اللہ کی مرضی — احسان راجہ
یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی
یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی
نہ جانے اس سے پہلے کا موسم کیسا تھا۔ کسی بہار کسی خزاں کا کچھ پتہ نہیں تھا آگاہی کو صرف کچھ نقوش چھوڑے تھے۔
آم پھلوں کا بادشاہ ہے اسی لیے سب کا راج دلارا ہے۔ امیر، غریب سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اسی لئے سخن کے بادشاہ
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔”
پرانے دور کی بات ہے ملک میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی، جو کہ نئے دور میں بھی مستقل مزاجی سے وہیں موجود ہے۔
میں اس وقت جس جگہ پر موجود ہوں وہ میرا کمرہ ہے، جہاں فی لحال نیم تاریکی ہے۔ کمرے کا احاطہ خاصہ تنگ ہے۔ عقبی
پچھلے پہر جب چاند بھی ڈھل گیا ہوتا ہے اور تاروں کی بارات بھی قریباً جاچکی ہوتی ہے، بجنے والی یہ مترنم سی گھنٹی میرے
وہ ایک ادھوری زندگی گزار رہا تھا۔ بعض لوگ ساری عمر زندہ رہنے کے باوجود مکمل زندگی نہیں گزار پاتے۔ مکمل زندگی بہت کم لوگوں
تنگ گلی کے دونوں کناروں پر بنے فٹ پاتھ انہی لوگوں کے قبضے میں تھے۔ جن کی صورت بھک منگوں جیسی اور حرکتیں پاگل دیوانوں
اس بڑے سے شہری اور دیہاتی امتزاج سے بنے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ سفیدے کے لمبے لمبے درخت ایک قطار سے کھڑے تھے۔ایک
Alif Kitab Publications Dismiss