کے
گیٹ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ پہلے وہ جب گھر آتی تھی تو اس کے بھتیجے بھتیجیوں