الف — قسط نمبر ۰۸
میرے پیارے سلطان! اتنے مہینوں بعد میرا خط دیکھ کر تم حیران ہو گئے نا؟ میں جانتی تھی۔ تم کو لگا ہو گا میں تمہیں
میرے پیارے سلطان! اتنے مہینوں بعد میرا خط دیکھ کر تم حیران ہو گئے نا؟ میں جانتی تھی۔ تم کو لگا ہو گا میں تمہیں
جانِ طہٰ! آج ایک لمبے عرصہ بعد تمہیں سوتے دیکھ کر میری نظر تمہارے چہرے پر ٹھہر گئی۔ تم سو رہی ہو اور کھڑکی سے
میری پیاری حسنِ جہاںجی! آپ کا خط ملا اور دل کٹ گیا۔ وہ بے وفا نکلا نا، میں نے پہلے ہی کہا تھا آپ سے
میری پیاری بیٹی حسنِ جہاں! السلام علیکم تمہاراحال پوچھنا چاہتا ہوں۔ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔ تمہارا حال تو جانتا ہوں میں اور
پیارے بابا! میں جانتا ہوں، اس خط کے لفافے پر میرا نام دیکھ کر آپ چونکے ہوں گے پھر بہت دیر تک آپ نے اس
’’سیدھی مانگ نکالو ، سیدھا میاں ملے گا۔‘‘ میرے گھنگھریالے بالوں میں چنبیلی کے تیل کی چمپی کرتے ہوئے میری معصوم سی ماں کی معصومانہ
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوش گوار تبدیلی آئی تھی۔ اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے میں کچھ بتائوں،
رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور
بیگم مہرین اپنے سٹنگ روم کے قالین پر بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کے سامنے مختلف ڈیزائنرز کی exclusive rangeکے دس سوٹ رکھے ہوئے تھے۔
وہ کوئی عام ایجاد نہیں تھی۔ منٹوں میں جہنم کو جنت میں تبدیل کرنے والا ایک جادوئی آلہ تھا۔ ایک ہی بٹن دبانے سے انسان