
نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)
کا وش کو انتظار کی کو فت سے نہیں گزرنا پڑا ۔حا لا نکہ اُسے کو ئی خو ش فہمی نہیں تھی ، کم از
کا وش کو انتظار کی کو فت سے نہیں گزرنا پڑا ۔حا لا نکہ اُسے کو ئی خو ش فہمی نہیں تھی ، کم از
وہ کھلے داخلی دروازے سے اندر جانے کے بجائے وہیں برآمدے میں ہی رک گئی تھی۔ داخلی دروازے کے دائیں طرف یہ ایک Cheval Standing
’’اے بنو!‘‘ اماں نے ہاتھ لہرا کر اسے پکارا۔ ’’اب بس بھی کر دو۔ میں تو اس کایا کلپ پر حیران و پریشان ہوں۔ جانے
’’تو آج آ رہے ہو نا اپنے بھائی کی منگنی پر؟‘‘برہان نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ظہیر کو فون کیا۔ ’’مبارک ہو بھائی۔بات منگنی
ـ’’ہمیں پہلی فرصت میں ہی ممتحنہ کا نکاح کر دینا چاہیے تھا، لیکن ہم نے اس وقت سماجی رسم کو تفریحی رسم پر فوقیت دی
’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
رات کا پچھلا پہر اور درد اور کرب میں ڈوبی بھیانک چیخیں ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا دیتی تھیں۔ دل اتنی زور زور
مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ میری زندگی میں اتنا سکون کس وجہ سے ہے۔ میری بیوی کی وجہ سے یامیری ماں کی
آنکھیں کھولتے ہی اس کا پالا گھپ اندھیرے اور سیلن زدہ بو سے پڑا تھا اور یہ عجیب بات تھی کہ پہلی بار اندھیرے میں
میں چھے سال کی تھی جب ’’اپنے‘‘گھر کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ ’’اپنا‘‘ گھر،ایک خوبصورت، چھوٹا سا ، سرخ اینٹوں والا گھر جس کا صحن