دو مسافر —- احمد سعدی (مترجم:شوکت عثمان)
گرمی کی دوپہر ڈھلنے لگی تھی اور ارہر کے کھیت میں پڑتے ہوئے سائے آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسی ڈھلتی دوپہر میں
گرمی کی دوپہر ڈھلنے لگی تھی اور ارہر کے کھیت میں پڑتے ہوئے سائے آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسی ڈھلتی دوپہر میں
ثنا بڑی بے چینی سے اپنے شوہر واصف کا انتظار کرتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہی تھی۔ بالآخر اُس نے گاڑی کے ہارن کی
پوری یونیورسٹی میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی کہ جنت نے خودکشی کر لی۔ اس کے فیس بک اکاوؑنٹ پر
موبائل کی اسکرین چمکی اور سیاہ ہو گئی۔ کلاس میں بیٹھے نجیب کی نظر میز پر رکھے اپنے موبائل پر پڑی۔ اس کے ماتھے پر
’’تیری دو ٹکیاں دی نوکری وے میرا لاکھوں کا ساون جائے۔‘‘ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ لاحول ولا قوۃ پڑھتا اور چل دیتا، مگر
’’عورت کا کوئی ذاتی گھر کیوں نہیں ہوتا؟مجھے طلاق سے بڑا ڈر لگتا ہے۔میں کہاں جاؤں گی؟‘‘ پینو نے سسکتے سسکتے سوال کیا۔ ’’ عورت
بوا بیگم کا نام تو ہر پرانے زمانے کی عورتوں کی طرح پتا نہیں کیا تھا۔ جیسے افسر سلطانہ، اختری، اللہ بندی، مشتری، البتہ یہ
ایک دفعہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اگر اسے تین چیزیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی بھی شکست کا منہ نہ
گھر سے نکلتے ہی اس نے اپنے گرد لپیٹی شال کو تھوڑاکھینچ کر اور لپیٹا تھا۔ یہ مزاحمت ہوا کے اس جھونکے کے خلاف تھی
چند برس قبل برانیزا میں ایک کٹریہودی رہتا تھا۔ وہ اپنی دانائی، خوفِ خدا اور عقل مندی کے باوجود اپنی حسین بیوی کی وجہ سے