
جھمکے —- ماریہ یاسر
”اماں تجھے میری قسم مان لے نا اس بار…” اس نے نویں بار ماں کی منت کی تھی لیکن دوسری طرف مجال ہے کہ کوئی
![]()

”اماں تجھے میری قسم مان لے نا اس بار…” اس نے نویں بار ماں کی منت کی تھی لیکن دوسری طرف مجال ہے کہ کوئی
![]()

لڑکیوں کو منہ دکھائی میں کنگن ملتے ہیں، لاکٹ ملتے ہیں اور مجھے ملا ”جمی بے چارہ”۔ جب میں رخصت ہوکر سسرال آئی تو دروازے
![]()

اگلے دن ماں اور مُنی ناشتہ کر رہی تھیں کہ منی نے ڈرتے ڈرتے بات شروع کی۔ ”اماں ایک بات کہوں؟ناراض تو نہیں ہوگی؟” ”ہاں
![]()

کنول شکل سے اجڑی ہوئی، چہرے پر خراشیں اور چوٹ کے نشان لیے بار بار بے چینی سے ریحان کے فلیٹ پر کھڑی بیل دے
![]()

کلاس روم اس وقت ہنستے کھلکھلاتے ہوئے چہروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر چہرے پر سُرخی تھی۔ ہر لب کے کنارے پھیلے ہوئے تھے۔ دائیں
![]()

اپنی دکان پر روبی سے باتیں کرتے ہوئے عابدایک دم طیش میں آ گیا کیوں کہ اسے لگ رہا تھا کہ روبی اسے روز ایک
![]()

فوزیہ ہاتھ میں گوہر کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا پتا لیے بس سے نیچے اتری اور ایک راہ گیر کو پرچی دکھاتے ہوئے ایڈریس دریافت کیا۔
![]()

آج کافی دن کے بعد فوزیہ عابد کی دکان میں کھڑی چیزیں دیکھ رہی تھی۔اب گاہ بہ گاہ وہ اس کی دکان میں آتی رہتی
![]()

گاؤں کی سب سے الہڑ،بے باک اور منہ پھٹ مٹیار فوزیہ بتول تھی جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی،جس راستے سے گزرتی نوجوان اپنا
![]()

” شکر ہے بھئی نکل آئے دکان سے۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دم ہی گھٹ جائے گا۔ توبہ کتنا رش تھا۔”فائزہ نے اپنے
![]()